الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
44. بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ:
باب: اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا۔
(44) Chapter. The giving of Zakat to relatives.
حدیث نمبر: Q1461
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: له اجران اجر القرابة والصدقة.وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَهُ أَجْرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَالصَّدَقَةِ.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی تھی) اس کو دو گنا ثواب ملے گا ‘ ناطہٰ جوڑنے اور صدقے کا۔
حدیث نمبر: 1461
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك رضي الله عنه , يقول: كان ابو طلحة اكثر الانصار بالمدينة مالا من نخل، وكان احب امواله إليه بيرحاء، وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب، قال انس: فلما انزلت هذه الآية لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، قام ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن الله تبارك وتعالى يقول: لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92وإن احب اموالي إلي بيرحاء، وإنها صدقة لله ارجو برها، وذخرها عند الله فضعها يا رسول الله حيث اراك الله , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بخ ذلك مال رابح ذلك مال رابح، وقد سمعت ما قلت: وإني ارى ان تجعلها في الاقربين، فقال ابو طلحة: افعل يا رسول الله، فقسمها ابو طلحة في اقاربه وبني عمه"، تابعه روح، وقال يحيى بن يحيى , وإسماعيل، عن مالك رايح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا، وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ: وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ"، تَابَعَهُ رَوْحٌ، وَقَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى , وَإِسْمَاعِيلُ، عَنْ مَالِكٍ رَايِحٌ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے۔ اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاء کا باغ تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» یعنی تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ اور مجھے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے حکم سے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ خوب! یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے۔ یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے۔ اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی۔ اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متابعت روح نے کی ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ اور اسماعیل نے مالک کے واسطہ سے ( «رابح» کے بجائے) «رائح» نقل کیا ہے۔

Narrated 'Is-haq bin `Abdullah bin Al Talha: I heard Anas bin Malik saying, "Abu Talha had more property of date-palm trees gardens than any other amongst the Ansar in Medina and the most beloved of them to him was Bairuha garden, and it was in front of the Mosque of the Prophet . Allah's Apostle used to go there and used to drink its nice water." Anas added, "When these verses were revealed:--'By no means shall you Attain righteousness unless You spend (in charity) of that Which you love. ' (3.92) Abu Talha said to Allah's Apostle 'O Allah's Apostle! Allah, the Blessed, the Superior says: By no means shall you attain righteousness, unless you spend (in charity) of that which you love. And no doubt, Bairuha' garden is the most beloved of all my property to me. So I want to give it in charity in Allah's Cause. I expect its reward from Allah. O Allah's Apostle! Spend it where Allah makes you think it feasible.' On that Allah's Apostle said, 'Bravo! It is useful property. I have heard what you have said (O Abu Talha), and I think it would be proper if you gave it to your Kith and kin.' Abu Talha said, I will do so, O Allah's Apostle.' Then Abu Talha distributed that garden amongst his relatives and his cousins."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 540

حدیث نمبر: 1462
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابن ابي مريم، اخبرنا محمد بن جعفر , قال: اخبرني زيد هو ابن اسلم، عن عياض بن عبد الله، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه،" خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في اضحى او فطر إلى المصلى، ثم انصرف فوعظ الناس وامرهم بالصدقة , فقال: ايها الناس تصدقوا، فمر على النساء , فقال: يا معشر النساء تصدقن فإني رايتكن اكثر اهل النار، فقلن: وبم ذلك يا رسول الله، قال: تكثرن اللعن وتكفرن العشير، ما رايت من ناقصات عقل ودين اذهب للب الرجل الحازم من إحداكن يا معشر النساء، ثم انصرف فلما صار إلى منزله جاءت زينب امراة ابن مسعود تستاذن عليه، فقيل يا رسول الله: هذه زينب، فقال: اي الزيانب، فقيل: امراة ابن مسعود، قال: نعم ائذنوا لها، فاذن لها، قالت: يا نبي الله إنك امرت اليوم بالصدقة وكان عندي حلي لي فاردت ان اتصدق به، فزعم ابن مسعود انه وولده احق من تصدقت به عليهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق ابن مسعود زوجك وولدك احق من تصدقت به عليهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَوَعَظَ النَّاسَ وَأَمَرَهُمْ بِالصَّدَقَةِ , فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ تَصَدَّقُوا، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ , فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ، فَقُلْنَ: وَبِمَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمَّا صَارَ إِلَى مَنْزِلِهِ جَاءَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَذِهِ زَيْنَبُ، فَقَالَ: أَيُّ الزَّيَانِبِ، فَقِيلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَعَمْ ائْذَنُوا لَهَا، فَأُذِنَ لَهَا، قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّكَ أَمَرْتَ الْيَوْمَ بِالصَّدَقَةِ وَكَانَ عِنْدِي حُلِيٌّ لِي فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهُ وَوَلَدَهُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ زَوْجُكِ وَوَلَدُكِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِهِ عَلَيْهِمْ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی ‘ انہیں عیاض بن عبداللہ نے ‘ اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا: لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب (کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں) کہا گیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چنانچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن (میرے خاوند) ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان (مسکینوں) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طور پر دو گی۔ (معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں)۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: On `Id ul Fitr or `Id ul Adha Allah's Apostle (p.b.u.h) went out to the Musalla. After finishing the prayer, he delivered the sermon and ordered the people to give alms. He said, "O people! Give alms." Then he went towards the women and said. "O women! Give alms, for I have seen that the majority of the dwellers of Hell-Fire were you (women)." The women asked, "O Allah's Apostle! What is the reason for it?" He replied, "O women! You curse frequently, and are ungrateful to your husbands. I have not seen anyone more deficient in intelligence and religion than you. O women, some of you can lead a cautious wise man astray." Then he left. And when he reached his house, Zainab, the wife of Ibn Mas`ud, came and asked permission to enter It was said, "O Allah's Apostle! It is Zainab." He asked, 'Which Zainab?" The reply was that she was the wife of Ibn Mas'ub. He said, "Yes, allow her to enter." And she was admitted. Then she said, "O Prophet of Allah! Today you ordered people to give alms and I had an ornament and intended to give it as alms, but Ibn Mas`ud said that he and his children deserved it more than anybody else." The Prophet replied, "Ibn Mas`ud had spoken the truth. Your husband and your children had more right to it than anybody else."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 541


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.