English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
16. باب: {لا يحسبن الذين يفرحون بما أتوا} :
باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو نیک کام انہوں نے نہیں کئے خواہ مخواہ ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے، سو ایسے لوگوں کے لیے ہرگز خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ سکیں گے“۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4567
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَزْوِ، تَخَلَّفُوا عَنْهُ، وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَذَرُوا إِلَيْهِ، وَحَلَفُوا، وَأَحَبُّوا أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا، فَنَزَلَتْ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا سورة آل عمران آية 188 الْآيَةَ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھا لیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چیڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت «لا يحسبن الذين يفرحون‏» آخر آیت تک اتاری۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4567]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أبو سعيد الخدري، أبو سعيدصحابي
👤←👥عطاء بن يسار الهلالي، أبو محمد
Newعطاء بن يسار الهلالي ← أبو سعيد الخدري
ثقة
👤←👥زيد بن أسلم القرشي، أبو خالد، أبو أسامة، أبو عبد الله
Newزيد بن أسلم القرشي ← عطاء بن يسار الهلالي
ثقة
👤←👥محمد بن جعفر الأنصاري
Newمحمد بن جعفر الأنصاري ← زيد بن أسلم القرشي
ثقة
👤←👥سعيد بن أبي مريم الجمحي، أبو محمد
Newسعيد بن أبي مريم الجمحي ← محمد بن جعفر الأنصاري
ثقة ثبت
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
4567
كان إذا خرج رسول الله إلى الغزو تخلفوا عنه وفرحوا بمقعدهم خلاف رسول الله فإذا قدم رسول الله اعتذروا إليه وحلفوا وأحبوا أن يحمدوا بما لم يفعلوا فنزلت لا تحسبن الذين يفرحون بما أتوا ويحبون أن يحمدوا ب
صحيح مسلم
7033
أن رجالا من المنافقين في عهد رسول الله كانوا إذا خرج النبي إلى الغزو تخلفوا عنه وفرحوا بمقعدهم خلاف رسول الله فإذا قدم النبي اعتذروا إليه وحلفوا وأحبوا أن يحمدوا بما لم يفعلوا فنز
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4567 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4567
حدیث حاشیہ:
یہ چند منافقین تھے جو جہاد سے جی چرا تے، ان کے مکر وفریب کا جال بکھیر دیا۔
ایسے کتنے لوگ آج بھی موجود ہیں کتنے بے نمازی ہیں جو اپنی حرکت پر شرمندہ ہونے کی بجائے الٹے نمازیوں سے اپنے کو بہتر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
کتنے بدعتی مشرک ہیں جو اہل توحید پر اپنی برتری کے دعویدار ہیں۔
یہ سب لوگ اس آیت کے مصداق ہیں۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4567]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4567
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث جو حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے۔
اس کے تقاضے کے مطابق یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی جبکہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کی شان نزول یہود مدینہ کا کردار ہے اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے بھی یہود کے کرتوتوں کا ذکر چل رہا ہے تاہم اس مضمون میں منافقین تو کیا خود مسلمانوں کو شامل کیا جا سکتا ہے، یعنی جو شخص بھی ایسی شہرت پسند کرتا ہو کہ وہ بڑا مخلص، دیانتدار، ایثار، پیشہ خادم خلق اورعالم دین ہے یا ان میں سے کسی بھی صفت کی شہرت چاہتا ہو جبکہ حقیقت میں معاملہ ایسا نہ ہو یا کسی نے اچھے کام میں محنت تو تھوڑی سی کی مگر شہرت و ناموری اس سے بہت زیادہ چاہتا ہو تو اس کا وہی حشر ہو گا جو آیت میں مذکورہ ہے۔

بہر حال آیت کریمہ اگرچہ نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن لفظ کی عمومیت ہر اس شخص کو شامل ہے جو اچھا کام کرے پھر اس پر فخر و غرور کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرے اور یہ بھی پسند کرے کہ اس کے ناکردہ کاموں پر بھی لوگ اس کی تعریف کریں، لیکن حضرت ابن عباس ؓ کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت صرف اہل کتاب کے ساتھ خاص ہے، اسے ان کا مسلک ہی قرار دیا جا سکتا ہے جو جمہور کے موقف کے خلاف ہے۔
واللہ اعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4567]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7033
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کچھ منافق لوگ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے نکلتے، آپ سے پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے پر خوش ہوتے تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آتے تو آپ کے سامنے عذر اور بہانے پیش کرتے اور قسمیں اٹھاتے اور پسند کرتے کہ جوکام انھوں نے نہیں کیا، اس پر ان کی تعریف کی جائے تو آیت نازل ہوئی:"جو لوگ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7033]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ آل عمران کی یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے تو جان بوجھ کر جہاد کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جاتے تھے،
اور پھر جب آپ غزوہ سے واپس تشریف لے آتے تو جھوٹے بہانے پیش کرتے اور قسمیں اٹھا کر اپنی جان نثاری اور وفاداری کا یقین دلاتے اوراپنی جھوٹی وفاداری کی تعریف کی خواہش کرتے،
لیکن حضرت ابن عباس کی اگلی روایت سے معلوم ہوتا ہے،
یہ ان یہود کے بارے میں اتری ہے،
جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کتمان علم کرتے تھے اور پھر اپنے اس عمل پر خوش ہوتے تھے اور آپ کو خلاف واقعہ بات بتا کر چاہتے تھے،
آپ ان کے اس عمل کی تعریف کریں،
یعنی ان کے جھوٹ اور کتمان پر ان کی تعریف کریں،
جس سے معلوم ہوا،
دونوں کا طرز عمل اس کا مصداق ہے،
گویا اصل مقصد یہ ہے کہ کسی فرد کو،
وہ مسلمان ہو یا منافق یا یہودی کسی برے کام کے کرنے پر خوش نہیں ہونا چاہیے،
بھلا کرکے اترانا نہیں چاہیے اور جو اچھا کام نہیں کیا،
اس پر تعریف کی خواہش نہیں کرنی چاہیے اور دوسروں کے کام کا کریڈٹ خود نہیں لینا چاہیے،
بلکہ اچھا کام کرنے کے بعد بھی مدح سرائی کی توقع یا خواہش نہیں کرنی چاہیے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7033]