الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
40. بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي إِتْمَامِ الصَّلاَةِ، وَذِكْرِ الْقِبْلَةِ:
40. باب: امام لوگوں کو یہ نصیحت کرے کہ نماز پوری طرح پڑھیں اور قبلہ کا بیان۔
(40) Chapter. Preaching of the Imam to the people regarding the proper offering of As-Salat (the prayer) and the mention of the Qiblah (Kabah at Makkah).
حدیث نمبر: 419
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن صالح، قال: حدثنا فليح بن سليمان، عن هلال بن علي، عن انس بن مالك، قال: صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم صلاة، ثم رقي المنبر، فقال في الصلاة وفي الركوع:" إني لاراكم من ورائي كما اراكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً، ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ فِي الصَّلَاةِ وَفِي الرُّكُوعِ:" إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَائِي كَمَا أَرَاكُمْ".
ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے ہلال بن علی سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مرتبہ نماز پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے، پھر نماز کے باب میں اور رکوع کے باب میں فرمایا میں تمہیں پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا رہتا ہوں جیسے اب سامنے سے دیکھ رہا ہوں۔

Narrated Anas bin Malik: The Prophet led us in a prayer and then got up on the pulpit and said, "In your prayer and bowing, I certainly see you from my back as I see you (while looking at you.)"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 411


   صحيح البخاري718أنس بن مالكأقيموا الصفوف أراكم خلف ظهري
   صحيح البخاري725أنس بن مالكأقيموا صفوفكم أراكم من وراء ظهري
   صحيح البخاري719أنس بن مالكأقيموا صفوفكم وتراصوا أراكم من وراء ظهري
   صحيح البخاري6644أنس بن مالكأتموا الركوع والسجود أراكم من بعد ظهري إذا ما ركعتم وإذا ما سجدتم
   صحيح البخاري742أنس بن مالكأقيموا الركوع والسجود أراكم من بعدي إذا ركعتم وسجدتم
   صحيح البخاري419أنس بن مالكأراكم من ورائي كما أراكم
   صحيح مسلم959أنس بن مالكأقيموا الركوع والسجود أراكم من بعدي إذا ركعتم وسجدتم
   صحيح مسلم960أنس بن مالكأتموا الركوع والسجود أراكم من بعد ظهري إذا ما ركعتم وإذا ما سجدتم
   صحيح مسلم961أنس بن مالكلا تسبقوني بالركوع ولا بالسجود ولا بالقيام ولا بالانصراف أراكم أمامي ومن خلفي لو رأيتم ما رأيت لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا ما رأيت يا رسول الله قال رأيت الجنة والنار
   صحيح مسلم976أنس بن مالكأتموا الصفوف أراكم خلف ظهري
   سنن النسائى الصغرى1118أنس بن مالكأتموا الركوع والسجود أراكم من خلف ظهري في ركوعكم وسجودكم
   سنن النسائى الصغرى1364أنس بن مالكلا تبادروني بالركوع ولا بالسجود ولا بالقيام ولا بالانصراف أراكم من أمامي ومن خلفي لو رأيتم ما رأيت لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا قلنا ما رأيت يا رسول الله قال رأيت الجنة والنار
   سنن النسائى الصغرى846أنس بن مالكأقيموا صفوفكم وتراصوا أراكم من وراء ظهري
   سنن النسائى الصغرى815أنس بن مالكأقيموا صفوفكم وتراصوا أراكم من وراء ظهري
   سنن النسائى الصغرى814أنس بن مالكاستووا أراكم من خلفي كما أراكم من بين يدي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 814  
´سیدھے کھڑے ہو جاؤ کتنی بار کہنا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح تمہیں اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 814]
814 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تین دفعہ کہنا مستحب ہے ورنہ یہ ضرورت پر موقوف ہے۔ اگر صفیں درست ہوں تو ایک دفعہ کہنا بھی ضروری نہیں اور اگر صفوں میں خرابی تین دفعہ کہنے کے باوجود باقی رہے تو ظاہر ہے زیادہ مرتبہ کہا جائے گا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کی حالت میں پچھلی صفوں کو دیکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے درست اور قول مختار اسی کو قرار دیا ہے نیز یہ اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ دیکھیے: [فتح الباری: 666/1 تحت حدیث: 418]
اس کی تاویل کر کے اسے اس کے ظاہری مفہوم سے پھیرنا مسلک سلف کے خلاف ہے تاہم یہ دیکھنا صرف نماز کی حد تھا (یعنی دوران امامت میں) نہ کہ ہر وقت آپ اپنے پیچھ کا مشاہدہ کرسکتے تھے نیز کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر ایک آنکھ تھی اس سے آپ ہمیشہ دیکھتے رہتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ کے دونوں کندھوں پر سوئی کے ناکے کے برابر دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھیں۔ بہرحال یہ سب تخمینے اور اندازے ہیں دلیل ان کی پشت پناہی نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: [فتح الباري: 666/1]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 814   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 846  
´فوت شدہ نماز کی جماعت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہنے سے پہلے آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی صفوں کو درست کر لیا کرو، اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 846]
846 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ غالباً راویٔ کتاب یا ناسخ کی غلطی سے یہاں لکھی گئی، نیز یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ (فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 815: 816)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 846   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:419  
419. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور نماز اور رکوع کے متعلق فرمایا:بےشک میں تمہیں اپنے پیچھے سے اس طرح دیکھتا ہوں، جس طرح سامنے سے دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:419]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مصالح مساجد کی طرف اشارہ فرمایا کہ امام کو چاہیے وہ مقتدیوں کے احوال پر نظر رکھے۔
اگر وہ نماز وغیرہ صحیح نہ پڑھتے ہوں تو انھیں تنبیہ کرے۔
اگر اسے دائیں بائیں التفات کرنا پڑے تو اس میں چنداں حرج نہیں۔
البتہ یہ التفات گوشہ چشم سے ہونا چاہیے اپنا منہ اور سینہ قبلے کی طرف رکھے، کیونکہ چہرے کا انحراف کراہت اور سینے کا انحراف فساد نماز کا حکم رکھتا ہے۔
بعض شارحین نے رکوع کی مناسبت سے خشوع سے مراد سجدہ لیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک بہتر ہے کہ خشوع کو اپنے عموم پر رکھا جائے تاکہ تمام افعال نماز اس میں آجائیں خاص طور پر رکوع کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں کوتاہی زیادہ ہوتی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جلد بازی میں بہت سے لوگ رکوع کا اتمام نہیں کرتے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں خشوع کے بجائے سجود کے الفاظ ہیں۔
(فتح الباري: 666/1)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں پچھلی سمت سے بھی سامنے کی طرح دیکھتا ہوں۔
اس روایت کے متعلق شارحین کے کئی اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اس سے مراد آپ کا معلوم کرلینا ہے، خواہ بذریعہ وحی ہو یا بطریق الہام ان کے ذریعے سے آپ کو مقتدی حضرات کی حرکات و سکنات بتادی جاتی تھیں مگر یہ درست نہیں، کیونکہ اس سے پیٹھ پیچھے کی قید بے فائدہ ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ دائیں بائیں کے لوگوں کو کسی قدر التفات نظر سے دیکھ لیتے ہوں گے، مگر یہ رائے بھی بے وزن ہے، کیونکہ اس میں آپ کی کیا خصوصیت رہی۔
دیوار قبلہ میں آئینے کی طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے نمازیوں کی تصاویر آجاتی تھیں جس سے آپ صورت حال سے مطلع ہو جاتے تھے۔
عام مشائخ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، لیکن اس پر قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔
رسول اللہ ﷺ کو پشت مبارک میں قوت باصرہ عطا فرمائی گئی تھی، پھر آگے وضاحت ہے کہ قوت باصرہ مہرنبوت میں تھی یا دونوں کندھوں کے درمیان سوئی کی نوک کی طرح آنکھیں عطا کی گئی تھیں۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ اس موقف کو بھی محققین نے مسترد کردیا ہے کہ اگر ايسی بات ہوتی تو سیرت ہوتی تو سیرت نگار آپ کے احوال میں اس کا تذکرہ کرتے۔
سب سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے جسے جمہور نے اختیار کیا ہے کہ سامنے کی طرح پیچھے بھی دیکھنا رسول اللہ ﷺ کے خصائص سے تھا اور وہی علم وادراک حقیقی کا سبب تھا جو بطور خرق عادت (معجزہ)
آپ کو حاصل تھا۔
امام بخاری ؒ کا پسندیدہ موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ انھوں نے اسی روایت کو علامات نبوت میں بھی ذکر فرمایا ہے۔
اہل سنت و الجماعت کا بھی رجحان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعام انسانوں کی مقررہ عادت کے خلاف انھی آنکھوں سے ہرسمت دیکھنے کی طاقت عطا فرما دی تھی۔
اس لیے بعید نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے نماز میں یہ خصوصیت ہو کہ آپ مقتدیوں کو بلا جہت دیکھتاہوں، لیکن یہ حالت کلی طور پر نہیں رہتی تھی کہ اس سے مسئلہ علم غیب کشیدکیا جا سکے، کیونکہ ابو بکرہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد میں آئے جبکہ جماعت ہو رہی تھی۔
انھوں نے دور ہی سے رکوع کر لیا۔
نماز کے بعد دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے انھیں تنبیہ فرمائی۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ہانپتے کانپتے ہوئے رکوع سے اٹھتے وقت بلند آواز سے (حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ)
کے الفاظ کہے۔
رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بعد دریافت فرمایا کہ بآواز بلندیہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ بتانے پر معلوم ہوا کہ وہ فلاں شخص تھا اگر آپ کو ہمیشہ بحالت نماز پیچھے سے نظر آتا رہتا تو دریافت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کو خشوع اور اتمام ارکان کی طرف توجہ دینی چاہیے، نیز امام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو نماز سے متعلقہ مسائل واحکام پر متنبہ کرتا رہے۔
خاص طور پر اگر ان میں کوتاہی نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے میں پوری توجہ کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 667/1)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 419   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.