الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
روزے کے مسائل
35. باب الصَّوْمِ مِنْ سَرَرِ الشَّهْرِ:
35. مہینے کے آخر میں روزہ رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1780
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا الجريري، عن ابي العلاء بن الشخير، عن مطرف، عن عمران بن حصين، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل:"هل صمت من سرر هذا الشهر؟"فقال: لا. قال: "إذا افطرت من رمضان، فصم يومين". قال ابو محمد: سرره: آخره.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ:"هَلْ صُمْتَ مِنْ سَرَرِ هَذَا الشَّهْرِ؟"فَقَالَ: لَا. قَالَ: "إِذَا أَفْطَرْتَ مِنْ رَمَضَانَ، فَصُمْ يَوْمَيْنِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: سَرَرُهُ: آخِرُهُ.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا: کیا تم نے اس مہینے کے آخر میں روزہ رکھا؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: جب تم رمضان کے روزے رکھ چکو تو مہینے کے آخر میں دو روزے رکھ لو۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «سرره» سے مراد آخرہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1783]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1983]، [مسلم 1161]، [أبوداؤد 2328]، [ابن حبان 3587]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1777 سے 1780)
امام دارمی رحمہ اللہ نے «سَرَرُهُ» کا معنی مہینے کا آخر اور بعض لوگوں نے مہینے کا شروع لیا ہے اور بعض نے مہینے کا وسط۔
بعض روایات میں سرر شعبان مذکور ہے جو اگر آخر شہر مراد ہو تو رمضان کے استقبال میں ایک دو دن پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت سے اس حدیث میں تعارض ہوگا، اور اگر مہینے کا شروع لیا جائے تو اشکال ختم ہو جائے گا۔
(والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
36. باب في صِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
36. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کا بیان
حدیث نمبر: 1781
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: "ما صام النبي صلى الله عليه وسلم شهرا كاملا غير رمضان، وإن كان ليصوم إذا صام حتى يقول القائل: لا والله لا يفطر، ويفطر إذا افطر حتى يقول القائل: لا والله لا يصوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "مَا صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ، وَإِنْ كَانَ لَيَصُومُ إِذَا صَامَ حَتَّى يَقُولَ الْقَائِلُ: لَا وَاللَّهِ لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ إِذَا أَفْطَرَ حَتَّى يَقُولَ الْقَائِلُ: لَا وَاللَّهِ لَا يَصُومُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رمضان کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پورے مہینے کے روزے نہیں رکھے، اور جب آپ (نفلی) روزہ رکھتے تو رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ کہنے والا کہنے لگتا، قسم اللہ کی! آپ روزے چھوڑیں گے نہیں، اور جب (نفلی) روزے چھوڑ دیتے تو کہنے والا کہنے لگتا قسم اللہ کی اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1784]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1971]، [مسلم 1157]، [أبوداؤد 2430]، [نسائي 2345]، [ابن ماجه 1711]، [أبويعلی 2602]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1780)
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت و ریاضت میں محنت و مشقت ثابت ہوتی ہے اور امّت کے لئے رحمت و شفقت بھی، خود روزے رکھتے تھے لیکن امّت کی آسانی کے لئے چھوڑ دیتے تھے کہ آدمی اپنے اہل و عیال کے حقوق بھی ادا کرے، صرف نماز اور روزے کا ہو کر نہ رہ جائے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہمیش روزہ رکھنے سے منع بھی فرمایا اور اپنے اصحاب کرام کو ترغیب بھی دیتے تھے کہ تمہارے جسم کا بھی تمہارے اوپر حق ہے، اور تمہاری آنکھ کا بھی تمہارے اوپر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تمہارے اوپر حق ہے، اور ان سب کے حقوق ادا کرتے ہوئے روزہ رکھو اور عبادت کرو۔
کئی کئی ماہ کے چلوں میں نکلنے والوں کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
37. باب النَّهْيِ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ:
37. ہر دن ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1782
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن الاوزاعي، عن قتادة، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير، عن ابيه، قال: ذكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل يصوم الدهر، فقال: "لا صام ولا افطر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يَصُومُ الدَّهْرَ، فَقَالَ: "لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ".
مطرف بن عبدالله بن الشخیر نے اپنے والد (سیدنا عبدالله رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کا ذکر کیا گیا کہ وہ ہمیشہ روزے رکھتا رہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1785]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 2379]، [ابن ماجه 1705]، [ابن حبان 3583]، [موارد الظمآن 938]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1781)
یعنی نہ اس کو روزے کا ثواب ہے اور نہ افطار کا، کیونکہ اس نے شریعت کی خلاف ورزی کی، اللہ تعالیٰ نے کہیں حکم نہیں دیا کہ اس کا بندہ ہمیشہ روزہ رکھتا رہے، لہٰذا جو شخص ہر دن روزہ رکھے اس کے لئے یہ وعید ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ زجر و توبیخ یہ فرمایا کہ نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔
افضل ترین طریقہ روزے کا یہ ہے کہ ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے، اس کے علاوہ اگر ہر مہینہ ایامِ بیض کے روزے رکھے جائیں تو بہت بہتر ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے ہفتے میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
38. باب في صَوْمِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ:
38. ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1783
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا العوام، حدثني سليمان بن ابي سليمان، انه سمع ابا هريرة، يقول: اوصاني خليلي بثلاث لست بتاركهن:"ان لا انام إلا على وتر، وان اصوم ثلاثة ايام من كل شهر، وان لا ادع ركعتي الضحى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَسْتُ بِتَارِكِهِنَّ:"أَنْ لَا أَنَامَ إِلَّا عَلَى وِتْرٍ، وَأَنْ أَصُومَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَأَنْ لَا أَدَعَ رَكْعَتَيْ الضُّحَى".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے جگری دوست (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے تین چیزوں کی وصیت کی ہے جن کو میں کبھی چھوڑ نہیں سکتا، پہلی یہ کہ وتر پڑھ کر سونا، دوسری یہ کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھوں، تیسری یہ کہ چاشت کی دو رکعت نماز کبھی نہ چھوڑوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1786]»
اس روایت کی سند جید ہے، لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1178]، [مسلم 721]، [أبويعلی 6226]، [ابن حبان 2536]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 1784
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن عباس الجريري، عن ابي عثمان، عن ابي هريرة، نحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1787]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1785
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن معاوية بن قرة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "صيام البيض صيام الدهر وإفطاره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "صِيَامُ الْبِيضِ صِيَامُ الدَّهْرِ وَإِفْطَارُهُ".
معاویہ بن قرہ نے اپنے والد (سیدنا قره رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایام بیض کے روزے افطار کے باوجود پورے سال روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ ( «كما قال الشيخ أحمد الساعاتي فى الفتح الرباني 157/9»)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1788]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 492/13]، [ابن حبان 3652]، [موارد الظمآن 947]، [مجمع الزوائد 5258]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1782 سے 1785)
«أيام البيض» سے مراد ہر مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ ہے۔
بعض روایات میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر مہینے کی پہلی دوسری اور تیسری تاریخ کا بھی روزہ رکھنے کا ذکر آیا ہے، لیکن وسط شہر میں روزہ رکھنا زیادہ معروف ہے، یہ تین دن کے روزے ہیں اور « ﴿مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ...﴾ [الانعام: 160] » کے تحت تیس دن کا ثواب ہوا، اب جو شخص ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھے گا گویا وہ پورے سال روزے رکھتا رہا اور اس کو پورے سال روزہ رکھنے کا ثواب ہے، چاہے 27 دن روزہ نہ رکھے ثواب روزے کا ملتا رہے گا سوائے رمضان کے روزہ کے، کیونکہ رمضان کے پورے مہینے کے روزے رکھنا فرض ہے، رمضان میں صرف تین روزے رکھنا خلافِ شرع ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
39. باب في النَّهْيِ عَنِ الصِّيَامِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ:
39. خاص طور سے جمعہ کا روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1786
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن عبد الحميد بن جبير بن شيبة، عن محمد بن عباد بن جعفر، قال: قلت لجابر: "انهى النبي صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم الجمعة؟ قال: نعم ورب هذا البيت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرٍ: "أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ؟ قَالَ: نَعَمْ وَرَبِّ هَذَا الْبَيْتِ".
محمد بن عباد بن جعفر نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے؟ کہا: ہاں، اس کعبہ کے رب کی قسم۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1789]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1984]، [مسلم 1143]، [أحمد 312/3]، [ابن ماجه 1724]، [أبويعلی 2206]، [الحميدي 1260]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1785)
اس حدیث میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، لہٰذا جمعہ کے دن یا رات کو کسی بھی عبادت کے لئے خاص کرنا ممنوع ہوا، جیسا کہ مسلم شریف میں مذکور ہے: «لَاتَخُصُّوْا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ ...... وَلَا تَخُصُّوْا يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ ...... إلخ» ہاں اگر کسی نے منت مانی کہ فلاں تاریخ کو روزے رکھے گا اور وہ تاریخ جمعہ کے دن آ جائے تو کوئی حرج نہیں، اسی طرح عرفہ کا دن جمعہ کو آ جائے تو غیر حاجی کو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں، یا ایام البیض کے دنوں میں آخری دن جمعہ پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں، اور جس کو جمعہ کا روزہ ہی رکھنا پسند ہو وہ یا ایک دن پہلے بھی روزہ رکھے یا ایک دن بعد میں روزہ رکھے تاکہ حدیث کی مخالفت نہ ہو۔
(اللہ تعالیٰ اتباعِ سنّت کی سب کو توفیق بخشے)، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
40. باب في صِيَامِ يَوْمِ السَّبْتِ:
40. ہفتے کے دن روزہ رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1787
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ثور، عن خالد بن معدان، حدثني عبد الله بن بسر، عن اخته يقال لها الصماء، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "لا تصوموا يوم السبت إلا فيما افترض عليكم، وإن لم يجد احدكم إلا كذا او لحاء شجرة فليمضغه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ، عَنْ أُخْتِهِ يُقَالُ لَهَا الصَّمَّاءُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلَّا فِيمَا افْتُرِضَ عَلَيْكُمْ، وَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا كَذَا أَوْ لِحَاءَ شَجَرَةٍ فَلْيَمْضَغْهُ".
عبداللہ بن بسر نے اپنی بہن سے روایت کیا جن کا نام صماء تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرض روزے کے علاوہ ہفتہ کا روزہ نہ رکھو، اور اگر ہفتے کے دن کھانے کو کچھ نہ ملے، کسی درخت کی چھال ہی مل جائے تو اسی کو چبا لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1790]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2436]، [ترمذي 745]، [نسائي 2357]، [ابن ماجه 1739]، [ابن خزيمه 2165]، [الطبراني فى معجم الكبير 819، 820، 821] میں مذکور ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1786)
یعنی درخت کی چھال ہی چبا لے، اور ایک روایت میں ہے انگور کی شاخ ہی مل جائے تو اسے چوس لے اور روزہ نہ رکھے، اس روایت کی صحت میں بہت کلام ہے، علی فرضِ صحت اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صرف ہفتہ کا روزہ خصوصیت سے نہ رکھے بلکہ جمعہ کے روزے کی طرح ایک دن قبل یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھے۔
واللہ علم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
41. باب في صِيَامِ يَوْمِ الاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ:
41. پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1788
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، عن يحيى، عن عمر بن الحكم بن ثوبان، ان مولى قدامة بن مظعون حدثه، ان مولى اسامة حدثه، قال: كان اسامة يركب إلى مال له بوادي القرى، فيصوم الاثنين والخميس في الطريق، فقلت له: لم تصوم الاثنين والخميس في السفر وقد كبرت وضعفت او رققت؟ فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم الاثنين والخميس، وقال:"إن اعمال الناس تعرض يوم الاثنين والخميس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ، أَنَّ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ مَوْلَى أُسَامَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: كَانَ أُسَامَةُ يَرْكَبُ إِلَى مَالٍ لَهُ بِوَادِي الْقُرَى، فَيَصُومُ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ فِي الطَّرِيقِ، فَقُلْتُ لَهُ: لِمَ تَصُومُ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ فِي السَّفَرِ وَقَدْ كَبِرْتَ وَضَعُفْتَ أَوْ رَقِقْتَ؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ، وَقَالَ:"إِنَّ أَعْمَالَ النَّاسِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ".
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے غلام نے بیان کیا کہ وہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ وادی القری جایا کرتے تھے جہاں ان کے مویشی تھے (اونٹ وغیرہ)، تو وہ راستے میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے، ان کے غلام نے کہا: آپ سفر میں پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں حالانکہ آپ عمر رسیدہ ہیں، کمزور ہو چکے ہیں یا نحیف ہو گئے ہیں؟ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے اور فرماتے کہ: لوگوں کے اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه مجهولان، [مكتبه الشامله نمبر: 1791]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن متعدد طرق سے مروی ہے اس لئے حسن کے درجے کو پہنچتی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2436]، [ترمذي 745]، [نسائي 2357، 2667]، [طبراني 409]، [أحمد 200/5، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1787)
اس حدیث میں پیر اور جمعرات کو الله تعالیٰ کے حضور اعمال پیش کئے جانے کا ذکر ہے، ہو سکتا ہے اس سے مراد ہفتہ واری پیشی ہو، اور صبح شام جو فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کے اعمال کے بارے میں پوچھتا ہے تو یہ روزانہ کی پیشی ہے، اسی طرح شعبان میں پیشی کا ذکر ہے جو ہو سکتا ہے سالانہ پیشی ہو۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه مجهولان
حدیث نمبر: 1789
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن محمد بن رفاعة، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يصوم يوم الاثنين والخميس، فسالته، فقال:"إن الاعمال تعرض يوم الاثنين والخميس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:"إِنَّ الْأَعْمَالَ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اثنین و خمیس کا روزہ رکھتے تھے، میں نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اثنین و خمیس کو اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ (یعنی پیر اور جمعرات کو)۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1792]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 747]، [بغوي فى شرح السنة 1799]، [ابن ماجه 1740]، [أبويعلی 6684]، [ابن حبان 3644]، [الحميدي 1005]، [الترغيب والترهيب 124/2]، [تلخيص الحبير 215/2]، [نيل الأوطار 335/4] و [الأدب المفرد 61]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1788)
معلوم ہوا کہ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا سنّت ہے، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ خادم خاتم الرسل ہیں، انہوں نے پیران سالی میں بھی اس سنّت کو چھوڑنا گوارہ نہ کیا (رضی اللہ عنہ وأرضاه)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.