الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نذر اور قسم کے مسائل
7. باب الاِسْتِثْنَاءِ في الْيَمِينِ:
7. قسم کھاتے وقت ان شاء اللہ کہنے کا بیان
حدیث نمبر: 2379
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا حماد بن سلمة، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "من حلف على يمين، ثم قال: إن شاء الله، فقد استثنى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَدِ اسْتَثْنَى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی قسم کھائے پھر ان شاء اللہ کہہ لے تو اس نے استثناء کر لیا۔ (یعنی اب اگر قسم پوری نہ کرے تو بھی اس پر کفارہ لازم و واجب نہ ہوگا۔)

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2387]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1531]، [نسائي 3802]، [ابن ماجه 2106]، [ابن حبان 4339]، [موارد الظمآن 1183]، [الحميدي 707]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2380
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا ايوب، عن نافع، عن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "من حلف على يمين، ثم قال: إن شاء الله، فهو بالخيار: إن شاء فعل، وإن شاء لم يفعل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَهُوَ بِالْخِيَارِ: إِنْ شَاءَ فَعَلَ، وَإِنْ شَاءَ لَمْ يَفْعَلْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کام پر قسم کھائے اور ساتھ ہی ان شاء الله بھی کہے تو اس کو اختیار ہے چاہے تو قسم پوری کرے اور چاہے تو پوری نہ کرے (یعنی قسم توڑ دے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2388]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج پیچھے گزر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [ابن حبان 4342]، [موارد الظمآن 1184]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2378 سے 2380)
اس حدیث کی رو سے قسم کھانے والا ساتھ ہی اگر ان شاء اللہ کہہ دے تو ایسی قسم توڑ دینے پر کفارہ نہیں ہوگا، کیونکہ قسم کو جب مشیت الٰہی سے مقید کر دیا جائے تو وہ قسم بالاتفاق منعقد نہیں ہوتی، لہٰذا جب منعقد ہی نہیں ہوئی تو پھر اس کے توڑنے پر کفارہ کا کیا سوال۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: اللہ کی قسم! میں قریش سے جہاد کروں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہا نہیں کیا حالانکہ قسم کا تقاضہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور جہاد کریں، کیونکہ ان شاء اللہ کہہ دیا تھا اس لئے جہاد نہیں کیا، اور کفار بھی نہیں دیا، اگر کفارے سے بچنا ہو تو قسم کے ساتھ ہی ان شاء اللہ کہنا چاہئے۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر کچھ دیر کے بعد ان شاء اللہ کہا تو اختیار نہیں ہوگا اور قسم توڑنے پر کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
8. باب الْقَسَمُ يَمِينٌ:
8. قسم کا لفظ یمین میں داخل ہے
حدیث نمبر: 2381
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال لابي بكر:"لا تقسم". قال ابو محمد: الحديث فيه طول.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ:"لَا تُقْسِمْ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: الْحَدِيثُ فِيهِ طُولٌ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: قسم مت کھاؤ۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ لمبی حدیث ہے۔
اس کا ذکر حدیث نمبر (2193) پر گذر چکا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2389]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7046]، [مسلم 2269]، [أبوداؤد 3267]، [ابن ماجه 3918، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2380)
قسم کا ایک تو یہ طریقہ ہے: کوئی کہے: واللہ تم نے ایسا کہا، یا تاللہ، اور برب الکعبہ، یہ اور اس طرح کے دیگر الفاظ ہیں، ان میں قسم کا لفظ نہیں ہے لیکن پھر بھی قسم منعقد ہو جاتی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی کہے: «أقسمت باللّٰه» یا جیسے قرآن پاک میں ہے: « ﴿لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ﴾ وغيرها» یعنی کوئی یوں کہے: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں ...... تو اس طرح بھی قسم منعقد ہو جائے گی اور قسم کھانے والے کو پوری کرنی ہوگی، یا پھر کفارہ ادا کرنا ہوگا۔
مذکورہ بالا حدیث پیچھے گذر چکی ہے لیکن امام دارمی رحمہ اللہ نے قسم کا لفظ اس میں ذکر نہیں کیا ہے، بخاری وغیرہ میں ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خواب کی تعبیر بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ تم نے صحیح بتایا اور کچھ غلط ہے، اس وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: «أقسمت عليك يا رسول اللّٰه .....» اے اللہ کے رسول! میں آپ کو قسم دیتا ہوں، میں نے کیا غلطی کی۔
اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تقسم» قسم مت کھاؤ۔
یہی محل شاہد ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ قسم کا لفظ استعمال کرنے سے قسم منعقد ہو جاتی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
9. باب مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْراً مِنْهَا:
9. کوئی آدمی قسم کھائے اور پھر وہی کام اسے بہتر لگے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 2382
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن عمرو هو: ابن مرة، قال: سمعت رجلا يقال له: عبد الله بن عمرو زمن الجماجم يحدث، قال: سال رجل عدي بن حاتم، فحلف ان لا يعطيه شيئا، ثم قال: لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "من حلف على يمين، فراى غيرها خيرا منها، فليات الذي هو خير، وليكفر عن يمينه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو هُوَ: ابْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو زَمَنَ الْجَمَاجِمِ يُحَدِّثُ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يُعْطِيَهُ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ".
عبداللہ بن عمرو نے معرکہ جماجم کے دوران حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: ایک آدمی نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مدد مانگی تو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ اس کو کچھ نہیں دیں گے، پھر کہا: کاش میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: کوئی آدمی قسم کھا لے کسی چیز پر پھر اس کے غیر میں بھلائی سمجھے تو پہلے جو کام بہتر ہے اس کو کرے پھر اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔

تخریج الحدیث: «الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2390]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1651]، [نسائي 3794]، [ابن حبان 4346]، [بخاري فى الكبير 151/5]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2381)
یعنی قسم کھائی کہ: اللہ کی قسم! اس شخص کی مدد نہ کرونگا، پھر خیال آیا کہ مدد کرنا اچھا ہے، تو اس آدمی کی پہلے مدد کرے یعنی قسم توڑ دے اور پھر اس قسم کا کفارہ ادا کرے۔
یعنی پہلے قسم توڑ دے پھر کفارہ دے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث صحيح
حدیث نمبر: 2383
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن الفضل، حدثنا جرير بن حازم، حدثنا الحسن، حدثنا عبد الرحمن بن سمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا عبد الرحمن بن سمرة، لا تسال الإمارة فإنك إن اعطيتها عن مسالة، وكلت إليها، وإن اعطيتها عن غير مسالة، اعنت عليها. فإذا حلفت على يمين فرايت غيرها خيرا منها، فكفر عن يمينك وات الذي هو خير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ، وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ، أُعِنْتَ عَلَيْهَا. فَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ".
سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! حکومت (امیری یا گورنری) طلب نہ کرنا کیونکہ اگر تم کو مانگنے پر امیری ملی تو تم اس کے حوالے کر دیئے جاؤ گے اور اگر تم کو بنا مانگے امیری ملی تو اس میں (الله کی طرف سے) تمہاری مدد کی جائے گی، اور اگر تم کسی بات پر قسم کھا لو اور پھر اسکے سوا دوسری چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دو پھر وہ کام کرو جس میں بھلائی ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري في الأحكام، [مكتبه الشامله نمبر: 2391]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7146، 7147]، [مسلم 1652]، [أبوداؤد 3277]، [ترمذي 1529]، [نسائي 3792]، [ابن الجارود 929] و [ابن حبان 4248]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأخرجه البخاري في الأحكام
حدیث نمبر: 2384
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا محمد بن يوسف , سفيان، عن يونس، عن الحسن، عن عبد الرحمن بن سمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:....... فذكر نحو الحديث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , سُفْيَانُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:....... فَذَكَرَ نَحْوَ الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2392]»
ترجمہ و تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2382 سے 2384)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی عہدے کے لئے کوشش کرنا یا اسے طلب کرنا درست نہیں، اور اگر بنا مانگے اور کنونس کے بغیر کوئی عہدہ مل جائے تو پھر الله تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کھانے کے بعد کوئی چیز اچھی معلوم ہو تو قسم توڑ دینی چاہئے اور اس کا کفارہ ادا کر دینا چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں قول و فعل دونوں مروی ہیں۔
پہلی حدیث میں کفارہ بعد میں ادا کرنے کا حکم ہے، اور دوسری حدیث میں ہے کہ پہلے کفارہ ادا کرے پھر وہ بھلائی کا کام کرے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ نہیں، لیکن یہ حدیث ان کے مخالف ہے، گرچہ بخاری میں ایسے ہی ہے کہ کام کرے پھر کفارہ دے، لیکن سند سے امام دارمی رحمہ اللہ کی روایت کی تائید ہوتی ہے، اس لئے پہلے یا بعد میں کبھی بھی کفارہ ادا کرنا جائز ہے۔
واللہ اعلم۔
قسم کا کفارہ وہی ہے جو قرآن پاک میں مذکور ہے: « ﴿فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ﴾ [المائده: 89] » دس مسکین کو کھانا کھلانا، یا لباس دینا، یا غلام آزاد کرنا، اگر یہ نہ ہو سکے تو تین دن کے روزے رکھنا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه وهو مكرر سابقه
10. باب إِذَا كَانَ عَلَى الرَّجُلِ رَقَبَةٌ مُؤْمِنَةٌ:
10. آدمی کے ذمے گردن آزاد کرنا ہو اس کا بیان
حدیث نمبر: 2385
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا حماد بن سلمة، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن الشريد، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن على امي رقبة، وإن عندي جارية سوداء نوبية، افتجزئ عنها؟. قال:"ادع بها"، فقال: "اتشهدين ان لا إله إلا الله؟"، قالت: نعم. قال:"اعتقها، فإنها مؤمنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ الشَّرِيدِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ عَلَى أُمِّي رَقَبَةً، وَإِنَّ عِنْدِي جَارِيَةً سَوْدَاءَ نُوبِيَّةً، أَفَتُجْزِئُ عَنْهَا؟. قَالَ:"ادْعُ بِهَا"، فَقَالَ: "أَتَشْهَدِينَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟"، قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ:"أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ".
سیدنا شرید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ (صاحبہ) کے ذمے ایک گردن آزاد کرنے کا کفارہ ہے اور میرے پاس ایک کالی حبشی لونڈی ہے، کیا وہ کافی ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو بلا کر لاؤ، جب وہ آ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیاتم «لا إله إلا اللّٰھ» کی گواہی دیتی ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں، فرمایا: جاؤ اسے آزاد کر دو یہ مومنہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو، [مكتبه الشامله نمبر: 2393]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 189]، [موارد الظمآن 1207]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2384)
قسم کے کفارہ میں ایک گردن آزاد کرنے کا حکم ہے اور غلام ہو یا لونڈی، اسی طرح قتلِ خطا میں بھی دیت کے ساتھ ایک گردن آزاد کرنے کا حکم ہے، اور وہاں رقبہ مومنہ کی قید لگائی گئی ہے (سورۂ النساء 92)، یہاں اس حدیث میں بھی رقبہ مومنہ کو آزاد کرنے کا حکم ہے، نیز حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد عورت کے بدلے، یا عورت مرد کے بدلے اگر مسلمان ہیں تو آزاد کئے جا سکتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو
11. باب الرَّجُلِ يَحْلِفُ عَلَى الشَّيْءِ وَهُوَ يُوَرِّي عَلَى يَمِينِهِ:
11. کوئی آدمی قسم میں توریہ کرے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2386
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا هشيم، اخبرنا عبد الله بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يمينك على ما يصد قك به صاحبك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَمِينُكَ عَلَى مَا يُصَدَّ قُكَ بِهِ صَاحِبُكَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری قسم اسی مطلب پر ہوگی جس پر تمہارا صاحب (ساتھی) تمہیں سچا سمجھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح هشيم صرح بالتحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 2394]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1653]، [أبوداؤد 3255]، [ترمذي 1354]، [أحمد 228/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2385)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب قاضی یا کوئی کسی شخص کو قسم دے، اور وہ مکاری سے اپنے تئیں گناہ سے بچنے کے لئے قسم کھائے، اور اس کا مقصد دوسرا رکھے، تو یہ مکر اور توریہ اس کو فائدہ نہ دے گا، اور قسم کا گناہ اس پر پڑے گا، اس پر اجماع ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح هشيم صرح بالتحديث
12. باب بِأَيِّ أَسْمَاءِ اللَّهِ حَلَفْتَ لَزِمَكَ:
12. اللہ تعالیٰ کے جس نام سے بھی قسم کھائی جائے وہ لازم ہو جائے گی
حدیث نمبر: 2387
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن سفيان، عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن ابن عمر، قال: كانت يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم التي يحلف بها "لا ومقلب القلوب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ يَمِينُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي يَحْلِفُ بِهَا "لَا وَمُقَلِّبِ الْقُلُوبِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اس طرح ہوتی تھی: «لَا وَمُقَلِّبِ الْقُلُوْبِ» نہیں دلوں کے پھیرنے والے کی قسم «وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ» ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري في القدر، [مكتبه الشامله نمبر: 2395]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6617]، [أبوداؤد 3763]، [ترمذي 1540]، [نسائي 3770]، [أبويعلی 5442]، [ابن حبان 4332]۔ بعض نسخوں میں «وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ» مذکور نہیں ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2386)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا انداز و طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جو گفتگو یا بات ہو رہی ہوتی تھی، اگر درست نہ ہوتی تو پہلے حرف «لا» سے اس کی تردید فرماتے، پھر اللہ کے صفاتی نام سے قسم کھاتے، «مقلب القلوب» دلوں کے پھیرنے والا یہ اللہ کا صفاتی نام ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ کے اسمِ ذاتی سے قسم ہوتی ہے اس طرح اسماءِ صفاتیہ سے بھی قسم کھانا جائز ہے، خواہ اس صفت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہو، جیسے علم و قدرت وغیرہ یا صفتِ فعلی ہو جیسے قہر اور غلبہ وغیرہ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأخرجه البخاري في القدر

Previous    1    2    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.