الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
74. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْغِشِّ فِي الْبُيُوعِ
باب: بیع میں دھوکہ دینے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1315
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فادخل يده فيها، فنالت اصابعه بللا، فقال: " يا صاحب الطعام ما هذا "، قال: اصابته السماء يا رسول الله، قال: " افلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس "، ثم قال: " من غش فليس منا ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وابي الحمراء، وابن عباس، وبريدة، وابي بردة بن نيار، وحذيفة بن اليمان. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، كرهوا الغش وقالوا: الغش حرام.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ: " يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ مَا هَذَا "، قَالَ: أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ "، ثُمَّ قَالَ: " مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي الْحَمْرَاءِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَأَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، كَرِهُوا الْغِشَّ وَقَالُوا: الْغِشُّ حَرَامٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا، آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا: غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں، پھر آپ نے فرمایا: جو دھوکہ دے ۱؎، ہم میں سے نہیں ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲ - اس باب میں ابن عمر، ابوحمراء، ابن عباس، بریدہ، ابوبردہ بن دینار اور حذیفہ بن یمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ دھوکہ دھڑی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 43 (102)، سنن ابی داود/ البیوع 52 (3452)، سنن ابن ماجہ/التجارات 36 (2224)، (تحفة الأشراف: 13979)، و مسند احمد (2/242) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎ بیع میں دھوکہ دہی کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً سودے میں کوئی عیب ہو اسے ظاہر نہ کرنا، اچھے مال میں ردی اور گھٹیا مال کی ملاوٹ کر دینا، سودے میں کسی اور چیز کی ملاوٹ کر دینا تاکہ اس کا وزن زیادہ ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔
۲؎: ہم میں سے نہیں، کا مطلب ہے مسلمانوں کے طریقے پر نہیں، اس کا یہ فعل مسلمان کے فعل کے منافی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2224)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.