الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
طلاق کے مسائل
1. باب السُّنَّةِ في الطَّلاَقِ:
1. طلاق کے صحیح طریقے کا بیان
حدیث نمبر: 2299
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر: انه طلق امراته وهي حائض، فذكر ذلك عمر للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "مره ان يراجعها ويمسكها حتى تطهر، ثم تحيض، ثم تطهر، ثم إن شاء، امسك، وإن شاء طلق قبل ان يمس، فتلك العدة التي امر الله ان يطلق لها النساء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مُرْهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا وَيُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضُ، ثُمَّ تَطْهُرُ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ، أَمْسَكَ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سے کہو کہ رجوع کر لیں اور اسے (بیوی کو) اس وقت تک روکے رکھیں کہ طہر شروع ہو جائے، پھر ایام آئیں اور پھر طہر شروع ہو، پھر اگر چاہیں تو اسے اپنے پاس برقرار رکھیں اور چاہیں تو طلاق دے دیں، صحبت و مجامعت کرنے سے پہلے، پس یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے۔ (یعنی یہ وہ مدت ہے جس کا حکم ( «فطلقوهن لعدتهن») میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في الطلاق، [مكتبه الشامله نمبر: 2308]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5251]، [مسلم 1471]، [أبوداؤد 2179]، [نسائي 3390]، [أبويعلی 5440]، [ابن حبان 4263]، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 1573]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في الطلاق
حدیث نمبر: 2300
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، اخبرنا سفيان، عن محمد بن عبد الرحمن، قال: سمعت سالما يذكر، عن ابن عمر: ان عمر، قال للنبي صلى الله عليه وسلم حين طلق ابن عمر امراته، فقال: "مره فليراجعها، ثم ليطلقها وهي طاهرة". قال ابو محمد: رواه ابن المبارك، ووكيع:"او حامل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا يَذْكُرُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ عُمَرَ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا وَهِيَ طَاهِرَةٌ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَوَكِيعُ:"أَوْ حَامِلٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں کہو کہ اس عورت کو لوٹا لیں (یعنی طلاق سے رجوع کر لیں) پھر چاہیں تو حالت طہر میں اس کو طلاق دیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابن المبارک اور وکیع نے روایت کیا ہے کہ حالت حمل میں۔ (یعنی یا تو طہر کی حالت میں طلاق دیں، یا وہ عورت حاملہ ہو تب طلاق دیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2309]»
یہ حدیث صحیح ہے اور مصادر و مراجع وہی ہیں جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2298 سے 2300)
نکاح ایک عقد و بندھن ہے جس سے میاں بیوی میں الفت و محبت پیدا ہو کر نسل اور خاندان کی بناء پڑتی ہے، اگر اس بندھن میں توافق و تجانس نہ پیدا ہو سکے تو شریعت نے اس بندھن کو ختم کرنے اور توڑنے کے لئے مرد کی طرف سے طلاق اور عورت کی طرف سے خلع کے دو مناسب حل مشروع کئے ہیں، اور اس کے قواعد و ضوابط ہیں۔
لہٰذا طلاق کا مطلب ہوا اس پابندی کو ہٹا دینا جو نکاح کی وجہ سے میاں بیوی پر تھی، اور ظروف و احوال کے تحت اس کی مختلف صورتیں ہیں، جائز اور سنّت طریقہ یہ ہے جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے: « ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ .....﴾ [البقره: 229] » یعنی طلاق دینا مقصود ہو تو طہر کی حالت میں جس میں صحبت نہ کی گئی ہو ایک طلاق دی جائے۔
اور حیض کے ایام میں طلاق دینا حرام ہے جیسا کہ ان دونوں احادیث میں مذکور ہے، یا تین طلاق یکبارگی دی جائے یہ بھی مخالفِ کتاب و سنّت ہے، کبھی طلاق بدعی ہوتی ہے اور مکروہ بھی جیسے بلاسبب محض جنسی آسودگی کے لئے آدمی طلاق دے، اور کبھی طلاق واجب ہوتی ہے جب میاں بیوی میں مخالفت ہو اور میل ملاپ کی کوئی صورت باقی نہ رہے، اور کبھی طلاق مستحب و حلال و جائز ہوتی ہے جب بیوی بد چلن ہو، لیکن طلاق بذاتِ خود اچھی بات نہیں، میاں بیوی کو جہاں تک ہو سکے میل محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ اخلاص و احترام سے رہنا چاہیے، اگر طلاق کی نوبت آ ہی جائے تو بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک کر کے طلاق دینی چاہیے تاکہ رجوع کے لئے راستہ کھلا رہے اور بعد میں ندامت و پشیمانی نہ اٹھانی پڑے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ جوش میں آ کر خلافِ سنّت تین طلاق داغ دیتے ہیں، پھر علماء کے پاس دوڑتے، چکر لگاتے ہیں کہ کسی طرح بیوی واپس مل جائے، اور پھر اس کے لئے بہت ہی گھناؤنا اور شرمناک طریقہ حلالہ کا اختیار کیا جاتا ہے، یہ سارے امور خلافِ شرع ہیں جن میں ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہئے۔
مذکور بالا حدیث میں حیض کی حالت میں دی گئی طلاق صحیح نہیں تھی اس لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع کا حکم فرمایا۔
اب علمائے کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ طلاق شمار ہوگی یا نہیں، ائمۂ اربعہ اور اکثر فقہائے کرام کے نزدیک یہ طلاق گرچہ بدعی ہے لیکن شمار کی جائے گی اور رجوع کرنے کے بعد شوہر کو دو طلاق کا ہی اختیار ہوگا، اور ظاہر اہل الحدیث امام ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ کثیر علماء و فقہاء کا قول یہ ہے کہ یہ طلاق شمار نہ کی جائے گی، اس لئے کہ یہ بدعی اور حرام ہے، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کرنے کا حکم دیا۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ترجیح دی ہے، اور ایک روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے خود مروی ہے: «فردها على ولم ير شيئا.» یہ قول حیض میں دی جانے والی طلاق کے واقع نہ ہونے پر واضح و بین دلیل ہے۔
تفصیل کے لیے «زاد المعاد» اور «المحلى لابن حزم» ملاحظہ فرمائیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
2. باب في الرَّجْعَةِ:
2. طلاق کے بعد رجوع کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2301
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن خليل، وإسماعيل بن ابان، قالا: حدثنا يحيى بن ابي زائدة، عن صالح بن صالح، عن سلمة بن كهيل، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن عمر، قال: "طلق رسول الله صلى الله عليه وسلم حفصة ثم راجعها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ خَلِيلٍ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: "طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی بیٹی) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر رجوع کر لیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2310]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2283]، [نسائي 3563]، [ابن ماجه 2016]، [أبويعلی 173، 174]، [ابن حبان 4275]، [الموارد 1324]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2300)
رجعت یا رجوع سے مراد طلاق کے بعد دورانِ عدت بغیر نکاح کے اپنی اہلیہ کی طرف رجوع کرنا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کا حکم بھی دیا، لہٰذا قول و فعل دونوں سے ثابت ہوگیا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو تیسری طلاق سے پہلے عدت کے اندر بلا نکاح کے وہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے، اگر عدت گزر جائے تو پھر تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا، اور اگر تین طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ عورت دوسری شادی کرے اور اسے دوسرا شوہر بلا شرط و دباؤ کے اپنی مرضی سے طلاق دے دے، « ﴿حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230] » کی یہی صحیح تفسیر و تشریح ہے۔
اور طلاق یا رجوع کے وقت گواہ بنانا ضروری نہیں، مندوب و مستحب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2302
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن سليمان، عن هشيم، عن حميد، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم "طلق حفصة ثم راجعها". قال ابو محمد: كان علي بن المديني انكر هذا الحديث، وقال: ليس عندنا هذا الحديث بالبصرة، عن حميد.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: كَانَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ أَنْكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَالَ: لَيْسَ عِنْدَنَا هَذَا الْحَدِيثُ بِالْبَصْرَةِ، عَنْ حُمَيْدٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی، پھر ان سے رجوع کر لیا۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابن المدینی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے، اور فرمایا کہ بصرہ میں ہمارے یہاں حمید سے اس کو کسی نے روایت نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2311]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور تخریج ذکر کی جا چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [أبويعلی 3815]، [الحاكم 197/2، وقال على شرط الشيخين و لم يخرجاه]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2301)
ابن المدینی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اہلِ بصرہ میں سے کسی نے حمید سے اس کو روایت نہیں کیا کوئی علت نہیں، کیونکہ ضروری نہیں کہ اہلِ بصرہ جب روایت کریں تب ہی وہ روایت صحیح ہوگی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
3. باب لاَ طَلاَقَ قَبْلَ نِكَاحٍ:
3. نکاح سے پہلے طلاق دینا درست نہیں ہے
حدیث نمبر: 2303
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن موسى، حدثنا يحيى بن حمزة، عن سليمان بن داود، حدثني الزهري، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده، قال الحكم، قال لي يحيى بن حمزة: افصل ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى اهل اليمن: "ان لا يمس القرآن إلا طاهر، ولا طلاق قبل إملاك، ولا عتاق حتى يبتاع". سئل ابو محمد، عن سليمان، قال: احسبه كاتبا من كتاب عمر بن عبد العزيز.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ الْحَكَمُ، قَالَ لِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ: أَفْصِلُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ: "أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ، وَلَا طَلَاقَ قَبْلَ إِمْلَاكٍ، وَلَا عَتَاقَ حَتَّى يَبْتَاعَ". سُئِلَ أَبُو مُحَمَّدٍ، عَنْ سُلَيْمَانُ، قَالَ: أَحْسَبُهُ كَاتِبًا مِنْ كُتَّابِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ.
حکم نے کہا: یحییٰ بن حمزہ نے مجھ سے کہا کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کے لئے لکھا تھا کہ قرآن پاک کو صرف پاک آدمی ہی ہاتھ لگائے، اور نکاح کی ملکیت سے پہلے طلاق درست نہیں، اور خریدنے سے پہلے آزادی ممکن نہیں۔
امام دارمی رحمہ اللہ سے سلیمان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ شاید عمر بن عبدالعزیز کے کتاب میں سے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2312]»
اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے لیکن دیگر اسانید سے بھی مروی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کے آخری دونوں جملوں نکاح وعتاق کو صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2191]، [ترمذي 1182]، [ابن ماجه 2047]، [ابن حبان 6559]، [موارد الظمآن 793]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2302)
گرچہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔
بغیر وضو قرآن چھونا منع ہے جیسا کہ آیتِ کریمہ میں ہے: «‏‏‏‏ ﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ [الواقعة: 79] » اور نکاح کرنے سے پہلے عورت کو طلاق دینا اس کا ثبوت سنن میں ہے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوگی، امام شافعی رحمہ اللہ اہل الحدیث اور دواد ظاہری وغیرہ کثیر علماء کا یہ قول ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی باب باندھا: «لَا طَلَاقَ قَبْلَ النِّكَاحِ» اور « ﴿إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ [الأحزاب: 49] » سے استدلال کیا کہ نکاح کر لو تبھی طلاق دو تو طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں، اور اس سلسلے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد ذکر کیا ہے، لہٰذا نکاح سے پہلے کوئی یہ کہے کہ فلاں عورت کو طلاق ہے یا اگر کہے کہ فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو طلاق ہے، اس صورت میں بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے 23 تابعین کے نام ذکر کئے ہیں جو اسی کے قائل تھے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایسی عورت جس کو نکاح سے پہلے طلاق دی گئی مطلقہ ہوجائے گی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے کہا اگر کسی قبیلہ یا شہر کی عورت سے کہے، یا کسی دن یا مہینے کے ساتھ مخصوص کرے تو اس صورت میں طلاق ہوجائے گی (یعنی یہ کہے کہ فلاں شہر یا قبیلہ کی عورت سے میں نے شادی کی تو اسے طلاق ہے، یا فلاں مہینے میں شادی کروں تو طلاق ہے)۔
راجح پہلا قول ہے۔
غلام کے آزاد کرنے کا بھی یہی حکم ہے کہ کسی نے غلام خریدنے سے پہلے کہا کہ فلاں کا غلام آزاد ہے تو وہ خریدنے کے پہلے یا بعد میں آزاد نہ ہوگا۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
4. باب مَا يُحِلُّ الْمَرْأَةَ لِزَوْجِهَا الذي طَلَّقَهَا فَبَتَّ طَلاَقَهَا:
4. وہ عورت جس کو تین طلاقیں دی جا چکی ہوں کس طرح پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گی؟
حدیث نمبر: 2304
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، قال: سمعت عروة بن الزبير، عن عائشة، قالت: جاءت امراة رفاعة القرظي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده ابو بكر، وخالد بن سعيد بن العاص على الباب ينتظر ان يؤذن له على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني كنت عند رفاعة فطلقني فبت طلاقي، قال: "اتريدين ان ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك، وتذوقي عسيلته". فنادى خالد بن سعيد ابا بكر: الا ترى ما تجهر به هذه عند رسول الله صلى الله عليه وسلم؟.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ عَلَى الْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي، قَالَ: "أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ". فَنَادَى خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ أَبَا بَكْرٍ: أَلَا تَرَى مَا تَجْهَرُ بِهِ هَذِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رفاعہ القرظی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور سیدنا خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ دروازے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے طلب گار تھے، اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں رفاعہ کے نکاح میں تھی، پھر انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں، یہاں تک کہ وہ (دوسرا شوہر) تمہارا مزہ چکھ لے اورتم اس کا مزہ چکھ لو (یہ جماع کی طرف اشارہ ہے)، یہ سن کر سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکارا: کیا آپ اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کر رہی ہے؟

تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2313]»
یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2629، 5239]، [مسلم 1433]، [ترمذي 1118]، [ابن ماجه 1932]، [أبويعلی 4423]، [ابن حبان 4121]، اس روایت میں کچھ اختصار ہے جس کی اگلی حدیث میں تفصیل ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2305
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا فروة بن ابي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: طلق رفاعة رجل من بني قريظة امراته فتزوجها عبد الرحمن بن الزبير، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، والله إن معه إلا مثل هدبتي هذه، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك او قال تذوقي عسيلته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَة، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: طَلَّقَ رِفَاعَة رَجُلٌ مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ امْرَأَتَهُ فَتَزَوَّجَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَدَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنْ مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَتِي هَذِهِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ أَوْ قَالَ تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدنا رفاعہ رضی اللہ عنہ جو بنی قریظہ کے فرد تھے، انہوں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی، اس کے بعد اس سے سیدنا عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی، پھر وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی طرح ہے (یعنی نامرد ہیں جماع نہیں کر سکتے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں یہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ عبدالرحمٰن تمہارا مزہ نہ چکھ لیں یا یہ کہا کہ تم اس کا مزہ نہ چکھ لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2314]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2303 سے 2305)
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے تو اب ضروری ہے کہ وہ عورت دوسرے مرد سے بلا شرط نکاح کرے اور اس سے جماع کرائے، اس کے بعد یہ دوسرا شوہر حلالہ کی نیت و شرط سے نکاح و طلاق نہ دے ورنہ یہ نکاح ناجائز ہوگا، اور ایسا کرنے والا اور جس کے لئے ایسا کیا جائے دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ملعون ہیں، بہرحال مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ عورت پہلے خاوند سے طلاقِ ثلاثہ کے بعد دوبارہ شادی کر سکتی ہے جب کہ دوسرے شوہر نے از خود اس کو طلاق دیدی ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو متفق عليه
5. باب في الْخِيَارِ:
5. بیوی کو طلاق کا اختیار دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2306
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، عن الشعبي، عن مسروق، قال: سالت عائشة عن الخيرة، فقالت: "قد خيرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم افكان طلاقا؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْخِيَرَةِ، فَقَالَتْ: "قَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَكَانَ طَلَاقًا؟".
مسروق رحمہ اللہ نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے طلاق کا اختیار دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا تھا تو کیا محض یہ اختیار طلاق بن گیا؟

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2315]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5262]، [مسلم 1477]، [ترمذي 1179]، [نسائي 3203]، [أبويعلی 4317]، [ابن حبان 4267]، [الحميدي 236]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2305)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو اختیار ہے کہ چاہو تو میرے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے میکے چلی جاؤ، تو اگر وہ شوہر کے ساتھ رہ جائے تو طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
اس کی تفصیل سورۂ احزاب کی آیت: « ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا .....﴾ [الأحزاب: 28] » کے ضمن میں دیکھی جا سکتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
6. باب النَّهْيِ عَنْ أَنْ تَسْأَلَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا طَلاَقَهَا:
6. عورت کو طلاق مانگنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2307
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن الفضل، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي اسماء، عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ايما امراة سالت زوجها الطلاق من غير باس، فحرام عليها رائحة الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ".
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے اپنے خاوند سے بلاوجہ طلاق مانگی اس کے اوپر جنت کی خوشبو حرام ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد وأبو أسماء هو: عمرو بن مرثد الرحبي، [مكتبه الشامله نمبر: 2316]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2226]، [ترمذي 1187]، [ابن ماجه 2055]، [ابن حبان 4184]، [موارد الظمآن 1326]۔ اس کی سند میں ابوقلاب کا نام: عبداللہ بن زید ہے اور ابواسماء: عمر بن مرثد الرحبی ہیں۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2306)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا بلاوجہ طلاق مانگنا گناہ ہے اور ایسی عورت پر جنّت کی خوشبو سونگھنا حرام ہوگا۔
اسی طرح مرد کو بھی بلا ضرورت طلاق دینا منع ہے، طلاق اسی حالت میں جائز ہے جب مصالحت اور موافقت کا کوئی راستہ نہ ہو، اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: «أَبْغَضُ الْحَلَالِ عِنْدَ اللّٰهِ الطَّلَاقُ.» کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد وأبو أسماء هو: عمرو بن مرثد الرحبي
7. باب في الْخُلْعِ:
7. خلع کا بیان
حدیث نمبر: 2308
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى هو ابن سعيد، ان عمرة اخبرته، ان حبيبة بنت سهل تزوجها ثابت بن قيس بن شماس، فذكرت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان هم ان يتزوجها. وكانت جارة له، وان ثابتا ضربها، فاصبحت على باب رسول الله صلى الله عليه وسلم في الغلس، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج، فراى إنسانا فقال:"من هذا؟"قالت: انا حبيبة بنت سهل، فقال:"ما شانك؟"، قالت: لا انا ولا ثابت، فاتى ثابت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له رسول الله: "خذ منها وخل سبيلها"، فقالت: يا رسول الله، عندي كل شيء اعطانيه فاخذ منها، وقعدت عند اهلها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ عَمْرَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ تَزَوَّجَهَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، فَذَكَرَتْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ هَمَّ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا. وَكَانَتْ جَارَةً لَهُ، وَأَنَّ ثَابِتًا ضَرَبَهَا، فَأَصْبَحَتْ عَلَى بَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَلَسِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَرَأَى إِنْسَانًا فَقَالَ:"مَنْ هَذَا؟"قَالَتْ: أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، فَقَالَ:"مَا شَأْنُكِ؟"، قَالَتْ: لَا أَنَا وَلَا ثَابِتٌ، فَأَتَى ثَابِتٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: "خُذْ مِنْهَا وَخَلِّ سَبِيلَهَا"، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِنْدِي كُلُّ شَيْءٍ أَعْطَانِيهِ فَأَخَذَ مِنْهَا، وَقَعَدَتْ عِنْدَ أَهْلِهَا.
عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ سیدہ حبیبہ بنت سہل سے سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہما نے شادی کی تھی۔ سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح کا ارادہ رکھتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑوسن تھیں ( «انفرد به الدارمي») سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں مارا تو وہ صبح کو اندھیرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرآئیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آدمی کی پرچھائی (سایہ) دیکھا، فرمایا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نہیں یا ثابت نہیں (یعنی میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی)، پھر جب سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے اپنا مال لے لو اور اس کو چھوڑ دو، سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے جو کچھ بھی دیا سب میرے پاس محفوظ ہے۔ چنانچہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال لے لیا اور اس کو چھوڑ دیا، اور سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے میکے میں جا کر بیٹھ گئیں (یعنی شوہر سے خلع لے لیا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2317]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5273]، [أبوداؤد 2237]، [ابن ماجه 2057]، [ابن حبان 4280]، [موارد الظمآن 1326]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2307)
مذکورہ بالا روایت میں خلع کا ذکر ہے یعنی عورت پر اگر ظلم ہو رہا ہے تو وہ قاضی یا حاکم کے پاس جا کر اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے، اور مرد کو یہ مطالبہ پورا کرنا ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے، اس کے بدلے میں اس نے جو کچھ بھی زر، زیور، زمین عورت کو دی ہو وہ واپس مل جائے گی، زیادہ لینا مکروہ ہے، اور قاضی دونوں میاں بیوی کے درمیان جدائی کرا دے گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ثابت اور سیدہ حبیبہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جدائی کرا دی، اور خلع کے بعد ایک مہینے کی عدت عورت پر ہے، یہ اسلام کا وہ پیارا نظامِ عدل ہے جو میاں بیوی کو زبردستی سے روکتا اور ساتھ نبھانے پر مجبور نہیں کرتا ہے، اوّل تو عورت کی بغیر اجازت نکاح ہو ہی نہیں سکتا، دوسرے اگر عورت پر ظلم ہو رہا ہے تو اس کو اپنے خاوند سے خلاصی حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔
اس کو اسلام میں لفظ خلع سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حقوقِ نسواں کے علمبرداروں کو اس پر غور کرنا چاہیے اور اسلام پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

1    2    3    4    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.