الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نکاح کے مسائل
حدیث نمبر: 2261
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن عبد الرحمن بن بشر يرد الحديث إلى ابي سعيد الخدري، قال: قلنا: يا رسول الله، الرجل تكون له الجارية فيصيب منها، ويكره ان تحمل، افيعزل عنها؟ وتكون عنده المراة ترضع فيصيب منها ويكره ان تحمل. افيعزل عنها؟ قال: "لا عليكم ان لا تفعلوا، فإنما هو القدر". قال ابن عون: فذكرت ذلك للحسن، فقال: والله لكان هذا زجرا، والله لكان هذا زجرا!!.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ يَرُدُّ الْحَدِيثَ إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّه، الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْجَارِيَةُ فَيُصِيبُ مِنْهَا، وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ، أَفَيَعْزِلُ عَنْهَا؟ وَتَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ تُرْضِعُ فَيُصِيبُ مِنْهَا وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ. أَفَيَعْزِلُ عَنْهَا؟ قَالَ: "لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّمَا هُوَ الْقَدَرُ". قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلْحَسَنِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌا، وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌا!!.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آدمی کے پاس لونڈی ہوتی ہے، وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اسے حمل ہو، کیا وہ اس سے عزل کر سکتا ہے؟ ایسے ہی آدمی کے پاس عورت (بیوی) ہوتی ہے اور وہ دودھ پلاتی ہے، مرد اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کو حمل ہو، ایسی صورت میں کیا وہ اپنی بیوی سے عزل کر سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ حرج نہیں اگر تم عزل نہ کرو، یہ تو تقدیر کی بات ہے۔ ابن عون نے کہا: میں نے یہ روایت حسن سے بیان کی تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اس جملہ ( «لا عليكم») میں عزل سے باز رہنے کی تنبیہ ہے، عزل سے اس میں جھڑکنا، باز رکھنا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2270]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1441]، [نسائي 3327]، [أبويعلی 1306]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2260)
اس حدیث کا بھی یہی مفہوم نکلا کہ نطفہ قرار پانا اور بچہ پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے معین ومقدر ہے، اس میں کسی کی کارستانی کا کوئی دخل نہیں، اگر اللہ تعالیٰ کو حمل ٹھہرانا ہوگا تو تم کو اس کام سے باز رکھے گا اور نطفے کو تم باہر نہ ڈال سکو گے، اور اس کام سے یہ خیال ہی نہ کرنا چاہیے کہ جب ہمارا جی چاہے گا نطفہ ٹھہرا دیں گے، یہ خام خیالی اور سراسر باطل چیز ہے۔
(وحیدی، بتصرف بسيط)۔
اس حدیث میں عزل سے کراہت کا ایک اور پہلو ہے، وہ یہ کہ عزل کرنے والا گویا تقدیر کو رد کرنے کی کوشش کرنے والا ہے۔
استاد محترم شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ شرح بلوغ المرام میں لکھتے ہیں: اور دورِ جدید کے جو ڈاکٹر رگ کاٹ کر قوتِ تولید کو قطع کر دیتے ہیں تاکہ نسل کو محدود کر دیا جائے گو قوتِ جماع اس سے باقی رہتی ہے تو اس کو عزل پر قطعاً قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان دونوں (حالتوں) کے درمیان عظیم فرق ہے، عزل تو وقتی اور ظنی سبب ہے نہ کہ منع حمل کے لئے حقیقی سبب، اس کے باوجود عازل تو خود مختار ہے، اگر چاہے تو یہ فعل کرے اور چاہے اسے ترک کرے، اور جہاں تک رگِ تولید کے کاٹ دینے کا تعلق ہے تو وہ ایسا سبب ہے جو قطعی ہے، نیز اس میں اللہ کی تخلیق میں بدل دینا، اور جسمانی نظام کا تبدیل ہونا، اور بعض قوی کے مطابق عمل کو باطل کرنا اور تباہ کن بیماریوں کی جانب پہنچا دینا ہے، جیسے سرطان (کینسر) کا مرض ہے جو کٹی ہوئی جگہ سے دل اور پھیپھڑے وغیرہ تک سرایت کر جاتا ہے، ہر باخبر آدمی پر اس کے برے نتائج اور آثار مخفی اور پوشیدہ نہیں (انتہیٰ کلامہ رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
37. باب في الْغَيْرَةِ:
37. غیرت کا بیان
حدیث نمبر: 2262
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن شقيق، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ليس احد اغير من الله، لذلك حرم الفواحش وليس احد احب إليه المدح من الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ، لِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں اسی لئے اس نے بےحیائی و بدکاری کے کاموں کو حرام کیا اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی مدح بھی پسند کرنے والا نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2271]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5220]، [مسلم 3760]، [أبويعلی 5123]، [ابن حبان 294]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2261)
غیرت ایسی صفت ہے جو آدمی کا نفس اس کی زوجہ کی طرف سے یا زوجہ کا اپنے شوہر کی طرف سے بدل جانا اور بھڑک جانا جب وہ اس کے علاوہ کسی اور کو اپنی زیب و زینت دکھائے۔
یہ صفت اللہ تعالیٰ کے اندر بدرجہ اتم ہے جب بندہ اپنے خالق کو چھوڑ کر کسی اور کو شریک کر لے یا اس کی تعظیم کرے، یا اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لے، اہلِ حدیث کے نزدیک غیرت اللہ کی ایک صفت ہے جو اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، اس کی تاویل نہیں کی جا سکتی، اللہ ہی اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2263
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، حدثنا يحيى بن ابي كثير، عن محمد بن إبراهيم، حدثني ابن جابر بن عتيك، حدثني ابي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "من الغيرة ما يحب الله، ومنها ما يبغض الله: فالغيرة التي يحب الله: الغيرة في الريبة، والغيرة التي يبغض الله، الغيرة في غير ريبة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّه، وَمِنْهَا مَا يُبْغِضُ اللَّهُ: فَالْغَيْرَةُ الَّتِي يُحِبُّ اللَّه: الْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ، وَالْغَيْرَةُ الَّتِي يُبْغِضُ اللَّه، الْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ".
ابن جابر بن عتیک نے کہا: میرے والد نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک غیرت کو اللہ پسند فرماتا ہے اور ایک قسم کی غیرت کو الله تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، اور جس غیرت کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان شک کی جگہ غیرت کرے (جیسے اس کی عورت سے کوئی تنہائی میں ہنسی مذاق کرے تو اسے غیرت آ جائے) اور وہ غیرت جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں وہ یہ ہے کہ بلا شک (اور قرائن) کے بلاوجہ غیرت کرے (جیسے کوئی آدمی اس کے گھر سے نکلے اس کو بلا تحقیق کئے غیرت سے مار ڈالے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2272]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھے۔ [أبوداؤد 2659]، [نسائي 2557]، [ابن حبان 4295]، [موارد الظمآن 1313]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2262)
تہمت کی جگہ میں غیرت کرنا یعنی جہاں بدنامی کا خوف ہو، جیسے شراب خانے میں بیٹھنا، غیر محرم عورت کے ساتھ تنہا رہنا، جب انسان غیرت کرے گا تو گناہوں سے بچے گا، بے غیرتی لاد لے گا تو کچھ کرے یا ہوتا رہے اس کو فکر نہ ہوگی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2264
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله بن عمرو، عن عبد الملك بن عمير، عن وراد مولى المغيرة، عن المغيرة، قال: بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم ان سعد بن عبادة، يقول: لو وجدت معها رجلا لضربتها بالسيف غير مصفح، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اتعجبون من غيرة سعد؟ انا اغير من سعد والله اغير مني، ولذلك حرم الفواحش ما ظهر منها وما بطن ولا شخص اغير من الله، ولا احب إليه من المعاذير، ولذلك بعث النبيين مبشرين ومنذرين ولا شخص احب إليه المدح من الله، ولذلك وعد الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، يَقُولُ: لَوْ وَجَدْتُ مَعَهَا رَجُلًا لَضَرَبْتُهَا بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ؟ أَنَا أَغَيْرُ مِنْ سَعْدٍ وَاللَّهُ أَغَيْرُ مِنِّي، وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا شَخْصَ أَغَيْرُ مِنَ اللَّهِ، وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْمَعَاذِيرِ، وَلِذَلِكَ بَعَثَ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّه، وَلِذَلِكَ وَعَدَ الْجَنَّةَ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر لگی کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو تلوار سے مار ڈالوں، اسے کبھی نہ چھوڑوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ میں ان سے زیادہ غیرت دار ہوں اور اللہ جل جلالہ مجھ سے زیادہ غیرت دار ہے، اس نے چھپی ہوئی اور علانیہ بےشرمی کی باتوں کو (اسی غیرت ہی کی وجہ سے) حرام کیا اور الله تعالیٰ سے زیادہ کوئی شخص غیرت دار نہیں ہے، اور اللہ سے زیادہ کسی شخص کو عذر پسند نہیں ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے (تاکہ بندے سزا سے پہلے اس کی بارگاہ میں عذر اور توبہ کر لیں) اور کسی شخص کو اللہ سے زیادہ تعریف پسند نہیں اس لئے الله تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا (تاکہ بندے اس کی عبادت و تعریف کر کے جنت حاصل کریں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وابن عدي هو: زكريا والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2273]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4194، 7416]، [مسلم 1499]، [السنة لابن أبى عاصم 522]، [الحاكم 358/4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2263)
سیدنا سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ یہ تھا کہ جب آیتِ شریفہ: « ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ﴾ [النور: 4] » نازل ہوئی جس کا مطلب تھا کہ جو لوگ آزاد بیویوں پر بہتان لگائیں اور وہ ان پر گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسّی کوڑے لگاؤ، اس وقت سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں تو اگر ایسا حرام کام دیکھوں تو نہ جھڑکوں، نہ ہٹاؤں، نہ چار گواہ لاؤں، بلکہ اسے فوراً ہی ٹھکانے لگادوں، اتنے گواہ لاؤں گا تو وہ زنا کر کے چل دے گا۔
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ تم اپنے سردار کی غیرت کی بات سن رہے ہو۔
انصار بولے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان کے مزاج میں بہت غیرت ہے، ان کو ملامت نہ کیجئے، انہوں نے ہمیشہ کنواری لڑکی سے شادی کی اور اگر طلاق دے دی تو ان کی غیرت کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہو سکی کہ اس عورت سے نکاح کرے، (راز رحمہ اللہ)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے شرمی سے بچنا چاہئے اور آدمی کو غیرت مند ہونا چاہیے۔
اپنے اہل و عیال میں کوئی بھی خلافِ شرع کام دیکھے تو اس کا فوراً تدارک کرے۔
اور جو آدمی برائی دیکھے پھر بھی خاموش رہے وہ دیوث ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وابن عدي هو: زكريا والحديث متفق عليه
38. باب في حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ:
38. عورت پر خاوند کے حق کا بیان
حدیث نمبر: 2265
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، اخبرنا قتادة، عن زرارة بن اوفى العامري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "إذا باتت المراة هاجرة لفراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى الْعَامِرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "إِذَا بَاتَتِ الْمَرْأَةُ هَاجِرَةً لِفِرَاشِ زَوْجِهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تَرْجِعَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر عورت اپنے شوہر سے ناراضگی کی وجہ سے اس کے بستر سے الگ تھلگ رات گزارے تو فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت بھیجتے ہیں جب تک کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز نہ آ جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2274]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3237، 5194]، [مسلم 1436]، [أبوداؤد 2141]، [أبويعلی 6196]، [ابن حبان 4172]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2264)
عورت کا غصہ بجا ہو یا بے جا، اطاعت کے پیشِ نظر اس کا فرض ہے کہ خاوند کیساتھ اس کے بستر پر رہے، اگر خفگی میں رات کو ایسا نہ کرے تو بلاشک اس وعیدِ شدید کی مستحق ہے، اور فرشتے جس پر لعنت کریں وہ یقیناً الله کی رحمت سے محروم ہو گا، عورت کے لئے خاوند کی اطاعت ہی اس کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
شوہر کا عورت پر بہت بڑا حق ہے جیسا کہ معروف و مشہور صحیح حدیث ہے: اگر میں کسی کو سجدے کا حکم دیتا تو عورتوں سے کہتا وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں، چہ جائے کہ اپنے شوہر پر غصہ کریں یا اس کی نافرمانی کریں۔
ایک اور حدیث میں ہے: عورت جب پنج وقتہ نمازیں ادا کرے، مہینے کے روزے رکھے، اپنے نفس کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جنّت کے جس دروازے سے چاہے گی داخل ہوگی۔
[مشكوٰة: 3256] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
39. باب في اللِّعَانِ:
39. لعان کا بیان
حدیث نمبر: 2266
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن سهل بن سعد: ان عويمرا العجلاني، قال: يا رسول الله، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله فيقتلونه، ام كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قد انزل الله فيك وفي صاحبتك، فاذهب فات بها". قال سهل: فتلاعنا، وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما فرغا من تلاعنهما، قال: كذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها، فطلقها ثلاثا قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب: وكانت تلك بعد سنة المتلاعنين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّه، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَيَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ أَنْزَلَ اللَّه فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا". قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا، وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ تَلَاعُنِهِمَا، قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَتْ تِلْكَ بَعْدُ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ اس صورت میں لوگ (بدلے میں) اسے بھی قتل کر دیں گے، پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں وحی نازل کی ہے، جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آؤ۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا، لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت میں بھی موجود تھا، جب وہ دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اس کے بعد بھی میں اس کو اپنے پاس رکھوں تو اس کا مطلب ہو گا کہ میں جھوٹا ہوں، پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے ڈالیں۔ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے کہا: پھر لعان کرنے والوں کے لئے لعان کا یہی طریقہ رائج و جاری ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2275]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5259]، [مسلم 1492]، [أبوداؤد 2247]، [نسائي 3402]، [ابن ماجه 2066]، [ابن حبان 4284]، [شرح السنة للبغوي 2366]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2265)
جب مرد اپنی عورت کو زنا کی تہمت لگائے اور عورت زنا کا اقرار نہ کرے، نہ مرد گواہ لاوے اور نہ اپنی تہمت سے پھرے، تو ایسی صورت میں لعان واجب ہوتا ہے تاکہ شکوک و شبہات، نفرت و عداوت میں کسی کی بھی زندگی اجیرن نہ بنے۔
اس کی صورت قرآن پاک کے اٹھارہویں پارے سورۂ نور کے شروع میں موجود ہے کہ پہلے مرد اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ وہ سچا ہے، اور پانچویں بار یوں کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر عورت الله تعالیٰ کا نام لے کر گواہی دے کہ اس کا مرد جھوٹا ہے، اور پانچویں بار یوں کہے: اگر اس کا مرد سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو، جب دونوں اس طرح کی گواہیاں دے چکیں تو حاکم میاں بیوی میں جدائی کرا دے گا، پھر یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے۔
اگر بچہ پیدا ہو تو وہ ماں کو دلایا جائے گا اور اگر اس بچے کو کوئی ولد الزنا کہے تو اس پر حدِ قذف لگائی جائے گی، اگر شہادتیں دے دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے تو اس پر زنا ثابت نہیں ہوگا اور اس کے شوہر پر حدِ قذف بھی جاری نہ ہوگی، اور اگر عورت قسم اٹھانے سے انکار کرے تو مرد کو سچا قرار دے کر عورت پر حدِ رجم جاری کی جائے گی۔
اس کا نام لعان اس لئے رکھا گیا کہ میاں بیوی دونوں اپنے اوپر لعنت کرتے ہیں، خواہ دوسرا سچا ہی ہو، لفظ غضب عورت کی جانب سے اختیار و ادا کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ فعل لعنت کو مستلزم ہے، پس عورت کی طرف جو گناه منسوب ہے وہ زنا ہے، اس دوران مرد کا گناه قذف یعنی تہمت ہے۔
اس حدیث میں ہے «فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا» کہ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے اس کو تین طلاق دیدیں، یہ حدیث تین طلاق ایک ساتھ دینے اور اس کے واقع ہو جانے پر دلیل نہیں بن سکتی ہے کیونکہ جیسا کہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے پہلے ہی انہوں نے طلاق دیدی، دوسرے یہ کہ لعان سے از خود طلاق و جدائی ہو جاتی ہے۔
طلاق دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ کو یہ حکم معلوم نہ رہا ہو، نیز یہ کہ بعض دوسری روایات میں طلاق کا ذکر ہی نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاق دینے پر انکار بھی نہ کیا کیونکہ وہ عورت رشتۂ زوجیت سے نکل چکی تھی، اب تین کیا ہزار بھی طلاق دے تب بھی بے مقصد تھیں، لعان نہ ہوا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور انکار کرتے جیسا کہ محمود بن لبید نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین اکٹھی طلاق دیدیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور فرمایا: الله کی کتاب سے کھیل کر تے ہو حالانکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔
(اسے امام نسائی نے روایت کیا اور اس کے راوی ثقہ ہیں)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2267
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن الاوزاعي، عن ابن شهاب، عن سهل بن سعد، ان عويمرا اتى عاصم بن عدي، وكان سيد بني عجلان، فذكر مثله، ولم يذكر"طلقها ثلاثا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ عُوَيْمِرًا أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيّ، وَكَانَ سَيِّدَ بَنِي عَجْلَانَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ"طَلَّقَهَا ثَلَاثًا".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ بنو عجلان کے سردار تھے اور اوپر بیان کی گئی حدیث کے مثل حدیث بیان کی لیکن اس میں یہ لفظ ذکر نہیں کیا کہ ( «طلقها ثلاثا») کہ انہوں نے تین طلاق دیدی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2276]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور تخریج اوپر گذرچکی ہے۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ تین طلاق کا لفظ کسی راوی کی طرف سے اضافہ ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
حدیث نمبر: 2268
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا عبد الملك بن ابي سليمان، قال: سمعت سعيد بن جبير، يقول:"سئلت عن المتلاعنين في إمارة مصعب بن الزبير: ايفرق بينهما؟ فما دريت ما اقول، قال: فقمت حتى اتيت منزل عبد الله بن عمر، فقلت للغلام: استاذن لي عليه، فقال: إنه قائل لا تستطيع ان تدخل عليه، قال: فسمع ابن عمر صوتي، فقال: ابن جبير؟، فقلت: نعم، فقال: ادخل، فما جاء بك هذه الساعة إلا حاجة، قال: فدخلت عليه فوجدته وهو مفترش برذعة رحله، متوسد مرفقة او قال: نمرقة، شك عبد الله حشوها ليف، فقلت: يا ابا عبد الرحمن: المتلاعنان، ايفرق بينهما؟. قال: سبحان الله، نعم، إن اول من سال عن ذلك فلان، فقال: يا رسول الله صلى الله عليك، ارايت لو ان احدنا راى امراته على فاحشة كيف يصنع؟ إن سكت، سكت على امر عظيم، وإن تكلم فمثل ذلك؟، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يجبه، فقام لحاجته، فلما كان بعد ذلك، اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن الذي سالتك عنه قد ابتليت به، قال: فانزل الله تعالى هؤلاء الآيات التي في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم فشهادة احدهم اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين {6} والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين {7} ويدرا عنها العذاب ان تشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين {8} والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين {9} سورة النور آية 6-9 حتى ختم هؤلاء الآيات، قال: فدعا الرجل، فتلاهن عليه، وذكره بالله، واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: ما كذبت عليها،. ثم دعا المراة فوعظها وذكرها، واخبرها ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقالت: والذي بعثك بالحق إنه لكاذب، فدعا الرجل فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم اتي بالمراة فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ثم فرق بينهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ:"سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، قَالَ: فَقُمْتُ حَتَّى أَتَيْتُ مَنْزِلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ: اسْتَأْذِنْ لِي عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَائِلٌ لَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَدْخُلَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَسَمِعَ ابْنُ عُمَرَ صَوْتِي، فَقَالَ: ابْنُ جُبَيْرٍ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: ادْخُلْ، فَمَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا حَاجَةٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْتُهُ وَهُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْذَعَةَ رَحْلِهِ، مُتَوَسِّدٌ مِرْفَقَةُ أَوْ قَالَ: نُمْرُقَةً، شَكَّ عَبْدُ اللَّهِ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: الْمُتَلَاعِنَانِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟. قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ إِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ تَكَلَّمَ فَمِثْلُ ذَلِكَ؟، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَقَامَ لِحَاجَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ الَّتِي فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ {6} وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ {7} وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ {8} وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ {9} سورة النور آية 6-9 حَتَّى خَتَمَ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ، قَالَ: فَدَعَا الرَّجُلَ، فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ، وَذَكَّرَهُ بِاللَّهِ، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا،. ثُمَّ دَعَا الْمَرَأَةَ فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَدَعَا الرَّجُلَ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ أُتِيَ بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
عبدالملک بن ابی سلیمان نے کہا: میں نے سنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے وہ کہہ رہے تھے کہ مجھ سے مصعب بن زبیر کے دور امارت میں لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا: کیا ان کے درمیان جدائی کرائی جائے گی؟ مجھے حیرت ہوئی کیا جواب دوں، لہٰذا میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مکان کی طرف گیا اور غلام سے کہا: مجھے اندر جانے کی اجازت لاؤ، اس نے کہا: اس وقت وہ آرام فرما رہے ہیں اور آپ اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ سعید نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میری آواز سن لی اور کہا: کیا ابن جبیر ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: آ جاؤ، اس وقت تم کسی ضروری بات کے ہی لئے آئے ہوں گے۔ میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ ایک کمبل بچھائے بیٹھے تھے اور ایک تکیہ پر ہاتھ سے ٹیک لگائے ہوئے جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا، میں نے عرض کیا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے والوں میں جدائی کرانی ہو گی؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: سبحان اللہ بے شک جدائی کی جائے گی اور سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا تھا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی رحمتیں ہوں آپ پر، بتایئے کوئی آدمی اپنی بیوی کو زنا کرتے دیکھے تو کیا کرے گا؟ اگر چپ رہ جائے تو اتنی بڑی بات پر کیسے چپ رہے اور اگر منہ سے ایسی بات نکالے تو بری بات نکالے گا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا، پھر اپنی کسی ضرورت سے اٹھ گئے، پھر (ایک دن) وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے جس بارے میں آپ سے سوال کیا تھا، خود اس میں مبتلا ہو گیا، تب الله تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائی: «﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ ......﴾» [نور: 6/24-11] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں پڑھ کر ختم کیں اور اس شخص کو بلا کر اس کو پڑھ کر سنائیں، اور اس کو نصیحت کی، اللہ کی یاد دلائی اور بتایا کہ دیکھو دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے (یعنی اگر جھوٹی تہمت اپنی بیوی پر لگا رہا ہے تو بتا دے، صرف حد قذف کے اسی کوڑے ہی پڑیں گے، مگر یہ جہنم میں جلنے سے آسان ہے)، وہ بولا: نہیں، میں جھوٹ نہیں بولا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی کو بلایا اور اس کو ڈرایا اور سمجھایا اور فرمایا: دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے، اس نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میرا خاوند جھوٹ بول رہا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلایا، اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار بار گواہی دیں کہ وہ سچا ہے اور پانچویں بار میں یہ کہا کہ: اللہ کی پھٹکار ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلایا، اس نے اللہ کے نام کے ساتھ چار گواہیاں دیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں بار میں کہا کہ: اگر وہ سچا ہو تو اس (بیوی) کے اوپر الله کا غضب ٹوٹے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2277]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1493]، [ترمذي 1202]، [نسائي 3473]، [أبويعلی 5656]، [ابن حبان 4286]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2266 سے 2268)
«ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا» سے بعض لوگوں نے استدلال کیا کہ لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان تفریق حاکمِ وقت کے بغیر نہیں ہو سکتی، اور جمہور علماء امام مالک و امام شافعی و امام احمد رحمہم اللہ و دیگر بہت سے علماء نے کہا کہ فقط لعان سے تفریق ہو جائے گی اور «فَرَّقَ بَيْنَهُمَا» کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفریق کا اظہار فرمایا اور حکمِ شرع بیان کیا، یہ نہیں کہ نئے سرے سے فرقت و جدائی کرائی، دلیل کے اعتبار سے جمہور کا قول ہی راجح اور بہتر ہے۔
اس حدیث سے اور بہت سارے مسائل نکلتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: آدمی کو فرضی مسائل نہیں پوچھنے چاہئے، مبادا وہ اس میں مبتلا ہو جائے جیسا کہ مذکورہ بالا واقعہ میں ہوا، دوسرے یہ کہ بلا علم فتویٰ نہیں دینا چاہیے، لعان کرانے سے پہلے امام، قاضی یا حاکم کو چاہیے متلاعنین کو نصیحت کریں، اور عذابِ الٰہی سے ڈرانا چاہیے، دوسرے یہ کہ لعان میں پہل شوہر سے کرنی چاہیے، وہ پہلے قسم کھائے اس کے بعد عورت گواہی دے گی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2269
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثني مالك، قال: سمعت نافعا، عن عبد الله بن عمر، قال: "فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين المتلاعنين، والحق الولد بامه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: "فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے میاں بیوی میں تفریق کرا دی اور بچہ اس کی ماں کو دے دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الطلاق، [مكتبه الشامله نمبر: 2278]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5315]، [مسلم 1493]، [أبوداؤد 2259]، [ترمذي 1203]، [نسائي 3477]، [ابن ماجه 2069]، [أبويعلی 5772]، [ابن حبان 4288]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2268)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی بیوی کو زنا کی تہمت لگائے تو ان کے درمیان لعان کے بعد تفریق ہو جائے گی، اور اگر بچہ پیدا ہوا تو وہ ماں کے حوالے کر دیا جائے گا، باپ کی طرف منسوب نہ ہوگا، وہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اپنے باپ کا نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الطلاق
40. باب في الْعَبْدِ يَتَزَوَّجُ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ:
40. جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بنا نکاح کر لے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2270
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا الحسن بن صالح، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، قال: سمعت جابرا، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ايما عبد تزوج بغير إذن مواليه او اهله، فهو عاهر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ أَوْ أَهْلِهِ، فَهُوَ عَاهِرٌ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ زانی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2279]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2078]، [ترمذي 1112]، [أحمد 301/3]، [ابن الجارود 686]، [مشكل الآثار للطحاوي 297/3، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2269)
یعنی اس کا نکاح درست نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امام احمد و امام اسحاق رحمہما اللہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.