(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد الملك بن ميسرة، سمعت النزال بن سبرة يحدث، عن علي رضي الله عنه، انه صلى الظهر ثم قعد في حوائج الناس في رحبة الكوفة، حتى حضرت صلاة العصر، ثم اتي بماء فشرب، وغسل وجهه ويديه، وذكر راسه ورجليه، ثم قام فشرب فضله وهو قائم، ثم قال:" إن ناسا يكرهون الشرب قياما، وإن النبي صلى الله عليه وسلم صنع مثل ما صنعت".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الْكُوفَةِ، حَتَّى حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمَاءٍ فَشَرِبَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قِيَامًا، وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا، انہوں نے نزال بن سبرہ سے سنا، وہ علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی پھر مسجد کوفہ کے صحن میں لوگوں کی ضرورتوں کے لیے بیٹھ گئے۔ اس عرصہ میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا پھر ان کے پاس پانی لایا گیا۔ انہوں نے پانی پیا اور اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، ان کے سر اور پاؤں (کے دھونے کا بھی) ذکر کیا۔ پھر انہوں نے کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی پیا، اس کے بعد کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی کیا تھا جس طرح میں نے کیا، وضو کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔
Hum se Adam ne bayan kiya, kaha hum se Sho’bah ne bayan kiya, kaha hum se Abdul Malik bin Maisarah ne bayan kiya, unhon ne Nazzal bin Sabrah se suna, woh Ali Radhiallahu Anhu se bayan karte the ke unhon ne Zohr ki Namaz padhi phir Masjid-e-Kufah ke sehan mein logon ki zarooraton ke liye baith gaye. Us arse mein Asr ki Namaz ka waqt aa gaya phir un ke paas paani laaya gaya. Unhon ne paani piya aur apna chehra aur haath dhoye, un ke sar aur paaon (ke dhone ka bhi) zikr kiya. Phir unhon ne khade ho kar wuzu ka bacha huwa paani piya, us ke baad kaha ke kuch log khade ho kar paani peene ko bura samjhte hain halaanke Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ne yunhi kiya tha jis tarah main ne kiya, wuzu ka paani khade ho kar piya.
Narrated An-Nazzal bin Sabra: `Ali offered the Zuhr prayer and then sat down in the wide courtyard (of the Mosque) of Kufa in order to deal with the affairs of the people till the `Asr prayer became due. Then water was brought to him and he drank of it, washed his face, hands, head and feet. Then he stood up and drank the remaining water while he was standing. and said, "Some people dislike to drink water while standing thought the Prophet did as I have just done."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 69, Number 520
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5616
حدیث حاشیہ: جمہور علماء کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے جیسے کھڑے کھڑے پیشاب کرنے میں جبکہ کوئی عذر بیٹھنے سے مانع ہو۔ بروایت مسلم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھڑے کھڑے پانی پینے پر جھڑکا۔ جمہور کہتے ہیں یہ نہی تنزیہی ہے اور بیٹھ کر پانی پینا بہتر ہے۔ جو لوگ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ جانتے ہیں وہ بھی اس کے قائل ہیں کہ وضو سے بچا ہوا پانی اور اسی طرح زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینا سنت ہے۔ وفي حدیث علی من الفوائد أن علی العالم إذا رأی الناس اجتنبوا شیئا وھو یعلم جوازہ أن یوضع لھم وجه الصواب فیه خشیة أن یطول الأمر فیظن تحریمه الخ، یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ فائدہ ظاہر ہوا کہ کوئی عالم جب دیکھے کہ لوگ ایک جائز چیز کے کھانے سے پرہیز کرتے ہیں تو ان کے ظن فاسد کے مٹانے کو اس چیز کے کھانے کے جواز کو واضح کر دے ورنہ ایک دن عوام اسے بالکل ہی حرام سمجھنے لگ جائیں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5616
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5616
حدیث حاشیہ: (1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی شخص کو کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3717) اس حدیث کے پیش نظر بلا وجہ کھڑے ہو کر پینا کسی طرح مناسب نہیں۔ اس موضوع پر بکثرت احادیث آئی ہیں، بلکہ بعض احادیث میں ہے کہ اگر کوئی بھول کر کھڑے کھڑے پانی پی لے تو اسے قے کر دے۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5279 (2026)(2) ان حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ اسلام آرام سے بیٹھ کر پینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا کہ آپ آرام و سکون سے بیٹھ کر پانی وغیرہ پیتے تھے، ہاں کسی ضرورت کے پیش نظر کھڑے ہو کر پینا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت کبشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کھڑے کھڑے پانی پیا۔ (جامع الترمذي، الأشربة، حدیث: 1892) لیکن کھڑے ہو کر پینے کو معمول نہیں بنانا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5616
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3718
´کھڑے ہو کر پانی پینا کیسا ہے؟` نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا اور اسے کھڑے ہو کر پیا اور کہا: بعض لوگ ایسا کرنے کو مکروہ اور ناپسند سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے جیسے تم لوگوں نے مجھے کرتے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3718]
فوائد ومسائل: فائدہ: جامع ترمذی کی ایک حدیث جس کو امام ترمذی نے صحیح کہا ہے۔ اس میں ہے کہ حضرت کبشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ر سول اللہ ﷺ ان کے ہاں گئے۔ گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ تو آپﷺنے اس سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا۔ پھر میں نے اس مشکیزے کے منہ کا وہ حصہ (جس سے آپﷺ کا دہن مبارک مس ہوا تھا۔ ) کاٹ کر رکھ لیا۔ (جامع الترمذي، الأشربة، حدیث: 1892) اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ مشکیزے کو منہ لگا کر پینے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اور آپﷺ نے اس سے روکا ہے۔ لیکن یہ نہی نہی تحریمی نہیں۔ اسے معمول بنائے بغیر ضرورت کے وقت ایسا کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح اگلی حدیث میں وارد ہوا۔ آپﷺکا یہ عمل امت کےلئے آسانی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس طرح کا ایک واقعہ مسند احمد میں ام سلیم رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔ (مسند أحمد: 376/6) نیز سفر حج میں بھی نبی کریمﷺ نے زمزم کھڑے ہوکر پیا تھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1637)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3718