الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نکاح کے مسائل
حدیث نمبر: 2251
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله: ان اليهود، قالوا للمسلمين: "من اتى امراته وهي مدبرة، جاء ولده احول. فانزل الله تعالى: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ الْيَهُودَ، قَالُوا لِلْمُسْلِمِينَ: "مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ وَهِيَ مُدْبِرَةٌ، جَاءَ وَلَدُهُ أَحْوَلَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہود نے مسلمانوں سے کہا: جو آدمی اپنی بیوی کے پیچھے سے ہم بستری کرے گا تو اس کا بچہ بھینگا پیدا ہو گا، چنانچہ الله تعالیٰ نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی: «﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ ......﴾» [البقره: 222/2] یعنیتمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں سو اپنے کھیت میں آؤ جدھر سے چاہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2260]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4528]، [مسلم 3521]، [أبوداؤد 2163]، [ترمذي 2978]، [ابن ماجه 1925، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2250)
آیتِ مذکورہ میں « ﴿أَنَّى شِئْتُمْ﴾ » سے مراد یہ کہ جس طرح چاہو لٹا کر، بٹھا کر، کھڑا کر کے اپنی بیوی سے جماع کر سکتے ہو، لفظ «حَرْثَكُمْ» بتلا رہا ہے کہ اس سے وطی فی الدبر مراد نہیں کیونکہ دبر کھیتی نہیں۔
یہ آیت یہودیوں کی تردید میں نازل ہوئی جو کہا کرتے تھے کہ عورت سے اگر شرم گاہ میں پیچھے سے جماع کیا جائے تو لڑکا بھینگا پیدا ہوتا ہے۔
دبر میں جماع کرنا حرام ہے۔
ترمذی و ابن ماجہ (1923) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں کرے گا جو کسی مرد یا عورت سے دبر میں جماع کرے۔
یہ فعل بہت گندا اور خلافِ انسانیت ہے، ایسے شخص پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے، قومِ لوط نے ایسا کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا، پتھر برسائے اور انہیں تہ و بالا و نیست و نابود کر دیا، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس فعلِ بد سے بچائے، آمین۔
آج کی دنیا میں بھی ایسا کرنے والوں پر بڑی بیماریوں کے بھیانک عذاب آ رہے ہیں، ایڈز کی بیماری کا اصل سبب یہ ہی اغلام بازی ہے۔
اسلام نے اس طوفان کی پیش بندی کی ہے، کاش لوگ اسے سمجھیں اور عمل کریں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه
31. باب الرَّجُلِ يَرَى الْمَرْأَةَ فَيَخَافُ عَلَى نَفْسِهِ:
31. آدمی کا عورت کو دیکھ کر فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو وہ کیا کرے؟
حدیث نمبر: 2252
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا قبيصة، اخبرنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن عبد الله بن حلام، عن عبد الله بن مسعود، قال: راى رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة فاعجبته، فاتى سودة وهي تصنع طيبا، وعندها نساء، فاخلينه، فقضى حاجته، ثم قال: "ايما رجل راى امراة تعجبه، فليقم إلى اهله، فإن معها مثل الذي معها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً فَأَعْجَبَتْهُ، فَأَتَى سَوْدَةَ وَهِيَ تَصْنَعُ طِيبًا، وَعِنْدَهَا نِسَاءٌ، فَأَخْلَيْنَهُ، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ قَالَ: "أَيُّمَا رَجُلٍ رَأَى امْرَأَةً تُعْجِبُهُ، فَلْيَقُمْ إِلَى أَهْلِهِ، فَإِنَّ مَعَهَا مِثْلَ الَّذِي مَعَهَا".
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کو بہت بھا گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین سیدہ سوده رضی اللہ عنہا کے پاس آئے جو خوشبو کشید کر رہی تھیں اور ان کے پاس عورتیں بیٹھی تھیں، وہ عورتیں چھوڑ کر چلی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواہش پوری کر لی پھر فرمایا: جو کوئی بھی کسی ایسی عورت کو دیکھے جو اس کا دل لبھائے تو وہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے (یعنی اس سے اپنی شہوت پوری کرے) کیونکہ بیوی کے پاس بھی (قضائے حاجت کے لئے) وہی ہے جو اس عورت کے پاس ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2261]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حوالہ دیکھے: [التاريخ الكبير للبخاري 69/5]، [شعب الايمان للبيهقي 5436]، [وله شاهد عند مسلم 1403]۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک عورت پر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، وہ چمڑے کو دباغت دینے کے لئے مل رہی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حاجت ان سے پوری کی اور پھر صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ ”عورت جب سامنے آتی ہے تو شیطان کی صورت میں آتی ہے، اور جب جاتی ہے تو شیطان کی صورت میں جاتی ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی جب کسی عورت کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس جا کر اس سے صحبت کرے، اس عمل سے اس کے دل کا خمار و خیال جاتا رہے گا۔“

وضاحت:
(تشریح حدیث 2251)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عورت پرنظر پڑنا الله تعالیٰ کی طرف سے تھا تاکہ امّت کو ایسی حالت میں اپنے اوپر کنٹرول کی پاکیزہ تعلیم دی جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً و فعلاً امّت کو اس کی تعلیم دی کہ عورت کو دیکھ کر آدمی فتنے میں مبتلا نہ ہو، اور یہ حقیقت ہے کہ شیطان عورت کے آگے پیچھے لگا رہتا ہے اور غیروں کی نظر میں بد صورت و گندی عورت کو اچھی صورت میں دکھاتا ہے تاکہ وہ جادۂ حق اور صراطِ مستقیم سے ہٹ کر فتنہ میں مبتلا ہو جائے۔
ایسے میں انسان کو چاہیے کہ اللہ کی پناہ طلب کرے اور جائز طریقے سے اپنی حاجت پوری کرے، اور شیطان کو، نفسِ امارہ کو کچل دے، ایسا نہ ہو کہ شیطان اسے ہی ذلیل و رسوا کرا دے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد اگر اپنی بیوی سے دن میں جماع کرے تو کوئی حرج نہیں، اور بیوی کے لئے ضروری ہے کہ اگر گھر کے کام کاج میں ہو تو سب کچھ ترک کر کے شوہر کی دعوت پر لبیک کہے اور چوں چرا نہ کرے۔
اس حدیث میں ایک اور مصلحت پوشیدہ ہے جو طبی نقطۂ نظر سے بہت اہم ہے، وہ یہ کہ کسی وجہ سے آدمی کی شہوت جاگ پڑے تو اس کو دبانا ٹھیک نہیں، ورنہ وہ جسمِ انسانی کو ضرر پہنچائے گی، کیل مہاسے، جریان و احتلام اور دیگر بیماریوں کی شکل میں مبتلا کر دے گی، قربان جائیں ہادیٔ برحق خاتم الرسل سیدنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے ہمیں ایسی پاکیزہ تعلیمات اور حفظانِ صحت کے قیمتی اصولوں سے نوازا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
32. باب في تَزْوِيجِ الأَبْكَارِ:
32. کنواری لڑکیوں سے نکاح کا بیان
حدیث نمبر: 2253
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن مطيع، حدثنا هشيم، اخبرنا سيار، عن الشعبي، قال: حدثنا جابر بن عبد الله، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فلما قفلنا تعجلت، فلحقني راكب، قال: فالتفت، فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي: "ما اعجلك يا جابر؟"قال: إني حديث عهد بعرس، قال:"افبكرا تزوجتها ام ثيبا؟"قال: قلت: بل ثيبا، قال:"فهلا بكرا تلاعبها وتلاعبك؟"قال: ثم قال لي:"إذا قدمت فالكيس الكيس"، قال: فلما قدمنا، ذهبنا ندخل، قال:"امهلوا حتى ندخل ليلا، اي: عشاء لكي تمتشط الشعثة، وتستحد المغيبة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا قَفَلْنَا تَعَجَّلْتُ، فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ، قَالَ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: "مَا أَعْجَلَكَ يَا جَابِرُ؟"قَالَ: إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ:"أَفَبِكْرًا تَزَوَّجْتَهَا أَمْ ثَيِّبًا؟"قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ:"فَهَلَّا بِكْرًا تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ؟"قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي:"إِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ"، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا، ذَهَبْنَا نَدْخُلُ، قَالَ:"أَمْهِلُوا حَتَّى نَدْخُلَ لَيْلًا، أَيْ: عِشَاءً لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ، وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، جب ہم واپس لوٹے تو میں جلدی کرنے لگا، اچانک پیچھے سے ایک سوار آیا، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ آپ نے مجھ سے کہا: جابر جلدی کیوں کرتے ہو؟ عرض کیا: کیونکہ میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ فرمایا: کنواری لڑکی سے نکاح کیا ہے یا ثیبہ (شوہردیدہ) سے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: شوہر دیدہ ہی سے شادی کی ہے، فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی، تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھر پہنچ کر صحبت ہی صحبت اور ملاقات ہی ہے۔، پھر جب ہم مدینہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹهہرو انتظار کرو یہاں تک کہ رات ہو جائے، یعنی عشاء تک تاکہ بکھرے بالوں والی بناؤ سنگھار کر لے اور جس کا شوہر باہر گیا ہو وہ صفائی ستھرائی کر لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2262]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4052]، [مسلم 1521]، [نسائي 3236]، [ابن ماجه 1860]، [أبويعلی 1793]، [ابن حبان 2717]، [الحميدي 1261]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2252)
اس حدیث سے باکرہ کی فضیلت معلوم ہوئی اور کنواری سے نکاح کرنا مستحب ہوا، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے، اس کے ساتھ ہنسنے ہنسانے کا ثبوت ملا، اور یہ کہ کوئی مصلحت نہ ہو تو باکره ثیبہ سے بہتر ہے، نیز مسافر کافی دن بعد گھر لوٹے تو اپنے آنے کی خبر بیوی کو کر دے اور اتنی مہلت اسے دے کہ وہ بناؤ سنگھار اور صفائی ستھرائی کر لے۔
صحیحین میں ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! والد صاحب شہید ہو گئے اور میرے ساتھ نو بہنیں چھوڑی ہیں، اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے۔
مسلم شریف میں یہ بھی ہے کہ میرا اونٹ بہت کمزور اور سست تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لکڑی سے کونچا دیا تو وہ خوب تیز دوڑنے لگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (کتنا تیز چلنے والا اونٹ ہے) کیا اسے بیچو گے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کو خرید لیا، مدینہ واپس پہنچے تو قیمت بھی ادا کی اور اونٹ بھی مجھے دے دیا۔
سبحان اللہ العظیم! کیا اخلاقِ کریمانہ تھے فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے، اپنے اصحاب کا دل کس طرح رکھتے اور سب سے یکساں محبت و پیار کرتے، اللہ تعالیٰ ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار دنیا و آخرت میں نصیب فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا حشر کرے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
33. باب في الْغِيلَةِ:
33. دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2254
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن محمد بن عبد الرحمن بن نوفل الاسدي، عن عروة، عن عائشة، عن جدامة بنت وهب الاسدية، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لقد هممت ان انهى عن الغيلة حتى ذكرت ان فارس، والروم يصنعون ذلك فلا يضر اولادهم". قال ابو محمد: الغيلة: ان يجامعها وهي ترضع.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَسَدِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَة، عَنْ جُدَامَةَ بِنْتِ وَهْبٍ الْأَسَدِيَّةِ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَنْهَى عَنِ الْغِيلَةِ حَتَّى ذَكَرْتُ أَنَّ فَارِسَ، وَالرُّومَ يَصْنَعُونَ ذَلِكَ فَلَا يَضُرُّ أَوْلَادَهُمْ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: الْغِيلَةُ: أَنْ يُجَامِعَهَا وَهِيَ تُرْضِعُ.
سیدہ جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنے سے منع کر دوں، لیکن مجھے یاد آیا کہ روم و فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولادوں کو ضرر نہیں پہنچتا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «غيله» سے مراد یہ ہے کہ عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور اس سے جماع کیا جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2263]»
اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1442]، [أبوداؤد 3882]، [ترمذي 2076]، [نسائي 3326]، [ابن ماجه 2011]، [ابن حبان 4196]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2253)
عربوں کا یہ خیال تھا کہ بچے کی ماں جب بچے کو دودھ پلاتی ہو تو اس سے صحبت نہیں کرنی چاہے، اس سے لڑکا ضعیف و نحیف ہو جاتا ہے۔
یہ صحیح نہیں ہے، البتہ اگر حالتِ رضاعت میں حمل ٹھہر جائے تو بچے کی دو سال کی رضاعت پوری نہیں ہوتی اس لئے بچہ پر ضرر پڑتا ہے، اور جیسا کہ معلوم و معروف ہے شیر خوار بچے کے لئے ماں کے دودھ سے زیادہ تقویت دینے والی اور نشو و نما میں اہم چیز کوئی نہیں۔
بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالتِ رضاعت میں دودھ پلانے والی عورت سے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
سبحان اللہ! اسلامی شریعت میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کا حکم بیان نہ کر دیا گیا ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في الرضاع
34. باب النَّهْيِ عَنْ ضَرْبِ النِّسَاءِ:
34. عورتوں، بیویوں کو مارنے کا بیان
حدیث نمبر: 2255
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا جعفر بن عون، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: "ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم خادما قط، ولا ضرب بيده شيئا قط إلا ان يجاهد في سبيل الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا قَطُّ، وَلَا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو مارا نہیں، اور نہ کبھی کسی اور کو اپنے ہاتھ سے مارا، ہاں اللہ کے راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد (ضرور) کرتے تھے (یعنی جہاد و میدان جنگ میں دشمن کو لکارا اور مارا ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2264]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2328]، [ابن ماجه 1984]، [أبويعلی 4375]، [ابن حبان 488، 6444]، [الحميدي 260]۔ ابن ماجہ میں عورت کا بھی اضافہ ہے یعنی نہ کبھی کسی عورت کو مارا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2256
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد بن ابي خلف، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن إياس بن عبد الله بن ابي ذباب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تضربوا إماء الله"، فجاء عمر بن الخطاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: قد ذئرن على ازواجهن، فرخص لهم، في ضربهن، فاطاف بآل رسول الله صلى الله عليه وسلم نساء كثير يشكون ازواجهن، فقال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"لقد طاف بآل محمد نساء كثير يشكون ازواجهن ليس اولئك بخياركم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ذُبَابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَضْرِبُوا إِمَاءَ اللَّهِ"، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَدْ ذَئِرْنَ عَلَى أَزْوَاجِهِنَّ، فَرَخَّصَ لَهُمْ، فِي ضَرْبِهِنَّ، فَأَطَافَ بِآلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءٌ كَثِيرٌ يَشْكُونَ أَزْوَاجَهُنَّ، فَقَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَقَدْ طَافَ بِآلِ مُحَمَّدٍ نِسَاءٌ كَثِيرٌ يَشْكُونَ أَزْوَاجَهُنَّ لَيْسَ أُولَئِكَ بِخِيَارِكُمْ".
سیدنا عبداللہ بن ابی ذباب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی بندیوں کو مت مارو، (یعنی بیویوں کو) پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: (اس حکم سے) عورتیں اپنے شوہروں پر دلیر ہو گئی ہیں (یعنی زبان درازی اور شرارت پر آمادہ ہیں)، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیویوں کو مارنے کی اجازت دیدی، پھر بہت سی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئیں، اپنے خاوندوں کے گلے شکوے کرنے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سی عورتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس اپنے خاوندوں کی شکایت و گلہ کرتی ہیں۔ یہ لوگ (یعنی جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں) اچھے نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2265]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2146]، [ابن ماجه 1985]، [ابن حبان 4189]، [موارد الظمآن 1316]، [الحميدي 900]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2257
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن زمعة، قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس يوما فوعظهم في النساء، فقال: "ما بال الرجل يجلد امراته جلد العبد، ولعله يضاجعها في آخر يومه؟!".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمَعَةَ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ يَوْمًا فَوَعَظَهُمْ فِي النِّسَاءِ، فَقَالَ: "مَا بَالُ الرَّجُلِ يَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ، وَلَعَلَّهُ يُضَاجِعُهَا فِي آخِرِ يَوْمِهِ؟!".
سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور عورتوں کے بارے میں لوگوں کو نصیحت فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے آدمی اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتا ہے، حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہم بستری بھی کرتا ہے (یا کرے گا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2266]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4942]، [مسلم 2855]، [ترمذي 3343]، [ابن ماجه 1983]، [ابن حبان 4189]، [موارد الظمآن 1316]، [الحميدي 900]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2254 سے 2257)
آدمی پہلے مارے پھر پیار کرے، یہ علاقۂ زوجیت میں نفرتیں پیدا کر سکتا ہے۔
بہتر تو یہ ہے کہ حتی المقدور عورت پر ہاتھ ہی نہ اٹھائے، اور بہت بڑا اس کا قصور ہو تو پہلے ناراضگی کا الفاظ میں اظہار کرے، ڈانٹے، پاس سلانا چھوڑ دے یا منہ موڑ کر سووے، اگر پھر بھی راہِ راست پر نہ آئے تو ہلکی سرزنش کرے یا مارے لیکن چہرے پر نہ مارے۔
کتنے پیارے رحم دل تھے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ نہ کبھی کسی خادم کو مارا، نہ بیوی کو ستایا، اور نہ کسی اور آدمی کو سرزنش کے طور پر مارا، ویسے تو ساری امّت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہربان تھے، اپنے اہل و عیال، بیوی بچوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی اچھے، رحیم و کریم، شفیق و مہربان تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہوں۔
اس میں کوئی برائی نہیں بلکہ یہ تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔
افسوس آج اگر بیوی کے ساتھ احسان و اچھا سلوک کیا جائے تو بعض لوگ جورو کے غلام ہونے کا طعنہ دیتے ہیں، (ہدا ہم اللہ)۔
ان احادیثِ مبارکہ میں قول و فعل ہر طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حتی الامکان مار پیٹ نہ کرنے کی تعلیم دی۔
بڑے فصیح و بلیغ انداز میں فرمایا: ایک انسان دن میں اپنی بیوی کو مارے شام کو گلے لگائے، اس پر اس کو شرم دلائی ہے، پھر مارنے کی ضرورت پڑ جائے تو مارے لیکن گدھے گھوڑے اور غلام کی طرح نہ مارے، اور ذلیل و خوار نہ کرے، افراط و تفریط سے بچے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
35. باب مُدَارَاةِ الرَّجُلِ أَهْلَهُ:
35. آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کیسا برتاؤ کرے؟
حدیث نمبر: 2258
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا عبد الوارث، حدثنا الجريري، عن ابي العلاء، عن نعيم بن قعنب، عن ابي ذر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "إن المراة خلقت من ضلع، فإن تقمها، كسرتها، فدارها، فإن فيها اودا وبلغة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ قَعْنَبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، فَإِنْ تُقِمْهَا، كَسَرْتَهَا، فَدَارِهَا، فَإِنَّ فِيهَا أَوَدًا وَبُلْغَةً".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، پس اگرتم نے اس کو سیدھا کیا تو توڑ بیٹھو گے، لہٰذا تم اس سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ کیونکہ اس میں کجی بھی ہے اور راحت رسانی بھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح عبد الوارث بن سعيد قديم السماع من سعيد بن إياس الجريري وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 2267]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [كشف الاستار 1478] و [أحمد 151/5]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2257)
پسلی سے پیدا کئے جانے سے اشارہ ہے حضرت حواء علیہ السلام کی طرف جن کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے اللہ تعالیٰ نے وجود بخشا، نیز یہ کہ پسلی ٹیڑھی خصوصاً اوپر کی طرف سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے، اسی طرح عورت بھی اوپر کی طرف سے یعنی زبان سے ٹیڑھی ہوتی ہے، اس کی زبان درازی اور سخت گوئی پر صبر کرنا اور حسنِ معاملہ سے گھر بنائے رکھنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے بلیغ انداز میں بتایا کہ اگر اپنی سخت گیری سے تم اسے راہِ راست پر لانا چاہو گے تو ہڈی اور سوکھی لکڑی کی طرح توڑ بیٹھو گے اور تمہارے گھر کا شیرازہ بکھر جائے گا، اس لئے اس سے اچھا سلوک کرو، وہ حسنِ سلوک سے خود ہی بدل جائے گی، مارنے پیٹنے، طعنہ زنی، گالی گلوج سے نفرت اور انتقام کو ہوا ملے گی۔
«أَوَدَّا» سے مراد کجی ہے اور «بُلْغَةً» سے مراد وہ کیفیت ہے جس سے انسان اپنی بیوی سے کیف و سرور حاصل کرتا ہے، جیسا کہ آگے حدیث میں بھی آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح عبد الوارث بن سعيد قديم السماع من سعيد بن إياس الجريري وباقي رجاله ثقات
حدیث نمبر: 2259
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما المراة كالضلع: إن تقمها، تكسرها، وإن تستمتع بها، تستمتع وفيها عوج".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا الْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ: إِنْ تُقِمْهَا، تَكْسِرْهَا، وَإِنْ تَسْتَمْتِعْ بِهَا، تَسْتَمْتِعْ وَفِيهَا عِوَجٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت پسلی کی طرح (ٹیڑھی) ہے، اگر تم نے اسے سیدها کرنے کی کوشش کی تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسی ٹیڑھے پن کے ساتھ اس سے استمتاع کرو گے تو فائدہ میں رہو گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2268]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5184، 5186]، [مسلم 1468]، [أبويعلی 6218]، [ابن حبان 2179، 4180]، [الحميدي 1202]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2258)
اس حدیث میں توڑنے سے مراد طلاق دینا ہے۔
اس حدیث میں بھی عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک و حسنِ معاشرت سے پیش آنے کا حکم ہے، اور ان کی چھوٹی موٹی خامیوں اور کوتاہیوں پر چشم پوشی اور درگزر کرنے کی تلقین ہے، اور ان کی کمزوریوں اور ناروا حرکتوں کو برداشت کرنے کی تاکید ہے۔
(شرح بلوغ المرام للشیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه
36. باب في الْعَزْلِ:
36. عزل کا بیان
حدیث نمبر: 2260
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود الهاشمي، عن إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابي سعيد، قال: سال رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العزل، فقال: "او تفعلون ذلك؟ فلا عليكم ان لا تفعلوا، فإنه ليس من نسمة قضى الله تعالى ان تكون إلا كانت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَة، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَزْلِ، فَقَالَ: "أَوَ تَفْعَلُونَ ذَلِكَ؟ فَلَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ نَسَمَةٍ قَضَى اللَّهُ تَعَالَى أَنْ تَكُونَ إِلَّا كَانَتْ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ایسا کرتے ہو؟ تم اگر ایسا نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جس جان کے پیدا ہونے کا فیصلہ کر دیا ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گا، چاہے عزل کرو یا نہ کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2269]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2229، 7409]، [مسلم 1438]، [أبوداؤد 2170]، [ترمذي 1138]، [أبويعلی 1050، 1250]، [ابن حبان 4191]، [الحميدي 764]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2259)
عزل کا معنی صحبت و جماع کرنے پر انزال کے وقت عضوِ مخصوص کو باہر نکال لینا ہے تاکہ منی باہر نکلے اور حمل قرار نہ پا سکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرح سے عزل کو نا پسند فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تمہارا یہ عمل باطل ہے، جو جان پیدا ہونے والی مقدر ہے وہ تو اس صورت میں بھی ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔
اس حدیث سے ایسے مسائل پوچھنا بھی ثابت ہوا جن کے ذکر سے آدمی کو فطرةً شرم آئے، نیز یہ کہ اولاد دینا الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، بندہ کچھ نہیں جانتا اور نہ اس کو اولاد پیدا کرنے یا روکنے کا اختیار ہے۔
مرد عورت افزائشِ نسل کے اسباب ہیں، خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، عزل کو عام طور پر مکروہ سمجھا گیا ہے کیونکہ اس میں قطع اور تقليلِ نسل ہے۔
دورِ حاضر میں جو فیملی پلاننگ کے نام سے تقلیلِ نسل کے پروگرام جاری و ساری ہیں عزل سے اس کو جائز قرار دینا صحیح نہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.