الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْوَصِيَّةِ وصیت کے احکام و مسائل 2. باب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ: باب: ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی حجتہ الوداع میں اور میں ایسے درد میں مبتلا تھا کہ موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے جیسا درد ہے آپ جانتے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور میرا وارث سوا ایک بیٹی کے اور کوئی نہیں ہے , کیا میں دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: آدھا مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ایک تہائی خیرات کر اور ایک تہائی بھی بہت ہے اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ تو ان کو محتاج چھوڑ جائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھریں اور تو جو خرچ کرے گا اللہ کی رضامندی کے لیے اس کا ثواب تجھے ملے گا یہاں تک کہ اس لقمے کا بھی جو تو اپنی جورو کے منہ میں ڈالے۔“ میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا میں پیچھے رہ جاؤں گا اپنے اصحاب کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو پیچھے رہے گا (یعنی زندہ رہے گا) پھر ایسا عمل کرے گا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشی منظور ہو تو تیرا درجہ بڑھے گا اور بلند ہو گا اور شاید تو زندہ رہے یہاں تک کہ فائدہ ہو تجھ سے بعض لوگوں کو اور نقصان ہو بعض لوگوں کو یااللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کر دے اور مت پھیر ان کو ان کی ایڑیوں پر لیکن تباہ بیچارہ سعد بن خولہ (رضی اللہ عنہ) ہے۔“ اس کے لئے رنج کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے کہ وہ فوت ہوا مکہ میں۔
مذکورہ بالا حدیث بھی اسی سند سے مروی ہے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے۔ یہ ہے کہ انہوں نے برا جانا مرنا اس زمین میں جہاں سے ہجرت کی ہے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا مجھے اجازت دیجئیے اپنا مال بانٹنے کی جس کو چاہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا۔ میں نے کہا: آدھا مال بانٹنے کی اجازت دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا۔ میں نے کہا: تہائی مال کی اجازت دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے پھر اس کے بعد تہائی مال بانٹنا جائز ہوا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ نہیں ہے کہ پھر اس کے بعد تہائی بانٹنا جائز ہوا۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میری عیادت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ میں نے عرض کیا: کیا میں وصیت کروں اپنے سارے مال کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ پھر میں نے عرض کیا: کیا وصیت کروں آدھے مال کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا: کیا تہائی کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور تہائی بھی بہت ہے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے تینوں بیٹوں نے کہا اپنے باپ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں مکہ شریف میں بیمار پرسی کے لئے وہ رونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو کیوں روتا ہے؟“ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ڈر ہے کہیں مر جاؤں اس زمین میں جس سے ہجرت کی تھی میں نے جیسے سعد بن خولہ مر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! اچھا کر دے سعد کو۔“ تین بار پھر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت مال ہے اور میری ایک بیٹی ہے کیا میں سارے مال کی وصیت کر دوں؟ (فقرا اور مساکین کے لئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا: اچھا دو تہائی مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا: اچھا نصف کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا: تہائی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تہائی اور تہائی بہت ہے اور تو جو صدقہ دے اپنے مال میں سے وہ تو صدقہ ہے اور جو خرچ کرتا ہے اپنے بال بچوں پر وہ بھی صدقہ ہے اور جو تیری بی بی کھاتی ہے تیرے مال میں سے وہ بھی صدقہ ہے اور جو تو اپنے لوگوں کو بھلائی سے اور عیش سے چھوڑ جائے (یعنی مالدار اور غنی) تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تو چھوڑ جائے ان کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے۔“ اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے تینوں بیٹوں سے روایت ہے، کہ انہوں نے فرمایا: کہ سعد رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ باقی وہی ترجمہ ہے جو اوپر گزرا۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث منقول ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کاش لوگ ثلث سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثلث بہت ہے۔“
|