الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
طلاق کے مسائل
حدیث نمبر: 2319
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود: ان سبيعة وضعت بعد وفاة زوجها بايام فتشوفت، فعاب ابو السنابل، فسالت او ذكرت امرها لرسول الله صلى الله عليه وسلم "فامرها ان تتزوج".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ: أَنَّ سُبَيْعَةَ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِأَيَّامٍ فَتَشَوَّفَتْ، فَعَابَ أَبُو السَّنَابِلِ، فَسَأَلَتْ أَوْ ذَكَرَتْ أَمْرَهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ".
اسود سے مروی ہے کہ سیدہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ دن بعد وضع حمل کیا (بچہ پیدا ہوا) اور اس نے زیب وزینت اختیار کی، ابوالسنابل نے اس پر انہیں عیب لگایا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکاح کرنے کا حکم فرمایا۔ (یعنی عدت ختم ہو جانے کی تصدیق کی اور آرائش و نکاح کی اجازت دیدی۔)

تخریج الحدیث: «حديث صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2328]»
اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2316 سے 2319)
یہ تمام روایات اس باب کی پہلی حدیث کا اختصار ہیں، مطلب سب کا وہی ہے کہ ایسی عورت جو حاملہ ہو اور اس کا شوہر انتقال کر جائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضعِ حمل اس کی عدت ہوگی چاہے کم ہو یا زیادہ۔
سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم ابعد الاجلین کے قائل تھے، لیکن ان کا اس سے رجوع کرنا ثابت ہے، لہٰذا « ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ » پر عمل ہوگا اور یہی صحیح مسلک ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث صحيح وهو مكرر سابقه
12. باب في إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ:
12. عورت کا اپنے شوہر کی وفات پر سوگ منانے کا بیان
حدیث نمبر: 2320
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، اخبرنا سليمان بن كثير، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر او تؤمن بالله ان تحد على احد فوق ثلاثة ايام، إلا على زوجها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَوْ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ أَنْ تَحِدَّ عَلَى أَحَدٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی عزیز کا سوگ منائے سوائے اپنے شوہر کے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2329]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1491]، [ابن ماجه 2085]، [أبويعلی 4424]، [ابن حبان 4201]، [الحميدي 229]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2321
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن حميد بن نافع، قال: سمعت زينب بنت ابي سلمة تحدث، عن ام حبيبة بنت ابي سفيان: ان اخا لها مات او حميما لها فعمدت إلى صفرة فجعلت تمسح يديها، وقالت: إنما افعل هذا لان النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تحد فوق ثلاث إلا على زوجها، فإنها تحد اربعة اشهر وعشرا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ تُحَدِّثُ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ: أَنَّ أَخًا لَهَا مَاتَ أَوْ حَمِيمًا لَهَا فَعَمَدَتْ إِلَى صُفْرَةٍ فَجَعَلَتْ تَمْسَحُ يَدَيْهَا، وَقَالَتْ: إِنَّمَا أَفْعَلُ هَذَا لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تَحُدَّ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا، فَإِنَّهَا تَحُدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
زینب بنت ابی سلمہ بیان کرتی ہیں کہ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کا بھائی یا اور کوئی رشتے دار فوت ہو گیا تو (تیسرے دن کما فی البخاری) انہوں نے صفره (خوشبو) منگا کر اپنے ہاتھ (اور گالوں) پر لگایا اور کہا: یہ میں نے اس لئے کیا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ شوہر کے سوا کسی اور پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2330]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1280، 1281]، [مسلم 1486]، [أبوداؤد 2290]، [ترمذي 1197، 1995]، [نسائي 3500]، [أبويعلی 6961]، [ابن حبان 4304]، [الحميدي 308]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2322
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، اخبرنا شعبة، عن حميد بن نافع، قال: سمعت زينب بنت ام سلمة تحدث عن امها او امراة من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ تُحَدِّثُ عَنْ أُمِّهَا أَوْ امْرَأَةٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا روایت کی طرح مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2331]»
ترجمہ و تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2319 سے 2322)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ کسی بھی میت کا سوگ منانا حرام ہے سوائے عورت کے کہ وہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن تک سوگ کی حالت میں رہے گی، اور اس میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں، اس سے شوہر کے ساتھ وفاداری کا پتہ چلتا ہے، میراث وغیرہ کی تقسیم اتنی مدت میں ہو سکتی ہے، استبراء رحم بھی ایک حکمت ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے سوگ منانے کی اجازت ثابت ہوئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی روئے، پیٹے، یا کسی بھی طرح کے غیر اسلامی امور کا ارتکاب کرے، جیسے بال کٹا دینا، چوڑیاں توڑ دینا، چیخیں مارنا، بین کرنا، یہ سب غیر اسلامی امور ہیں، عدت میں سوگ منانے کا مطلب یہ ہے کہ عورت شوہر کے گھر سے نہ نکلے، چمکیلے بھڑکیلے کپڑے نہ پہنے، زیورات نہ پہنے، سرمہ نہ لگائے، خوشبو لگانے سے پرہیز کرے، اور عدت کے ایام میں شادی کرنا بھی ممنوع ہے جیسا کہ اگلے باب میں تفصیل آ رہی ہے۔
نیز ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بھی تین دن سے زیادہ سوگ منائے اس کا ایمان الله اور آخرت پر نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
13. باب النَّهْيِ لِلْمَرْأَةِ عَنِ الزِّينَةِ في الْعِدَّةِ:
13. عدت کے دوران عورت کا زیب و زینت سے بچنے کا بیان
حدیث نمبر: 2323
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا زائدة، عن هشام بن حسان، عن حفصة بنت سيرين، عن ام عطية، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "لا تحد المراة فوق ثلاثة ايام إلا على زوج، فإنها تحد عليه اربعة اشهر وعشرا: لا تلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب، ولا تكتحل، ولا تمس طيبا إلا في ادنى طهرها إذا اغتسلت من محيضها: نبذة من كست واظفار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَا تَحِدُّ الْمَرْأَةُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تَحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا: لَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَلَا تَكْتَحِلُ، وَلَا تَمَسُّ طِيبًا إِلَّا فِي أَدْنَى طُهْرِهَا إِذَا اغْتَسَلَتْ مِنْ مَحِيضِهَا: نُبْذَةً مِنْ كُسْتٍ وَأَظْفَارٍ".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت شوہر کے علاوہ کسی بھی قیمت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے، وہ شوہر پر چار ماہ دس دن تک سوگ میں رہے گی اور (اس دوران) میں نہ وہ رنگین کپڑا پہنے گی، یمنی چادر کے علاوہ، نہ سرمہ لگائے گی اور نہ خوشبو استعمال کرے گی، یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو جائے، جب غسل کر لے تو مقامِ مخصوص پر کست و اظفار لگا سکتی ہے۔

تخریج الحدیث: «هذا حديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2332]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 313، 5242]، [مسلم 938]، [ابن حبان 4305]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2322)
«ثَوْبَ عَصْبٍ» سے مراد یمنی چادر ہے جو رنگین ہوتی تھی، اس کو سوگ والی عورت پہن سکتی ہے۔
«كست» اور بعض روایات میں «قسط» ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہے اور یہ خوشبودار لکڑی ہوتی ہے جس سے دھونی لی جاتی ہے۔
غالباً عود کی لکڑی ہے جو ہندوستان سے عرب لائی جاتی تھی، «اظفار» خوشبو کی ایک قسم ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس خوشبو کے استعمال کی رخصت ایامِ حیض کے بعد غسل کرنے والی عورت کے لئے ہے تاکہ مکروہ مہک کا ازالہ ہو سکے، اس کا استعمال خوشبو کے لئے نہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا خاوند انتقال کر جائے اس کو عدت کے دوران اچھے کپڑے پہننے، سرما لگانے، خوشبو استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔
وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اور یہ سب بہت سے مصالح کے پیشِ نظر ہے۔
اسلام نے عورت کے ساتھ بہت نرمی برتی ہے، دورِ جاہلیت میں کسی عورت کا شوہر فوت ہو جاتا تو اسے ایک الگ کوٹھری میں بند کر دیا جاتا، وہ مینگنیاں جھاڑتی، پھینکنی اور گندے کپڑوں میں بہت بری حالت میں ایک سال رہتی تھی، جیسا کہ احادیثِ صحیحہ میں اس کا تذکرہ ہے، لہٰذا عورت کو صبر سے کام لے کر اسلام کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: هذا حديث متفق عليه
14. باب في خُرُوجِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا:
14. «متوفى عنها زوجها» کا عدت کے دوران گھر سے نکلنے کا بیان
حدیث نمبر: 2324
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة، عن عمته زينب بنت كعب بن عجرة: ان الفريعة بنت مالك اخبرتها انها سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ياذن لها ان ترجع إلى اهلها، فإن زوجي قد خرج في طلب اعبد له ابقوا، فادركهم حتى إذا كان بطرف القدوم، قتلوه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب اجله"، فقلت: إنه لم يدعني في بيت املكه، ولا نفقة، فقال:"امكثي حتى يبلغ الكتاب اجله"، فاعتدت فيه اربعة اشهر وعشرا، قالت: فلما كان عثمان: ارسل إلي فسالني عن ذلك فاخبرته، فاتبع ذلك وقضى به.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ: أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكٍ أَخْبَرَتْهَا أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْذَنَ لَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا، فَإِنَّ زَوْجِي قَدْ خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا، فَأَدْرَكَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ، قَتَلُوهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ"، فَقُلْتُ: إِنَّهُ لَمْ يَدَعْنِي فِي بَيْتٍ أَمْلِكُهُ، وَلَا نَفَقَةٍ، فَقَالَ:"امْكُثِي حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ"، فَاعْتَدَّتْ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ: أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَاتَّبَعَ ذَلِكَ وَقَضَى بِهِ.
زینب بنت کعب بن عجرہ سے مروی ہے کہ سیدہ فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ انہیں اپنے میکے لوٹ جانے کی اجازت دے دیں کیونکہ میرے شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلے تھے اور انہیں پکڑ بھی لیا لیکن قدوم (مدینہ کے پاس ایک جگہ کا نام) کے پاس ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے گھر میں ہی اس وقت تک رہو جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے، میں نے عرض کیا کہ شوہر نے میری ملکیت میں کچھ نہیں چھوڑا، نہ مکان، نہ نان نفقہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ بھی ہو وہیں رہو جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے۔ چنانچہ میں نے اسی جگہ چار ماہ دس دن عدت گذاری، پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو میرے پاس قاصد بھیجا اور اس بارے میں دریافت کیا، میں نے ان کو بتا دیا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہی اختیار کیا اور اسی کا فیصلہ کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2333]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2300]، [ترمذي 1204]، [نسائي 3532]، [ابن ماجه 2031]، [ابن حبان 4292]، [الموارد 1331]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2323)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس عورت کا شوہر وفات پا جائے تو وہ عورت اسی مکان میں عدت پوری کرے گی جس میں وہ خاوند کے ساتھ رہائش پذیر تھی اور جہاں اسے خاوند کی وفات کی اطلاع موصول ہوئی ہے، اور وہ عدت کے اختتام تک اسی مکان میں رہے گی۔
محققین علماء کا یہی مذہب ہے، لیکن اگر جان کا خطرہ ہے تو دوسرے مکان میں منتقل ہو سکتی ہے، مثلاً مکان غیرمحفوظ ہو، مکان کے گر جانے کا خوف ہو، یا ہمسائیوں سے اذیت رسانی کا اندیشہ ہو، یا تنہائی سے خوف آتا ہو۔
اور بعض علماء نے کہا ہے کہ دن میں اس گھر سے ضروری کام کے لئے نکل سکتی ہے لیکن رات بہرحال اس گھر میں گذارنی ہوگی جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2325
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: طلقت خالتي فارادت ان تجد نخلا لها، فقال لها رجل: ليس لك ان تخرجين، قالت: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: "اخرجي فجدي نخلك، فلعلك ان تصدقي او تصنعي معروفا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: طُلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلًا لَهَا، فَقَالَ لَهَا رَجُلٌ: لَيْسَ لَكِ أَنْ تَخْرُجِين، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: "اخْرُجِي فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَلَعَلَّكِ أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَصْنَعِي مَعْرُوفًا".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری خالہ کو طلاق ہوگئی اور انہوں نے اپنے باغ سے پھل توڑنے کا ارادہ کیا تو ان سے ایک صحابی نے کہا کہ تم عدت کے دوران گھر سے نہیں نکل سکتی ہو، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور یہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جاؤ اور اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑو کیونکہ ہو سکتا ہے ان کھجوروں کو تم صدقہ کرو یا اچھے کام میں لگاؤ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2334]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1483]، [أبوداؤد 2297]، [ابن ماجه 2034]، [أبويعلی 2192]، [الحاكم 207/2]، [وانظر نيل الأوطار 97/7]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2324)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو عورت عدت میں ہو وہ ضرورت کے لئے گھر سے باہر جا سکتی ہے اور کام کاج کر کے واپس آجائے، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں (مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
اس حدیث سے عدت کے ایام میں عورت کا صدقہ و خیرات کرنا اور دیگر اچھے کام کرنا ثابت ہوا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
15. باب في تَخْيِيرِ الأَمَةِ تَكُونُ تَحْتَ الْعَبْدِ فَتُعْتَقُ:
15. لونڈی جو غلام کے نکاح میں ہو آزاد ہونے کے بعد اس کو اختیار ہو گا
حدیث نمبر: 2326
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة: انها ارادت ان تشتري بريرة، فاراد مواليها ان يشترطوا ولاءها، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "اشتريها، فإنما الولاء لمن اعتق"، فاشترتها فاعتقتها، وخيرها من زوجها وكان حرا وان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بلحم، فقال:"من اين هذا؟"قيل: تصدق به على بريرة، فقال:"هو لها صدقة، ولنا هدية".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَأَرَادَ مَوَالِيهَا أَنْ يَشْتَرِطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "اشْتَرِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، فَاشْتَرَتْهَا فَأَعْتَقَتْهَا، وَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا وَكَانَ حُرًّا وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ، فَقَالَ:"مِنْ أَيْنَ هَذَا؟"قِيلَ: تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ:"هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے مالکان نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی میراث کی اپنے لئے شرط لگانی چاہی (یعنی ہم بیچ دیں گے لیکن اس کا ولاء ہمارے لئے ہوگا)، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بریرہ کو خرید لو اور ولاء تو اس کا ہے جو غلام یا لونڈی کو آزاد کرے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لہٰذا میں نے بریرہ کو خریدا اور اسے آزاد کر دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دیا شوہر کے پاس رہنے کا جو کہ آزاد تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہاں سے آیا؟ عرض کیا گیا: بریرہ کے لئے صدقہ آیا تھا۔ فرمایا: وہ اس کے لئے صدقہ تھا اور ہمارے لئے اس کی طرف سے ہدیہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2335]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2168، 5284]، [مسلم 1504]، [أبويعلی 4435]، [ابن حبان 4269]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2325)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جب لونڈی آزاد ہو جائے اور اس کا شوہر غلام ہو تو لونڈی کو اختیار ہوگا، چاہے نکاح فسخ کر ڈالے چاہے باقی رکھے، اور اگر اس کا خاوند آزاد ہو تو عورت کو اختیار نہ ہوگا، امام مالک، امام شافعی رحمہما اللہ و جمہور علماء کا یہی قول ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک چاہے شوہر آزاد ہو تب بھی لونڈی کو اختیار ہوگا، اور ان کی دلیل مذکورہ بالا روایت ہے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر آزاد تھے، لیکن یہ جملہ قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ اکثر رواۃ نے بیان کیا ہے کہ ان کے شوہر مغیث بھی غلام تھے۔
نیز بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ جب شعبہ یا نافع سے پوچھا گیا کہ مغیث آزاد تھے تو انہوں نے کہا: پتہ نہیں آ زاد تھے یا غلام، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ غلام تھے شاذ ہے اور قابلِ احتجاج نہیں، اور اگر آزاد ہی ہوتے تو پھر اختیار دیئے جانے کا کیا فائدہ۔
اس حدیث میں عام قاعده مذکور ہے کہ لونڈی یا غلام کو آزاد کیا جائے تو اس کا ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کی ملکیت ہوگی۔
نیز یہ کہ اگر کسی غریب مسکین کو صدقہ دیا جائے اور وہ مسکین اسی کو ہدیہ دے تو یہ صدقہ نہیں ہدیہ ہوگا۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2327
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن خليل، حدثنا علي بن مسهر، حدثنا هشام بن عروة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قالت: دخل النبي صلى الله عليه وسلم علي فقربت إليه طعاما ليس فيه لحم، فقال: "الم ار لكم قدرا منصوبة؟"قلت: يا رسول الله، هذا لحم تصدق به على بريرة، فاهدت لنا، قال:"هو عليها صدقة، وهو لنا منها هدية"، وكان لها زوج، فلما عتقت، خيرت.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ خَلِيلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ فَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ طَعَامًا لَيْسَ فِيهِ لَحْمٌ، فَقَالَ: "أَلَمْ أَرَ لَكُمْ قِدْرًا مَنْصُوبَةً؟"قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَأَهْدَتْ لَنَا، قَالَ:"هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا مِنْهَا هَدِيَّةٌ"، وَكَانَ لَهَا زَوْجٌ، فَلَمَّا عُتِقَتْ، خُيِّرَتْ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے کھانا پیش کیا جس میں گوشت نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہاری گوشت کی ہانڈی چڑھی ہوئی نہیں دیکھ رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے، اور بریرہ نے ہمیں ہدیہ کر دیا، اور آپ تو صدقہ کھاتے نہیں، فرمایا: وہ ان کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے بریرہ کی طرف سے ہدیہ ہے، اور ان کا (بریرہ کا) شوہر تھا جب وہ آزاد کر دی گئیں تو انہیں شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 2336]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5279]، [مسلم 1505]، [نسائي 3448، وغيرهم كما تقدم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2326)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے اور انہیں اختیار دیا گیا کہ مغیث کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں، اور انہوں نے جدائی کو ترجیح دی جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق
حدیث نمبر: 2328
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الرحمن بن الضحاك، عن المغيرة بن عبد الرحمن المخزومي، عن هشام بن عروة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة:"ان بريرة حين اعتقتها عائشة، كان زوجها عبدا، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يحضها عليه، فجعلت تقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم اليس لي ان افارقه؟ قال:"بلى"، قالت: فقد فارقته.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الضَّحَّاكِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ:"أَنَّ بَرِيرَةَ حِينَ أَعْتَقَتْهَا عَائِشَةُ، كَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُضُّهَا عَلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَيْسَ لِي أَنْ أُفَارِقَهُ؟ قَالَ:"بَلَى"، قَالَتْ: فَقَدْ فَارَقْتُهُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب انہوں نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اس وقت ان کا شوہر غلام تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شوہر کے بارے میں ترغیب دلاتے تھے (کہ اسے چھوڑیں نہیں) اور وہ برابر کہتی رہتیں: کیا میرے لئے اختیار نہیں ہے کہ میں اس سے جدائی کرلوں؟ فرمایا: ہاں اختیار تو ہے، تو سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر میں نے اس سے جدائی کر لی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 2337]»
اس روایت کی تخریج وتشریح اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق

Previous    1    2    3    4    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.