الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
طلاق کے مسائل
حدیث نمبر: 2329
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد بن عبد الله، عن خالد يعني الحذاء عن عكرمة، عن ابن عباس: ان زوج بريرة كان عبدا يقال له: مغيث، كاني انظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للعباس:"يا عباس، الا تعجب من شدة حب مغيث بريرة، ومن شدة بغض بريرة مغيثا؟"فقال لها:"لو راجعتيه فإنه ابو ولدك"، فقالت: يا رسول الله اتامرني؟ قال:"إنما انا شافع"، قالت: لا حاجة لي فيه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ يَعْنِي الْحَذَّاءَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ:"يَا عَبَّاسُ، أَلَا تَعْجَبُ مِنْ شِدَّةِ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ، وَمِنْ شِدَّةِ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا؟"فَقَالَ لَهَا:"لَوْ رَاجَعْتِيهِ فَإِنَّهُ أَبُو وَلَدِكِ"، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْمُرُنِي؟ قَال:"إِنَّمَا أَنَا شَافِعٌ"، قَالَتْ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے جن کا نام مغیث تھا، گویا کہ میں اسے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے آگے پیچھے طواف کرتے دیکھ رہا ہوں اور آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عباس! دیکھو تو کیا تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ مغیث کو بریرہ سے کتنی زیادہ محبت ہے اور بریرہ کو مغیث سے اتنی ہی زیادہ نفرت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہا: تم اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کر لو کیونکہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے۔ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ فرمایا: نہیں، میں سفارش کر رہا ہوں، سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تب پھر (مجھے اس میں نظرِ ثانی کی ضرورت نہیں ہے اور) مجھے مغیث نہیں چاہیے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2338]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5283]، [أبوداؤد 2231]، [نسائي 5432]، [ابن ماجه 2075]، [ابن حبان 4270]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2327 سے 2329)
ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوا کہ لونڈی کا شوہر اگر غلام ہے تو آزاد ہونے کے بعد اس کو اختیار ہے چاہے تو شوہر کے پاس رہے اور چاہے تو جدائی اختیار کرے، یہاں سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی سمجھداری اور ہوشمندی بھی سامنے آئی، پوچھا اگر آپ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر، اور اسی طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی اور بیانِ شریعت میں قلبی جذبہ اور رجحان سے دوری بھی سامنے آئی، جب فرمایا کہ نہیں، شریعت کی رو سے تو تمہیں اختیار ہے لیکن میری سفارش ہے کہ تم مغیث کو مایوس نہ کرو۔
«فداه أبى وأمي وصلى اللّٰه على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ومن تبعهم باحسان إلى يوم الدين.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
16. باب في تَخْيِيرِ الصَّبِيِّ بَيْنَ أَبَوَيْهِ:
16. بچے کو والدین میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2330
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، حدثنا ابن جريج، قال: اخبرني زياد بن سعد، عن هلال بن اسامة، عن ابي ميمونة سليمان مولى لاهل المدينة، قال: كنت عند ابي هريرة فجاءته امراة، فقالت: إن زوجي يريد ان يذهب بولدي، فقال ابو هريرة: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاءته امراة، فقالت: إن زوجي يريد ان يذهب بولدي او بابني وقد نفعني وسقاني من بئر ابي عنبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: استهما او قال: تساهما ابو عاصم الشاك، فجاء زوجها، فقال: من يخاصمني في ولدي او في ابني؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا غلام، هذا ابوك وهذه امك، فخذ بيد ايهما شئت". وقد قال ابو عاصم:"فاتبع ايهما شئت"، فاخذ بيد امه فانطلقت به.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ سُلَيْمَانَ مَوْلًى لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِوَلَدِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِوَلَدِي أَوْ بِابْنِي وَقَدْ نَفَعَنِي وَسَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَهِمَا أَوْ قَالَ: تَسَاهَمَا أَبُو عَاصِمٍ الشَّاكُّ، فَجَاءَ زَوْجُهَا، فَقَالَ: مَنْ يُخَاصِمُنِي فِي وَلَدِي أَوْ فِي ابْنِي؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا غُلَامُ، هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ، فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ". وَقَدْ قَالَ أَبُو عَاصِمٍ:"فَاتْبَعْ أَيَّهُمَا شِئْتَ"، فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ فَانْطَلَقَتْ بِهِ.
ابومیمونہ سلیمان اہلِ مدینہ کے غلام سے مروی ہے کہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک عورت آئی، عرض کیا کہ میرا شوہر میرے بچے کو لے جانا چاہتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میرا شوہر اپنی اولاد یا میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے جو میری خدمت کرتا اور میرے لئے ابوعنبہ کے کنویں سے پانی لاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں قرعہ ڈال لو، «استهما» کہا یا «تساهما» کہا، ابوعاصم کو اس میں شک ہے (معنی دونوں لفظ کے ایک ہیں)۔ پھر اس عورت کا شوہر آیا اور کہنے لگا: میری اولاد کے بارے میں یا میرے بیٹے کے بارے میں کون مجھ سے جھگڑا کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بچے سے) کہا: بیٹے یہ تمہارے باپ ہیں اور یہ تمہاری ماں ہیں، تم جس کے پاس رہنا چاہو اس کا ہاتھ تھام لو۔
اور عاصم نے کہا: ان دونوں میں جس کے ساتھ چاہو چلے جاؤ، چنانچہ اس لڑکے نے اپنی والدہ کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اسے لے کر چلی گئیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2339]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2277]، [نسائي 3496]، [ترمذي 1357]، [ابن ماجه 2351]، [أبويعلی 6131]، [موارد الظمآن 1200]، [الحميدي 1114]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2329)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں اگر جدائی ہو جائے تو بچے کو اختیار ہوگا ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک کم سن بچہ ماں کے پاس رہے گا اور جب کھانے پینے اور خود استنجا کرنے لگے تو پھر باپ کے پاس رہے گا، یعنی اس کو اختیار نہیں۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر میاں بیوی میں بچوں کے بارے میں جھگڑا ہو تو قرعہ اندازی کر لی جائے گی، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا بچے اس کے پاس ہی رہیں گے لیکن اختیار دینا اولی ہے، اکثر احادیث اسی پر دلالت کرتی ہیں۔
عربی میں اس کو حق حضانہ کہا جاتا ہے۔
سعودی عدالت میں یہ قانون ہے کہ میاں بیوی میں جدائی ہو جائے تو کمسن بچے بچی کو سن تمیز یعنی سات سال تک ماں کے پاس رکھا جائے گا کہ وہ عورت دوسرا نکاح نہ کر لے، دوسرا نکاح کرنے کی صورت میں وہ بچہ یا بچی باپ کی طرف منتقل ہو جائے گی۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
17. باب في طَلاَقِ الأَمَةِ:
17. لونڈی کی طلاق کا بیان
حدیث نمبر: 2331
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، اخبرنا ابن جريج، اخبرني مظاهر وهو ابن اسلم، انه سمع القاسم بن محمد، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "للامة تطليقتان وقرؤها حيضتان". قال ابو عاصم: سمعته من مظاهر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي مُظَاهِرٌ وَهُوَ ابْنُ أَسْلَمَ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لِلْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ وَقُرْؤُهَا حَيْضَتَانِ". قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ مُظَاهِرٍ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لونڈی کی دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہے، ابوعاصم نے کہا: یہ میں نے مظاہر بن اسلم سے سنا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف مظاهر بن أسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2340]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، دیگر اسانید سے بھی مروی ہے لیکن سب ضعیف ہیں، اس حدیث میں مظاہر بن اسلم ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2189]، [ترمذي 1183]، [ابن ماجه 2080]، [الحاكم 205/2]، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 14884] و [الدارقطني 38/4]۔ یہ حدیث مظاہر اور عطیہ العوفی نیز عمر بن شبیب کے طریق سے مروی ہے، اور تینوں ضعیف ہیں اس لئے یہ حدیث قابلِ حجت نہیں۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2330)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لونڈی کو صرف دو بار طلاق دی جا سکتی ہے اگر اس کا شوہر بھی غلام ہو، اور اس کی عدت بھی دو حیض ہوگی۔
لیکن حدیث ضعیف ہونے کے سبب یہ مفہوم غلط ہے۔
صحیح یہ ہے کہ طلاق اور عدت میں آزاد اور لونڈی دونوں برابر ہیں کیونکہ: « ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ [البقرة: 229] » اور « ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾ [البقرة: 228] » سب کے لیے عام ہے۔
اہلِ حدیث کا یہی مسلک ہے اور یہی صحیح ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس ضعیف حدیث سے استدلال کر کے کہا کہ لونڈی کی طلاق دو اور عدت بھی دو حیض ہے۔
یہ روایت دارقطنی وغیرہ میں بھی ہے لیکن اس کی سند میں عمر بن شبیب اور عطیہ دونوں ضعیف ہیں، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا: صحیح یہ ہے کہ یہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے جو موقوف ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف مظاهر بن أسلم
18. باب في اسْتِبْرَاءِ الأَمَةِ:
18. لونڈی کے رحم کی صفائی کا بیان
حدیث نمبر: 2332
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا شريك، عن قيس بن وهب، عن ابي الوداك، عن ابي سعيد ورفعه انه قال في سبايا اوطاس: "لا توطا حامل حتى تضع حملها، ولا غير ذات حمل حتى تحيض حيضة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ قَيْسِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَرَفَعَهُ أَنَّهُ قَالَ فِي سَبَايَا أَوْطَاسٍ: "لَا تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّى تَضَعَ حَمْلَهَا، وَلَا غَيْرُ ذَاتِ حَمْلٍ حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوطاس کے قیدیوں کے حق میں فرمایا: کسی بھی حاملہ عورت سے صحبت نہ کی جائے جب تک کہ وہ وضع حمل نہ کرے (یعنی بچہ پیدا ہونے کے بعد اس سے طہر میں صحبت کی جائے) اور نہ کسی غیر حاملہ عورت سے صحبت کی جائے جب تک کہ اس کو ایک حیض نہ آ جائے (تاکہ معلوم ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2341]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1456]، [أبوداؤد 2157]، [أبويعلی 1148]، [الحاكم 195/2]، [شرح السنة للبغوي 2394]۔ نیز دیکھئے: [تلخيص الحبير 171/1]، [نصب الراية 233/3]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2331)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہادِ اسلامی میں حاصل شدہ قیدی شادی شدہ عورتیں تقسیم کے بعد حلال ہو جاتی ہیں، لیکن ان سے جماع کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ اگر وہ حامل ہوں تو وضع حمل کا انتظار کیا جائے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ غیر کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے۔
اس کو ابوداؤد و ترمذی نے روایت کیا اور ابن حبان نے صحیح کہا، اور بزار نے حسن کہا ہے۔
لہٰذا حاملہ لونڈی سے جماع کرنا جائز نہیں۔
اور اگر جنگ کی قیدی عورت حاملہ نہ ہو تب بھی ایک حیض کے آنے تک انتظار کرنا ہوگا تاکہ معلوم ہو جائے کہ وہ حاملہ تو نہیں ہے، اور یہ اسلام کے اہم قواعد و ضوابط میں سے ہے، اور اس میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ شادی شدہ عورت کے رحم اور نالیوں کی صفائی ہو جائے اور ایک دوسرے کے جراثیم خلط ملط ہو کر مہلک بیماریوں کا سبب نہ بنیں۔
«(سبحان من شرع الأحكام)»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

Previous    1    2    3    4    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.