English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
ترقیم فواد عبدالباقی سے تلاش کل احادیث (3033)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
1. باب وجوب غسل الجمعة على كل بالغ من الرجال وبيان ما امروا به:
باب: ہر بالغ مرد پر غسل جمعہ فرض ہونے کا بیان۔
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 846 ترقیم شاملہ: -- 1957
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ ".
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعے کے دن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا واجب ہے۔ [صحيح مسلم/كتاب الجمعة/حدیث: 1957]
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل کرنا لازم ہے۔ [صحيح مسلم/كتاب الجمعة/حدیث: 1957]
ترقیم فوادعبدالباقی: 846
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أبو سعيد الخدري، أبو سعيدصحابي
👤←👥عطاء بن يسار الهلالي، أبو محمد
Newعطاء بن يسار الهلالي ← أبو سعيد الخدري
ثقة
👤←👥صفوان بن سليم القرشي، أبو عبد الله، أبو الحارث
Newصفوان بن سليم القرشي ← عطاء بن يسار الهلالي
ثقة
👤←👥مالك بن أنس الأصبحي، أبو عبد الله
Newمالك بن أنس الأصبحي ← صفوان بن سليم القرشي
رأس المتقنين وكبير المتثبتين
👤←👥يحيى بن يحيى النيسابوري، أبو زكريا
Newيحيى بن يحيى النيسابوري ← مالك بن أنس الأصبحي
ثقة ثبت إمام
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
879
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
صحيح البخاري
880
الغسل يوم الجمعة
صحيح البخاري
858
الغسل يوم الجمعة
صحيح البخاري
895
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
صحيح البخاري
2665
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
صحيح مسلم
1960
غسل يوم الجمعة على كل محتلم
صحيح مسلم
1957
الغسل يوم الجمعة
سنن أبي داود
341
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
سنن أبي داود
344
الغسل يوم الجمعة
سنن النسائى الصغرى
1376
الغسل يوم الجمعة
سنن النسائى الصغرى
1378
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
سنن النسائى الصغرى
1384
الغسل يوم الجمعة
سنن ابن ماجه
1089
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
بلوغ المرام
100
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
213
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
المعجم الصغير للطبراني
112
بالغسل يوم الجمعة
المعجم الصغير للطبراني
151
غسل الجمعة واجب على كل محتلم
مسندالحميدي
127
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثر ما ينصرف عن شماله
مسندالحميدي
753
الغسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1957 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1957
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ جمعہ کے احترام و عظمت کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1957]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 100
جمعہ کے روز غسل کرنا
«. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه: ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے روز غسل کرنا ہر بالغ پر واجب ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 100]
لغوی تشریح:
«مُـحْتَلِمٍ» بالغ کو کہتے ہیں۔

فائدہ:
یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو یوم جمعہ کے غسل کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں واجب کا لفظ صراحتاً آیا ہے۔ لیکن جہاں تک جمہور کا تعلق ہے وہ اسے مسنون قرار دیتے ہیں اور اس میں وجوب کے حکم کو تاکید کے لیے سمجھتے ہیں۔
[بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 100]

حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 213
جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے
«. . . 271- مالك عن صفوان بن سليم عن عطاء بن يسار عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بالغ پر غسل جمعہ واجب ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 213]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 879، ومسلم 846، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ راجح یہی ہے کہ غسلِ جمعہ سنت ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے لہٰذا یہاں واجب کا لفظ اپنے وجوبی معنی میں نہیں ہے۔
➋ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: ح204
[موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 271]

الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 341
جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ (مسلمان) پر واجب ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 341]
341۔ اردو حاشیہ:
عورتیں بھی اس کی پابند ہیں، کسی بھی مسلمان بالغ مرد و عورت کو بغیر معقول عذر کے اس بارے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 341]

فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1376
جمعہ کے دن مسواک کرنے کے حکم کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا واجب ہے، مسواک کرنا بھی، اور خوشبو جس پروہ قادر ہو لگانا بھی ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1376]
1376۔ اردو حاشیہ:
واجب ہے اس روایت اور حدیث نمبر 1377، 1378 اور 1379 کے بموجب اہل علم کا ایک طبقہ جمعے کے دن غسل کے واجب ہونے کا قائل ہے جب کہ ایک بڑا طبقہ اس کے وجوب کا قائل نہیں لیکن پہلے طبقے کے اہل علم کی رائے نصوص صریحہ کے قریب تر ہے۔ واللہ أعلم۔ جیسا کہ تفصیل ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔
➋ مسواک عام حالت میں بھی مؤکد چیز ہے، جمعۃ المبارک کے لیے تو خصوصاً، خوشبو لگانا تو مؤکد بھی نہیں صرف مستحب ہے۔
➌ عورتوں کی خوشبو (جس میں رنگ ہو) مردوں کے لیے جائز نہیں مگر مجبوری کی حالت میں گنجائش ہے، مثلاً: شادی کے موقع پر یا جمعۃ المبارک کے لیے۔
➍ صفائی ایمان کا حصہ ہے۔ اسلام نے نظافت پر بہت زور دیا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا جسم، لباس اور مکان وغیرہ صاف ستھرا رکھے اور اگر کسی ایسی جگہ جائے جہاں لوگ اکٹھے ہوں تو بالخصوص صفائی کا اہتمام کرے اور حسب استطاعت خوشبو وغیرہ کا استعمال کرے تاکہ لوگ اذیت محسوس نہ کریں۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1376]

مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1089
جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1089]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
واجب سے مر اد افضل اور بہتر ہے کیونکہ دوسری احادیث سے غسل نہ کرنے کی اجازت ظاہر ہوتی ہے۔
جیسے کہ اگلے باب میں حدیثیں آرہی ہیں۔

(2)
جمعے کی ادایئگی بالغ مردوں پر فرض ہے۔
بچوں اور عورتوں پر نہیں۔

(3)
بچے اورعورتیں اگر جمعے کی نماز کی ادایئگی کےلئے آنا چاہیں تو ان کے لئے غسل کرنا ضروری نہیں۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1089]

الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:127
127- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کوئی بھی شخص نماز میں شیطان کے لیے کوئی حصہ مقرر ہرگز نہ کرے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) صرف دائیں طرف سے ہی اٹھ سکتا ہے، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی مرتبہ بائیں طرف سے اٹھتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:127]
فائدہ:
امام نماز کا سلام پھیرنے کے بعد دونوں طرف سے ہی پھر سکتا ہے، دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے، اس حدیث میں بائیں طرف پھرنے کا ذکر ہے، لیکن دوسری احادیث میں دائیں طرف پھرنے کا ذکر بھی ہے۔ (صحیح مسلم: 708) جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، انہوں نے اسی طرح اس کو بیان کر دیا۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 127]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 858
858. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ کے لیے ضروری ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:858]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
معلوم ہوا کہ غسل واجب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بچے بالغ ہو جائیں وہ بھی بصورت احتلام غسل واجب ہوگا اور غسل جمعہ کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ لوگوں کے پاس شروع اسلام میں کپڑے بہت کم تھے اس لیے کام کرنے میں پسینہ سے کپڑوں میں بد بو پیداہو جاتی تھی اور اسی لیے اس وقت جمعہ کے دن غسل کرنا واجب تھا پھر جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فراخی دی تو یہ وجوب باقی نہیں رہا اب ابھی ایسے لوگوں پر غسل ضروری ہے جن کے پسینے کی بدبو سے لوگ تکلیف محسوس کریں۔
غسل صرف بالغ پر واجب ہوتا ہے اسی کو بیان کرنے کے لیے حضرت امام بخاری ؒ یہ حدیث یہاں لائے ہیں۔
امام مالک ؒ کے نزدیک جمعہ کا غسل واجب ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 858]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2665
2665. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہراحتلام والے(بالغ) پر جمعے کے دن غسل واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2665]
حدیث حاشیہ:
یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ شرعی واجبات انسان پر اس کے بالغ ہونے ہی پر نافذ ہوتے ہیں۔
شہادت بھی ایک شرعی امر ہے۔
جس کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے۔
بلوغت کی آخر حد پندرہ سال ہے۔
جیسا کہ پچھلی روایت میں مذکور ہوا۔
اس سے امام بخاری نے یہ بھی نکالا کہ احتلام ہونے سے مرد جوان ہوجاتا ہے گو اس کی عمر پندرہ سال کو نہ پہنچی ہو۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2665]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:879
879. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بالغ پر جمعے کے دن غسل کرنا واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:879]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں پر غسل جمعہ واجب نہیں، اس بنا پر انہیں جمعہ کے لیے مسجد میں آنا بھی ضروری نہیں۔
یہ حدیث وجوب غسل پر واضح ہے لیکن عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وجوب کے لفظ سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے، یعنی اس حد تک تاکید ہے گویا واجب کی طرح ہے۔
(عمدة القاري: 15/5) (2)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے غسل جمعہ کی فرضیت کے متعلق دلیل لی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عمار بن یاسر ؓ اور امام ابن منذر سے غسل جمعہ کا وجوب ہی نقل کیا گیا ہے۔
امام ابن حزم نے حضرت عمر ؓ اور دیگر کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جمعہ کے لیے غسل کرنے کے وجوب کو بیان کیا، پھر اس کے متعلق متعدد آثار بھی نقل کیا ہیں، مثلاً:
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں:
میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان غسل جمعہ چھوڑ دے گا۔
امام شافعی ؒ نے اس حدیث کی وضاحت بایں طور کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ "واجب" میں دو احتمال ہیں:
ایک یہ کہ غسل جمعہ ضروری ہے۔
اس کے بغیر نماز جمعہ کے لیے طہارت نامکمل ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ نظافت و صفائی اخلاق کے پیش نظر جمعہ کے لیے غسل کا اہتمام مستحب مؤکد ہے، فرض نہیں۔
امام شافعی نے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عثمان نے نماز کے لیے غسل کا اہتمام نہیں کیا اور حضرت عمر ؓ نے بھی انہیں دوبارہ غسل کے متعلق نہیں کہا۔
یہ قرینہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی غسل کا حکم اختیاری ہے۔
(فتح الباري: 455/2)
بلکہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ان دونوں کی موافقت کرنا بھی اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے غسل جمعہ شرط نہیں۔
بہرحال اس مسئلے میں دونوں ہی رائیں پائی جاتی ہیں۔
عدم وجوب کے قائلین بھی اسے سنت مؤکدہ اور وجوب ہی کے قریب سمجھتے ہیں۔
اس بنا پر دونوں موقف ایک دوسرے کے قریب ہی ہیں۔
بنا بریں وجوب کا موقف ہی راجح، مدلل اور احوط ہے۔
واللہ أعلم۔
(3)
علامہ خطابی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ نماز جمعہ غسل کے بغیر بھی ہو جاتی ہے۔
(فتح الباري: 466/2)
امت کے بڑے بڑے ائمہ اور نامور علماء غسل جمعہ کے عدم وجوب پر متفق ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے جمعہ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ غسل جمعہ واجب نہیں، البتہ زیادہ طہارت اور پاکیزگی غسل ہی میں ہے لیکن جو غسل نہیں کرتا اس پر کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس پر واجب نہیں ہے۔
دراصل غسل جمعہ کی ابتدا اس وجہ سے ہوئی تھی کہ لوگ محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرتے تھے، اون سے تیار کردہ موٹے موٹے کپڑے پہنتے تھے اور اس وقت مسجد بھی تنگ تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے تکلیف پہنچ رہی ہے اور پسینے کی وجہ سے بو محسوس ہو رہی ہے تو آپ نے انہیں غسل کا حکم دیا اور خوشبو وغیرہ کے استعمال کی بھی ہدایت فرمائی۔
حضرت ابن عباس ؓ نے مزید فرمایا کہ اس کے بعد وہ وقت جاتا رہا، لوگ مال دار ہو گئے محنت مزدوری کے محتاج نہ رہے، کپڑے بھی اون کے علاوہ دوسرے استعمال کرنے لگے، مسجد بھی وسیع ہو گئی اور پسینہ وغیرہ کی تکلیف بھی جاتی رہی اس بنا پر سبب کے ختم ہونے سے اس کا وجوب بھی ختم ہو گیا۔
(فتح الباري: 467/2)
اس سے معلوم ہوا کہ غسل کے واجب ہونے کی تاکید جمعہ کے بڑے اجتماع کے پیش نظر ہے کہ کسی کو اذیت نہ ہو اور یہ تاکید حالات کے پیش نظر وجوب تک بھی پہنچ سکتی ہے جبکہ پسینے کی وجہ سے ماحول بدبودار ہو رہا ہو، البتہ عام حالات میں صرف استحباب ہے جیسا کہ امت کے اکثر علماء نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 879]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:880
880. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر گواہ ہوں کہ جمعہ کے دن ہر بالغ آدمی پر غسل کرنا واجب ہے اور یہ کہ وہ مسواک کرے اور اگر خوشبو میسر ہو تو اسے بھی استعمال میں لائے۔ راوی حدیث عمرو بن سلیم کہتے ہیں کہ غسل کے متعلق اس کے واجب ہونے کی میں گواہی دیتا ہوں لیکن مسواک کرنے اور خوشبو لگانے کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ واجب ہے یا نہیں؟ البتہ حدیث میں اسی طرح ہے۔ ابوعبداللہ امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ وہ (ابوبکر بن منکدر) محمد بن منکدر کے بھائی ہیں اور اس ابوبکر کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ ان سے بکیر بن اشج، سعید بن ابی ہلال اور متعدد لوگوں نے روایت لی ہے۔ اور محمد بن منکدر کی کنیت ابوبکر اور ابوعبداللہ تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:880]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمعہ کے دن خوشبو استعمال کرنے کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف تھا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ اس کے متعلق وجوب کے قائل تھے جیسا کہ سفیان بن عیینہ نے اپنی جامع میں ان کے متعلق بیان کیا ہے لیکن ائمۂ اربعہ اور اصحاب ظواہر میں اب اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔
سب استحباب کے قائل ہیں۔
اس کے متعلق تاکید ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ جمعہ کے دن خوشبو استعمال کرو اگرچہ عورت ہی کی کیوں نہ ہو، حالانکہ مردوں کے لیے عورتوں کی خوشبو استعمال کرنا ناپسندیدہ عمل ہے لیکن اس کے باوجود جمعہ کے دن اگر خوشبو نہ مل سکے تو بامر مجبوری کاروائی کے طور پر عورت کی خوشبو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
(فتح الباري: 2/ 467۔
468) (2)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے، لہٰذا تم میں سے جو شخص جمعہ کے لیے آئے وہ غسل کر کے آئے اور اگر خوشبو میسر ہو تو اسے استعمال کرے اس کے علاوہ مسواک کرنے کا بھی اہتمام کرے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 243/3)
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو جمعہ کے دن غسل کرے اور اگر اس کے پاس خوشبو موجود ہو تو اسے استعمال کرے، اپنے بہترین کپڑے زیب تن کرے، اطمینان کے ساتھ مسجد میں آئے، پھر اگر موقع ملے تو نفل پڑھ لے، حاضرین میں سے کسی کو تکلیف نہ دے، پھر جب امام صاحب تشریف لائیں تو خاموش رہے تاآنکہ نماز ادا کر لے تو اس کا یہ سارا عمل اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
(مسند أحمد: 420/5) (3)
حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے وضاحت کی ہے کہ روایت میں ابوبکر نامی راوی محمد بن منکدر کے بھائی ہیں۔
ان کے نام کی صراحت کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکی بلکہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے۔
مختصر یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کی کنیت ابوبکر ہے لیکن ان کے مابین فرق ہے کہ ایک کے متعلق نام کی صراحت ہے جبکہ دوسرے کی کنیت ہی اس کا نام ہے، نیز ایک بھائی محمد بن منکدر کی ایک دوسری کنیت ابو عبداللہ بھی مشہور ہے۔
الغرض ابوبکر بن منکدر بھی معروف آدمی ہیں۔
ان سے متعدد راویوں نے روایت لی ہے۔
(عمدة القاري: 16/5)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 880]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2665
2665. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہراحتلام والے(بالغ) پر جمعے کے دن غسل واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2665]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احتلام شروع ہونے سے بچہ بالغ ہو جاتا ہے، لہذا اس پر شرعی احکام واجب ہوں گے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں جمعے کے دن غسل کا حکم بیان ہوا ہے۔
کیونکہ شرعی احکام انسان کے بالغ ہونے پر ہی نافذ ہوتے ہیں۔
(2)
گواہی دینا بھی ایک شرعی امر ہے جس کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے۔
اس کی حد پندرہ سال کی عمر ہے جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان ہوا ہے یا احتلام بالغ ہونے کی علامت ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
احتلام ہونے کی عمر میں مرد جوان ہو جاتا ہے اگرچہ اس کی عمر پندرہ برس نہ ہو۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2665]