من كتاب الصوم روزے کے مسائل 46. باب في صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ: عاشوراء کے روزے کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا وہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (اس کا سبب) پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس دن میں موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ حاصل ہوا (اور فتح حاصل ہوئی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک ترین ہو، روزہ رکھو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1800]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2004]، [مسلم 1130]، [أبوداؤد 2444]، [ابن ماجه 1734]، [أبويعلی 2567]، [ابن حبان 3625]، [مسندالحميدي 525] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کا روزہ رکھتے اور ہم کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1801]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2001]، [مسلم 1125]، [ابن ماجه 1733]، [أبويعلی 4338]، [ابن حبان 3621]، [الحميدي 202] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو یہ پیغام لے کر عاشوراء کے دن بھیجا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے اور جس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ بقیہ دن روزہ پورا کرے، اور جس نے کھایا پیا نہیں ہے وہ اس دن کا روزہ رکھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1802]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1924]، [مسلم 1135]، [ابن حبان 3619]، [نسائي 2320] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ یوم عاشوراء ہے اور قریش زمانہ جاہلیت میں اس کا روزہ رکھتے تھے، پس تم میں سے جس کو پسند ہو عاشوراء کا روزہ رکھے، اور جو اسے ترک کرنا چاہے ترک کر دے۔“ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خصوصیت سے عاشوراء کا روزہ نہ رکھتے تھے الا یہ کہ ان کے روزوں کے ایام میں عاشوراء آ جاتا تو اپنے روزے پورے کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ولكنه متابع عليه والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1803]»
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1892، 1893]، [مسلم 1126]، [ابن حبان 3622]، [أبوداؤد 2443]، [ابن ماجه 1737] وضاحت:
(تشریح احادیث 1796 سے 1800) ابتدائے اسلام میں عاشوراء کے روزے کا حکم ہوا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ بطورِ فریضہ چھوڑ دیا گیا اور اختیار دیا گیا کہ جو چاہے رکھے اور جو چاہے یہ روزہ نہ رکھے کما في البخاری، یہ روایت آگے آ رہی ہے لیکن اس روزے کی بھی بڑی فضیلت ہے کما مر۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ولكنه متابع عليه والحديث متفق عليه
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کے دن روزہ رکھا کرتے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا یہاں تک کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ فریضہ ہو گئے اور عاشورا کو ترک کر دیا، جس نے چاہا روزہ رکھا اور جس نے چاہا چھوڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1804]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1893، 2001، 2002]، [مسلم 1125]، [أبوداؤد 2442]، [ترمذي 753]، [أبويعلی 4638]، [ابن حبان 3621]، [الحميدي 202، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح حدیث 1800) ان تمام احادیث سے عاشورا کے روزے کی فضیلت و اہمیت معلوم ہوئی اس لئے محرم کی دس تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے نیز ایک دن قبل یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھنا چاہیے۔ علمائے کرام نے اس کی تین صورتیں ذکر کی ہیں: نو دس گیارہ تین دن تک کا روزہ رکھے یا نو اور دس دو دن کا روزہ رکھے یا دس اور گیارہ کا روزہ رکھے۔ پہلی صورت سب سے افضل ہے، اور صرف دس محرم کا روزہ رکھنے کو علمائے کرام نے مکروہ کہا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں آئندہ سال بقیدِ حیات رہا تو نویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا۔ ایک اور حدیث ہے کہ یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو اور نو اور دس کا روزہ رکھو، اس روزے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ اس سے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، الله تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|