الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
19. باب مِنْهُ
19. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2451
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي النضر، حدثنا ابو النضر، حدثنا ابو عقيل الثقفي عبد الله بن عقيل , حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثني ربيعة بن يزيد، وعطية بن قيس , عن عطية السعدي وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يبلغ العبد ان يكون من المتقين حتى يدع ما لا باس به حذرا لما به الباس " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الثَّقَفِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَقِيلٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، وَعَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ , عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ الْبَأْسُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عطیہ سعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ متقیوں کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو جس میں کوئی حرج نہ ہو، اس چیز سے بچنے کے لیے نہ چھوڑ دے، جس میں برائی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 24 (4215) (تحفة الأشراف: 9902) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن یزید دمشقی ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (4215) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (924)، غاية المرام (178)، ضعيف الجامع الصغير (6320) //
20. باب مِنْهُ
20. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2452
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عباس العنبري، حدثنا ابو داود، حدثنا عمران القطان، عن قتادة، عن يزيد بن عبد الله بن الشخير، عن حنظلة الاسيدي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو انكم تكونون كما تكونون عندي لاظلتكم الملائكة باجنحتها " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث من غير هذا الوجه عن حنظلة الاسيدي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وفي الباب عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عِمْرَانٌ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَأَظَلَّتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيْدِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ.
حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری وہی کیفیت رہے، جیسی میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے پروں سے تم پر سایہ کریں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث حنظلہ اسیدی کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سند کے علاوہ دیگر سندوں سے بھی مروی ہے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/التوبة 4 (2750) (نحوہ في سیاق طویل وکذا)، سنن ابن ماجہ/الزہد 28 (4239) (تحفة الأشراف: 3448)، و مسند احمد (4/346)، ویأتي برقم 2514) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کی مجلس میں رہنے سے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے، آخرت یاد آتی ہے، اور دنیا کی چاہت کم ہو جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الصحيحة (1976)
21. باب مِنْهُ
21. باب: زہد و ورع سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2453
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن سلمان ابو عمر البصري، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن ابن عجلان، عن القعقاع بن حكيم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن لكل شيء شرة ولكل شرة فترة، فإن كان صاحبها سدد وقارب فارجوه، وإن اشير إليه بالاصابع فلا تعدوه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد روي عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " بحسب امرئ من الشر ان يشار إليه بالاصابع في دين او دنيا إلا من عصمه الله ".(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ سَلْمَانَ أَبُو عُمَرَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ شِرَّةً وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةً، فَإِنْ كَانَ صَاحِبُهَا سَدَّدَ وَقَارَبَ فَارْجُوهُ، وَإِنْ أُشِيرَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ فَلَا تَعُدُّوهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يُشَارَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ فِي دِينٍ أَوْ دُنْيَا إِلَّا مَنْ عَصَمَهُ اللَّهُ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز کی ایک حرص و نشاط ہوتی ہے، اور ہر حرص و نشاط کی ایک کمزوری ہوتی ہے، تو اگر اس کا اپنانے والا معتدل مناسب رفتار چلا اور حق کے قریب ہوتا رہا تو اس کی بہتری کی امید رکھو، اور اگر اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے تو اسے کچھ شمار میں نہ لاؤ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے بگاڑ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے دین یا دنیا کے بارے میں اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں، مگر جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12870) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ ہر کام میں شروع میں جوش و خروش ہوتا ہے، اور عبادت و ریاضت کا بھی یہی حال ہے، لہٰذا عابد و زاہد اگر اپنے عمل میں معتدل رہا اور افراط و تفریط سے بچ کر حق سے قریب رہا تو اس کے لیے خیر کی امید ہے، اور اس کی عبادت کا چرچا ہوا تو شہرت کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہے، معلوم ہوا کہ اعتدال کی راہ سلامتی کی راہ ہے اور شہرت کا انجام حسرت و ندامت ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (5325 / التحقيق الثانى)، التعليق الرغيب (1 / 46)، الظلال (1 / 28)
22. باب مِنْهُ
22. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2454
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا سفيان، عن ابيه، عن ابي يعلى، عن الربيع بن خثيم، عن عبد الله بن مسعود، قال: " خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا مربعا، وخط في وسط الخط خطا، وخط خارجا من الخط خطا، وحول الذي في الوسط خطوطا، فقال: هذا ابن آدم، وهذا اجله محيط به، وهذا الذي في الوسط الإنسان، وهذه الخطوط عروضه إن نجا من هذا ينهشه هذا، والخط الخارج الامل " , هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي يَعْلَى، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ فِي وَسَطِ الْخَطِّ خَطًّا، وَخَطَّ خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ خَطًّا، وَحَوْلَ الَّذِي فِي الْوَسَطِ خُطُوطًا، فَقَالَ: هَذَا ابْنُ آدَمَ، وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ، وَهَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ الْإِنْسَانُ، وَهَذِهِ الْخُطُوطُ عُرُوضُهُ إِنْ نَجَا مِنْ هَذَا يَنْهَشُهُ هَذَا، وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الْأَمَلُ " , هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع خط (یعنی چوکور) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 4 (6417)، سنن ابن ماجہ/الزہد 27 (4213) (تحفة الأشراف: 9200) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آرزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں، وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتا ہے، لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتا ہے، گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے، اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2455
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يهرم ابن آدم ويشب منه اثنان الحرص على المال، والحرص على العمر "، هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَانِ الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو خواہشیں جوان رہتی ہیں: ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2339 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4234)
حدیث نمبر: 2456
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو هريرة محمد بن فراس البصري، حدثنا ابو قتيبة سلم بن قتيبة، حدثنا ابو العوام وهو عمران القطان , عن قتادة، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل ابن آدم وإلى جنبه تسعة وتسعون منية، إن اخطاته المنايا وقع في الهرم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ وَهُوَ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ , عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مُثِّلَ ابْنُ آدَمَ وَإِلَى جَنْبِهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ مَنِيَّةً، إِنْ أَخْطَأَتْهُ الْمَنَايَا وَقَعَ فِي الْهَرَمِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں، اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہو جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2150 (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن ومضى (2151) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا برقم (1747 - 2255) //
23. باب مِنْهُ
23. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2457
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا قبيصة، عن سفيان، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن الطفيل بن ابي بن كعب، عن ابيه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب ثلثا الليل قام , فقال: " يا ايها الناس اذكروا الله، اذكروا الله جاءت الراجفة تتبعها الرادفة جاء الموت بما فيه جاء الموت بما فيه "، قال ابي: قلت: يا رسول الله , إني اكثر الصلاة عليك فكم اجعل لك من صلاتي؟ فقال: " ما شئت "، قال: قلت: الربع؟ قال: " ما شئت فإن زدت فهو خير لك " , قلت: النصف؟ قال: " ما شئت فإن زدت فهو خير لك " , قال: قلت: فالثلثين؟ قال: " ما شئت فإن زدت فهو خير لك " , قلت: اجعل لك صلاتي كلها , قال: " إذا تكفى همك ويغفر لك ذنبك " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ , فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللَّهَ، اذْكُرُوا اللَّهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ "، قَالَ أُبَيٌّ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي؟ فَقَالَ: " مَا شِئْتَ "، قَالَ: قُلْتُ: الرُّبُعَ؟ قَالَ: " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " , قُلْتُ: النِّصْفَ؟ قَالَ: " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " , قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ " , قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا , قَالَ: " إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ (درود) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟۔ آپ نے فرمایا: اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 30)، وانظر مسند احمد (5/135) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (954)، فضل الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم رقم (13 و 14)
24. باب مِنْهُ
24. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2458
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا محمد بن عبيد، عن ابان بن إسحاق، عن الصباح بن محمد، عن مرة الهمداني، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " استحيوا من الله حق الحياء " قال: قلنا: يا رسول الله , إنا لنستحيي والحمد لله، قال: " ليس ذاك ولكن الاستحياء من الله حق الحياء ان تحفظ الراس وما وعى، وتحفظ البطن وما حوى، وتتذكر الموت والبلى، ومن اراد الآخرة ترك زينة الدنيا، فمن فعل ذلك فقد استحيا من الله حق الحياء " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب إنما نعرفه من هذا الوجه من حديث ابان بن إسحاق، عن الصباح بن محمد.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ " قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: " لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَتَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَتَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَالْبِلَى، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے ۱؎، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ۲؎، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ۳؎، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے۔
۲- اس حدیث کو اس سند سے ہم صرف ابان بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اور انہوں نے صباح بن محمد سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9553) (حسن) (صحیح الترغیب 3337، 1638، 1725، 1724)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اللہ سے پورا پورا ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔
۲؎: یعنی اپنا سر غیر اللہ کے سامنے مت جھکانا، نہ ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنا، اور نہ ہی اپنی زبان، آنکھ اور کان کا غلط استعمال کرنا۔
۳؎: یعنی حرام کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو، اسی طرح شرمگاہ، ہاتھ، پاؤں اور دل کی اس طرح حفاظت کرو، کہ ان سے غلط کام نہ ہونے پائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، الروض النضير (601)، المشكاة (1608 / التحقيق الثانى)
25. باب مِنْهُ
25. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2459
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عيسى بن يونس، عن ابي بكر بن ابي مريم , وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا ابن المبارك، عن ابي بكر بن ابي مريم , عن ضمرة بن حبيب، عن شداد بن اوس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز من اتبع نفسه هواها وتمنى على الله " , قال: هذا حديث حسن، قال: ومعنى قوله من دان نفسه، يقول: حاسب نفسه في الدنيا قبل ان يحاسب يوم القيامة، ويروى عن عمر بن الخطاب قال: حاسبوا انفسكم قبل ان تحاسبوا، وتزينوا للعرض الاكبر وإنما يخف الحساب يوم القيامة على من حاسب نفسه في الدنيا، ويروى عن ميمون بن مهران قال: لا يكون العبد تقيا حتى يحاسب نفسه كما يحاسب شريكه من اين مطعمه وملبسه.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ , وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، يَقُولُ: حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا قَبْلَ أَنْ يُحَاسَبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيُرْوَى عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا، وَتَزَيَّنُوا لِلْعَرْضِ الْأَكْبَرِ وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا، وَيُرْوَى عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ: لَا يَكُونُ الْعَبْدُ تَقِيًّا حَتَّى يُحَاسِبَ نَفْسَهُ كَمَا يُحَاسِبُ شَرِيكَهُ مِنْ أَيْنَ مَطْعَمُهُ وَمَلْبَسُهُ.
شداد بن اوس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اور «من دان نفسه» کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کر لے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیا جائے،
۳- عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور «عرض الأكبر» (آخرت کی پیشی) کے لیے تدبیر کرو، اور جو شخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے قیامت کے روز اس پر حساب و کتاب آسان ہو گا،
۴- میمون بن مہران کہتے ہیں: بندہ متقی و پرہیزگار نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے جیسا کہ اپنے شریک سے محاسبہ کرتا ہے اور یہ خیال کرے کہ میرا کھانا اور لباس کہاں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 31 (4260) (تحفة الأشراف: 4820) (ضعیف) (سند میں ابوبکر بن ابی مریم ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (4260) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (930)، المشكاة (5289)، ضعيف الجامع الصغير (4305) //
26. باب مِنْهُ
26. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2460
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن احمد بن مدويه، حدثنا القاسم بن الحكم العرني، حدثنا عبيد الله بن الوليد الوصافي، عن عطية، عن ابي سعيد، قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مصلاه فراى ناسا كانهم يكتشرون، قال: " اما إنكم لو اكثرتم ذكر هاذم اللذات لشغلكم عما ارى، فاكثروا من ذكر هاذم اللذات الموت فإنه لم يات على القبر يوم إلا تكلم فيه، فيقول: انا بيت الغربة وانا بيت الوحدة وانا بيت التراب وانا بيت الدود، فإذا دفن العبد المؤمن قال له القبر: مرحبا واهلا، اما إن كنت لاحب من يمشي على ظهري إلي فإذ وليتك اليوم وصرت إلي فسترى صنيعي بك، قال: فيتسع له مد بصره ويفتح له باب إلى الجنة، وإذا دفن العبد الفاجر او الكافر , قال له القبر: لا مرحبا ولا اهلا، اما إن كنت لابغض من يمشي على ظهري إلي فإذ وليتك اليوم وصرت إلي فسترى صنيعي بك، قال: فيلتئم عليه حتى يلتقي عليه وتختلف اضلاعه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم باصابعه: فادخل بعضها في جوف بعض، قال: ويقيض الله له سبعين تنينا لو ان واحدا منها نفخ في الارض ما انبتت شيئا ما بقيت الدنيا فينهشنه ويخدشنه حتى يفضى به إلى الحساب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما القبر روضة من رياض الجنة او حفرة من حفر النار " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْعُرَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلَّاهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ، قَالَ: " أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى، فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فِيهِ، فَيَقُولُ: أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ، فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، قَالَ: فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوِ الْكَافِرُ , قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، قَالَ: فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلَاعُهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِهِ: فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ، قَالَ: وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلی پر تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں، آپ نے فرمایا: آگاہ رہو! اگر تم لوگ لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز کو یاد رکھتے تو تم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے، سو لذتوں کو ختم کر دینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو، اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے: میں غربت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں، اور میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، پھر جب مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے مرحبا (خوش آمدید) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب تھا جو میرے پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہو گئی اور تو میری طرف آ گیا تو اب دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا حسن سلوک کروں گی، پھر اس کی نظر پہنچنے تک قبر کشادہ کر دی جائے گی اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا، اور جب فاجر یا کافر دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے نہ ہی مرحبا کہتی ہے اور نہ ہی مبارک باد دیتی ہے بلکہ کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا جو میری پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوں اور تو میری طرف آ گیا سو آج تو اپنے ساتھ میری بدسلوکیاں دیکھ لے گا، پھر وہ اس کو دباتی ہے، اور ہر طرف سے اس پر زور ڈالتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف مل جاتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور ایک دوسرے کو آپس میں داخل کر کے فرمایا: اللہ اس پر ستر اژدہے مقرر کر دے گا، اگر ان میں سے کوئی ایک بار بھی زمین پر پھونک مار دے تو اس پر رہتی دنیا تک کبھی گھاس نہ اگے، پھر وہ اژدہے اسے حساب و کتاب لیے جانے تک دانتوں سے کاٹیں گے اور نوچیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4213) (ضعیف جداً) (سند میں عبید اللہ وصافی اور عطیہ عوفی دونوں ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، لكن جملة " هاذم اللذات " صحيحة، فانظر الحديث (2409)، الضعيفة (4990)، (2409) // ضعيف الجامع الصغير (1231) //

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.