الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حج اور عمرہ کے بیان میں
حدیث نمبر: 1922
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا ابن ابي ذئب، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم "صلى المغرب والعشاء بالمزدلفة، لم يناد في واحدة منهما إلا بالإقامة، ولم يسبح بينهما، ولا على إثر واحدة منهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "صَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، لَمْ يُنَادِ فِي وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا إِلَّا بِالْإِقَامَةِ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا، وَلَا عَلَى إِثْرِ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء ملا کر پڑھیں تو کسی نماز کے لئے اذان نہیں دی، بس صرف ایک بار اقامت ہوئی، نہ دونوں نمازوں کے درمیان سنت یا نفل پڑھے نہ نماز کے بعد میں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1926]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1092، 1673]، [مسلم 1988]، [أبوداؤد 1928]، [نسائي 659، 3028]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1918 سے 1922)
ان احادیث سے مزدلفہ میں بھی جمع بین الصلاتین یعنی مغرب عشاء ملا کر پڑھنے کا ثبوت ملا، اختلاف اذان اور اقامت کے سلسلے میں ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں مختلف راویات مروی ہیں، مذکورہ بالا روایت میں صرف اقامت کا ذکر ہے، اس سلسلے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں، صحیح یہ ہے کہ جمع بین الصلاتین میں پہلی نماز کے لئے اذان دی جائے اور اقامت (تکبیر) دونوں نمازوں کے لئے کہی جائے۔
اہل الحدیث، حنابلہ اور شافعیہ کا یہی مسلک ہے اور یہی راجح ہے، بعض علماء نے دو اذان، دو اقامت اور بعض نے کہا نہ اذان نا اقامت، بعض نے کہا صرف اقامت کہی جائے اذان نہیں، صحیح مسلک وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔
مزدلفہ کو جمع کہتے ہیں کیونکہ وہاں حضرت آدم و حضرت حواء علیہم السلام جمع ہوئے تھے، بعض نے کہا کہ وہاں دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں۔
ابن منذر رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ مزدلفہ میں دونوں نمازوں کے بیچ میں نفل و سنّت نہ پڑھے، ابن منذر رحمہ اللہ نے کہا: جو کوئی بیچ میں سنّت یا نفل پڑھے گا تو اس کا جمع صحیح نہ ہوگا۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
52. باب الرُّخْصَةِ في النَّفْرِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ:
52. مزدلفہ سے رات میں روانگی کی اجازت کا بیان
حدیث نمبر: 1923
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن شوال: اخبره ان ام حبيبة اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "امرها ان تنفر من جمع بليل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ شَوَّالٍ: أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَمَرَهَا أَنْ تَنْفِرَ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ".
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مزدلفہ سے رات میں روانگی کا حکم دیا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1927]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1294]، [نسائي 3035]، [أحمد 327/6، 427]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1924
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا افلح، قال: سمعت القاسم بن محمد يحدث، عن عائشة، قالت:"استاذنت سودة بنت زمعة رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ياذن لها فتدفع قبل ان يدفع، فاذن لها". قال القاسم: وكانت امراة ثبطة قال القاسم: الثبطة: الثقيلة، فدفعت وحبسنا معه حتى دفعنا بدفعه. قالت عائشة: "فلان اكون استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما استاذنت سودة، فادفع قبل الناس، احب إلي من مفروح به"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا أَفْلَحُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْذَنَ لَهَا فَتَدْفَعَ قَبْلَ أَنْ يَدْفَعَ، فَأَذِنَ لَهَا". قَالَ الْقَاسِمُ: وَكَانَتْ امْرَأَةً ثَبِطَةً قَالَ الْقَاسِمُ: الثَّبِطَةُ: الثَّقِيلَةُ، فَدَفَعَتْ وَحُبِسْنَا مَعَهُ حَتَّى دَفَعْنَا بِدَفْعِهِ. قَالَتْ عَائِشَةُ: "فَلَأَنْ أَكُونَ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ، فَأَدْفَعَ قَبْلَ النَّاسِ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مَفْرُوحٍ بِهِ"..
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ (ام المومنین) سیدہ سودة بنت زمعۃ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مزدلفہ سے روانہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، قاسم نے کہا: وہ بھاری بھر کم خاتون تھیں چنانچہ وہ روانہ ہو گئیں اور ہم سب مزدلفہ میں رکے رہے اور (صبح کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی روانہ ہوئے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر میں بھی سیدہ سوده رضی اللہ عنہا کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیتی تو مجھ کو تمام خوشی کی چیزوں میں یہ ہی زیادہ پسند ہوتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1928]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1680]، [مسلم 1290]، [أبويعلی 4808]، [ابن حبان 3861]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1922 سے 1924)
عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ میں تھوڑی دیر ٹھہر کر (منیٰ) چلے جانے کی اجازت ہے، ان کے سوا دوسرے سب لوگوں کو رات میں مزدلفہ میں رہنا چاہیے۔
شعبی، نخعی اور علقمہ رحمہم اللہ نے کہا: جو کوئی رات کو مزدلفہ میں نہ رہے اس کا حج فوت ہوا، اور عطاء و زہری رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ اس پر دم لازم آجاتا ہے، اور آدھی رات سے پہلے وہاں سے لوٹنا درست نہیں (وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
53. باب بِمَا يَتِمُّ الْحَجُّ:
53. حج کی تکمیل کس طرح ہوتی ہے؟
حدیث نمبر: 1925
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، حدثنا بكير بن عطاء، قال: سمعت عبد الرحمن بن يعمر الديلي يقول: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الحج، فقال: "الحج عرفات او قال: عرفة، ومن ادرك ليلة جمع قبل صلاة الصبح، فقد ادرك". وقال: "ايام منى ثلاثة ايام فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تاخر فلا إثم سورة البقرة آية 203"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمُرَ الدِّيلِيَّ يَقُولُ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَجِّ، فَقَالَ: "الْحَجُّ عَرَفَاتٌ أَوْ قَالَ: عَرَفَةَ، وَمَنْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ، فَقَدْ أَدْرَكَ". وَقَالَ: "أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ سورة البقرة آية 203"..
سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج عرفات میں ٹھہرنے یا یہ کہا کہ عرفہ کے دن وقوف کرنا ہے اور جس نے مزدلفہ کی رات صبح ہونے سے پہلے وقوف عرفہ کر لیا تو اس نے حج کو پا لیا، نیز فرمایا: منیٰ میں ٹھہرنے کے تین دن ہیں۔ سو جس نے جلدی کی اور دو دن میں ہی (منیٰ سے) چلا گیا اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو دیر کر کے تیسرے دن گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1929]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1949]، [ترمذي 889]، [نسائي 3016]، [ابن ماجه 3015]، [ابن حبان 3892]، [الموارد 1009]، [الحميدي 923]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1924)
حج کی جان اور روح وقوفِ عرفہ ہے، جس کا وقت مختار زوالِ آفتاب سے غروب تک کا ہے، اگر کسی مصیبت و پریشانی کی وجہ سے کوئی غروبِ آفتاب تک عرفات میں نہ پہنچ سکا تو مزدلفہ کی رات میں عرفات میں تھوڑا قیام کر کے پھر مزدلفہ آجائے، کیونکہ نویں تاریخ کا پورا دن اور دس ذوالحجہ کی رات طلوعِ فجر تک بھی عرفات میں وقوف کر لیا تو حج ہو جائے گا، یہ ہی مسألہ مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
نیز یہ کہ منیٰ میں قیام کے دس ذوالحجہ کے بعد تین دن ہیں (11، 12، 13) اب اگر کوئی 10 اور 11 کو قیام کر کے رات گزار کر منیٰ سے 12 تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کنکری مار کر منیٰ سے چلا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اور جو حاجی 11، 12 کو قیام کر کے 13 تاریخ کو بعد از زوال کنکری مار کر منیٰ سے جائے تو یہ بھی جائز ہے، جیسا کہ آیتِ شریفہ میں مذکور ہے۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1926
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا إسماعيل، عن عامر، عن عروة بن مضرس، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالموقف على رؤوس الناس، فقال: يا رسول الله، جئت من جبلي طيء، اكللت مطيتي: واتعبت نفسي، والله إن بقي جبل إلا وقفت عليه، فهل لي من حج؟ قال: "من شهد معنا هذه الصلاة، وقد اتى عرفات قبل ذلك ليلا او نهارا، فقد قضى تفثه، وتم حجه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَوْقِفِ عَلَى رُؤُوسِ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّءٍ، أَكْلَلْتُ مَطِيَّتِي: وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي، وَاللَّهِ إِنْ بَقِيَ جَبَلٌ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْهِ، فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ؟ قَالَ: "مَنْ شَهِدَ مَعَنَا هَذِهِ الصَّلَاةَ، وَقَدْ أَتَى عَرَفَاتٍ قَبْلَ ذَلِكَ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ قَضَى تَفَثَهُ، وَتَمَّ حَجُّهُ".
سیدنا عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مزدلفہ میں ایک شخص سب لوگوں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں طی کے پہاڑوں سے آ رہا ہوں، میں نے اپنی اونٹنی کو خوب تھکایا اور اپنی جان کو مشقت میں ڈالا ہے (یعنی جلدی عرفات پہنچنے کے لئے) اور اللہ کی قسم کوئی پہاڑ یا ٹیلہ ایسا نہ چھوڑا جس پر وقوف نہ کیا ہو (یعنی عرفات کے خیال سے) تو میرا حج ہوا یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہمارے ساتھ اس نماز میں (یعنی فجر کی نماز میں) آ ملے اور وہ دن یا رات کے کسی حصہ میں عرفات میں وقوف کر چکا ہو اس کا میل کچیل دور ہوا اور حج پورا ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1930]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1950]، [ترمذي 891]، [نسائي 3044]، [ابن ماجه 3016]، [أبويعلی 946]، [ابن حبان 3850]، [موارد الظمآن 1010]، [الحميدي 924]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1927
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن عبد الله بن ابي السفر، عن الشعبي، عن عروة بن مضرس بن حارثة بن لام، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر نحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
سیدنا عروہ بن مضرس بن حارثۃ بن لام الطائی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ...... اور مذکورہ بالا حدیث ذکر کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1931]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [الطيالسي 1075]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1925 سے 1927)
مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ وقوفِ عرفہ اور مکوثِ مزدلفہ حج کے اہم رکن ہیں، اور یہاں ٹھہرنا ضروری ہے چاہے تھوڑے ہی وقفے ٹھہرے ہوں ورنہ حج نہ ہوگا، عرفات میں وقوف کا وقت 9 تاریخ کو زوال کے بعد سے غروبِ آفتاب تک ہے، اور مزدلفہ میں ٹھہرنے کا وقت رات اندھیرا پھیلنے کے بعد سے صبح تک کا ہے، اب اگر کوئی شخص دن میں عرفات میں نہ پہنچ سکا تو رات میں بھی تھوڑی دیر وقوف کر لیا اور پھر مزدلفہ میں حجاج سے آملا اور وہاں رات گزاری تو اس کا حج پورا ہوگیا، حجاجِ بيت الله کی خدمت کرنے والوں اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے روانگی کی اجازت ہے۔
«(كما مر آنفا)

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
54. باب وَقْتِ الدَّفْعِ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ:
54. مزدلفہ سے منیٰ واپسی کا وقت
حدیث نمبر: 1928
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو غسان مالك بن إسماعيل، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عمر بن الخطاب، قال: كان اهل الجاهلية يفيضون من جمع بعد طلوع الشمس، وكانوا يقولون: اشرق ثبير لعلنا نغير، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم خالفهم "فدفع قبل طلوع الشمس بقدر صلاة المسفرين او قال: المشرقين بصلاة الغداة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ لَعَلَّنَا نُغِيرُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ "فَدَفَعَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ بِقَدْرِ صَلَاةِ الْمُسْفِرِينَ أَوْ قَالَ: الْمُشْرِقِينَ بِصَلَاةِ الْغَدَاةِ".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میں لوگ آفتاب طلوع ہونے کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کے لئے روانہ ہوتے تھے یہ کہتے ہوئے اے ثبیر چمک جاتا کہ ہم روانہ ہو جائیں (ثبیر مزدلفہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو منیٰ آتے ہوئے بائیں جانب واقع ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مخالفت کرتے ہوئے جلدی نماز پڑھ کر طلوع آفتاب سے پہلے روانہ ہوئے۔ راوی کو شک ہے کہ «صلاة المسفرين» کہا یا «صلاة المشرقين» کہا نماز فجر کو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1932]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1684]، [أبوداؤد 1938]، [ترمذي 896]، [نسائي 3047]، [ابن ماجه 3022]، [الطيالسي 1069]، [أحمد 29/1، 39، 42]، [ابن خزيمه 2859]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1927)
بعض روایات میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صرف مزدلفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے میں بہت پہلے نمازِ فجر ادا کی، بعض علماء نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مزدلفہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اجالا پھیل جانے پر ادا کرتے تھے اور یہ صحیح نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ مزدلفہ میں قدرے جلدی پڑھی، مزدلفہ کے علاوہ تھوڑی تأخیر کرتے تھے لیکن نماز ہمیشہ غلس یعنی اندھیرے ہی میں پڑھتے تھے حتیٰ کہ پاس بیٹھا آدمی یا چلتی ہوئی عورت پہچانی نہیں جاتی تھی، کیونکہ سورج نکلنے سے پہلے منیٰ جانا تھا اور رمی و قربانی کرنی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز اور جلدی پڑھی۔
(والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
55. باب الْوَضْعِ في وَادِي مُحَسِّرٍ:
55. وادی محسّر سے گزرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1929
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن ابن جريج، قال: اخبرني ابو الزبير: ان ابا معبد مولى ابن عباس اخبره، عن ابن عباس، عن الفضل، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال في عشية عرفة وغداة جمع حين دفعوا:"عليكم السكينة"، وهو كاف ناقته، حتى إذا دخل وادي محسرا، اوضع.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ: أَنَّ أَبَا مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي عَشِيَّةِ عَرَفَةَ وَغَدَاةِ جَمْعٍ حِينَ دَفَعُوا:"عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ"، وَهُوَ كَافٌّ نَاقَتَهُ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ وَادِي مُحَسِّرًا، أَوْضَعَ.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام کو اور مزدلفہ کی صبح کو جب لوگ منیٰ کے لئے روانہ ہوئے تو فرمایا: آہستہ چلو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اونٹنی کو روکے ہوتے تھے (تیز چلنے سے) یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی محسّر میں داخل ہوئے تو اونٹنی کو تیز چلنے دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1933]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1282]، [نسائي 3020، 3052]، [أبويعلی 6724]، [ابن حبان 3855، 3872]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1930
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا ليث، عن ابي الزبير، بإسناده نحوه. قال عبد الله: الإيضاع للإبل، والإيجاف للخيل.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ. قَالَ عَبْد اللَّهِ: الْإِيضَاعُ لِلْإِبِلِ، وَالْإِيجَافُ لِلْخَيْلِ.
ابوالزبیر نے بھی حسب سابق حدیث بیان کی۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «ايضاع» اونٹ کے تیز چلنے کو اور «ايجاف» گھوڑے کے تیز چلنے کو کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1934]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ حوالہ اوپر دیکھئے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1928 سے 1930)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادیٔ محسر میں اس وجہ سے تیزی سے گزرے کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں الله تعالیٰ نے ابرہہ اور اس کی فوج اصحابِ فیل کو ابابیل کے ذریعہ مار کر بھس بنا دیا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
56. باب في الْمُحْصَرِ بِعَدُوٍّ:
56. جو شخص دشمن یا بیماری کے سبب حج سے روک دیا جائے وہ کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1931
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، عن عبيد الله، عن نافع، ان عبد الله بن عبد الله، وسالما كلما ابن عمر ليالي نزل الحجاج بابن الزبير، قبل ان يقتل، فقالا: لا يضرك ان لا تحج العام، نخاف ان يحال بينك وبين البيت. فقال:"قد خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم معتمرين، فحال كفار قريش دون البيت، فنحر رسول الله صلى الله عليه وسلم هديه، وحلق راسه، ثم رجع، فاشهدكم اني قد اوجبت عمرة، فإن خلي بيني وبين البيت، طفت، وإن حيل بيني وبينه، فعلت كما كان فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه، فاهل بالعمرة من ذي الحليفة، ثم سار، فقال: إنما شانهما واحد، اشهدكم اني قد اوجبت حجا مع عمرتي. قال نافع: فطاف لهما طوافا واحدا، وسعى لهما سعيا واحدا، ثم لم يحل حتى جاء يوم النحر فاهدى، وكان يقول: من جمع العمرة والحج فاهل بهما جميعا، فلا يحل حتى يحل منهما جميعا يوم النحر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَالِمًا كَلَّمَا ابْنَ عُمَرَ لَيَالِيَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، قَبْلَ أَنْ يُقْتَلَ، فَقَالَا: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَحُجَّ الْعَامَ، نَخَافُ أَنْ يُحَالَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْبَيْتِ. فَقَالَ:"قَدْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَمِرِينَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ، فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، فَإِنْ خُلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ، طُفْتُ، وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَعَلْتُ كَمَا كَانَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ سَارَ، فَقَالَ: إِنَّمَا شَأْنُهُمَا وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي. قَالَ نَافِعٌ: فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا، وَسَعَى لَهُمَا سَعْيًا وَاحِدًا، ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى جَاءَ يَوْمَ النَّحْرِ فَأَهْدَى، وَكَانَ يَقُولُ: مَنْ جَمَعَ الْعُمْرَةَ وَالْحَجَّ فَأَهَلَّ بِهُمَا جَمِيعًا، فَلَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا يَوْمَ النَّحْرِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے عبداللہ اور سالم نے اپنے والد سے ان دنوں میں لڑائی سے پہلے گفتگو کی جب کہ حجاج سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں اتر پڑا تھا، ان دونوں (بیٹوں) نے کہا: اس سال آپ حج نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ہے، ہم کو ڈر ہے کہ آپ اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ نہ ڈال دی جائے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عمرے کی غرض سے نکلے، کفار قریش ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ بن گئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنے اونٹ کو ذبح کیا اور سر منڈایا پھر وہاں سے واپس ہو لئے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرے کا عزم کر چکا ہوں، اگر میرے اور خانہ کعبہ کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو میں طواف کعبہ کر لوں گا، اور اگر رکاوٹ ڈالی گئی تو ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور میں آپ کے ساتھ تھا، پس انہوں نے (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے) ذوالحلیفہ سے عمرے کا احرام باندھا پھر روانہ ہوئے تو کہا: حج و عمرہ کی بات ایک ہی ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ حج کو واجب کرلیا ہے (یعنی حج قران کی نیت کر لی ہے)، نافع نے کہا: پھر انہوں نے ایک طواف اور حج و عمرے کی ایک سعی کی اور قربانی کے دن تک احرام نہیں کھولا، اور وہ کہا کرتے تھے (یعنی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما) جو شخص عمرے اور حج کو ملا کر دونوں کے لئے احرام باندھے تو وہ قربانی کے دن تک اس وقت تک حلال نہ ہو گا جب تک کہ ان دونوں سے حلال نہ ہو جائے (یعنی حج و عمرے سے جب تک فارغ نہ ہو احرام نہ کھولے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1935]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1639، 1640]، [مسلم 1230]، [أبويعلی 5500]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1930)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام باندھنے کے بعد اگر کوئی شرعی عارضہ پیش آجائے تو احرام کھولا جا سکتا ہے، اور اس کی قضا واجب ہے، اس حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا تمسک بالسنۃ کا بہترین نمونہ ہے، جب ان کے فرزندان نے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انہیں روکنا چاہا اور کہا کہ ہمیں ڈر ہے آپ کو حج بیت اللہ سے روک نہ دیا جائے تو اتباعِ سنّت میں ڈوبے لہجے میں فرمایا: اگر مجھے اس سے روکا گیا تو وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.