الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
روزے کے مسائل
27. باب الصَّائِمِ يَغْتَابُ فَيَخْرِقُ صَوْمَهُ:
27. روزے دار غیبت کرے تو روزے میں خرابی آتی ہے
حدیث نمبر: 1770
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا عمرو بن عون، حدثنا خالد بن عبد الله، عن واصل مولى ابي عيينة، عن بشار بن ابي سيف، عن الوليد بن عبد الرحمن، عن عياض بن غطيف، عن ابي عبيدة بن الجراح، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "الصوم جنة ما لم يخرقها". قال ابو محمد: يعني: بالغيبة.(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِي سَيْفٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي: بِالْغِيبَةِ.
سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: روزہ ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑے نہیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: یعنی غیبت کر کے (روزہ کو خراب نہ کرے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1773]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [نسائي 2232]، [أبويعلی 878]، [مجمع الزوائد 3830]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1769)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے روز ہ اس کے لئے ڈھال ہے کیونکہ جھوٹ، غیبت، برے کام سے روزے میں شگاف لگ جاتا ہے اور روزہ بگڑ جاتا ہے جیسے ضرب لگنے سے ڈھال پھٹ جاتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
28. باب الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ:
28. روزے دار کے سرمہ لگانے کا بیان
حدیث نمبر: 1771
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا عبد الرحمن بن النعمان ابو النعمان الانصاري، حدثني ابي , عن جدي، وكان جدي قد اتي به النبي صلى الله عليه وسلم فمسح على راسه، وقال: "لا تكتحل بالنهار وانت صائم، اكتحل ليلا، بالإثمد، فإنه يجلو البصر وينبت الشعر". قال ابو محمد: لا ارى بالكحل باسا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ النُّعْمَانِ أَبُو النُّعْمَانِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ جَدِّي، وَكَانَ جَدِّي قَدْ أُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ، وَقَالَ: "لَا تَكْتَحِلْ بِالنَّهَارِ وَأَنْتَ صَائِمٌ، اكْتَحِلْ لَيْلًا، بِالْإِثْمِدِ، فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعَرَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: لَا أَرَى بِالْكُحْلِ بَأْسًا.
عبدالرحمٰن بن نعمان ابونعمان انصاری نے بیان کیا کہ میرے والد نے میرے دادا سے روایت کیا کہ میرے دادا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: تم روزے سے ہو تو دن میں سرمہ نہ لگانا اور رات میں اثمد کا سرمہ لگانا کیونکہ وہ نظر کو تیز کرتا اور بالوں کی افزائش کرتا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: میں روزے کی حالت میں سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔

تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 1774]»
نعمان بن معبد کو امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں ذکر کیا ہے، اس حدیث کی سند میں کلام ہے لیکن کئی طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 499/3]، [أبوداؤد 2377]، [معجم الطبراني الكبير 802، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1770)
روزے کی حالت میں سرمہ لگانے کو بعض علماء نے مکروہ کہا ہے، مذکور بالا حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے لیکن امام احمد و اسحاق رحمہما اللہ کے نزدیک جائز ہے، یہی مسلک اہلِ حدیث اور امام دارمی رحمہ اللہ کا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
29. باب في تَفْسِيرِ قَوْلِهِ تَعَالَى: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ}:
29. «فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ» کی تفسیر کا بیان
حدیث نمبر: 1772
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني بكر هو ابن مضر، عن عمرو بن الحارث، عن يزيد مولى سلمة بن الاكوع، عن سلمة، انه قال: لما نزلت هذه الآية: وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين سورة البقرة آية 184، قال: "كان من اراد ان يفطر ويفتدي، فعل، حتى نزلت الآية التي بعدها، فنسختها".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي بَكْرٌ هُوَ ابْنُ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ سَلَمَةَ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 184، قَالَ: "كَانَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ، فَعَلَ، حَتَّى نَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا، فَنَسَخَتْهَا".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں تو بھی ایک مسکین کا کھانا فدیہ دے دیں، [بقرة: 184/2] نازل ہوئی تو ہم میں جس کا جی چاہتا روزہ نہ رکھتا وہ فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ یہ حکم نازل ہوا «فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ» یعنی جو رمضان کا مہینہ پا لے وہ روزہ رکھے، [البقرة: 185/2] اور جو اختیار پہلے تھا (روزہ نہ رکھنے کا) وہ منسوخ ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1775]»
اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے، لیکن یہی لفظ دوسرے طرق سے مروی صحیح اورمتفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4506]، [مسلم 1145]، [أبوداؤد 2315]، [ترمذي 798]، [نسائي 2315]، [ابن حبان 3478، 3624]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1771)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اب سب کو روزہ رکھنا ضروری ہے سوائے مسافر اور مریض، حائضہ اور نفاس والی عورت کے، ان کے لئے اجازت ہے کہ رمضان کے روزے نہ رکھیں بعد میں اس کی قضا کر لیں، بعض علماء نے کہا کہ پہلی آیت منسوخ نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ پہلے روزے کی طاقت رکھتے تھے لیکن اب بے طاقت ہوگئے جیسے (بوڑھا اور مریض وغیرہ) ان کو اختیار ہے فدیہ دیں یا روزہ رکھیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
30. باب فِيمَنْ يُصْبِحُ صَائِماً تَطَوُّعاً ثُمَّ يُفْطِرُ:
30. کوئی شخص نفلی روزہ رکھے پھر صبح کو افطار کر لے
حدیث نمبر: 1773
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن سلمة، عن سماك بن حرب، عن هارون ابن ابنة ام هانئ او ابن ابن ام هانئ، عن ام هانئ، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها وهي صائمة، فاتي بإناء فشرب ثم ناولها فشربت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن كان قضاء رمضان، فصومي يوما آخر، وإن كان تطوعا، فإن شئت، فاقضيه، وإن شئت، فلا تقضيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ هَارُونَ ابْنِ ابْنَةِ أُمِّ هَانِئٍ أَوْ ابْنِ ابْنِ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَهِيَ صَائِمَةٌ، فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَهَا فَشَرِبَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ كَانَ قَضَاءَ رَمَضَانَ، فَصُومِي يَوْمًا آخَرَ، وَإِنْ كَانَ تَطَوُّعًا، فَإِنْ شِئْتِ، فَاقْضِيهِ، وَإِنْ شِئْتِ، فَلَا تَقْضِيهِ".
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہ روزے سے تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا برتن لایا گیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیا، پھر وہ برتن سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کو دیا، انہوں نے بھی پانی پی لیا (پھر عرض کیا: میرا روزہ تھا اور میں نے افطار کر لیا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ روزہ رمضان کے روزے کی قضا کا تھا تو دوسرے دن روزہ رکھ لینا، اور اگر نفلی روزہ تھا تو جی چاہے تو قضا کر لینا دل نہ چاہے تو قضا نہ کرنا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف هارون مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 1776]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن کئی طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 343/6]، [طيالسي 916]، [أبوداؤد 2456]، [ترمذي 731]، [نسائي فى الكبرى 3305]، [دارقطني 174/2، 12]، [شرح معاني الآثار 107/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1772)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قضاء روزے کو اگر توڑا ہے تب اس کی قضا کے طور پر دوسرا روزہ رکھنا ہوگا، اور اگر کوئی نفلی روزہ توڑ دے تو اس کو اختیار ہے چاہے تو اس کی جگہ روزہ رکھے چاہے نہ رکھے، لیکن اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، اہل الحدیث اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ نفلی روزے کو توڑنے پر اس کی قضا کر لینی چاہیے، امام شافعی و امام احمد و امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہم نے کہا کہ واجب نہیں، قضا مستحب ہے۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف هارون مجهول
حدیث نمبر: 1774
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد , حدثنا جرير، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الله بن الحارث، عن ام هانئ، قالت: لما كان يوم فتح مكة، جاءت فاطمة فجلست عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم وام هانئ عن يمينه. قالت: فجاءت الوليدة بإناء فيه شراب فناولته، فشرب منه ثم ناوله ام هانئ، فشربت منه ثم قالت: يا رسول الله، لقد افطرت، وكنت صائمة. فقال لها: "اكنت تقضين شيئا؟ قالت: لا. قال:"فلا يضرك إن كان تطوعا". قال ابو محمد: اقول به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَجَلَسَتْ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمُّ هَانِئٍ عَنْ يَمِينِهِ. قَالَتْ: فَجَاءَتْ الْوَلِيدَةُ بِإِنَاءٍ فِيهِ شَرَابٌ فَنَاوَلَتْهُ، فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ نَاوَلَهُ أُمَّ هَانِئٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ أَفْطَرْتُ، وَكُنْتُ صَائِمَةً. فَقَالَ لَهَا: "أَكُنْتِ تَقْضِينَ شَيْئًا؟ قَالَتْ: لَا. قَالَ:"فَلَا يَضُرُّكِ إِنْ كَانَ تَطَوُّعًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَقُولُ بِهِ.
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا: فتح مکہ کے دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھ گئیں، اور سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا دائیں طرف تھیں، انہوں نے کہا: لونڈی پانی کا برتن لے کر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا، آپ نے اس سے پانی پیا، پھر سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کو دیا، انہوں نے بھی اس برتن سے پانی پیا پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی اور اب روزه توڑ دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قضا کا روزہ تھا؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: تب کوئی حرج نہیں جبکہ نفلی روز ہ تھا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ ہی میرا قول ہے (یعنی نفلی روزہ اگر توڑ دیا تو کہا کوئی حرج نہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 1777]»
اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے۔ تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [أبوداؤد 2456]، [البيهقي 277/4]، [فتح الباري 212/4]، [نيل الأوطار 346/4-348]، [المعرفة للبيهقي 8924]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1773)
«فَلَا يَضُرُّكِ» یعنی کچھ گناہ نہیں، اس سے اختلاف ہوا کہ نفلی روزے کو توڑا ہے تو اس کی قضا ہے یا نہیں، صحیح یہ ہے کہ قضا ضرور کرنی چاہیے کیونکہ ایک اور حدیث میں ہے: اس کی جگہ پر دوسرے دن روزہ رکھ لینا۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد
31. باب مَنْ دُعِيَ إِلَى الطَّعَامِ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ:
31. کسی روزے دار کو اگر کھانے کے لئے مدعو کیا جائے تو وہ کہہ دے میں روزے سے ہوں
حدیث نمبر: 1775
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا دعي احدكم إلى طعام وهو صائم، فليقل: إني صائم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص کھانے کے واسطے بلایا جائے اور وہ روزے دار ہو تو اس کو کہہ دینا چاہیے کہ میں روزے دار ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1778]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1150]، [أبوداؤد 2461]، [ترمذي 781]، [ابن ماجه 1750]، [أبويعلی 6280]، [الحميدي 1042]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1774)
نفلی عبادت کا چھپانا بہتر ہے، مگر کسی کو کھانے کے لئے مدعو کیا جائے اور وہ روزے سے ہو تو بتا دینا چاہیے کہ میرا روزہ ہے تاکہ بلانے والے کو رنج نہ ہو، کیونکہ مسلمان کو رنج دینا بڑا گناہ ہے، بلکہ اگر یہ بتا دینے کے بعد بھی کہ وہ روزے سے ہے اور وہ نہ کھانے سے رنجیدہ ہوتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ اگر نفلی روزہ ہو تو توڑ دے اور کھانا کھا لے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
32. باب في الصَّائِمِ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ:
32. روزے دار کے سامنے کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 1776
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن حبيب الانصاري، قال: سمعت مولاة لنا يقال لها ليلى تحدث، عن جدتها ام عمارة بنت كعب، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها، فدعت له بطعام، فقال لها:"كلي". فقالت: إني صائمة. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"إن الصائم إذا اكل عنده، صلت عليه الملائكة حتى يفرغوا، وربما قال: حتى يقضوا اكلهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ مَوْلَاةً لَنَا يُقَالُ لَهَا لَيْلَى تُحَدِّثُ، عَنْ جَدَّتِهَا أُمِّ عُمَارَةَ بِنْتِ كَعْبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا، فَدَعَتْ لَهُ بِطَعَامٍ، فَقَالَ لَهَا:"كُلِي". فَقَالَتْ: إِنِّي صَائِمَةٌ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ الصَّائِمَ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يَفْرُغُوا، وَرُبَّمَا قَالَ: حَتَّى يَقْضُوا أَكْلَهُمْ".
سیدہ ام عمارة بنت کعب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ کے لئے کھانا پیش کرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تم بھی کھاؤ، عرض کیا: میں تو روزے سے ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب روزے دار کے سامنے کھایا جائے تو فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ کھانے سے فارغ ہو جائیں یا یہ کہا کہ کھانا ختم کر لیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1779]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1785]، [ابن ماجه 1748]، [أبويعلی 7148]، [ابن حبان 3430]، [الموارد 953]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1775)
فرشتے اس لئے دعا کرتے ہیں کیونکہ اس نے فرشتوں سے بڑھ کر کام کیا، خواہش رکھتے ہوئے اس سے باز رہا محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے، اور فرشتے جو کھانے سے باز رہتے ہیں تو اس لئے کہ انہیں کھانے پینے کی خواہش ہی نہیں ہے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ روزے دار کے سامنے کھانا پینا درست ہے (وحیدی)۔
ان احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ اخلاق، رشتے داروں کی زیارت کا ثبوت ملا، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ زیارت کے لئے آنے والے کو ضیافت میں کھانے اور پینے کے لئے کچھ پیش کرنا چاہیے اور چاہے خود روزے سے ہو مہمان نوازی ضرور کرنی چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
33. باب في وِصَالِ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ:
33. شعبان کے روزوں کو رمضان کے روزوں سے ملا دینے کا بیان
حدیث نمبر: 1777
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن منصور، عن سالم، عن ابي سلمة، عن ام سلمة، قالت: "ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صام شهرا تاما إلا شعبان، فإنه كان يصله برمضان ليكونا شهرين متتابعين، وكان يصوم من الشهر حتى نقول: لا يفطر , ويفطر حتى نقول: لا يصوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامَ شَهْرًا تَامًّا إِلَّا شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ لِيَكُونَا شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، وَكَانَ يَصُومُ مِنْ الشَّهْرِ حَتَّى نَقُولَ: لَا يُفْطِرُ , وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يَصُومُ".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے شعبان کے کسی مہینے میں پورے مہینے کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے تاکہ پورے دو مہینے کے مسلسل روزے ہو جائیں، آپ مہینے میں روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے: اب آپ افطار نہ کریں گے، پھر افطار کرتے تو ہم کہتے تھے: اب روزہ نہ رکھیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1780]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2336]، [ترمذي 736]، [نسائي 2174]، [ابن ماجه 1648]، [أبويعلی 6970]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1776)
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے شعبان کے روزے رکھنے کا ذکر ہے، لیکن بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پورے شعبان کے روزے رکھنے کی ممانعت ہے جو اس حدیث پر مقدم ہے۔
کیونکہ قول و فعل کے تعارض میں قول مقدم ہوتا ہے، ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی تم سے بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے تو اس کی تصدیق نہ کرنا۔
اسی طرح حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (1514) میں گذر چکا ہے کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے۔
آگے حدیث نمبر (1781) میں بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح مروی ہے۔
اس لئے 15 شعبان کے بعد روزہ نہیں رکھنا چاہئے، والله اعلم۔
احتیاط اسی میں ہے کہ پندرہ شعبان کے بعد رمضان شروع ہونے تک روزے نہ رکھے جائیں جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
34. باب النَّهْيِ عَنِ الصَّوْمِ بَعْدَ انْتِصَافِ شَعْبَانَ:
34. نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1778
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا عبد الرحمن الحنفي يقال: عبد الرحمن بن إبراهيم، عن العلاء، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا كان النصف من شعبان، فامسكوا عن الصوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْحَنَفِيُّ يُقَالُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَانَ النِّصْفُ مِنْ شَعْبَانَ، فَأَمْسِكُوا عَنْ الصَّوْمِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدھا شعبان گزر جائے تو پھر روزے نہ رکھو۔

تخریج الحدیث: «عبد الرحمن بن إبراهيم قال أبو حاتم في ((الجرح والتعديل)) 211/ 5: ((ليس بالقوي روى حديثا منكرا عن العلاء))، [مكتبه الشامله نمبر: 1781]»
اس حدیث کی سند میں کلام ہے، لیکن متعدد طرق سے یہ حدیث مروی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2337]، [ترمذي 738]، [ابن ماجه 1651]، [أحمد 442/2]، [ابن ابي شيبه 21/3]، [ابن حبان 3589]، [موارد الظمآن 876]، [معرفة السنن والآثار 8595]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: عبد الرحمن بن إبراهيم قال أبو حاتم في ((الجرح والتعديل)) 211/ 5: ((ليس بالقوي روى حديثا منكرا عن العلاء))
حدیث نمبر: 1779
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، عن عبد العزيز بن محمد، عن العلاء، عن ابيه، عن ابي هريرة، نحو هذا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، نَحْوَ هَذَا.
اس سند سے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مذکور بالا حدیث کی طرح مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1782]»
اس کی تخریج اوپر گذر چکی ہے، اور اس حدیث سے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت ثابت ہوئی، اور یہ اس لئے کہ رمضان المبارک کے روزے صحت و توانائی سے رکھے اور ضعف لاحق نہ ہو۔ واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.