الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
127. بَابُ الْحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ عِنْدَ الإِحْلاَلِ:
127. باب: احرام کھولتے وقت بال منڈوانا یا ترشوانا۔
(127) Chapter. To shave the head and (or) to have the head-hair cut short on finishing the Ihram.
حدیث نمبر: 1730
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن الحسن بن مسلم، عن طاوس، عن ابن عباس، عن معاوية رضي الله عنهم، قال:"قصرت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بمشقص".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ:"قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ".
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ان سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کاٹے تھے۔

Narrated Muawiya: I cut short the hair of Allah's Apostle with a long blade.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 787


   سنن النسائى الصغرى2990عبد الله بن عباسقصر عن النبي بمشقص في عمرة على المروة
   سنن النسائى الصغرى2991عبد الله بن عباسقصرت عن رسول الله على المروة بمشقص أعرابي
   صحيح البخاري1730عبد الله بن عباسقصرت عن رسول الله بمشقص
   صحيح مسلم3022عبد الله بن عباسقصرت عن رسول الله بمشقص وهو على المروة
   صحيح مسلم3021عبد الله بن عباسقصرت من رأس رسول الله عند المروة بمشقص فقلت له لا أعلم هذا إلا حجة عليك
   سنن أبي داود1802عبد الله بن عباسقصرت عن النبي بمشقص على المروة
   سنن أبي داود1803عبد الله بن عباسقصرت عن رسول الله بمشقص أعرابي على المروة
   مسندالحميدي616عبد الله بن عباس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1803  
´حج قران کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے مروہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ایک اعرابی کے تیر کی پیکان سے کترے۔ حسن کی روایت میں «لحجته» (آپ کے حج میں) ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1803]
1803. اردو حاشیہ:
➊ حضرت معاویہ نے یہ خدمت حج کے موقع پر نہیں بلکہ عمرہ جعرانہ کے موقع پر سر انجام دی تھی۔جیسے کہ سنن نسائی کی روایت میں «فی عمرتة» ‏‏‏‏ کی صراحت ہے۔ (سنن نسائی مناسک الحج حدیث:2990)اور حج کےموقع پر کی تعبیر یاتومجاز ہے یا وہم۔ واللہ اعلم .
➋ عمرے میں صفا مروہ کی سعی کے بعد آدمی بال کتروا کر حلال ہوتا ہے۔ جبکہ عورتوں کو ایک پورا برابر بال کاٹنا کافی ہوتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1803   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1730  
1730. حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے بال قینچی سے چھوٹے کیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1730]
حدیث حاشیہ:
ارکان حج کی بجا آوری کے بعد حاجی کو سر کے بال منڈانے ہیں یا کتروانے، ہر دو صورتیں جائز ہیں، مگر منڈانے والوں کے لیے آپ ﷺ نے تین بار مغفرت کی دعا فرمائی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنداللہ اس موقع پر بالوں کا منڈوانا زیادہ محبوب ہے۔
اس روایت میں حضرت معاویہ کا بیان وارد ہوتا ہے، اس کے وقت کی تعیین کرنے میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں۔
یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے متعلق نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہو کیوں کہ اصحاب سیر کے بیان کے مطابق آنحضرت ﷺ نے ہجرت سے پہلے بھی حج کئے ہیں۔
علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
وقد أخرج بن عساكر في تاريخ دمشق من ترجمة معاوية تصريح معاوية بأنه أسلم بين الحديبية والقضية وأنه كان يخفي إسلامه خوفا من أبويه وكان النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل في عمرة القضية مكة خرج أكثر أهلها عنها حتى لا ينظرونه وأصحابه يطوفون بالبيت فلعل معاوية كان ممن تخلف بمكة لسبب اقتضاه ولا يعارضه أيضا قول سعد بن أبي وقاص فيما أخرجه مسلم وغيره فعلناها يعني العمرة في أشهر الحج وهذا يومئذ كافر بالعرش بضمتين يعني بيوت مكة يشير إلى معاوية لأنه يحمل على أنه أخبر بما استصحبه من حاله ولم يطلع على إسلامه لكونه كان يخفيه ويعكر على ما جوزوه أن تقصيره كان في عمرة الجعرانة أن النبي صلى الله عليه وسلم ركب من الجعرانة بعد أن أحرم بعمرة ولم يستصحب أحدا معه إلا بعض أصحابه المهاجرين فقدم مكة فطاف وسعى وحلق ورجع إلى الجعرانة فأصبح بها كبائت فخفيت عمرته على كثير من الناس كذا أخرجه الترمذي وغيره ولم يعد معاوية فيمن صحبه حينئذ ولا كان معاوية فيمن تخلف عنه بمكة في غزوة حنين حتى يقال لعله وجده بمكة بل كان مع القوم وأعطاه مثل ما أعطى أباه من الغنيمة مع جملة المؤلفة وأخرج الحاكم في الإكليل في آخر قصة غزوة حنين أن الذي حلق رأسه صلى الله عليه وسلم في عمرته التي اعتمرها من الجعرانة أبو هند عبد بني بياضة فإن ثبت هذا وثبت أن معاوية كان حينئذ معه أو كان بمكة فقصر عنه بالمروة أمكن الجمع بأن يكون معاوية قصر عنه أولا وكان الحلاق غائبا في بعض حاجته ثم حضر فأمره أن يكمل إزالة الشعر بالحلق لأنه أفضل ففعل وإن ثبت أن ذلك كان في عمرة القضية وثبت أنه صلى الله عليه وسلم حلق فيها جاء هذا الاحتمال بعينه وحصل التوفيق بين الأخبار كلها وهذا مما فتح الله علي به في هذا الفتح ولله الحمد ثم لله الحمد أبدا۔
(فتح الباري)
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ حضرت معاویہ ؓ سال حدیبیہ اور سال عمرۃ القضاء کے درمیان اسلام لا چکے تھے، مگر وہ والدین کے ڈر سے اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کر رہے تھے، عمرۃ القضاء میں جب کہ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب طواف کعبہ میں مشغول تھے تمام کفار مکہ شہر چھوڑ کر باہر چلے گئے تاکہ وہ اہل اسلام کو دیکھ نہ سکیں اس موقع پر شاید حضرت معاویہ ؓ مکہ شریف ہی میں رہ گئے ہوں (اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ بھی اسی وقت سے تعلق رکھتا ہو)
اور سعد بن وقاص ؓ کا وہ قول جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس کے خلاف نہیں ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت معاویہ ؓ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ شریف کے کسی گھر میں چھت پر چھپے ہوئے تھے۔
یہ اس لیے کہ وہ اپنے اسلام کو اپنے رشتہ داروں سے ابھی تک پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور جس نے اس واقعہ کو عمرہ جعرانہ سے متعلق بتلایا ہے وہ درست نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ اس موقع پر جو صحابہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے ان میں حضرت معاویہ ؓ کا شمار نہیں ہے اور غزوہ حنین کے موقع پر انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مال غنیمت سے مولفین میں شامل ہو کر حصہ لیا تھا۔
غزوہ حنین کے قصہ کے آخر میں حاکم نے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر آپ ﷺ کا سر مونڈنے والا بنی بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند تھا، اگر یہ ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہو جائے کہ حضرت معاویہ ؓ اس دن آپ ﷺ کے ساتھ تھے یا مکہ میں موجود تھے تو یہ امکان ہے کہ انہوں نے پہلے آپ ﷺ کے بال قینچی سے کترے ہوں اور حلاق اس وقت غائب رہاہو پھر اس کے آجانے پر اس سے کرایا ہو کیوں کہ حلق افضل ہے اور اگر یہ عمرۃ القضیہ میں ثابت ہو جب کہ وہاں بھی آپ ﷺ کا حلق ثابت ہے تو یہ احتمال صحیح ہے کہ اس موقع پر انہوں نے یہ خدمت انجام دی ہو۔
مختلف روایات میں تطیبق کی یہ توفیق محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوئی ہے۔
و للہ الحمد۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1730   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1730  
1730. حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے بال قینچی سے چھوٹے کیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1730]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے سر کے بال حجۃ الوداع کے موقع پر منڈوائے تھے اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں چھوٹا کرایا تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4411)
حضرت امیر معاویہ ؓ نے عمرۂ جعرانه کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک قینچی سے چھوٹے کیے تھے کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے بال منڈوائے تھے۔
اور حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ کے بال مبارک لوگوں میں تقسیم کیے تھے۔
اور عمرۂ قضاء جو سات ہجری میں ہوا اس وقت حضرت معاویہ ؓ مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لیے عمرۂ جعرانه میں انہوں نے یہ خدمت سر انجام دی ہو گی۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضاء کے درمیان مسلمان ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے والدین سے ڈرتے ہوئے اپنا اسلام پوشیدہ رکھا اور جب رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اہل مکہ نے مکہ خالی کر دیا تھا تاکہ وہ اہل اسلام کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھ نہ سکیں، ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ اس وقت کسی وجہ سے مکہ مکرمہ ہی میں رہے ہوں اور رسول اللہ ﷺ کے بال چھوٹے کرنے کا موقع انہی حالات میں پیش آیا ہو۔
اور جن حضرات نے اس واقعے کو عمرۂ جعرانه سے متعلق بیان کیا ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ جو حضرات اس وقت آپ ﷺ کے ہمراہ تھے ان میں حضرت معاویہ ؓ موجود نہیں تھے، پھر اس موقع پر آپ کا سر مونڈنے والا بنو بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند ہے۔
(فتح الباري: 713/3)
بہرحال امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ احرام کھولتے وقت بالوں کا مونڈنا اور چھوٹے کرنا دونوں جائز ہیں۔
اور مونڈنا افضل ہے کیونکہ اس میں بالکل زینت ختم ہو جاتی ہے اور حاجی کو ترک زینت ہی کا حکم ہے جبکہ بال چھوٹے کرانے میں زینت کا کچھ نہ کچھ حصہ سر پر باقی رہ جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1730   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.