الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
حدیث نمبر: 4619
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا زهير بن حرب ، حدثنا عمر بن يونس الحنفي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني إياس بن سلمة ، حدثني ابي ، قال: " غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا، فلما واجهنا العدو تقدمت فاعلو ثنية، فاستقبلني رجل من العدو فارميه بسهم فتوارى عني، فما دريت ما صنع ونظرت إلى القوم فإذا هم قد طلعوا من ثنية اخرى، فالتقوا هم وصحابة النبي صلى الله عليه وسلم، فولى صحابة النبي صلى الله عليه وسلم، وارجع منهزما وعلي بردتان متزرا بإحداهما مرتديا بالاخرى، فاستطلق إزاري فجمعتهما جميعا، ومررت على رسول الله صلى الله عليه وسلم منهزما وهو على بغلته الشهباء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد راى ابن الاكوع فزعا، فلما غشوا رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل عن البغلة ثم قبض قبضة من تراب من الارض ثم استقبل به وجوههم، فقال: شاهت الوجوه فما خلق الله منهم إنسانا إلا ملا عينيه ترابا بتلك القبضة، فولوا مدبرين فهزمهم الله عز وجل، وقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائمهم بين المسلمين ".وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَلَمَّا وَاجَهْنَا الْعَدُوَّ تَقَدَّمْتُ فَأَعْلُو ثَنِيَّةً، فَاسْتَقْبَلَنِي رَجُلٌ مِنَ الْعَدُوِّ فَأَرْمِيهِ بِسَهْمٍ فَتَوَارَى عَنِّي، فَمَا دَرَيْتُ مَا صَنَعَ وَنَظَرْتُ إِلَى الْقَوْمِ فَإِذَا هُمْ قَدْ طَلَعُوا مِنْ ثَنِيَّةٍ أُخْرَى، فَالْتَقَوْا هُمْ وَصَحَابَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَلَّى صَحَابَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْجِعُ مُنْهَزِمًا وَعَلَيَّ بُرْدَتَانِ مُتَّزِرًا بِإِحْدَاهُمَا مُرْتَدِيًا بِالْأُخْرَى، فَاسْتَطْلَقَ إِزَارِي فَجَمَعْتُهُمَا جَمِيعًا، وَمَرَرْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْهَزِمًا وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ الشَّهْبَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَى ابْنُ الْأَكْوَعِ فَزَعًا، فَلَمَّا غَشُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عَنِ الْبَغْلَةِ ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوهَهُمْ، فَقَالَ: شَاهَتِ الْوُجُوهُ فَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَيْنَيْهِ تُرَابًا بِتِلْكَ الْقَبْضَةِ، فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ ".
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حنین کی جنگ لڑی، جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو میں آگے بڑھا پھر میں ایک گھاٹی پر چڑھ جاتا ہوں، میرے سامنے دشمن کا آدمی آیا تو میں اس پر تیر پھینکتا ہوں، وہ مجھ سے چھپ گیا، اس کے بعد مجھے معلوم نہیں اس نے کیا کیا۔ میں نے (اُن) لوگوں کا جائزہ لیا تو دیکھا وہ ایک دوسری گھاٹی کی طرف ظاہر ہوئے، ان کا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا ٹکراؤ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی پیچھے ہٹ گئے اور میں بھی شکست خودرہ لوٹتا ہوں۔ مجھ (میرے جسم) پر دو چادریں تھیں، ان میں سے ایک کا میں نے تہبند باندھا ہوا تھا اور دوسری کو اوڑھ رکھا تھا تو میرا تہبند کھل گیا، میں نے ان دونوں کو اکٹھا کیا اور شکست خوردگی کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، آپ اپنے سفید خچر پر تھے۔ (مجھے دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اکوع کا بیٹا گھبرا کو لوٹ آیا ہے۔" جب وہ ہر طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوئے تو آپ خچر سے نیچے اترے، زمین سے مٹی کی ایک مٹھی لی، پھر اسے سامنے کی طرف سے ان کے شہروں پر پھینکا اور فرمایا: "چہرے بگڑ گئے۔" اللہ نے ان میں سے کسی انسان کو پیدا نہیں کیا تھا مگر اس ایک مٹھی سے اس کی آنکھیں بھر دیں، سو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے، اللہ نے اسی (ایک مٹھی خاک) سے انہیں شکست دی اور (بعد ازاں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اموالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کیے
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ حنین لڑی تو جب ہم دشمن کے مقابلہ میں آئے، میں آگے بڑھ کر ایک گھاٹی پرچڑھ گیا، دشمن کا ایک آدمی میرے سامنے آیا تو میں نے اس پر تیر پھینکا اور وہ مجھ سے چھپ گیا، مجھے پتہ نہیں چلا، اس نے کیا کیا، میں نے دشمن لوگوں پر نظر دوڑائی تو وہ دوسری گھاٹی سے چڑھ چکے تھے تو ان کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں سے ٹکراؤ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی پشت دکھا گئے اور میں شکست خوردہ لوٹا، میرے اوپر دو چادریں تھیں، ایک تہبند تھی اور دوسری میں اوڑھے ہوئے تھا، میری تہبند (عجلت میں) کھل گئی تو میں نے دونوں کو اکٹھا کر لیا اور میں شکست خوردہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مٹیالے سفید رنگ کے خچر پر سوار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن اکوع گھبراہٹ سے دوچار ہوا ہے۔ جب دشمن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر آئے، پھر زمین کی مٹی سے ایک مٹھی بھری، پھر اسے دشمن کے چہروں کی طرف پھینکا اور فرمایا: چہرے بگڑ گئے (شکست سے رنگ اڑ گئے) تو ان میں سے کوئی اللہ کا پیدا کردہ انسان نہیں تھا، جس کی دونوں آنکھیں مٹی سے نہ بھر گئی ہوں، اس ایک مٹھی سے تو وہ شکست کھا کر پیٹھ پھیر گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غنیمتیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیں۔
29. باب غَزْوَةِ الطَّائِفِ:
29. باب: طائف کی لڑائی کا بیان۔
Chapter: The Battle of At-Ta'if
حدیث نمبر: 4620
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وابن نمير جميعا، عن سفيان، قال زهير حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو ، عن ابي العباس الشاعر الاعمى ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: " حاصر رسول الله صلى الله عليه وسلم اهل الطائف فلم ينل منهم شيئا، فقال: إنا قافلون إن شاء الله، قال اصحابه: نرجع ولم نفتتحه، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: اغدوا على القتال، فغدوا عليه فاصابهم جراح، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا قافلون غدا، قال: فاعجبهم ذلك فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الشَّاعِرِ الْأَعْمَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: " حَاصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الطَّائِفِ فَلَمْ يَنَلْ مِنْهُمْ شَيْئًا، فَقَالَ: إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ أَصْحَابُهُ: نَرْجِعُ وَلَمْ نَفْتَتِحْهُ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ، فَغَدَوْا عَلَيْهِ فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا، قَالَ: فَأَعْجَبَهُمْ ذَلِكَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کیا اور ان میں سے کسی کی جان نہ لے سکے تو آپ نےفرمایا: "ان شاءاللہ ہم کل لوٹ جائیں گے۔" آپ کے صحابہ نے کہا: ہم لوٹ جائیں جبکہ ہم نے اسے فتح نہیں کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "صبح جنگ کے لیے نکلو۔" وہ صبح نکلے تو انہیں زخم لگے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "ہم کل واپس لوٹ جائیں گے۔" کہا: تو انہیں یہ بات اچھی لگی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والوں کا محاصرہ کر لیا اور ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ان شاءاللہ کل واپس لوٹ جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے کہا، ہم اسے فتح کیے بغیر لوٹ جائیں گے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل جنگ کے لیے نکلو۔ وہ اس کے لیے نکلے اور انہیں زخم لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کل واپس چلیں گے۔ تو اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔
30. باب غَزْوَةِ بَدْرٍ:
30. باب: بدر کی لڑائی کا بیان۔
Chapter: The Battle of Badr
حدیث نمبر: 4621
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن انس " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، شاور حين بلغه إقبال ابي سفيان، قال: فتكلم ابو بكر فاعرض عنه، ثم تكلم عمر فاعرض عنه، فقام سعد بن عبادة، فقال: إيانا تريد يا رسول الله؟، والذي نفسي بيده لو امرتنا ان نخيضها البحر لاخضناها، ولو امرتنا ان نضرب اكبادها إلى برك الغماد لفعلنا، قال: فندب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس فانطلقوا حتى نزلوا بدرا، ووردت عليهم روايا قريش وفيهم غلام اسود لبني الحجاج، فاخذوه فكان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسالونه عن ابي سفيان واصحابه، فيقول: ما لي علم بابي سفيان، ولكن هذا ابو جهل، وعتبة، وشيبة، وامية بن خلف، فإذا قال ذلك: ضربوه، فقال: نعم انا اخبركم هذا ابو سفيان، فإذا تركوه فسالوه، فقال: ما لي بابي سفيان علم، ولكن هذا ابو جهل، وعتبة، وشيبة، وامية بن خلف في الناس، فإذا قال هذا ايضا: ضربوه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يصلي، فلما راى ذلك انصرف، قال: والذي نفسي بيده لتضربوه إذا صدقكم وتتركوه إذا كذبكم، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا مصرع فلان، قال: ويضع يده على الارض ههنا ههنا، قال: فما ماط احدهم عن موضع يد رسول الله صلى الله عليه وسلم ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شَاوَرَ حِينَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقَالَ: إِيَّانَا تُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا، وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا، قَالَ: فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ فَانْطَلَقُوا حَتَّى نَزَلُوا بَدْرًا، وَوَرَدَتْ عَلَيْهِمْ رَوَايَا قُرَيْشٍ وَفِيهِمْ غُلَامٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ، فَأَخَذُوهُ فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَهُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ وَأَصْحَابِهِ، فَيَقُولُ: مَا لِي عِلْمٌ بِأَبِي سُفْيَانَ، وَلَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ، فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ: ضَرَبُوهُ، فَقَالَ: نَعَمْ أَنَا أُخْبِرُكُمْ هَذَا أَبُو سُفْيَانَ، فَإِذَا تَرَكُوهُ فَسَأَلُوهُ، فَقَالَ: مَا لِي بِأَبِي سُفْيَانَ عِلْمٌ، وَلَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فِي النَّاسِ، فَإِذَا قَالَ هَذَا أَيْضًا: ضَرَبُوهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ انْصَرَفَ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَضْرِبُوهُ إِذَا صَدَقَكُمْ وَتَتْرُكُوهُ إِذَا كَذَبَكُمْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ، قَالَ: وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ هَهُنَا هَهُنَا، قَالَ: فَمَا مَاطَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبر ملی تو آپ نے مشورہ کیا، کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو آپ نے ان سے اعراض فرمایا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو آپ نے ان سے اعراض فرمایا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی تو آپ نے ان سے بھی اعراض فرمایا۔ اس پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ہم سے (مشورہ کرنا) چاہتے ہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں (اپنے گھوڑے) سمندر میں ڈال دینے کا حکم دیں تو ہم انہیں ڈال دیں گے اور اگر آپ ہم کو انہیں (معمورہ اراضی کے آخری کونے) برک غماد تک دوڑانے کا حکم دیں تو ہم یہی کریں گے۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا، اور وہ چل پڑے حتی کہ بدر میں پڑاؤ ڈالا۔ ان کے پاس قریش کے پانی لانے والے اونٹ آئے، ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا تو انہوں نے اسے پکڑ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگے تو وہ کہنے لگا: مجھے ابوسفیان کا تو پتہ نہیں ہے، البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ، اور امیہ بن خلف یہاں (قریب موجود) ہیں۔ جب اس نے یہ کہا، وہ اسے مارنے لگے۔ تو اس نے کہا: ہاں، تمہیں بتاتا ہوں، ابوسفیان ادھر ہے۔ جب انہوں نے اسے چھوڑا اور (دوبارہ) پوچھا، تو اس نے کہا: ابوسفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے، البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ، اور امیہ بن خلف یہاں لوگوں میں موجود ہیں۔ جب اس نے یہ (پہلے والی) بات کی تو وہ اسے مارنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو آپ (سلام پھیر کر) پلٹے اور فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب وہ سچ کہتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب وہ تم سے جھوٹ بولتا ہے تو اسے چھوڑ دیتے ہو۔" کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ فلاں کے مرنے کی جگہ ہے۔" آپ زمین پر اپنا ہاتھ رکھتے تھے (اور فرماتے تھے) یہاں اور یہاں۔ کہا: ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی جگہ سے (ذرہ برابر بھی) اِدھر اُدھر نہیں ہوا
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوسفیان کی آمد کی خبر ملی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ فرمایا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر توجہ نہ دی، پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بات کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی بے رخی برتی، اس پر سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، آپ ہماری رائے جاننا چاہتے ہیں؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر آپ ہمیں گھوڑے سمندر میں ڈالنے کا حکم دیں تو ہم اس میں ڈال دیں گے اور اگر آپ ان کو برک ضماد تک بھگانے کا حکم دیں تو ہم یہ کام کریں گے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا، وہ چل پڑے حتی کہ بدر میں جا پہنچے اور وہاں ان کے پاس قریش کے پانی ڈھونے والے اونٹ آئے، ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا، لوگوں نے اسے پکڑ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھنے لگے تو وہ کہنے لگا، مجھے ابوسفیان کا تو کوئی پتہ نہیں ہے، لیکن ادھر ابوجہل، عتبہ، شیبہ، امیہ بن خلف موجود ہیں، جب وہ یہ کہتا تو وہ اسے مارتے تو وہ کہتا اچھا میں تمہیں بتاتا ہوں، ادھر ابوسفیان ہے تو جب اسے چھوڑ دیتے اور پوچھتے تو وہ کہتا، مجھے ابوسفیان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے، لیکن یہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف لوگوں کے ساتھ موجود ہیں تو جب وہ یہ کہتا، تو پھر اسے مارتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی، سلام پھیر دیا اور فرمایا: اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جب وہ تمہیں سچا بتاتا ہے تو تم اسے پیٹتے ہو اور جب وہ تمہیں جھوٹ بتاتا ہے تم اسے چھوڑ دیتے ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس جگہ فلاں کافر ڈھیر ہو گا۔ اور اپنے ہاتھ زمین پر یہاں یہاں رکھ رہے تھے تو آپ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہاتھ کی جگہ سے ان میں سے کوئی دور نہیں ہوا۔
31. باب فَتْحِ مَكَّةَ:
31. باب: مکہ فتح ہونے کا بیان۔
Chapter: The conquest of Makkah
حدیث نمبر: 4622
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت البناني ، عن عبد الله بن رباح ، عن ابي هريرة ، قال: " وفدت وفود إلى معاوية وذلك في رمضان، فكان يصنع بعضنا لبعض الطعام فكان ابو هريرة مما يكثر ان يدعونا إلى رحله، فقلت: الا اصنع طعاما فادعوهم إلى رحلي، فامرت بطعام يصنع ثم لقيت ابا هريرة من العشي، فقلت: الدعوة عندي الليلة، فقال: قلت: نعم، فدعوتهم، فقال ابو هريرة: الا اعلمكم بحديث من حديثكم يا معشر الانصار ثم ذكر فتح مكة، فقال: اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قدم مكة، فبعث الزبير على إحدى المجنبتين، وبعث خالدا على المجنبة الاخرى، وبعث ابا عبيدة على الحسر، فاخذوا بطن الوادي ورسول الله صلى الله عليه وسلم في كتيبة، قال: فنظر فرآني، فقال ابو هريرة، قلت: لبيك يا رسول الله، فقال: لا ياتيني إلا انصاري " زاد غير شيبان، فقال: اهتف لي بالانصار، قال: فاطافوا به ووبشت قريش اوباشا لها واتباعا، فقالوا نقدم هؤلاء، فإن كان لهم شيء كنا معهم، وإن اصيبوا اعطينا الذي سئلنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ترون إلى اوباش قريش واتباعهم، ثم قال: بيديه إحداهما على الاخرى، ثم قال: حتى توافوني بالصفا، قال: فانطلقنا فما شاء احد منا ان يقتل احدا إلا قتله، وما احد منهم يوجه إلينا شيئا، قال: فجاء ابو سفيان، فقال: يا رسول الله، ابيحت خضراء قريش لا قريش بعد اليوم، ثم قال: من دخل دار ابي سفيان فهو آمن، فقالت الانصار بعضهم لبعض: اما الرجل فادركته رغبة في قريته ورافة بعشيرته، قال ابو هريرة: وجاء الوحي وكان إذا جاء الوحي لا يخفى علينا، فإذا جاء فليس احد يرفع طرفه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ينقضي الوحي، فلما انقضى الوحي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معشر الانصار، قالوا: لبيك يا رسول الله، قال: قلتم اما الرجل فادركته رغبة في قريته؟، قالوا: قد كان ذاك، قال: كلا إني عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله، وإليكم والمحيا محياكم والممات مماتكم، فاقبلوا إليه يبكون، ويقولون: والله ما قلنا الذي قلنا إلا الضن بالله وبرسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم "، قال: فاقبل الناس إلى دار ابي سفيان واغلق الناس ابوابهم، قال: واقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اقبل إلى الحجر فاستلمه، ثم طاف بالبيت، قال: فاتى على صنم إلى جنب البيت كانوا يعبدونه، قال: وفي يد رسول الله صلى الله عليه وسلم قوس وهو آخذ بسية القوس، فلما اتى على الصنم جعل يطعنه في عينه، ويقول: جاء الحق وزهق الباطل، فلما فرغ من طوافه اتى الصفا فعلا عليه حتى نظر إلى البيت ورفع يديه، فجعل يحمد الله ويدعو بما شاء ان يدعو "،حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ، فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي، فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنَ الْعَشِيِّ، فَقُلْتُ: الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ، فَقَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَلَا أُعْلِمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ، فَقَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ، وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْأُخْرَى، وَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَتِيبَةٍ، قَالَ: فَنَظَرَ فَرَآنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: لَا يَأْتِينِي إِلَّا أَنْصَارِيٌّ " زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ، فَقَالَ: اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَطَافُوا بِهِ وَوَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا وَأَتْبَاعًا، فَقَالُوا نُقَدِّمُ هَؤُلَاءِ، فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْءٌ كُنَّا مَعَهُمْ، وَإِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ وَأَتْبَاعِهِمْ، ثُمَّ قَالَ: بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، ثُمَّ قَالَ: حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَاءَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلَّا قَتَلَهُ، وَمَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا، قَالَ: فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَجَاءَ الْوَحْيُ وَكَانَ إِذَا جَاءَ الْوَحْيُ لَا يَخْفَى عَلَيْنَا، فَإِذَا جَاءَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ، فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ؟، قَالُوا: قَدْ كَانَ ذَاكَ، قَالَ: كَلَّا إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ، وَإِلَيْكُمْ وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ، فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ، وَيَقُولُونَ: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ "، قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ وَأَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ، قَالَ: وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ، قَالَ: فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ، قَالَ: وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْسٌ وَهُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ، وَيَقُولُ: جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا فَعَلَا عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَ "،
شیبان بن فروخ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانے نے عبداللہ بن رباح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: کئی وفود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ (عبداللہ بن رباح نے کہا:) ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو ہمیں اکثر اپنی قیام گاہ پر بلاتے تھے۔ ایک (دن) میں نے کہا: میں بھی کیوں نہ کھانا تیار کروں اور سب کو اپنی قیام گاہ پر بلاؤں۔ میں نے کھانا بنانے کا کہہ دیا، پھر شام کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا۔ (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا) میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے انصار کی جماعت! کیا میں تمہیں تمہارے متعلق احادیث میں سے ایک حدیث نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے مکہ کے فتح ہونے کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے، پھر دو میں سے ایک بازو پر زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسرے بازو پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو، ابوعبیدہ (بن جراح) رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں۔ انہوں نے گھاٹی کے درمیان والا راستہ اختیار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دستے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: "ابوہریرہ!" میں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے ساتھ انصاری کے سوا کوئی نہ آئے۔" شیبان کے علاوہ دوسرے راویوں نے اضافہ کیا: آپ نے فرمایا: "میرے لیے انصار کو آواز دو۔" انصار آپ کے اردگرد آ گئے۔ اور قریش نے بھی اپنے اوباش لوگوں اور تابعداروں کو اکٹھا کیا اور کہا: ہم ان کو آگے کرتے ہیں، اگر کوئی چیز (کامیابی) ملی تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور اگر ان پر آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا دے دیں گے۔ (دیت، جرمانہ وغیرہ۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم قریش کے اوباشوں اور تابعداروں (ہر کام میں پیروی کرنے والوں) کو دیکھ رہے ہو؟" پھر آپ نے دونوں ہاتھوں سے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر (مارتے ہوئے) اشارہ فرمایا: " (ان کا صفایا کر دو، ان کا فتنہ دبا دو)، پھر فرمایا: "یہاں تک کہ تم مجھ سے صفا پر آ ملو۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے، ہم میں سے جو کوئی (کافروں میں سے) جس کسی کو مارنا چاہتا، مار ڈالتا اور کوئی ہماری طرف کسی چیز (ہتھیار) کو آگے تک نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! قریش کی جماعت (کے خون) مباح کر دیے گئے اور آج کے بعد قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنا سابقہ بیان دہراتے ہوئے) فرمایا: "جو شخص ابوسفیان کے گھر کے اندر چلا جائے اس کو امن ہے۔" انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی الفت اور اپنے کنبے والوں پر شفقت آ گئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تھی تو ہم سے مخفی نہ رہتی۔ جب وحی آتی تو وحی (کا نزول) ختم ہونے تک کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی آنکھ نہ اٹھاتا تھا، غرض جب وحی ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے یہ کہا: اس شخص (کے دل میں) اپنے گاؤں کی الفت آ گئی ہے۔" انہوں نے کہا: یقینا ایسا تو ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بفرمایا: "ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کی اور تمہاری طرف (آیا) اب میری زندگی بھی تمہاری زندگی (کے ساتھ) ہے اور موت بھی تمہارے ساتھ ہے۔" یہ سن کر انصار روتے ہوئے آگے بڑھے، وہ کہہ رہے تھے: اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم نے کہا جو کہا محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید چاہت (اور ان کی معیت سے محرومی کے خوف) کی وجہ سے کہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔" پھر لوگ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف آ گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس تشریف لے آئے اور اس کو چوما، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، پھر آپ بیت اللہ کے پہلو میں ایک بت کے پاس آئے، لوگ اس کی پوجا کیا کرتے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک طرف سے پکڑا ہوا تھا، جب آپ بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے: "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔" جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر آئے، اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کی طرف نظر اٹھائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے اور اللہ سے جو مانگنا چاہا وہ مانگنے لگے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں بہت سے وفد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ٹھکانے پر ساتھیوں کو بکثرت بلاتے تھے، عبداللہ بن رباح کہتے ہیں، میں نے دل میں کہا، میں کھانا کیوں نہ تیار کروں اور ساتھیوں کو اپنے ٹھکانہ پر بلاؤں، تم مجھ سے سبقت لے گئے ہو، میں نے کہا، جی ہاں، میں نے ساتھیوں کو بلایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے، اے گروہ انصار، کیا میں تمہیں تمہارے کارناموں سے ایک کارنامہ نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر چھیڑ دیا اور کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے حتی کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانب کے دستہ پر زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور دوسری جانب کے دستہ پر خالد رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور پیدل دستہ پر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا، انہوں نے وادی کے اندر پناہ لی، اور ایک دستہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا، اے ابوہریرہ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس صرف انصاری آئیں، شیبان کے سوا نے یہ اضافہ کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے انصار کو آواز دو۔ تو انہوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور قریش نے بھی مختلف قبائل کے دستوں کو جمع کر لیا اور اپنے تابع لوگوں کو جمع کر لیا اور سوچا، ہم ان لوگوں کو آگے بڑھاتے ہیں، اگر ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی، ہم ان کے ساتھ ہوں گے اور اگر ان کو نقصان پہنچا تو ہم ان لوگوں (مسلمانوں) کا مطالبہ مان لیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم قریش کے مختلف قبائل کے دستوں اور ان کے پیروکاروں کو دیکھ رہے ہو۔ پھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ارشاد فرمایا، (کہ ان کو مار ڈالو) پھر فرمایا: حتی کہ تم آ کر مجھے صفا پر ملو۔ تو ہم چل پڑے اور ہم میں سے جو شخص کسی کو قتل کرنا چاہتا، اس کو قتل کر ڈالتا اور ان میں سے کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا، (اپنی مدافعت میں کوئی اسلحہ ہم پر نہیں چھوڑتا تھا) اتنے میں ابوسفیان آ گیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قریش کی جمیعت ختم کی جا رہی ہے، آج کے بعد کوئی قریشی نہیں باقی رہے گا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا، اس کو امان ہے۔ تو انصار ایک دوسرے کو کہنے لگے، ہاں اس آدمی (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اپنی بستی کی محبت اور اپنے خاندان پر شفقت غالب آ گئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تو ہم پر یہ حالت پوشیدہ نہ رہتی تو جب وحی آتی تو کوئی بھی آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتا تھا، حتی کہ وحی پوری ہو جاتی تو جب وحی کی آمدن بند ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار کے گروہ انہوں نے کہا، ہم حاضر ہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کہا ہے کہ اس آدمی پر اپنے شہر کی محبت غالب آ گئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا، ایسے ہوا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں نے اللہ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے، میری زندگی، تمہارے پاس گزرے گی اور مجھے موت تمہارے ہاں آئے گی۔ وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روتے ہوئے بڑھے اور کہہ رہے تھے، اللہ کی قسم! ہم نے جو کچھ کہا، وہ اللہ اور اس کے رسول کی حرس و رغبت کی خاطر کہا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول تمہیں سچا گردانتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ ابوسفیان کے گھر کی طرف بڑھے اور کچھ لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے حتی کہ حجر اسود کی طرف بڑھے، اسے بوسہ دیا، پھر طواف کیا، پھر ایک بت کے پاس آئے، جو بیت اللہ کے پہلو میں تھا، لوگ اس کی عبادت کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک قوس تھی اور آپ نے قوس ایک طرف پکڑی ہوئی تھی تو جب آپ بت کے پاس پہنچے تو اس کی آنکھ میں اس کو چبھونے لگے اور فرما رہے تھے، حق آ گیا، باطل مٹ گیا۔ جب آپ طواف سے فارغ ہوئےم صفا پر پہنچے اور اس کے اوپر چڑھ گئے حتی کہ بیت اللہ پر نظر ڈالی اور اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے، اللہ کی حمد بیان کرنے لگے اور جو چاہا وہ دعا مانگنے لگے۔
حدیث نمبر: 4623
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنيه عبد الله بن هاشم ، حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة بهذا الإسناد وزاد في الحديث، ثم قال: بيديه إحداهما على الاخرى احصدوهم حصدا، وقال في الحديث: قالوا: قلنا ذاك يا رسول الله، قال: فما اسمي إذا كلا إني عبد الله ورسوله.وحَدَّثَنِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، ثُمّ قَالَ: بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى احْصُدُوهُمْ حَصْدًا، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: قَالُوا: قُلْنَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَمَا اسْمِي إِذًا كَلَّا إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.
بہز نے کہا: سلیمان بن مغیرہ نے ہمیں اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، انہوں نے حدیث میں (یہ) اضافہ کیا: آپ نے دونوں ہاتھوں سے، ایک کو دوسرے کے ساتھ پھیرتے ہوئے اشارہ کیا: ان کو اسی طرح کاٹ ڈالو جس طرح فصل کاٹی جاتی ہے انہوں نے حدیث میں (یہ بھی) کہا: ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے یہ کہ تھا۔ آپ نے فرمایا: "تو پھر میرا نام کیا ہو گا؟ ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں
امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے ایک اور استاد سے، سلیمان بن مغیرہ ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ سے ایک کو دوسرے پر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ان کو تلوار سے کاٹ کر رکھ دو۔ اور اس حدیث میں یہ ہے، انصار نے کہا، ہم نے یہ کہا ہے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب میرا نام کیا ہو گا؟ ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔
حدیث نمبر: 4624
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، حدثنا يحيي بن حسان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عن عبد الله بن رباح ، قال: " وفدنا إلى معاوية بن ابي سفيان، وفينا ابو هريرة فكان كل رجل منا يصنع طعاما يوما لاصحابه، فكانت نوبتي، فقلت يا ابا هريرة: اليوم نوبتي، فجاءوا إلى المنزل ولم يدرك طعامنا، فقلت يا ابا هريرة : لو حدثتنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يدرك طعامنا، فقال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح، فجعل خالد بن الوليد على المجنبة اليمنى، وجعل الزبير على المجنبة اليسرى، وجعل ابا عبيدة على البياذقة وبطن الوادي، فقال يا ابا هريرة: ادع لي الانصار، فدعوتهم فجاءوا يهرولون، فقال يا معشر الانصار: هل ترون اوباش قريش؟، قالوا: نعم، قال: انظروا إذا لقيتموهم غدا ان تحصدوهم حصدا، واخفى بيده ووضع يمينه على شماله، وقال: موعدكم الصفا، قال: فما اشرف يومئذ لهم احد إلا اناموه، قال وصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم الصفا، وجاءت الانصار، فاطافوا بالصفا فجاء ابو سفيان، فقال: يا رسول الله، ابيدت خضراء قريش لا قريش بعد اليوم، قال ابو سفيان:، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من دخل دار ابي سفيان فهو آمن، ومن القى السلاح فهو آمن، ومن اغلق بابه فهو آمن، فقالت الانصار: اما الرجل فقد اخذته رافة بعشيرته ورغبة في قريته، ونزل الوحي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلتم اما الرجل فقد اخذته رافة بعشيرته ورغبة في قريته، الا فما اسمي إذا ثلاث مرات انا محمد عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله، وإليكم فالمحيا محياكم والممات مماتكم، قالوا: والله ما قلنا إلا ضنا بالله ورسوله، قال: فإن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم ".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، قَالَ: " وَفَدْنَا إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، وَفِينَا أَبُو هُرَيْرَةَ فَكَانَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَصْنَعُ طَعَامًا يَوْمًا لِأَصْحَابِهِ، فَكَانَتْ نَوْبَتِي، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: الْيَوْمُ نَوْبَتِي، فَجَاءُوا إِلَى الْمَنْزِلِ وَلَمْ يُدْرِكْ طَعَامُنَا، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ : لَوْ حَدَّثْتَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُدْرِكَ طَعَامُنَا، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَجَعَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُمْنَى، وَجَعَلَ الزُّبَيْرَ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْبَيَاذِقَةِ وَبَطْنِ الْوَادِي، فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: ادْعُ لِي الْأَنْصَارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فَجَاءُوا يُهَرْوِلُونَ، فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ: هَلْ تَرَوْنَ أَوْبَاشَ قُرَيْشٍ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: انْظُرُوا إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ غَدًا أَنْ تَحْصُدُوهُمْ حَصْدًا، وَأَخْفَى بِيَدِهِ وَوَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ، وَقَالَ: مَوْعِدُكُمْ الصَّفَا، قَالَ: فَمَا أَشْرَفَ يَوْمَئِذٍ لَهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَنَامُوهُ، قَالَ وَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا، وَجَاءَتْ الْأَنْصَارُ، فَأَطَافُوا بِالصَّفَا فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيدَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَنَزَلَ الْوَحْيُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، أَلَا فَمَا اسْمِي إِذًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ، وَإِلَيْكُمْ فَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا إِلَّا ضِنًّا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ ".
ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ثابت نے عبداللہ بن رباح سے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم بطور وفد حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور ہم لوگوں میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، ہم میں سے ہر آدمی ایک دن اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا بناتا، ایک دن میری باری تھی، میں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! آج میری باری ہے، وہ سب میرے ٹھکانے پر آئے اور ابھی کھانا نہیں آیا تھا۔ میں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! کاش آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنائیں یہاں تک کہ کھانا آ جائے۔ انہوں نے کہا: ہم فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دائیں بازو (میمنہ) پر (امیر) مقرر کیا اور زبیر رضی اللہ عنہ کو بائیں بازو (میسرہ) پر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیادوں پر اور وادی کے اندر (کے راستے) پر تعینات کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوہریرہ! انصار کو بلاؤ۔" میں نے ان کو بلایا، وہ دوڑتے ہوئے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انصار کے لوگو! کیا تم قریش کے اوباشوں کو دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیکھو! کل جب تمہارا ان سے سامنا ہو تو ان کو اس طرح کاٹ دینا جس طرح فصل کاٹی جاتی ہے" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ رکھتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا اور داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا۔ اور فرمایا: "اب تم سے ملاقات کا وعدہ کوہِ صفا پر ہے۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو اس روز جس کسی نے سر اٹھایا، انہوں نے اس کو سلا دیا، (یعنی مار ڈالا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھے، انسار آئے، انہوں نے صفا کو گھیر لیا، اتنے میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! قریش کی جمعیت مٹا دی گئی، آج سے قریش نہ رہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں چلا گیا اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو بھی امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کے لے اس کو بھی امن ہے۔" انصار نے کہا: آپ پر اپنے عزیزوں کی محبت اور اپنے شہر کی الفت غالب آ گئی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگوں نے کہا: مجھ پر کنبے والوں کی محبت اور اپنے شہر کی الفت غالب آ گئی ہے، دیکھو! پھر (اس صورت میں) میرا نام کیا ہو گا؟" آپ نے تین بار فرمایا:۔۔" میں محمد اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ کے لیے تمہاری طرف ہجرت کی، تو اب زندگی تمہاری زندگی (کے ساتھ) ہے اور موت تمہاری موت (کے ساتھ) ہے۔" انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید چاہت (اور آپ کی معیت سے محرومی کے خوف) کے علاوہ کسی وجہ سے نہیں کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو اللہ اور اس کا رسول دونوں تم کو سچا جانتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں
عبداللہ بن رباح بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہمارے ہمراہ تھے، اور ہم میں سے ہر ایک ایک دن اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا تیار کرتا تھا، جب میری باری آئی تو میں نے کہا، اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ! آج میری باری ہے تو سارے ساتھی میرے ٹھکانہ پر آ گئے، ابھی ہمارا کھانا پکا نہیں تھا تو میں نے کہا، اے ابوہریرہ! کاش ہمارا کھانا پکنے تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باتیں سنائیں تو انہوں نے کہا، ہم فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں پہلو پر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور بائیں پہلو پر زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر فرمایا اور پیدل دستہ اور بطن وادی پر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو متعین کیا اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا: اے ابوہریرہ میرے پاس انصار کو بلاؤ۔ تو میں نے ان کو آواز دی اور وہ دوڑتے ہوئے آئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! کیا تم قریش کے اوباش (کمینوں، ذلیلوں) کو دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا، جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھ لو، کل جب تمہارا ان سے مقابلہ ہو تو ان کو کھیتی کی طرح کاٹ کر رکھ دینا۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کرتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا: (خالد اور ان کے ساتھیوں کو) تمہارے ساتھ ملاقات کا وعدہ کوہ صفا پر ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، اسی دن جو بھی ان کے سامنے آیا، اسے انہوں نے سلا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھ گئے اور انصار نے آ کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ آ کر کہنے لگا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! قریش کی جماعت تباہ و برباد کر دی گئی، آج کے بعد کوئی قریشی نہیں بچے گا، ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو گا، اسے امان ہو گا اور جو ہتھیار ڈال دے گا، وہ بھی محفوظ ہو گا اور جو اپنا دروازہ بند کر لے گا، اسے بھی امن حاصل ہے۔ اس پر انصار نے کہا، ہاں اس آدمی پر اپنے قبیلہ کی شفقت غالب آ گئی ہے اور اپنی بستی (وطن) کی محبت غالب آ گئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کہا ہے، ہاں اس آدمی پر اپنے خاندان سے پیار اور اپنی بستی کا شوق غالب آ گیا ہے، خبردار! تب میرا نام کیا ہو گا (تین دفعہ فرمایا) میں محمد، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں نے اللہ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے، زندگی اور موت تمہارے ہاں ہی ہو گی، یعنی میری زندگی تمہاری زندگی اور میری موت تمہاری موت ہے۔" انصار نے کہا، اللہ کی قسم! ہم نے محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص و رغبت کی بنا پر کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں، (معذور سمجھتے ہیں)
32. باب إِزَالَةِ الأَصْنَامِ مِنْ حَوْلِ الْكَعْبَةِ:
32. باب: مکہ کے اردگرد کو بتوں سے پاک کرنے کا بیان۔
Chapter: Removal of Idols from around the Ka'bah
حدیث نمبر: 4625
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعمرو الناقد ، وابن ابي عمر واللفظ لابن ابي شيبة، قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابن ابي نجيح ، عن مجاهد ، عن ابي معمر ، عن عبد الله ، قال: " دخل النبي صلى الله عليه وسلم مكة وحول الكعبة ثلاث مائة وستون نصبا، فجعل يطعنها بعود كان بيده، ويقول: جاء الحق وزهق الباطل، إن الباطل كان زهوقا جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد "، زاد ابن ابي عمر يوم الفتح،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا، فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ كَانَ بِيَدِهِ، وَيَقُولُ: جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ، إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ "، زَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ يَوْمَ الْفَتْحِ،
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد اور ابن ابی عمر نے۔۔ الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں۔۔ کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابن ابی نجیح سے حدیث بیان کی، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابومعمر سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کو اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لکڑی سے کچوکا دے کر گرانے لگے اور یہ فرمانے لگے: "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بلاشبہ باطل مٹنے والا ہے۔ حق آ گیا اور باطل نہ آغاز کرتا ہے اور نہ لوٹاتا ہے" (بلکہ دونوں اللہ عزوجل جلالہ کے کام ہیں۔) ابن ابی عمر نے اضافہ کیا: فتح مکہ کے دن
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی چھڑی سے انہیں کچوکا لگانے لگے اور فرمانے لگے: حق آ گیا باطل مٹ گیا، باطل مٹنے ہی والا ہے،
حدیث نمبر: 4626
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه حسن بن علي الحلواني ، وعبد بن حميد كلاهما، عن عبد الرزاق ، اخبرنا الثوري ، عن ابن ابي نجيح بهذا الإسناد إلى قوله: زهوقا، ولم يذكر الآية الاخرى، وقال: بدل نصبا صنما.وحَدَّثَنَاه حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَى قَوْلِهِ: زَهُوقًا، وَلَمْ يَذْكُرِ الْآيَةَ الْأُخْرَى، وَقَالَ: بَدَلَ نُصُبًا صَنَمًا.
ثوری نے ابن ابی نجیح سے اسی سند کے ساتھ زہوقا (پہلی آیت کے آخر) تک روایت کی، دوسری آیت بیان نہیں کی اور۔۔ نصبا کے بجائے، صنما کہا: (دونوں کے معنی بت کے ہیں
امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے دو اساتذہ سے، ابو نجیح ہی کی سند سے، سورہ اسراء کی آیت تک بیان کرتے ہیں اور سورہ سباء کی آیت بیان نہیں کرتے اور نُصُبا
33. باب لاَ يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ الْفَتْحِ:
33. باب: فتح (مکہ) کے بعد (قیامت تک) کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہ کیے جانے کا بیان۔
Chapter: No man if Quraish is to be captured then killed, after the conquest
حدیث نمبر: 4627
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا علي بن مسهر ، ووكيع ، عن زكرياء ، عن الشعبي ، قال: اخبرني عبد الله بن مطيع ، عن ابيه ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول يوم فتح مكة: " لا يقتل قرشي صبرا بعد هذا اليوم إلى يوم القيامة "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، وَوَكِيعٌ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: " لَا يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ هَذَا الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "،
علی بن مسہر اور وکیع نے زکریا سے، انہوں نے شعبی سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے عبداللہ بن مطیع نے اپنے باپ (مطیع بن اسود رضی اللہ عنہ) سے خبر دی، انہوں نے کہا: جس دن مکہ فتح ہوا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: "آج کے بعد قیامت تک کوئی قریشی باندھ کر قتل نہ کیا جائے
عبداللہ بن مطیع اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: آج کے بعد قیامت تک کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا۔
حدیث نمبر: 4628
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا زكرياء بهذا الإسناد وزاد، قال: ولم يكن اسلم احد من عصاة قريش غير مطيع كان اسمه العاصي، فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم مطيعا.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ، قَالَ: وَلَمْ يَكُنْ أَسْلَمَ أَحَدٌ مِنْ عُصَاةِ قُرَيْشٍ غَيْرَ مُطِيعٍ كَانَ اسْمُهُ الْعَاصِي، فَسَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُطِيعًا.
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں زکریا نے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث سنائی اور یہ اضافہ کیا، کہا: اس دن قریش کے عاص (نافرمان) نام کے لوگوں میں سے، مطیع کے سوا، کوئی مسلمان نہیں ہوا۔ اس کا نام (تخفیف کے ساتھ عاص اور تخفیف کے بغیر) عاصی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام (بدل کر) مطیع رکھ دیا
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے زکریا کی مذکورہ بالا سند ہی سے یہ روایت بیان کرتے ہیں، جس میں یہ اضافہ ہے، قریش کے عاصی نامی لوگوں میں سے، مطیع کے سوا کوئی مسلمان نہ تھا، اس کا نام بھی العاصی تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام مطیع رکھا۔

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.