الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
حدیث نمبر: 665
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ،" انه اشترى لبني اخيه يتامى في حجره مالا فبيع ذلك المال بعد بمال كثير" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ،" أَنَّهُ اشْتَرَى لِبَنِي أَخِيهِ يَتَامَى فِي حِجْرِهِ مَالًا فَبِيعَ ذَلِكَ الْمَالُ بَعْدُ بِمَالٍ كَثِيرٍ"
یحیٰی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے یتیم لڑکوں کے واسطے کچھ مال خریدا، پھر وہ مال بڑی قیمت کا بکا۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 540، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 15»
حدیث نمبر: 665ب
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: لا باس بالتجارة في اموال اليتامى لهم إذا كان الولي مامونا فلا ارى عليه ضماناقَالَ مَالِك: لَا بَأْسَ بِالتِّجَارَةِ فِي أَمْوَالِ الْيَتَامَى لَهُمْ إِذَا كَانَ الْوَلِيُّ مَأْمُونًا فَلَا أَرَى عَلَيْهِ ضَمَانًا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: یتیم کے مال میں تجارت کرنا کچھ بُرا نہیں ہے جب ولی یتیم کا معتبر دیانت دار ہو اور اس پر تاوان لازم نہ ہوگا اگر نقصان ہو۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 540، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 15»
7. بَابُ زَكَاةِ الْمِيرَاثِ
7. ترکہ کی زکوٰۃ کا بیان
حدیث نمبر: 666Q1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
مالك، انه قال: إن الرجل إذا هلك ولم يؤد زكاة ماله، إني ارى ان يؤخذ ذلك من ثلث ماله، ولا يجاوز بها الثلث وتبدا على الوصايا، واراها بمنزلة الدين عليه فلذلك رايت ان تبدا على الوصايا، [1/355] قال: وذلك إذا اوصى بها الميت، قال: فإن لم يوص بذلك الميت ففعل ذلك اهله فذلك حسن، وإن لم يفعل ذلك اهله، لم يلزمهم ذلك. مَالِكٌ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا هَلَكَ وَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاةَ مَالِهِ، إِنِّي أَرَى أَنْ يُؤْخَذَ ذَلِكَ مِنْ ثُلُثِ مَالِهِ، وَلَا يُجَاوَزُ بِهَا الثُّلُثُ وَتُبَدَّأَ عَلَى الْوَصَايَا، وَأَرَاهَا بِمَنْزِلَةِ الدَّيْنِ عَلَيْهِ فَلِذَلِكَ رَأَيْتُ أَنْ تُبَدَّأَ عَلَى الْوَصَايَا، [1/355] قَالَ: وَذَلِكَ إِذَا أَوْصَى بِهَا الْمَيِّتُ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ يُوصِ بِذَلِكَ الْمَيِّتُ فَفَعَلَ ذَلِكَ أَهْلُهُ فَذَلِكَ حَسَنٌ، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ أَهْلُهُ، لَمْ يَلْزَمْهُمْ ذَلِكَ.
.امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص مر گیا اور اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دی تو اس کے تہائی مال سے زکوٰۃ وصول کی جائے، نہ زیادہ اس سے، اور یہ زکوٰۃ مقدم ہوگی اس کی وصیتوں پر، کیونکہ زکوٰۃ مثل دین (قرض) کے ہے اس پر، اسی واسطے وصیت پر مقدم کی جائے گی، مگر یہ حکم جب ہے کہ میت نے وصیت کی ہو زکوٰۃ ادا کرنے کی، اگر وہ وصیت نہ کرے لیکن وارث اس کے ادا کریں تو بہتر ہے مگر ان کو ضروری نہیں۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 541، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 16»
حدیث نمبر: 666Q2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال: قال مالك: السنة عندنا التي لا اختلاف فيها، انه لا تجب على وارث زكاة في مال ورثه في دين، ولا عرض ولا دار، ولا عبد ولا وليدة، حتى يحول على ثمن ما باع من ذلك او اقتضى الحول من يوم ما باعه وقبضه. قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ عِنْدَنَا الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا، أَنَّهُ لَا تَجِبُ عَلَى وَارِثٍ زَكَاةٌ فِي مَالٍ وَرِثَهُ فِي دَيْنٍ، وَلَا عَرْضٍ وَلَا دَارٍ، وَلَا عَبْدٍ وَلَا وَلِيدَةٍ، حَتَّى يَحُولَ عَلَى ثَمَنِ مَا بَاعَ مِنْ ذَلِكَ أَوِ اقْتَضَى الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ مَا بَاعَهُ وَقَبَضَهُ.
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک سنّتِ اتفاقی یہ ہے کہ وارث پر زکوٰۃ واجب نہیں اس مال کی جو وراثت کی رُو سے اس کو پہنچا، نہ دین میں، نہ اسباب میں، نہ گھر میں، نہ غلام میں، نہ لونڈی میں۔ البتہ ترکے میں سے جب کسی شے کو بیچے اور اس کی بیع پر یا زرِ ثمن کے وصول پر ایک سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 541، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 16»
حدیث نمبر: 666Q3
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
- قال: قال مالك: السنة عندنا انه لا تجب على وارث في مال ورثه الزكاة، حتى يحول عليه الحول. - قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَا تَجِبُ عَلَى وَارِثٍ فِي مَالٍ وَرِثَهُ الزَّكَاةُ، حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ.
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ وارث پر اس مال جو وراثت کی رُو سے اس کو پہنچا زکوٰۃ واجب نہیں ہے یہاں تک کہ ایک سال اس پر گزرے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 541، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 16»
8. بَابُ الزَّكَاةِ فِي الدَّيْنِ
8. دَین کی زکوٰۃ کا بیان
حدیث نمبر: 666
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن السائب بن يزيد ، ان عثمان بن عفان ، كان يقول: " هذا شهر زكاتكم فمن كان عليه دين فليؤد دينه، حتى تحصل اموالكم فتؤدون منه الزكاة" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، كَانَ يَقُولُ: " هَذَا شَهْرُ زَكَاتِكُمْ فَمَنْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَلْيُؤَدِّ دَيْنَهُ، حَتَّى تَحْصُلَ أَمْوَالُكُمْ فَتُؤَدُّونَ مِنْهُ الزَّكَاةَ"
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: یہ مہینہ تمہاری زکوٰۃ کا ہے، تو جس شخص پر کچھ قرض ہو تو چاہیے کہ قرض ادا کر دے، اور باقی جو مال بچ رہے اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 7338، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7700، 7701، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2369، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7086، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10658، شركة الحروف نمبر: 542، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 17»
حدیث نمبر: 667
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن ايوب بن ابي تميمة السختياني ، ان عمر بن عبد العزيز كتب في مال قبضه بعض الولاة ظلما " يامر برده إلى اهله ويؤخذ زكاته لما مضى من السنين ثم عقب بعد ذلك بكتاب ان لا يؤخذ منه إلا زكاة واحدة فإنه كان ضمارا" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ السَّخْتِيَانِيِّ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ فِي مَالٍ قَبَضَهُ بَعْضُ الْوُلَاةِ ظُلْمًا " يَأْمُرُ بِرَدِّهِ إِلَى أَهْلِهِ وَيُؤْخَذُ زَكَاتُهُ لِمَا مَضَى مِنَ السِّنِينَ ثُمَّ عَقَّبَ بَعْدَ ذَلِكَ بِكِتَابٍ أَنْ لَا يُؤْخَذَ مِنْهُ إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ كَانَ ضِمَارًا"
حضرت ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لکھا ایک مال کے باب میں جس کو بعض حکام نے ظلم سے چھین لیا تھا کہ: پھیر دیں اس کو اس کے مالک کو، اور اس میں سے زکوٰۃ اُن برسوں کی جو گزر گئے وصول کرلیں۔ اس کے بعد ایک نامہ لکھا کہ زکوٰۃ اُن برسوں کی نہ لی جائے کیونکہ وہ مال ضمار تھا۔

تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7720، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7127، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10717، 10718
شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، شركة الحروف نمبر: 543، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 18»
حدیث نمبر: 668
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن يزيد بن خصيفة ، انه سال سليمان بن يسار ، " عن رجل له مال وعليه دين مثله اعليه زكاة؟" فقال:" لا" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ ، أَنَّهُ سَأَلَ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ ، " عَنْ رَجُلٍ لَهُ مَالٌ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مِثْلُهُ أَعَلَيْهِ زَكَاةٌ؟" فَقَالَ:" لَا"
حضرت یزید بن خصیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سلیمان بن یسار سے: ایک شخص کے پاس مال ہے لیکن اسی قدر قرض ہے، کیا زکوٰۃ اس پر واجب ہے؟ بولے: نہیں۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7614، شركة الحروف نمبر: 544، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 19»
حدیث نمبر: 668ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر الذي لا اختلاف فيه عندنا في الدين، ان صاحبه لا يزكيه حتى يقبضه، وإن اقام عند الذي هو عليه سنين ذوات عدد، ثم قبضه صاحبه لم تجب عليه إلا زكاة واحدة، فإن قبض منه شيئا لا تجب فيه الزكاة، فإنه إن كان له مال سوى الذي قبض تجب فيه الزكاة، فإنه يزكى مع ما قبض من دينه ذلك، قال: وإن لم يكن له ناض غير الذي اقتضى من دينه، وكان الذي اقتضى من دينه لا تجب فيه الزكاة فلا زكاة عليه فيه، ولكن ليحفظ عدد ما اقتضى فإن اقتضى بعد ذلك عدد ما تتم به الزكاة مع ما قبض قبل ذلك فعليه فيه الزكاة قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا فِي الدَّيْنِ، أَنَّ صَاحِبَهُ لَا يُزَكِّيهِ حَتَّى يَقْبِضَهُ، وَإِنْ أَقَامَ عِنْدَ الَّذِي هُوَ عَلَيْهِ سِنِينَ ذَوَاتِ عَدَدٍ، ثُمَّ قَبَضَهُ صَاحِبُهُ لَمْ تَجِبْ عَلَيْهِ إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ، فَإِنْ قَبَضَ مِنْهُ شَيْئًا لَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ سِوَى الَّذِي قُبِضَ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يُزَكَّى مَعَ مَا قَبَضَ مِنْ دَيْنِهِ ذَلِكَ، قَالَ: وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ نَاضٌّ غَيْرُ الَّذِي اقْتَضَى مِنْ دَيْنِهِ، وَكَانَ الَّذِي اقْتَضَى مِنْ دَيْنِهِ لَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ فِيهِ، وَلَكِنْ لِيَحْفَظْ عَدَدَ مَا اقْتَضَى فَإِنِ اقْتَضَى بَعْدَ ذَلِكَ عَدَدَ مَا تَتِمُّ بِهِ الزَّكَاةُ مَعَ مَا قَبَضَ قَبْلَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک اس حکم میں اختلاف نہیں کہ قرض کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے جب تک وہ وصول نہ ہو جائے۔ سو اگر قرض قرضدار پر کئی برس تک رہا، پھر وصول ہوا تو ایک ہی سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اگر جتنا قرض وصول ہوا ہے وہ نصاب سے کم ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر اس صورت میں کہ اس شخص کے پاس اور مال بھی ہو، سو اس میں ملا کر اس کی بھی زکوٰۃ دے، اگر اس کے پاس اور کوئی مال نقد نہ ہو لیکن مدیوں پر اور قرض باقی ہو تو ابھی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی لیکن جس قدر وصول ہوا ہے اس کو یاد رکھے۔ بعد اس کے اگر اتنا وصول ہوا کہ نصاب پورا ہوگیا اس وقت زکوٰۃ لازم ہوگی۔ اگر اس نے اس مال کو جو پیشتر وصول ہوا تھا تلف کر دیا تب بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 544، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 19»
حدیث نمبر: 668ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال: فإن كان قد استهلك ما اقتضى اولا، او لم يستهلكه فالزكاة واجبة عليه، مع ما اقتضى من دينه فإذا بلغ ما اقتضى عشرين دينارا عينا، او مائتي درهم فعليه فيه الزكاة، ثم ما اقتضى بعد ذلك من قليل او كثير فعليه الزكاة بحسب ذلك قَالَ: فَإِنْ كَانَ قَدِ اسْتَهْلَكَ مَا اقْتَضَى أَوَّلًا، أَوْ لَمْ يَسْتَهْلِكْهُ فَالزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْهِ، مَعَ مَا اقْتَضَى مِنْ دَيْنِهِ فَإِذَا بَلَغَ مَا اقْتَضَى عِشْرِينَ دِينَارًا عَيْنًا، أَوْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَعَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ، ثُمَّ مَا اقْتَضَى بَعْدَ ذَلِكَ مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ فَعَلَيْهِ الزَّكَاةُ بِحَسَبِ ذَلِكَ
جب بعد کو اس قدر وصول ہو گیا کہ اس سے نصاب پورا ہو جائے، پھر جب اس کو بیس دینار یا دو سو درہم کے موافق وصول ہو گیا تو زکوٰۃ لازم ہوگی، اب اس کے بعد کسی قدر قلیل یا کثیر وصول کرے، زکوٰۃ اس کے حساب سے بڑھتی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 544، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 19»

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.