English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
57. باب غزوة الطائف فى شوال سنة ثمان:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4337
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِنَعَمِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمِنَ الطُّلَقَاءِ، فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ، فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا، الْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ"، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ"، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ، فَنَزَلَ، فَقَالَ:" أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ"، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، فَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ، وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِذَا كَانَتْ شَدِيدَةٌ، فَنَحْنُ نُدْعَى وَيُعْطَى الْغَنِيمَةَ غَيْرُنَا، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ، فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟" فَسَكَتُوا، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ؟" قَالُوا: بَلَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ"، وَقَالَ هِشَامٌ: قُلْتُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ وَأَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ، قَالَ: وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ؟.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے، ان سے ہشام بن زید بن انس بن مالک نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب حنین کا دن ہوا تو قبیلہ ہوازن اور غطفان اپنے مویشی اور بال بچوں کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا۔ ان میں کچھ لوگ وہ بھی تھے، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد احسان رکھ کر چھوڑ دیا تھا، پھر ان سب نے پیٹھ پھیر لی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ پکارا دونوں پکار ایک دوسرے سے الگ الگ تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں طرف متوجہ ہو کر پکارا: اے انصاریو! انہوں نے جواب دیا ہم حاضر ہیں: یا رسول اللہ! آپ کو بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں، لڑنے کو تیار ہیں۔ پھر آپ بائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی، اے انصاریو! انہوں نے ادھر سے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں، یا رسول اللہ! بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے پھر آپ اتر گئے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ انجام کار کافروں کو ہار ہوئی اور اس لڑائی میں بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مہاجرین میں اور قریشیوں میں تقسیم کر دیا (جنہیں فتح مکہ کے موقع پر احسان رکھ کر چھوڑ دیا تھا) انصار کو ان میں سے کچھ نہیں عطا فرمایا۔ انصار (کے بعض نوجوانوں) نے کہا کہ جب سخت وقت آتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت دوسروں کو تقسیم کر دی جاتی ہے۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کیا اور فرمایا اے انصاریو! کیا وہ بات صحیح ہے جو تمہارے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصاریو! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ کو اپنے گھر لے جاؤ۔ انصاریوں نے عرض کیا ہم اسی پر خوش ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی میں چلیں تو میں انصار ہی کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا۔ اس پر ہشام نے پوچھا: اے ابوحمزہ! کیا آپ وہاں موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غائب ہی کب ہوتا تھا۔ [صحيح البخاري/كتاب المغازي/حدیث: 4337]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أنس بن مالك الأنصاري، أبو حمزة، أبو النضرصحابي
👤←👥هشام بن زيد الأنصاري
Newهشام بن زيد الأنصاري ← أنس بن مالك الأنصاري
ثقة
👤←👥عبد الله بن عون المزني، أبو عون
Newعبد الله بن عون المزني ← هشام بن زيد الأنصاري
ثقة ثبت فاضل
👤←👥معاذ بن معاذ العنبري، أبو المثنى، أبو هانئ
Newمعاذ بن معاذ العنبري ← عبد الله بن عون المزني
ثقة متقن
👤←👥محمد بن بشار العبدي، أبو بكر
Newمحمد بن بشار العبدي ← معاذ بن معاذ العنبري
ثقة حافظ
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
4333
أما ترضون أن يذهب الناس بالشاة والبعير وتذهبون برسول الله لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لاخترت شعب الأنصار
صحيح البخاري
2376
أراد النبي أن يقطع من البحرين فقالت الأنصار حتى تقطع لإخواننا من المهاجرين مثل الذي تقطع لنا سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني
صحيح البخاري
3146
أعطي قريشا أتألفهم لأنهم حديث عهد بجاهلية
صحيح البخاري
3778
أولا ترضون أن يرجع الناس بالغنائم إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم
صحيح البخاري
4334
قريشا حديث عهد بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار
صحيح البخاري
4337
ألا ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار
صحيح البخاري
3147
أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعوا إلى رحالكم برسول الله فوالله ما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا بلى يا رسول الله قد رضينا سترون بعدي أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله على الحوض
صحيح البخاري
4332
أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم
صحيح البخاري
4331
أعطي رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وتذهبون بالنبي إلى رحالكم فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا
صحيح مسلم
2440
أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار
صحيح مسلم
2436
أفلا ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به فقالوا بلى يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله إني على الحوض
صحيح مسلم
2441
أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون بمحمد تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى يا رسول الله رضينا لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار
جامع الترمذي
3901
قريشا حديث عهدهم بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم
مسندالحميدي
1229
إنكم سترون بعدي أثرة، فاصبروا حتى تلقوني
مسندالحميدي
1235
لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت شعب الأنصار، ولولا الهجرة لكنت امرأ من الأنصار، الأنصار كرشي، وعيبتي، فأحسنوا إلى محسنهم، وتجاوزوا عن مسيئهم
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4337 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4337
حدیث حاشیہ:
مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو۔
ان کی آ واز بلند تھی۔
انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4337]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4337
حدیث حاشیہ:

صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے عباس ؓ!اصحاب شجرہ کو آواز دو۔
" آپ بہت بلند آواز تھے۔
انھوں نے اونچی آواز سے کہا:
اصحاب ِشجرہ کہاں ہیں؟ ان کی آواز سنتے ہی بیعت کرنے والے ایسے لپکے جیسے گائیں اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے:
ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
پھر گھمسان کا رن پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کے منہ پر دے ماریں اور فرمایا:
مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم! کافرشکست کھا گئے ہیں۔
اس کے بعد کفار کو شکست سے دوچارہونا پڑا۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4612(1775)

اس غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آدمی تھے۔
آپ کا ارادہ ہوا کہ دشمن پرٹوٹ پڑیں، اس لیے آپ اکیلے بڑھے مگر ابوسفیان بن حارث آپ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔
انھوں نے آپ کو آگے نہ جانے دیا، حضرت عباس ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4337]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901
انصار اور قریش کے فضائل کا بیان
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901]

الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1229
1229- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ انصاریوں کو بلایا، تاکہ انہیں بحرین میں کچھ قطعۂ اراضی عطا کریں، تو انہوں نے عرض کی: ہم یہ اس وقت تک نہیں لیں گے، جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اس کی مانند قطعۂ اراضی عطا نہیں کریں گے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد تم لوگ ترجیحی سلوک دیکھو گے، تو تم صبر سے کام لینا یہاں تک تم مجھ سے آملو۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1229]
فائدہ:
اس حدیث میں ﴿يُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ اور وہ اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت بھی ہو (الحشر: 9) کی عملی تفسیر ہے، سبحان اللہ۔
نیز اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ حق والے پر دوسرے کو ترجیح دینا غلط ہے، تاریخ بھری پڑی ہے کہ لوگ کس قدر نا انصافیوں سے کام لیتے ہیں، موجودہ دور بھی فتنوں سے لبریز ہے، اور ہر کوئی نااہل کو اہل پر ترجیح دیتا ہے (الا مـن رحـــم ربـی) کیونکہ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے نہیں کیے جاتے، بلکہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہر صورت حال میں صبر کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہیے، بس اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی اصلاح فرمائے، آمین۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1227]

الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1235
1235- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک گھاٹی میں چلیں، تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا اگر ہجرت نہ ہوتی، تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا، انصار میرے دست و بازو ہیں، تو ان میں سے جو شخص اچھا ہو، اس کے ساتھ تم اچھائی کرو اور جو شخص برا ہوا س سے تم درگزر کرو۔‏‏‏‏ ابن جدعان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے۔ حسن نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں۔ البتہ حد کا حکم مختلف ہے (وہ برے شخص پر جاری کی جائے گی) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1235]
فائدہ:
اس حدیث میں انصار کی فضیلت کا بیان ہے، اور محسن کے احسان کو یاد رکھنا چاہیے، انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کی قربانیاں اسلام کی خاطر کس قدر زیادہ ہیں، اگر ان کا احاطہ کیا جائے تو ایک مستقل تاریخ مرتب ہوسکتی ہے، نیز اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے سے روکا گیا ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1233]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2436
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حنین کےدن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہوازن کے بہت سے اموال بطور فئے عنائت فرمائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشی سرداروں کو سوسو اونٹ دینے لگے تو کچھ انصاروں نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے! آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں ان کے خونوں سے ٹپک رہی ہیں۔ یعنی ہماری تلواریں ان کے خونوں سے رنگین ہیں وہ کافر تھے۔ اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2436]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
سُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ:
عربی محاورہ ہے جس میں مبالغہ مطلوب ہوتا ہے۔
لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ہماری تلواریں ان کے خونوں سے ٹپک رہی ہیں مگر مقصود ہوتا ہے ان کے خون ہماری تلواروں سے رواں دواں ہیں ہماری تلواریں ان کے خونوں سے رنگین ہیں۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2436]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2376
2376. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بحرین کے علاقے میں کچھ جاگیریں لوگوں کو دیں۔ انصار نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا نہ کریں تاآنکہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بھی جاگیریں دیں جیسا کہ ہمیں دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم عنقریب دیکھو گے کہ لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ ایسے حالات میں میری ملاقات تک صبر کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2376]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بحرین میں کچھ جاگیریں دینے کا ارادہ فرمایا، اسی سے قطعات اراضی بطور جاگیر دینے کا جواز ثابت ہوا۔
حکومت کے پاس اگر کچھ زمین فالتو ہو تو وہ پبلک میں کسی کو بھی اس کی ملی خدمات کے صلہ میں دے سکتی ہے۔
یہی مقصد باب ہے۔
مستقبل کے لیے آپ نے انصار کو ہدایت فرمائی کہ وہ فتنوں کے دور میں جب عام حق تلفی دیکھیں خاص طور پر اپنے بارے میں ناساز گار حالات ان کے سامنے آئیں تو ان کو چاہئے کہ صبر و شکر سے کام لیں۔
ان کے رفع درجات کے لیے یہ بڑا بھاری ذریعہ ہوگا۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2376]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4331
4331. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو سو، سو اونٹ دینا شروع کر دیے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گفتگو بیان کی گئی تو آپ نے انصار کی طرف پیغام بھیج کر چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا۔ آپ نے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ ہمارے کچھ نو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4331]
حدیث حاشیہ:
حضرت انس ؓ کا اشارہ غالباً سردار انصار حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی طرف ہے، جنہوں نے وفات نبوی کے بعد منا أمیر ومنکم أمیر کی آواز اٹھائی تھی مگر جمہور انصار نے اس سے موافقت نہیں کی اور خلفائے قریش کو تسلیم کر لیا۔
رضي اللہ عنهم ورضو اعنه۔
سند میں حضرت ہشام بن عروہ کا نام آیا ہے۔
یہ مدینہ کے مشہور تابعین میں سے ہیں جن کا شمار اکابر علماء میں ہوتا ہے۔
سنہ61ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال ہوا۔
امام زہری بھی مدینہ کے مشہور جلیل القدر تابعی ہیں۔
زہری بن کلاب کی طرف منسوب ہیں کنیت ابو بکر نام محمد بن عبد اللہ بن شہاب ہے، وقت کے بہت بڑے عالم باللہ تھے۔
ماہ رمضان سنہ124ھ میں وفات پائی۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4331]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4332
4332. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں اموالِ غنیمت تقسیم کیے تو انصار غضبناک ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر جاؤ؟۔ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4332]
حدیث حاشیہ:
حضرت سلیمان بن حرب بصری مکہ کے قاضی ہیں۔
تقریباً دس ہزار احا دیث ان سے مروی ہیں۔
بغداد میں ان کی مجلس درس میں شرکاء درس کی تعداد چالیس ہزار ہوتی تھی۔
سنہ140ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ158ھ تک طلب حدیث میں سر گرداں رہے۔
انیس سال حماد بن زید نامی استاد کی خد مت میں گذارے۔
سنہ224ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
حضرت امام بخاری ؒ کے بزرگ ترین استاذ ہیں، رحمهم اللہ أجمعین۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4332]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4333
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: اے انصار کی جماعت! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر جاؤ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:
روایت میں طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو آپ نے فتح مکہ کے دن چھوڑدیا (احساناً)
ان کے پہلے جرائم پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی جیسے ابو سفیان، ان کے بیٹے معاویہ، حکیم بن حزام رضي اللہ عنهم وغیرہ۔
ان لوگوں کو عام معافی دے دی گئی اور ان کو بہت نوازا بھی گیا۔
بعد میں یہ حضرات اسلام کے سچے جاں نثار مددگار ثابت ہوئے اور ﴿كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ کا نمونہ بن گئے۔
انصار کے لیے آپ نے جو شرف عطا فرمایا دنیا کا مال ودولت اس کے مقابلہ پر ایک بال برابر بھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
چنانچہ انصار نے بھی اس کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی اور اول سے آخر تک آپ کے ساتھ پوری وفاداری کا برتاؤ کیا، رضي اللہ عنهم ورضوا عنه اسی کا نتیجہ تھا کہ وفات نبوی کے بعد جملہ انصار نے بخوشی ورغبت خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کوئی منصب نہیں چاہا۔
﴿صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ جنگ حنین میں حضرت ابو سفیان ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4333]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3147
3147. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3147]
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ قریش کے سردار اور رؤسا تھے جو حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی دلجوئی کے لیے ان کو بہت سامان دیا۔
ان لوگوں کے نام یہ تھے۔
ابوسفیان، معاویہ بن ابی سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، حارث بن ہشام، سہل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزی، علاءبن حارثہ ثقفی، عیینہ بن حصین، صفوان بن امیہ، اقرع بن حابس، مالک بن عوف، ان حضرات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی کچھ دیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں باقی رہ گیا، مگرانصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
جس شرف کی برکت سے مدینۃ المنورہ کو وہ خاص شرف حاصل ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں۔
اموال ہوازن کے متعلق جو غنیمت میں حاصل ہوا، صاحب ''لمعات '' لکھتے ہیں۔
ما أفاءاللہ في هذا الإبهام تفخیم و تکثیر لما أفاء فإن الفيئ الحاصل منهم کان عظیماً کثیراً مما لایعد ولایحصی و جاء في الروایات سنة آلاف من السبي وأربع و عشرون ألفا من الإبل وأربعۃ آلاف أوقیة من الفضة وأکثر أربعین ألف شاة الخ (حاشیۃ بخاری، کراتشی ج: 1، ص: 445)
یعنی اموال ہوازن اس قدر حاصل ہوا جس کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔
روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزار، اور چوبیس ہزار اونٹ اور چار ہزار اوقیہ چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں مذکور ہوئی ہیں۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3147]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3778
3778. ابو تیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: فتح مکہ کے دن رسول اللہ نے قریش کو غنیمت کا سارا مال دے دیا تو انصار نے کہا: اللہ کی قسم! یقینا یہ عجیب بات ہے کہ ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے کہ ہمارا مال غنیمت انہی کو دیا جا رہا ہے۔ جب یہ خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: اس خبر کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ وہ (انصار) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر جائیں اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ؟ اگر انصار کسی میدان یا نشیبی علاقے میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ اس میدان یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3778]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے معذرت کی کہ کچھ نوجوان کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں، آپ کا ارشاد سن کر انصار نے بالاتفاق کہا کہ ہم سب اس فضیلت پر خوش ہیں، نالہ یا گھاٹی کا مطلب یہ کہ سفر اور حضر موت اور زندگی میں ہرحال میں تمہارے ساتھ ہوں، کیا یہ شرف انصار کو کافی نہیں ہے؟
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3778]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2376
2376. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بحرین کے علاقے میں کچھ جاگیریں لوگوں کو دیں۔ انصار نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا نہ کریں تاآنکہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بھی جاگیریں دیں جیسا کہ ہمیں دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم عنقریب دیکھو گے کہ لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ ایسے حالات میں میری ملاقات تک صبر کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2376]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی کو اس کی خدمات کے صلے میں حکومت کی طرف سے جاگیرداری جا سکتی ہے، لیکن دور حاضر میں سیاسی شعبدہ بازوں کو بہترین زمینیں اور قیمتی پلاٹ ملتے ہیں۔
ہمارے ہاں ملکی سیاست کا دارومدار اسی سیاسی رشوت پر ہے۔
بہرحال زمانۂ قدیم سے یہ عادت ہے کہ بادشاہ کی طرف سے خاص لوگوں کو غیر آباد زمینیں دی جاتی تھیں جنہیں وہ محنت کر کے آباد کر لیتے اور وہ ان کے مالک قرار پاتے، بطور ملکیت ان سے فائدہ اٹھاتے۔
(2)
واضح رہے کہ بحرین سے مراد آج کل والا بحرین نہیں بلکہ عہد نبوی کے بحرین میں سعودی عرب کا مشرقی صوبہ شامل تھا جس میں الخبر، الدمام اور ظہران وغیرہ کے علاقے ہیں۔
بہرحال حاکم وقت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو اس کی خدمات کے صلے میں کوئی جاگیر دے دے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2376]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3146
3146. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قریش کو ان کی تالیف قلبی کے لیے دیتا ہوں کیونکہ ان کی جاہلیت کا زمانہ ابھی ابھی گزرا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3146]
حدیث حاشیہ:
اہل مکہ یعنی قریش فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔
ان کی تالیف قلب کے لیے آپ نے انھیں عطیات دیے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مال غنیمت اور خمس امام وقت کی صوابدید پر موقوف ہے وہ جہاں مناسب خیال کرے تقسیم کرنے کا مجاز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کوعطیات دیتے وقت اپنے اختیارات استعمال کیے تھے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3146]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3147
3147. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3147]
حدیث حاشیہ:

جن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا تھا وہ قریش کے سردار اور رئیس تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے پیش نظر انھیں بہت سامال دیا۔
ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مزید مائل کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں۔
ایسے حالات میں انھیں زکاۃ دینا بھی جائز تھا جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان حضرات کو جو کچھ دیا گیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں با قی رہ گیا مگر انصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
اس شرف کی برکت سے مدینہ طیبہ کو وہ اعزاز ملا جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں ہو سکا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ حنین کےموقع پر اس قدر مال غنیمت ملا جس کا شمار مشکل ہے روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزارچوبیس ہزار اونٹ، چارہزار اوقیے چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریوں کا ذکر ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے مطابق مال غنیمت مؤلفہ القلوب میں تقسیم کیا اور جن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا وہ کامل الایمان نہیں تھے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3147]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3778
3778. ابو تیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: فتح مکہ کے دن رسول اللہ نے قریش کو غنیمت کا سارا مال دے دیا تو انصار نے کہا: اللہ کی قسم! یقینا یہ عجیب بات ہے کہ ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے کہ ہمارا مال غنیمت انہی کو دیا جا رہا ہے۔ جب یہ خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: اس خبر کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ وہ (انصار) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر جائیں اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ؟ اگر انصار کسی میدان یا نشیبی علاقے میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ اس میدان یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3778]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ انصار میں سے سمجھ دار لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بایں الفاظ میں معذرت کی کہ ہمارے سرداروں نے تو یہ بات نہیں کی البتہ کچھ نوجوان اور کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں ضرور کی ہیں پھر انھوں نے بالا تفاق اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ہم اس اعزاز اور فضیلت پر دل کی گہرائیوں سے خوش ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4331)

میدان یا گھاٹی میں چلنے کا مطلب یہ ہے کہ میں سفر و حضر اور موت و حیات میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔
کیا یہ اعزاز انصار کے لیے کافی نہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔
اس سے ان کی پیروی کرنا مقصود نہیں کیونکہ آپ ہی واجب اطاعت ہیں ہر مرد و عورت پر آپ کی پیروی فرض ہے۔
واللہ اعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3778]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4331
4331. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو سو، سو اونٹ دینا شروع کر دیے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گفتگو بیان کی گئی تو آپ نے انصار کی طرف پیغام بھیج کر چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا۔ آپ نے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ ہمارے کچھ نو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4331]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ہوازن کے مال میں سے ابوسفیان بن حرب کو سواونٹ دیے، اسی طرح صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن، مالک بن عوف، اقرع بن حابس، علقمہ بن علاثہ اور عباس بن مرداس کو سو، سواونٹ دیے، اس پر انصار کے کچھ لوگ غمزدہ ہوئے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قریش نوازی کی باتیں کیں۔
حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان کے متعلق تیرے جذبات کیاہیں؟ عرض کی:
میں بھی تو اس قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا:
تمام انصار کو اس چمڑے کے خیمے میں جمع کرو۔
آپ نے انھیں وعظ فرمایا اور کہا:
تم میرے لیے اس کپڑے کی طرح ہوجو ہروقت جسم سے لگارہتا ہے۔
واقعی یہ شرف قیامت تک کے لیے انصار کو حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےشہر میں آرام فرما رہے ہیں۔
(فتح الباري: 69/8)

حدیث کے آخر میں حضرت انس ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین کے باوجود انصار نے صبر نہیں کیا۔
شاید ان کا اشارہ کچھ انصار کے اس موقف کی طرف ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کہا گیا تھا کہ ایک امیر تمہارا اور ایک امیر ہماراہوگا۔
مگر جمہور نے انصار نے اس موقف کو مسترد کردیا اور اس کی موافقت کےبجائے قریش کو تسلیم کرلیا۔
واللہ اعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4331]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4332
4332. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں اموالِ غنیمت تقسیم کیے تو انصار غضبناک ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر جاؤ؟۔ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4332]
حدیث حاشیہ:

اس غنیمت سے مراد ہوازن کے مال ہیں کیونکہ فتح مکہ میں کوئی غنیمت نہیں تھی جسے تقسیم کیا جاتا۔

واقدی نے لکھاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلاکرکہا:
آؤ میں تمھیں بحرین کا علاقہ لکھ دیتا ہوں جو تمہارے لیے خاص ہوگا، اس میں اور کسی کا عمل دخل نہیں ہوگا۔
اور یہ علاقہ بھی بہترین، زرخیز اور شاداب تھا لیکن انصار نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں آپ ہی کافی ہیں، دنیا کے مال ومتاع کی ہمیں ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 64/8)
اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انصار کے جوار (پڑوس)
کوپسند فرمایا۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4332]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4333
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: اے انصار کی جماعت! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر جاؤ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:

طلقاء، طليق کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں فتح مکہ کے موقع پر آپ نے نہ قتل کیا اور نہ انھیں قیدی ہی بنایا لیکن ان پر احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا اور فرمایا:
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو۔
" (عمدة القاري: 306/12)
ان حضرات پر سابقہ جرائم کے متعلق بھی کوئی گرفت نہ کی گئی بلکہ انھیں عام معافی سے نوازاگیا۔
انھیں گرانقدر عطیے دیے گئے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد وہ جاں نثار مددگار ثابت ہوئے۔

انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شرف عطا فرمایا اس کے مقابلے میں دنیا کا مال ایک بال برابربھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
انصار نے بھی اس حقیقت کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی، پوری وفاداری کے ساتھ اس عہد کونبھایا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جملہ انصار نے خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کسی بھی منصب کا مطالبہ نہیں کیا۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4333]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4334
4334. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کر کے فرمایا: قریش ابھی نو مسلم اور تازہ مصیبت اٹھائے ہوئے ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ مال غنیمت سے ان کی دل جوئی کروں۔ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ دوسرے لوگ تو دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے گھروں کی طرف لوٹو؟ انہوں نے عرض کی: ہم تو اس پر راضی ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: اگر دوسرے لوگ وادی کے اندر چلیں اور انصار پہاڑی راستہ منتخب کریں تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی ہی کو اختیار کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4334]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"انصار میرے لیے استر ہیں اور دوسرے لوگ ابرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
" پھر آپ نے انصار کے لیے دعا فرمائی:
"اے اللہ!انصار، ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحمت نازل فرما۔
" اس پر انصاربہت خوش ہوئے۔
یہ خطاب سن کو وہ خوشی سے اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں ترہوگئیں اور کہنے لگے:
ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔
(مسند أحمد: 77/3، وفتح الباري: 65/8)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4334]