الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Jihad
2. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ خَرَجَ فِي الْغَزْوِ وَتَرَكَ أَبَوَيْهِ
باب: ماں باپ کو چھوڑ کر جہاد میں نکلنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1671
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، وشعبة، عن حبيب بن ابي ثابت، عن ابي العباس، عن عبد الله بن عمرو، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يستاذنه في الجهاد، فقال: " الك والدان؟ "، قال: نعم، قال: " ففيهما فجاهد "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابن عباس، وهذا حديث حسن صحيح، وابو العباس هو الشاعر الاعمى المكي واسمه: السائب بن فروخ.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَشُعْبَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ: " أَلَكَ وَالِدَانِ؟ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعَبَّاسِ هُوَ الشَّاعِرُ الْأَعْمَى الْمَكِّيُّ وَاسْمُهُ: السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 138 (3004)، والأدب 3 (5972)، صحیح مسلم/البر والصلة 1 (2549)، سنن ابی داود/ الجہاد 33 (2529)، سنن النسائی/الجہاد 5 (3105)، (تحفة الأشراف: 8634)، و مسند احمد (2/165، 172، 188، 193، 197، 221) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ماں باپ کی پوری پوری خدمت کرو، کیونکہ وہ تمہاری خدمت کے محتاج ہیں، اسی سے تمہیں جہاد کا ثواب حاصل ہو گا، بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر رضاکارانہ طور پر جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے، لیکن اگر حالات و ظروف کے لحاظ سے جہاد فرض عین ہے تو ایسی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں، بلکہ روکنے کے باوجود وہ جہاد میں شریک ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2782)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.