الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ
سلامتی اور صحت کا بیان
The Book of Greetings
14. باب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ:
باب: اگر اجنبی عورت راہ میں تھک گئی ہو تو اس کو اپنے ساتھ سوار کر لینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 5692
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن العلاء ابو كريب الهمداني ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، اخبرني ابي ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: تزوجني الزبير وما له في الارض من مال ولا مملوك ولا شيء غير فرسه، قالت: فكنت اعلف فرسه واكفيه مئونته واسوسه وادق النوى لناضحه، واعلفه واستقي الماء واخرز غربه واعجن، ولم اكن احسن اخبز، وكان يخبز لي جارات من الانصار وكن نسوة صدق، قالت: وكنت انقل النوى من ارض الزبير التي اقطعه رسول الله صلى الله عليه وسلم على راسي وهي على ثلثي فرسخ، قالت: فجئت يوما والنوى على راسي، فلقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه نفر من اصحابه، فدعاني، ثم قال: إخ إخ ليحملني خلفه، قالت: فاستحييت وعرفت غيرتك، فقال: " والله لحملك النوى على راسك اشد من ركوبك معه "، قالت: حتى ارسل إلي ابو بكر بعد ذلك بخادم، فكفتني سياسة الفرس فكانما اعتقتني.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ فَرَسِهِ، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَكْفِيهِ مَئُونَتَهُ وَأَسُوسُهُ وَأَدُقُّ النَّوَى لِنَاضِحِهِ، وَأَعْلِفُهُ وَأَسْتَقِي الْمَاءَ وَأَخْرُزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ، وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، وَكَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ، قَالَتْ: وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي وَهِيَ عَلَى ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ، قَالَتْ: فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي، فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَدَعَانِي، ثُمَّ قَالَ: إِخْ إِخْ لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ، قَالَتْ: فَاسْتَحْيَيْتُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ، فَقَالَ: " وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى عَلَى رَأْسِكِ أَشَدُّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ "، قَالَتْ: حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ، فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَتْنِي.
‏‏‏‏ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے نکاح کیا (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے) اور ان کے پاس کچھ مال نہ تھا، نہ کوئی غلام تھا، نہ اور کچھ، صرف ایک گھوڑا تھا، میں ہی ان کے گھوڑے چراتی اور سارا کام گھوڑے کا سائیسی بھی کرتی، اور گٹھلیاں بھی کوٹتی! ان کے اونٹ کے لیے اور چراتی بھی اس کو، اور پانی بھی پلاتی، اور ڈول بھی سی دیتی اور آٹا بھی گوندھتی، لیکن روٹی میں اچھی طرح نہ پکا سکتی تو ہمسایہ کی انصاری عورتیں میری روٹیاں پکا دیتیں اور وہ بڑی محبت کی باتیں کرتیں تھیں۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: میں زبیر کی اس زمین سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مقطعہ کے طور پر دی تھی گٹھلیاں لایا کرتی تھی۔ اپنے سر پر اور وہ مقطعہ مدینہ سے دو میل دور تھا۔ (ایک میل چھ ہزار ہاتھ کا ہوتا ہے اور ہاتھ چوبیس انگل کا اور انگل چھ جو کا اور فرسخ تین میل کا)، ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا پھر اونٹ کے بٹھانے کی بولی بولی اخ اخ تاکہ اپنے پیچھے مجھ کو سوار کر لیں مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے (یعنی ایسے بوجھ کو تو گوارا کرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی) اسماء نے کہا: پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی مجھے بھیجی وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔
حدیث نمبر: 5693
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبيد الغبري ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن ابن ابي مليكة ، ان اسماء ، قالت: " كنت اخدم الزبير خدمة البيت، وكان له فرس وكنت اسوسه، فلم يكن من الخدمة شيء اشد علي من سياسة الفرس كنت احتش له واقوم عليه واسوسه، قال: ثم إنها اصابت خادما جاء النبي صلى الله عليه وسلم سبي فاعطاها خادما، قالت: كفتني سياسة الفرس، فالقت عني مئونته فجاءني رجل، فقال يا ام عبد الله: إني رجل فقير اردت ان ابيع في ظل دارك، قالت: إني إن رخصت لك، ابى ذاك الزبير فتعال فاطلب إلي والزبير شاهد، فجاء، فقال يا ام عبد الله: إني رجل فقير اردت ان ابيع في ظل دارك، قالت: ما لك بالمدينة إلا داري؟ فقال لها الزبير: ما لك ان تمنعي رجلا فقيرا يبيع، فكان يبيع إلى ان كسب، فبعته الجارية فدخل علي الزبير وثمنها في حجري، فقال: هبيها لي، قالت: إني قد تصدقت بها ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَخْدُمُ الزُّبَيْرَ خِدْمَةَ الْبَيْتِ، وَكَانَ لَهُ فَرَسٌ وَكُنْتُ أَسُوسُهُ، فَلَمْ يَكُنْ مِنَ الْخِدْمَةِ شَيْءٌ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ سِيَاسَةِ الْفَرَسِ كُنْتُ أَحْتَشُّ لَهُ وَأَقُومُ عَلَيْهِ وَأَسُوسُهُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهَا أَصَابَتْ خَادِمًا جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ فَأَعْطَاهَا خَادِمًا، قَالَتْ: كَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ، فَأَلْقَتْ عَنِّي مَئُونَتَهُ فَجَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ: إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِكِ، قَالَتْ: إِنِّي إِنْ رَخَّصْتُ لَكَ، أَبَى ذَاكَ الزُّبَيْرُ فَتَعَالَ فَاطْلُبْ إِلَيَّ وَالزُّبَيْرُ شَاهِدٌ، فَجَاءَ، فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ: إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِكِ، قَالَتْ: مَا لَكَ بِالْمَدِينَةِ إِلَّا دَارِي؟ فَقَالَ لَهَا الزُّبَيْرُ: مَا لَكِ أَنْ تَمْنَعِي رَجُلًا فَقِيرًا يَبِيعُ، فَكَانَ يَبِيعُ إِلَى أَنْ كَسَبَ، فَبِعْتُهُ الْجَارِيَةَ فَدَخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ وَثَمَنُهَا فِي حَجْرِي، فَقَالَ: هَبِيهَا لِي، قَالَتْ: إِنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهَا ".
‏‏‏‏ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے گھر کے کام کرتی، ان کا ایک گھوڑا تھا اس کی سائیسی بھی کرتی تو کوئی کام مجھ پر گھوڑے کی خدمت سے زیادہ سخت نہ تھا۔ اس کے لیے میں گھاس لاتی، اس کی خدمت کرتی سائیسی کرتی پھر مجھ کو ایک لونڈی ملی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بھی ایک لونڈی دی، وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی، اور یہ محنت میرے اوپر سے اس نے اٹھا لی، پھر میرے پاس ایک آدمی آیا، اور کہنے لگا: اے ام عبداللہ! میں ایک محتاج آدمی ہوں، میرا یہ ارادہ ہے کہ تمہاری دیوار کے سائے میں دکان لگاؤں۔ میں نے کہا: اگر میں تجھ کو اجازت دوں ایسا نہ ہو کہ زبیر خفا ہوں تو ایسا کر جب زبیر موجود ہوں ان کے سامنے مجھ سے کہو۔ وہ آیا اور کہنے لگا: اے ام عبداللہ! میں ایک محتاج آدمی ہوں، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری دیوار کے سایے میں دکان کروں۔ میں نے کہا: تجھے مدینہ میں کوئی اور گھر نہیں ملتا سوائے میرے گھر کے (یہ ایک تدبیر تھی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی زبیر کی زبان سے اجازت دلوانے کے لیے) سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اسماء! تم کو کیا ہوا ہے تم فقیر کو منع کرتی ہو بیچنے سے۔ پھر وہ دکان کرنے لگا یہاں تک کہ اس نے روپیہ کمایا۔ وہ لونڈی میں نے اس کے ہاتھ بیچ ڈالی۔ جس وقت زبیر میرے پاس آئے تو اس کی قیمت کے پیسے میری گود میں تھے۔ زبیر نے کہا: یہ پیسے مجھ کو ہبہ کر دو۔ میں نے کہا: یہ میں صدقہ دے چکی ہوں۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.