الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب 24. باب النَّهْيِ عَنْ لَعْنِ الدَّوَابِّ وَغَيْرِهَا: باب: جانوروں اور ان کے علاوہ کو لعنت نہ کرنے کابیان۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے اور ایک انصاری عورت ایک اونٹنی پر سوار تھی وہ تڑپی عورت نے اس پر لعنت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا اور فرمایا: ”اس اونٹنی پر جو کچھ ہے وہ اتار لو اور اس کو چھوڑ دو کیونکہ وہ ملعون ہے۔“ عمران نے کہا: میں اس اونٹنی کو گو اس وقت دیکھ رہا ہوں وہ پھرتی تھی لوگوں میں کوئی اس سے تعرض نہ کرتا۔
ترجمہ وہی ہے جو گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ عمران نے کہا: میں اس اونٹنی کو دیکھ رہا ہوں وہ خاکی رنگ کی اونٹنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ اس پر ہے اتار لو اور اس کو ننگا کر دو کیونکہ وہ ملعون ہے۔“
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار ایک لڑکی اونٹنی پر سوار تھی اس پر لوگوں کا اسباب بھی تھا یکایک اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور راستہ میں پہاڑ کی راہ تنگ تھی، وہ لڑکی بولی:: حل (یہ آواز ہے اونٹ کے ہانکنے کی) یا اللہ! لعنت کر اس پر۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے ساتھ وہ اونٹنی نہ رہے جس پر لعنت ہے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا، اس میں یہ ہے کہ ”اللہ کی قسم! ہمارے ساتھ وہ اونٹنی نہ رہے جس پر اللہ کی طرف سے لعنت ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدیق کو لعنت کر نے والا نہ ہونا چاہیے۔“
علاء بن عبدالرحمٰن سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
زید بن اسلم سے روایت ہے، عبدالملک بن مروان نے ام درداء کے پاس گھر کی آرائش کا سامان اپنے پاس سے بھیجا۔ ایک رات کو عبدالملک اٹھا اور اس نے اپنے خادم کو بلایا، خادم نے آ نے میں دیر کی، عبدالملک نے اس پر لعنت کی، جب صبح ہوئی تو ام درداء نے عبدالملک سے کہا کہ میں نے سنا رات کو تو نے اپنے خادم پر بلاتے وقت لعنت کی اور میں نے سنا ابوالدرداء سے، وہ کہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگ لعنت کر تے ہیں وہ قیامت کے دن کسی کی شفاعت نہ کر یں گے نہ گواہ ہوں گے۔“
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا:: یا رسول اللہ! بددعا کیجئیےمشرکو ں پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ لعنت کروں لوگوں پر بلکہ میں بھیجا گیا رحمت کا سبب بن کر۔“ (تو میرے آنے سے اللہ کی رحمت لوگوں کو زیادہ ہو گی نہ کہ لعنت۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ «وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِینَ» (۲۱-الأنبیاء: ١٠٧))
|