English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن ترمذي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن ترمذی میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (3956)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
5. باب ما جاء كم فرض الحج
باب: کتنی بار حج فرض ہے؟
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 814
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ:" لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا سورة آل عمران آية 97 قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي كُلِّ عَامٍ؟ فَسَكَتَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي كُلِّ عَامٍ، قَالَ:" لَا، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ" فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَاسْمُ أَبِي البَخْتَرِيِّ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ فَيْرُوزَ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ حکم نازل ہوا کہ اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں، تو لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال (فرض ہے)؟ آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہر سال؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہو جاتا اور پھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا: اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تم پر شاق گزریں۔‏‏‏‏
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- ابوالبختری کا نام سعید بن ابی عمران ہے اور یہی سعید بن فیروز ہیں،
۳- اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 814]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الصیام 2 (2884)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المائدہ (3055) (ضعیف) (سند میں ابو البختری کی علی رضی الله عنہ سے معاصرت وسماع نہیں ہے، اس لیے سند منقطع ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2884) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (628) ، الإرواء (980) ، وسيأتي برقم (584 / 3261) //
قال الشيخ زبير على زئي:(814) إسناده ضعيف /جه 2884 ويأتي: 3055
أبوالبختري سعيد بن فيروز الطائي لم يسمع من علي رضى الله عنه فالسند منقطع وحديث مسلم (1337) يغني عنه

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥علي بن أبي طالب الهاشمي، أبو الحسن، أبو الحسينصحابي
👤←👥سعيد بن أبي عمران الطائي، أبو البختري
Newسعيد بن أبي عمران الطائي ← علي بن أبي طالب الهاشمي
ثقة ثبت فيه تشيع قليل
👤←👥عبد الأعلى بن عامر الثعلبي
Newعبد الأعلى بن عامر الثعلبي ← سعيد بن أبي عمران الطائي
ضعيف الحديث
👤←👥علي بن عبد الأعلى الثعلبي، أبو الحسن
Newعلي بن عبد الأعلى الثعلبي ← عبد الأعلى بن عامر الثعلبي
صدوق حسن الحديث
👤←👥منصور بن وردان الأسدي، أبو محمد، أبو عبد الله
Newمنصور بن وردان الأسدي ← علي بن عبد الأعلى الثعلبي
ثقة
👤←👥عبد الله بن سعيد الكندي، أبو سعيد
Newعبد الله بن سعيد الكندي ← منصور بن وردان الأسدي
ثقة
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
جامع الترمذي
814
في كل عام قال لا ولو قلت نعم لوجبت أنزل الله يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
جامع الترمذي
3055
لا ولو قلت نعم لوجبت أنزل الله يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
سنن ابن ماجه
2884
ولو قلت نعم لوجبت نزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 814 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 814
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں ابو البختری کی علی رضی اللہ عنہ سے معاصرت و سماع نہیں ہے،
اس لیے سند منقطع ہے)
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 814]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2884
حج کی فرضیت کا بیان۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: «ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا» اللہ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہوں (سورۃ آل عمران: ۹۷) نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال فرض ہے ۱؎؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، لوگوں نے پھر سوال کیا: کیا ہر سال حج فرض ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں، ہاں، کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہو جاتا، اس پر آیت کریمہ: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! تم ان چیزو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2884]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حج صرف اس شخص پر فرض ہے جو طاقت رکھتا ہو۔
یعنی گھر سے روانہ ہونے سے لیکر واپسی تک کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو۔
اس میں کھانے پینے کے اخراجات بھی شامل ہیں اور سواری کا خرچ یعنی کرایہ وغیرہ بھی۔

(2)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے کسی کام کو فرض یا حرام قرار نہیں دیتے تھے تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا سوال کرنا ان کے شوق عبادت کو ظاہر کرتا ہے۔
ممکن ہے اللہ تعالی کو صحابہ کی کسی نیکی سے محبت اور اس کا شوق اس قدر پسند آجائے کہ اس کا حکم نازل ہوجائے اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو زیادہ سوالات سے منع فرما دیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا حکم نازل نہ ہو جائے جو بعد والوں کے لیے مشقت کا باعث ہو۔

(3)
اسلامی شریعت کے احکام آسان اور قابل عمل ہیں لہٰذا ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا محرومی کا باعث ہے۔

(4)
حج زندگی میں ایک ہی بار ادا کرنا فرض ہے۔
دوسرا حج نفل ہوگا۔
لیکن اگر کسی نے بالغ ہونے سے پہلے یا غلامی کی حالت میں حج کیا ہے تو اس کا یہ حج نفل ہوگا۔
بالغ ہونے کے بعد یا آزادی ملنے پر اگر استطاعت ہوتو دوبارہ حج ادا کرنا فرض ہوگا۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2884]