صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
3. باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توكيل والتسمية والتكبير:
باب: قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا مستحب ہے اسی طرح بسم اللہ و اللہ اکبر کہنا۔
ترقیم عبدالباقی: 1966 ترقیم شاملہ: -- 5087
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " ضَحَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وَسَمَّى وَكَبَّرَ وَوَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا ".
ابوعوانہ نے قتادہ سے انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سفید رنگ کے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی۔ آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا بسم اللہ پڑھی اور تکبیر کہی۔ آپ نے (قربانی کے وقت انہیں لٹا کر) ان کے رخسار پر اپنا قدم مبارک رکھا۔ [صحيح مسلم/كتاب الأضاحي/حدیث: 5087]
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے بسم اللہ اور اللہ اکبر کہہ کر دو سینگوں والے گندم گوں مینڈھے قربانی کیے اور اپنا پاؤں (قدم) ان کے پہلو پر رکھا۔ [صحيح مسلم/كتاب الأضاحي/حدیث: 5087]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1966
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥أنس بن مالك الأنصاري، أبو حمزة، أبو النضر | صحابي | |
👤←👥قتادة بن دعامة السدوسي، أبو الخطاب قتادة بن دعامة السدوسي ← أنس بن مالك الأنصاري | ثقة ثبت مشهور بالتدليس | |
👤←👥الوضاح بن عبد الله اليشكري، أبو عوانة الوضاح بن عبد الله اليشكري ← قتادة بن دعامة السدوسي | ثقة ثبت | |
👤←👥قتيبة بن سعيد الثقفي، أبو رجاء قتيبة بن سعيد الثقفي ← الوضاح بن عبد الله اليشكري | ثقة ثبت |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
5565
| ضحى النبي بكبشين أملحين أقرنين ذبحهما بيده وسمى وكبر ووضع رجله على صفاحهما |
صحيح البخاري |
5553
| يضحي بكبشين وأنا أضحي بكبشين |
صحيح البخاري |
5554
| انكفأ إلى كبشين أقرنين أملحين ذبحهما بيده |
صحيح البخاري |
5558
| ضحى النبي بكبشين أملحين فرأيته واضعا قدمه على صفاحهما يسمي ويكبر ذبحهما بيده |
صحيح البخاري |
7399
| ضحى النبي بكبشين يسمي ويكبر |
صحيح البخاري |
5564
| يضحي بكبشين أملحين أقرنين وويضع رجله على صفحتهما يذبحهما بيده |
صحيح مسلم |
5088
| ضحى رسول الله بكبشين أملحين أقرنين يذبحهما بيده ورأيته واضعا قدمه على صفاحهما قال وسمى وكبر |
صحيح مسلم |
5087
| ضحى النبي بكبشين أملحين أقرنين ذبحهما بيده وسمى وكبر ووضع رجله على صفاحهما |
جامع الترمذي |
1494
| ضحى رسول الله بكبشين أملحين أقرنين ذبحهما بيده وسمى وكبر ووضع رجله على صفاحهما |
سنن أبي داود |
2794
| ضحى بكبشين أقرنين أملحين يذبح ويكبر ويسمي ويضع رجله على صفحتهما |
سنن النسائى الصغرى |
4422
| كبشين أملحين أقرنين |
سنن النسائى الصغرى |
4393
| كبشين أملحين فذبحهما |
سنن النسائى الصغرى |
4420
| ضحى رسول الله بكبشين أملحين أقرنين يكبر ويسمي يذبحهما بيده واضعا على صفاحهما قدمه |
سنن النسائى الصغرى |
4391
| ضحى رسول الله بكبشين أملحين |
سنن النسائى الصغرى |
4390
| يضحي بكبشين |
سنن النسائى الصغرى |
4421
| يضحي بكبشين أملحين أقرنين وكان يسمي ويكبر يذبحهما بيده واضعا رجله على صفاحهما |
سنن النسائى الصغرى |
4392
| ضحى النبي بكبشين أملحين أقرنين ذبحهما بيده وسمى وكبر ووضع رجله على صفاحهما |
سنن النسائى الصغرى |
1589
| خطبنا رسول الله يوم أضحى وانكفأ إلى كبشين أملحين فذبحهما |
سنن النسائى الصغرى |
4423
| ضحى بكبشين أقرنين أملحين يطؤ على صفاحهما يذبحهما ويسمي ويكبر |
سنن ابن ماجه |
3120
| يضحي بكبشين أملحين أقرنين ويسمي ويكبر يذبح بيده واضعا قدمه على صفاحهما |
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5087 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5087
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
املح:
سیاہ وسفید،
سفیدی مائل،
بقول اصمعی خاکستری رنگ اور بقول ابن الاعرابی،
خالص سفید،
بقول سرخی مائل یعنی گندم گوں۔
(2)
اقرنين:
سینگوں والے،
بعض روایات میں موجوئين خصي کا اضافہ ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
قربانی کے جانور کو لٹا کر،
بسم اللہ اور اللہ اکبر کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے اور قربانی کا جانور خوبصورت موٹا تازہ ہونا چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کی گردن پر پاؤں رکھا تاکہ وہ حرکت نہ کرے اور اس کو ذبح کرنا آسان ہو،
اپنی موجودگی میں کسی دوسرے سے ذبح کروانا جائز ہے۔
مفردات الحدیث:
(1)
املح:
سیاہ وسفید،
سفیدی مائل،
بقول اصمعی خاکستری رنگ اور بقول ابن الاعرابی،
خالص سفید،
بقول سرخی مائل یعنی گندم گوں۔
(2)
اقرنين:
سینگوں والے،
بعض روایات میں موجوئين خصي کا اضافہ ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
قربانی کے جانور کو لٹا کر،
بسم اللہ اور اللہ اکبر کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے اور قربانی کا جانور خوبصورت موٹا تازہ ہونا چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کی گردن پر پاؤں رکھا تاکہ وہ حرکت نہ کرے اور اس کو ذبح کرنا آسان ہو،
اپنی موجودگی میں کسی دوسرے سے ذبح کروانا جائز ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5087]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4390
مینڈھے کا بیان۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4390]
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4390]
اردو حاشہ:
دیگر روایات میں ہے کہ ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور دوسرا مینڈھا اپنی امت کے ان غریب لوگوں کی طرف سے قربان کرتے تھے جو خود قربانی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے کیونکہ عام امتی کی قربانی صرف اپنے اہل خانہ کی طرف سے کفایت کرتی ہے۔ اس لیے اس حدیث سے صرف فوت شدہ کے لیے قربانی کرنے کا جواز کشید کرنا، جبکہ قربانی کرنے والا خود اس قربانی میں شریک نہ ہو، محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
دیگر روایات میں ہے کہ ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور دوسرا مینڈھا اپنی امت کے ان غریب لوگوں کی طرف سے قربان کرتے تھے جو خود قربانی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے کیونکہ عام امتی کی قربانی صرف اپنے اہل خانہ کی طرف سے کفایت کرتی ہے۔ اس لیے اس حدیث سے صرف فوت شدہ کے لیے قربانی کرنے کا جواز کشید کرنا، جبکہ قربانی کرنے والا خود اس قربانی میں شریک نہ ہو، محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4390]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4392
مینڈھے کا بیان۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی جن کے سینگ برابر تھے قربانی کی، انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور «بسم اللہ واللہ اکبر» کہا اور اپنا (دایاں) پاؤں ان کی گردن کے پہلو پر رکھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4392]
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی جن کے سینگ برابر تھے قربانی کی، انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور «بسم اللہ واللہ اکبر» کہا اور اپنا (دایاں) پاؤں ان کی گردن کے پہلو پر رکھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4392]
اردو حاشہ:
ترتیب الٹ ہے۔ آپ نے جانور کو لٹایا۔ اپنا پاؤں اس کی گردن کے پہلو پر رکھا۔ بسم اللہ و اللہ اکبر پڑھا اور اپنے دست مبارک سے اسے ذبح فرمایا۔ گردن کے پہلو پر پاؤں رکھنے کی وجہ اسے قابو کرنا تھا تاکہ چھری چلنے کے دور ان میں وہ اٹھ کھڑا نہ ہو، نیز چھری تیزی اور قوت سے چل سکے۔ سر ادھر ادھر نہ حرکت کرے۔ اور زیادہ تکلیف نہ ہو۔
ترتیب الٹ ہے۔ آپ نے جانور کو لٹایا۔ اپنا پاؤں اس کی گردن کے پہلو پر رکھا۔ بسم اللہ و اللہ اکبر پڑھا اور اپنے دست مبارک سے اسے ذبح فرمایا۔ گردن کے پہلو پر پاؤں رکھنے کی وجہ اسے قابو کرنا تھا تاکہ چھری چلنے کے دور ان میں وہ اٹھ کھڑا نہ ہو، نیز چھری تیزی اور قوت سے چل سکے۔ سر ادھر ادھر نہ حرکت کرے۔ اور زیادہ تکلیف نہ ہو۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4392]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4420
قربانی کے جانور کے پہلو پر (ذبح کے وقت) پاؤں رکھنے کا بیان۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ دار دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ «اللہ اکبر» اور «بسم اللہ» پڑھ رہے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہے ہیں اور اپنا پاؤں ان (کی گردن) کے پہلو پر رکھے ہوئے ہیں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں قتادہ نے عرض کیا: کیا آپ نے اسے انس سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4420]
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ دار دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ «اللہ اکبر» اور «بسم اللہ» پڑھ رہے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہے ہیں اور اپنا پاؤں ان (کی گردن) کے پہلو پر رکھے ہوئے ہیں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں قتادہ نے عرض کیا: کیا آپ نے اسے انس سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4420]
اردو حاشہ:
(1) قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت جانور کے پہلو پر اپنا پاؤں رکھنا جائز ہے۔ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جانور کو بائیں پہلو کے بل لٹایا جائے۔ اور اس صورت میں پاؤں اس کے دائیں پہلو پر رکھا جائے گا۔
(2) قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت تسمیہ (بسم اللہ) پڑھنا مشروع ہے۔ اسی طرح تمام جانور ذبح کرتے وقت تسمیہ پڑھنی چاہیے۔ اس پر اجماع ہے۔ تسمیہ کے ساتھ ساتھ تکبیر (اللهُ أكبَرُ) پڑھنا بھی مشروع ہے جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔
(3) قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کی مشروعیت بھی معلوم ہوتی ہے، تاہم بوقت ضرورت کسی اور کو بھی وکیل بنایا جا سکتا ہے۔
(4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے ذبح فرمائے، اس سے ایک سے زیادہ جانور قربان کرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔
(5) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سینگوں والے خوبصورت جانور کی قربانی کرنا افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، تاہم بغیر سینگوں والے جانور کی قربانی بھی درست ہے۔
(6) جانور کو لٹانے کے بعد اس کے پہلو پر پاؤں رکھ لینا چاہیے تاکہ وہ قابومیں رہے۔ چھری قوت سے چل سکے اور وہ سر کو حرکت دے کر ذبح میں رکاوٹ نہ بنے، نیز اسے زیادہ تکلیف نہ ہو۔ یہ حکم قربانی سے خاص نہیں۔
(1) قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت جانور کے پہلو پر اپنا پاؤں رکھنا جائز ہے۔ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جانور کو بائیں پہلو کے بل لٹایا جائے۔ اور اس صورت میں پاؤں اس کے دائیں پہلو پر رکھا جائے گا۔
(2) قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت تسمیہ (بسم اللہ) پڑھنا مشروع ہے۔ اسی طرح تمام جانور ذبح کرتے وقت تسمیہ پڑھنی چاہیے۔ اس پر اجماع ہے۔ تسمیہ کے ساتھ ساتھ تکبیر (اللهُ أكبَرُ) پڑھنا بھی مشروع ہے جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔
(3) قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کی مشروعیت بھی معلوم ہوتی ہے، تاہم بوقت ضرورت کسی اور کو بھی وکیل بنایا جا سکتا ہے۔
(4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے ذبح فرمائے، اس سے ایک سے زیادہ جانور قربان کرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔
(5) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سینگوں والے خوبصورت جانور کی قربانی کرنا افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، تاہم بغیر سینگوں والے جانور کی قربانی بھی درست ہے۔
(6) جانور کو لٹانے کے بعد اس کے پہلو پر پاؤں رکھ لینا چاہیے تاکہ وہ قابومیں رہے۔ چھری قوت سے چل سکے اور وہ سر کو حرکت دے کر ذبح میں رکاوٹ نہ بنے، نیز اسے زیادہ تکلیف نہ ہو۔ یہ حکم قربانی سے خاص نہیں۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4420]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4421
ذبح کے وقت «بسم اللہ» پڑھنے کا بیان۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو چتکبرے سینگ دار مینڈھے ذبح کرتے اور آپ «بسم اللہ» پڑھتے اور تکبیر بلند کرتے ۱؎، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ سے انہیں ذبح کر رہے ہیں اور آپ کا پیر ان (کی گردن) کے پہلو پر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4421]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو چتکبرے سینگ دار مینڈھے ذبح کرتے اور آپ «بسم اللہ» پڑھتے اور تکبیر بلند کرتے ۱؎، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ سے انہیں ذبح کر رہے ہیں اور آپ کا پیر ان (کی گردن) کے پہلو پر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4421]
اردو حاشہ:
ویسے تو ہر ذبیحہ پر بسمِ اللَّهِ واللَّهُ أَكْبرُ پڑھنا چاہیے مگر قربانی پر پڑھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اسے ذبح کرنے سے پہلے تو باقاعدہ نیت کی جاتی ہے۔ دلی طور پر بھی۔ ذبیحہ پر اگر اللہ کا نام لینا بھول جائے تو وہ ذبیحہ حلال ہو گا، البتہ جان بوجھ کر نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ویسے تو ہر ذبیحہ پر بسمِ اللَّهِ واللَّهُ أَكْبرُ پڑھنا چاہیے مگر قربانی پر پڑھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اسے ذبح کرنے سے پہلے تو باقاعدہ نیت کی جاتی ہے۔ دلی طور پر بھی۔ ذبیحہ پر اگر اللہ کا نام لینا بھول جائے تو وہ ذبیحہ حلال ہو گا، البتہ جان بوجھ کر نہیں چھوڑنا چاہیے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4421]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3120
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کا بیان۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو چتکبرے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کرتے، (ذبح کے وقت) «بسم الله» اور «الله أكبر» کہتے تھے، اور میں نے آپ کو اپنا پاؤں جانور کے پٹھوں پر رکھ کر اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3120]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو چتکبرے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کرتے، (ذبح کے وقت) «بسم الله» اور «الله أكبر» کہتے تھے، اور میں نے آپ کو اپنا پاؤں جانور کے پٹھوں پر رکھ کر اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3120]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عید الاضحی کے موقع پر صاحب استطاعت کو کم از کم ایک بکری مینڈھا، گائے یا اونٹ کے ایک حصے کی قربانی کرنا ضروری ہے۔
(2)
ایک سے زیادہ جانوروں کی قربانی بھی جائز بلکہ افضل ہے۔
(3)
گھر کے فرد کو اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانورذبح کرنا چاہیے تاہم کوئی دوسرا شخص بھی ذبح کرسکتا ہے۔
(4)
قربانی کا جانور عمدہ اور خوبصورت ہونا چاہیے۔
(5)
قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت درج ذیل حدیث میں مذکور دعا پڑھنا مسنون ہے جس کی تفصیل ابتداء میں گزرچکی ہے۔
(6)
ذبح کرتے وقت جانور کے جسم پر پاؤں رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جانور قابو میں رہے۔
اور بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔
فوائد و مسائل:
(1)
عید الاضحی کے موقع پر صاحب استطاعت کو کم از کم ایک بکری مینڈھا، گائے یا اونٹ کے ایک حصے کی قربانی کرنا ضروری ہے۔
(2)
ایک سے زیادہ جانوروں کی قربانی بھی جائز بلکہ افضل ہے۔
(3)
گھر کے فرد کو اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانورذبح کرنا چاہیے تاہم کوئی دوسرا شخص بھی ذبح کرسکتا ہے۔
(4)
قربانی کا جانور عمدہ اور خوبصورت ہونا چاہیے۔
(5)
قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت درج ذیل حدیث میں مذکور دعا پڑھنا مسنون ہے جس کی تفصیل ابتداء میں گزرچکی ہے۔
(6)
ذبح کرتے وقت جانور کے جسم پر پاؤں رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جانور قابو میں رہے۔
اور بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3120]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1494
دو مینڈھوں کی قربانی کا بیان۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور (ذبح کرتے وقت) اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1494]
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور (ذبح کرتے وقت) اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1494]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے یہ مسائل ثابت ہوتے ہیں:
(1)
قربانی کاجانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے،
گو نیابت بھی جائز ہے۔
(2)
ذبح سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیے
(3)
ذبح کرتے وقت اپنا پاؤں جانورکے گردن پررکھنا چاہئے۔
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے یہ مسائل ثابت ہوتے ہیں:
(1)
قربانی کاجانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے،
گو نیابت بھی جائز ہے۔
(2)
ذبح سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیے
(3)
ذبح کرتے وقت اپنا پاؤں جانورکے گردن پررکھنا چاہئے۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1494]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5558
5558. سیدنا انس ؓ سئ روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ سفید مینڈھوں کی قربانی دی۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنا پاؤں جانور کے پہلو پرکھا اور بسم اللہ اللہ أکبر پڑھ کر ان دونوں کو اپنے دست مبارک سے ذبح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5558]
حدیث حاشیہ:
بہتر یہی ہے کہ قربانی کرنے والے خود ذبح کریں اور جانور کو ہاتھ لگائیں۔
بہتر یہی ہے کہ قربانی کرنے والے خود ذبح کریں اور جانور کو ہاتھ لگائیں۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5558]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5565
5565. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والے دو سیاہ سفید مینڈھوں کی قربانی دی۔ آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ،اللہ أکبر پڑھا اور اپنا پاؤں ان کی گردن پر رکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5565]
حدیث حاشیہ:
قربانی کاجانور ذبح کرتے وقت یہ دعا پڑھنی مسنون ہے۔
«إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، حَنِيفًا مُسْلِمًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ، وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، بِسْمِ اللَّهِ، واللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ، وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَأُمَّتِهِ» اگر دوسرے کی قربانی کرنا ہے تو اس طرح کہے اللھم تقبل عن (فلان بن فلان)
کی جگہ ان کا نام لے۔
یہ دعا پڑھ کر تیز چھری سے جانور ذبح کر دیا جائے۔
قربانی کاجانور ذبح کرتے وقت یہ دعا پڑھنی مسنون ہے۔
«إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، حَنِيفًا مُسْلِمًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ، وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، بِسْمِ اللَّهِ، واللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ، وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَأُمَّتِهِ» اگر دوسرے کی قربانی کرنا ہے تو اس طرح کہے اللھم تقبل عن (فلان بن فلان)
کی جگہ ان کا نام لے۔
یہ دعا پڑھ کر تیز چھری سے جانور ذبح کر دیا جائے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5565]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5554
5554. سیدنا انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا وہیب نے ایوب سے روایت کرنے میں عبدالوہاب کی متابعت کی ہے, اسماعیل اور حاتم نے ایوب سے انہوں نے ابن سیرین سے انہوں نے سیدنا انس سے اس روایت کو بیان کیا ہے. [صحيح بخاري، حديث نمبر:5554]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے تازے صحت مند مینڈھے خرید کر لاتے۔
(مجمع الزوائد: 21/4)
واضح رہے کہ ان روایات میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ موٹے جانور دوسرے جانوروں سے افضل ہیں، تاہم اگر اس وجہ سے کہ موٹے تازے جانور میں گوشت زیادہ ہو گا اور اس سے غرباء کا زیادہ فائدہ ہو سکے گا یہ کہہ دیا جائے کہ موٹا جانور افضل ہے تو یقیناً قرین قیاس ہے۔
(2)
امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے جانور کا موٹا اور عمدہ ہونا مسنون ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔
“ (الحج: 32)
اس کی تعظیم سے مراد اس کا موٹا ہونا اور اس کا احترام کرنا ہے کیونکہ یہ بڑے اجر اور زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
(المغني: 367/13)
(1)
حضرت رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے تازے صحت مند مینڈھے خرید کر لاتے۔
(مجمع الزوائد: 21/4)
واضح رہے کہ ان روایات میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ موٹے جانور دوسرے جانوروں سے افضل ہیں، تاہم اگر اس وجہ سے کہ موٹے تازے جانور میں گوشت زیادہ ہو گا اور اس سے غرباء کا زیادہ فائدہ ہو سکے گا یہ کہہ دیا جائے کہ موٹا جانور افضل ہے تو یقیناً قرین قیاس ہے۔
(2)
امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے جانور کا موٹا اور عمدہ ہونا مسنون ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔
“ (الحج: 32)
اس کی تعظیم سے مراد اس کا موٹا ہونا اور اس کا احترام کرنا ہے کیونکہ یہ بڑے اجر اور زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
(المغني: 367/13)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5554]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5558
5558. سیدنا انس ؓ سئ روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ سفید مینڈھوں کی قربانی دی۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنا پاؤں جانور کے پہلو پرکھا اور بسم اللہ اللہ أکبر پڑھ کر ان دونوں کو اپنے دست مبارک سے ذبح کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5558]
حدیث حاشیہ:
(1)
بہتر ہے کہ قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کیا جائے لیکن قربانی کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔
اگر کوئی ذبح کرنے سے ناواقف ہے تو وہ کسی دوسرے کو، ذبح کے لیے اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے۔
(2)
ذبح کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے، پھر ذبح کرنے والا اپنا دایاں پاؤں اس کی دائیں جانب رکھے تاکہ اسے دائیں ہاتھ سے چھری اور بائیں ہاتھ سے گردن پکڑنا آسان ہو۔
مسلمانوں کا اس پر عمل ہے۔
اگر کسی نے جہالت کی وجہ سے جانور کو دائیں کروٹ پر لٹایا تو اس کا ذبح اور جانور کا کھانا درست ہے۔
واللہ أعلم
(1)
بہتر ہے کہ قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کیا جائے لیکن قربانی کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔
اگر کوئی ذبح کرنے سے ناواقف ہے تو وہ کسی دوسرے کو، ذبح کے لیے اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے۔
(2)
ذبح کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے، پھر ذبح کرنے والا اپنا دایاں پاؤں اس کی دائیں جانب رکھے تاکہ اسے دائیں ہاتھ سے چھری اور بائیں ہاتھ سے گردن پکڑنا آسان ہو۔
مسلمانوں کا اس پر عمل ہے۔
اگر کسی نے جہالت کی وجہ سے جانور کو دائیں کروٹ پر لٹایا تو اس کا ذبح اور جانور کا کھانا درست ہے۔
واللہ أعلم
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5558]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5564
5564. سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور آپ اپنا پاؤں ان کی گردن پررکھتے پھر اپنے ہاتھ سے انہیں ذبح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5564]
حدیث حاشیہ:
اس کے متعلق پہلے وضاحت ہو چکی ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے، پھر ذبح کرنے والا اپنا دایاں پاؤں اس کی گردن پر رکھے تاکہ دائیں ہاتھ میں چھری اور بائیں ہاتھ سے گردن پکڑنا آسان ہو۔
مسلمان اسی طرح جانور ذبح کرتے ہیں اور یہ طریقہ متواتر چلا آ رہا ہے۔
اس کے متعلق پہلے وضاحت ہو چکی ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے، پھر ذبح کرنے والا اپنا دایاں پاؤں اس کی گردن پر رکھے تاکہ دائیں ہاتھ میں چھری اور بائیں ہاتھ سے گردن پکڑنا آسان ہو۔
مسلمان اسی طرح جانور ذبح کرتے ہیں اور یہ طریقہ متواتر چلا آ رہا ہے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5564]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5565
5565. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والے دو سیاہ سفید مینڈھوں کی قربانی دی۔ آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، بسم اللہ،اللہ أکبر پڑھا اور اپنا پاؤں ان کی گردن پر رکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5565]
حدیث حاشیہ:
(1)
ذبح کرنے سے پہلے چھری اچھی طرح تیز کرنی چاہیے اور جانور سے چھپا کر رکھنی چاہیے، پھر بسم اللہ اللہ أکبر پڑھ کر اسے ذبح کرنا چاہیے۔
(2)
قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے لیکن دوسرا شخص بھی کر سکتا ہے جیسے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کی طرف سے قربانی ذبح کی تھی۔
انہیں اس وقت معلوم ہوا جب گوشت ان کے پاس پہنچا۔
(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث: 2981)
(1)
ذبح کرنے سے پہلے چھری اچھی طرح تیز کرنی چاہیے اور جانور سے چھپا کر رکھنی چاہیے، پھر بسم اللہ اللہ أکبر پڑھ کر اسے ذبح کرنا چاہیے۔
(2)
قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے لیکن دوسرا شخص بھی کر سکتا ہے جیسے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کی طرف سے قربانی ذبح کی تھی۔
انہیں اس وقت معلوم ہوا جب گوشت ان کے پاس پہنچا۔
(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث: 2981)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5565]
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، سنن نسائی 4421
اہلِ اسلام کے ذبیحے کو حسنِ ظن کی بنیاد پر کھایا جائے گا
الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اہلِ اسلام کے ذبیحے کو حسنِ ظن کی بنیاد پر کھایا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی ہر قصاب سے پوچھتا پھرے کہ آپ نے اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ذبح شدہ جانور پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا تو یہ ذبیحہ حرام ہے۔ “ [فتاويٰ علميه: 1/ 91]
مزید فرمایا: ”بہتر یہی ہے کہ کسی صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کا ذبیحہ کھایا جائے۔ “ [فتاويٰ علميه: 1/ 98]
مزید فرمایا: ”جس شخص کا اہلِ بدعت کے ذبیحے پر دل مطمئن نہیں ہے تو نہ کھائے مگر خوارج کی طرح تکفیری فتوے جاری کرتا نہ پھرے۔ ان اہلِ بدعت میں سے ایسے سادہ ہیرے بھی ملتے ہیں جنھیں جب کتاب و سنت کی دعوت پہنچتی ہے تو والہانہ انداز میں لبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام کے لئے اپنی جانیں اور مال قربان کر دیتے ہیں۔ “ [فتاويٰ علميه: 1/ 98]
ایک مقام پر عرب عالم ”ابو عبد اللہ خالد بن عبد اللہ الناصر“ کا قول نقل کیا:
”بعض ذبح کرنے والے لوگ (اور قصائی حضرات) بے نماز ہوتے ہیں۔ یہ قربانی (اللہ کے ہاں) مقبول نہیں ہے بلکہ اسے ”ذبیحہ خبیثہ“ قرار دیا گیا ہے۔ سنت یہ ہے کہ آپ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ [سورة الكوثر: 2] “
[حاجي كے شب وروز: ص 55]
الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اہلِ اسلام کے ذبیحے کو حسنِ ظن کی بنیاد پر کھایا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی ہر قصاب سے پوچھتا پھرے کہ آپ نے اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ذبح شدہ جانور پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا تو یہ ذبیحہ حرام ہے۔ “ [فتاويٰ علميه: 1/ 91]
مزید فرمایا: ”بہتر یہی ہے کہ کسی صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کا ذبیحہ کھایا جائے۔ “ [فتاويٰ علميه: 1/ 98]
مزید فرمایا: ”جس شخص کا اہلِ بدعت کے ذبیحے پر دل مطمئن نہیں ہے تو نہ کھائے مگر خوارج کی طرح تکفیری فتوے جاری کرتا نہ پھرے۔ ان اہلِ بدعت میں سے ایسے سادہ ہیرے بھی ملتے ہیں جنھیں جب کتاب و سنت کی دعوت پہنچتی ہے تو والہانہ انداز میں لبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام کے لئے اپنی جانیں اور مال قربان کر دیتے ہیں۔ “ [فتاويٰ علميه: 1/ 98]
ایک مقام پر عرب عالم ”ابو عبد اللہ خالد بن عبد اللہ الناصر“ کا قول نقل کیا:
”بعض ذبح کرنے والے لوگ (اور قصائی حضرات) بے نماز ہوتے ہیں۔ یہ قربانی (اللہ کے ہاں) مقبول نہیں ہے بلکہ اسے ”ذبیحہ خبیثہ“ قرار دیا گیا ہے۔ سنت یہ ہے کہ آپ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ [سورة الكوثر: 2] “
[حاجي كے شب وروز: ص 55]
[فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 98]


قتادة بن دعامة السدوسي ← أنس بن مالك الأنصاري