الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
52. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْفَرْقِ بَيْنَ الأَخَوَيْنِ أَوْ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ
باب: غلاموں کی بیع میں دو بھائیوں یا ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کی حرام ہے۔
حدیث نمبر: 1283
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص الشيباني، اخبرنا عبد الله بن وهب، قال: اخبرني حيي بن عبد الله، عن ابي عبد الرحمن الحبلي، عن ابي ايوب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من فرق بين الوالدة وولدها، فرق الله بينه وبين احبته يوم القيامة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا، فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو شخص ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في السیر 17 (1566)، (تحفة الأشراف: 3468)، وانظر مسند احمد (5/413، 414) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث ماں اور بچے کے درمیان جدائی ڈالنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے، خواہ یہ بیع کے ذریعہ ہو یا ہبہ کے ذریعہ یا دھوکہ دھڑی کے ذریعہ، اور والدہ کا لفظ مطلق ہے اس میں والد بھی شامل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (3361)
حدیث نمبر: 1284
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن قزعة، اخبرنا عبد الرحمن بن مهدي، عن حماد بن سلمة، عن الحجاج، عن الحكم، عن ميمون بن ابي شبيب، عن علي، قال: وهب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم غلامين اخوين، فبعت احدهما، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا علي، ما فعل غلامك؟ " فاخبرته، فقال: " رده رده ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد كره بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، التفريق بين السبي في البيع، ويكره ان يفرق بين الوالدة وولدها وبين الإخوة والاخوات في البيع، ورخص بعض اهل العلم في التفريق بين المولدات الذين ولدوا في ارض الإسلام، والقول الاول اصح. وروي عن إبراهيم النخعي انه فرق بين والدة وولدها في البيع، فقيل له: في ذلك، فقال: إني قد استاذنتها بذلك، فرضيت.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: وَهَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامَيْنِ أَخَوَيْنِ، فَبِعْتُ أَحَدَهُمَا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَلِيُّ، مَا فَعَلَ غُلَامُكَ؟ " فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: " رُدَّهُ رُدَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ فِي الْبَيْعِ، وَيُكْرَهُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ الْوَالِدةِ وَوَلَدِهَا وَبَيْنَ الإِخْوَةَ وَالأَخَوَاتِ فِي الْبيع، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُوَلَّدَاتِ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي أَرْضِ الْإِسْلَامِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ، فَقِيلَ لَهُ: فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي قَدِ اسْتَأْذَنْتُهَا بِذَلِكَ، فَرَضِيَتْ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو غلام دیئے جو آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: علی! تمہارا غلام کیا ہوا؟، میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے ایک کو بیچ دیا ہے) تو آپ نے فرمایا: اسے واپس لوٹا لو، اسے واپس لوٹا لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم بیچتے وقت (رشتہ دار) قیدیوں کے درمیان جدائی ڈالنے کو ناجائز کہا ہے،
۳- اور بعض اہل علم نے ان لڑکوں کے درمیان جدائی کو جائز قرار دیا ہے جو سر زمین اسلام میں پیدا ہوئے ہیں۔ پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے،
۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بیچتے وقت ماں اور اس کے لڑکے کے درمیان تفریق، چنانچہ ان پر یہ اعتراض کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے اس کی ماں سے اس کی اجازت مانگی تو وہ اس پر راضی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 46 (2249)، (تحفة الأشراف: 10285)، و مسند احمد (1/102) (ضعیف) (میمون کی ملاقات علی رضی الله عنہ سے نہیں ہے، لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن ثبت مختصرا بلفظ آخر في صحيح أبي داود (2415)، ابن ماجة (2249)، صحيح أبي داود (2415)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.