الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: کھانوں کے بیان میں
The Book of Foods (Meals)
21. بَابُ مَا عَابَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا:
21. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی قسم کے کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔
(21) Chapter. The Prophet never criticized any food (that was offered to him).
حدیث نمبر: 5409
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، قال:" ما عاب النبي صلى الله عليه وسلم طعاما قط إن اشتهاه اكله وإن كرهه تركه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" مَا عَابَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ إِنِ اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ وَإِنْ كَرِهَهُ تَرَكَهُ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوا تو کھا لیا اور اگر ناپسند ہوا تو چھوڑ دیا۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet never criticized any food (he was invited to) but he used to eat if he liked the food, and leave it if he disliked it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 320


   صحيح البخاري5409عبد الرحمن بن صخرما عاب النبي طعاما قط إن اشتهاه أكله وإن كرهه تركه
   صحيح البخاري3563عبد الرحمن بن صخرما عاب النبي طعاما قط إن اشتهاه أكله وإلا تركه
   صحيح مسلم5383عبد الرحمن بن صخرإذا اشتهاه أكله وإن لم يشتهه سكت
   صحيح مسلم5380عبد الرحمن بن صخرما عاب رسول الله طعاما قط كان إذا اشتهى شيئا أكله وإن كرهه تركه
   جامع الترمذي2031عبد الرحمن بن صخرما عاب رسول الله طعاما قط كان إذا اشتهاه أكله وإلا تركه
   سنن أبي داود3763عبد الرحمن بن صخرما عاب رسول الله طعاما قط إن اشتهاه أكله وإن كرهه تركه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3763  
´کھانے کی برائی بیان کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ بات ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر رغبت ہوتی تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3763]
فوائد ومسائل:

انسان اللہ کی نعمت کھانے سے رہ بھی نہ سکے۔
اور پھر اس کی عیب جوئی بھی کرے۔
یہ بہت بُری خصلت ہے۔
اگر کھانا تیار کرنے والے کی تقصیر ہوتو اس کو مناسب انداز سے سمجھا دینا چاہیے۔


اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا جا سکتا ہے۔
کہ انسان نے کسی شخص یا کسی ادارے سے کوئی معاہدہ طے کیا ہو۔
اور طے شدہ امور وشرائط پر معاملہ چل رہا ہو تو مناسب نہیں کہ اس ادارے یا افراد پر بلاوجہ معقول طعن وتشنیع کرے۔
یا تو بخیر وخوبی ساتھ نبھائے یا بھلے انداز سے جدا ہو جائے۔
تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا اسلامی شرعی اور اخلاق حق اچھے طریقے سے ادا کیا جانا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3763   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5409  
5409. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے اگر ناپسند ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5409]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کھانے کاعیب بیان کرنا جیسے یوں کہنا کہ اس میں نمک نہیں ہے یا پھیکا ہے یا نمک زیادہ ہے۔
یہ ساری باتیں مکروہ ہیں۔
پکانے اور ترکیب میں کسی نقص کی اصلاح کرنا مکروہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5409   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5409  
5409. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے اگر ناپسند ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5409]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے مراد حلال کھانا ہے کیونکہ حرام کھانے کی مذمت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
وہ تو سراپا عیب ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مذمت کرتے اور اسے کھانے سے منع فرماتے تھے۔
(2)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ خلقت کے اعتبار سے اسے معیوب قرار دینا منع ہے، البتہ تیار شدہ کھانے پر عیب لگایا جا سکتا ہے لیکن الفاظ میں عموم ہے، کسی صورت میں اسے معیوب کہنا صحیح نہیں، خواہ بنانے اور تیار کرنے کے اعتبار سے کیوں نہ ہو۔
اس طرح کھانا تیار کرنے والے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کھانے کے آداب میں سے ہے کہ اس میں عیب نہ نکالے جائیں کہ اس میں نمک نہیں ہے یا پھیکا ہے یا نمک زیادہ ہے یا اس کا شوربا اچھی طرح پکا ہوا نہیں ہے۔
یہ تمام باتیں مکروہ ہیں، البتہ پکانے اور ترکیب میں کسی نقص کی اصلاح کرنا مکروہ نہیں ہے۔
(فتح الباري: 678/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5409   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.