صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
8. باب وُجُوبِ طَاعَةِ الأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ:
8. باب: بادشاہ یا حاکم یا امام کی اطاعت واجب ہے اس کام میں جو گناہ نہ ہو اور گناہ میں اطاعت کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 4771
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن عبد الرحمن بن وهب بن مسلم ، حدثنا عمي عبد الله بن وهب ، حدثنا عمرو بن الحارث ، حدثني بكير ، عن بسر بن سعيد ، عن جنادة بن ابي امية ، قال: دخلنا على عبادة بن الصامت وهو مريض، فقلنا حدثنا: اصلحك الله بحديث ينفع الله به، سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: دعانا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبايعناه، فكان فيما اخذ علينا، " ان بايعنا على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا، وعسرنا ويسرنا، واثرة علينا، وان لا ننازع الامر اهله، قال: إلا ان تروا كفرا بواحا عندكم من الله فيه برهان ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبِ بْنِ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنِي بُكَيْرٌ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّة ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقُلْنَا حَدِّثْنَا: أَصْلَحَكَ اللَّهُ بِحَدِيثٍ يَنْفَعُ اللَّهُ بِهِ، سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: دَعَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَايَعْنَاهُ، فَكَانَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا، " أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، قَالَ: إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ ".
‏‏‏‏ جنادہ بن امیہ سے روایت ہے، ہم سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہ بیمار تھے۔ ہم نے کہا: بیان کرو ہم سے (اللہ تعالیٰ تم کو اچھا کرے)۔ ایسی کوئی حدیث ہے جس سے اللہ فائدے دے دے اور جس کو تم نے سنا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ انہوں نے کہا ہم کو بلایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، ہم نے آپ سے بیعت کی اور آپ نے جو عہد لیے ان میں یہ بھی بتایا کہ ہم بیعت کرتے ہیں بات سننے اور اطاعت کرنے پر خوشی اور ناخوشی میں، سختی اور آسانی میں اور ہماری حق تلفیاں ہونے میں اور ہم جھگڑا نہ کریں گے اس شخص کی خلافت میں جو اس کے لائق ہو مگر جب کھلا کفر دیکھیں جو اللہ تعالیٰ کے پاس حجت ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1709
   صحيح البخاري7056عبادة بن الصامتبايعنا على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا وعسرنا ويسرنا
   صحيح البخاري7199عبادة بن الصامتعلى السمع والطاعة في المنشط والمكره لا ننازع الأمر أهله
   صحيح مسلم4768عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره
   صحيح مسلم4771عبادة بن الصامتبايعنا على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا وعسرنا ويسرنا أثرة علينا
   سنن النسائى الصغرى4158عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في عسرنا ويسرنا ومنشطنا ومكارهنا
   سنن النسائى الصغرى4154عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في اليسر والعسر والمنشط والمكره
   سنن النسائى الصغرى4157عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره
   سنن النسائى الصغرى4159عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في عسرنا ويسرنا ومنشطنا ومكرهنا
   سنن النسائى الصغرى4156عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في اليسر والعسر والمنشط والمكره
   سنن ابن ماجه2866عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره
   مسندالحميدي393عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره، وأن لا ننازع الأمر أهله، وأن نقول بالحق حيث ما كنا لا نخاف في الله عز وجل لومة لائم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2866  
´بیعت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امیر کی اطاعت ملک و سلطنت کے نظم وضبط میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

(2)
زندگی میں کئی معاملات ایسے پیش آ سکتے ہیں جب ایک انسان امیر کی اطاعت سے جی چراتا اور اس کی حکم عدولی کی طرف مائل ہوسکتا ہے مثلاً:

(ا)
مشکل حالات میں انسان قانونی شکنی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

(ب)
راحت کے موقع پر آرام چھوڑ کر مشکل حکم کی تعمیل کو جی نہیں چاہتا۔

(ج)
بعض اوقات کام ایسا ہوتا ہے کہ جس کے طبیعت قدرتی طور پر نا پسند کرتی ہے۔

(د)
بعض اوقات انسان خود کوایک منصب کا اہل سمجھتا ہے یا کسی انعام کا مستحق سمجھتا ہے لیکن وہ منصب یا انعام کسی اور کو مل جاتا ہےاور انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی حق تلفی یا بے قدری ہوئی ہے اس سے دلبرداشتہ ہوگر وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات یا اپنے فرائض میں دلچسپی کم کردیتا ہے۔
حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اطاعت امیر میں سرگرم رہنا قرب الہی اور بلندی جذبات کا باعث ہے۔

(3)
حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ غلطیاں بغاوت کا جواز نہیں بنتی کیونکہ بغاوت سے جو بد نظمی پیدا ہوتی ہے اس کا نقصان غلط کار حکمران کی غلطیوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

(4)
اطاعت امیر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی تائید کی جائے۔
اس کی غلطی کو واضح کرنا چاہیے لیکن مقصد مسلمانوں کا اجتماعی مفاد اور امیر سے خیر خواہی ہو نہ کہ اس پر بے جا تنقید کرکے عوام کو اس کے خلاف ابھارنا اور ملک کے امن وامان کو تباہ کرنا۔

(5)
جس کا م پر ضمیر مطمئن ہو کہ یہ صحیح ہے اور وہ خلاف شریعت بھی نہ ہواور اس سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو وہ کرلینا چاہیے اگرچہ لوگ اسے اپنے رسم ورواج یا مفاد کے خلاف سمجھ کر طعن و تشنیع کریں تاہم تنقید کرنے والوں کو دلائل کے ساتھ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2866