الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 100
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، قال: اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال: اخبرني السائب بن يزيد ابن اخت نمر، ان حويطب بن عبد العزى اخبره، ان عبد الله بن السعدي اخبره: انه قدم على عمر بن الخطاب في خلافته، فقال له عمر: الم احدث انك تلي من اعمال الناس اعمالا، فإذا اعطيت العمالة، كرهتها؟ قال: فقلت: بلى، فقال عمر: فما تريد إلى ذلك؟ قال: قلت: إن لي افراسا واعبدا، وانا بخير، واريد ان تكون عمالتي صدقة على المسلمين، فقال عمر : فلا تفعل، فإني قد كنت اردت الذي اردت، فكان النبي صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء، فاقول: اعطه افقر إليه مني، حتى اعطاني مرة مالا، فقلت: اعطه افقر إليه مني، قال: فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" خذه فتموله، وتصدق به، فما جاءك من هذا المال، وانت غير مشرف، ولا سائل، فخذه، وما لا، فلا تتبعه نفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي خِلَافَتِهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ، كَرِهْتَهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ عُمَرُ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا، وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عَمَالَتِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ : فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي قَدْ كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، قَالَ: فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ، وَلَا سَائِلٍ، فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
ایک مرتبہ عبداللہ بن سعدی رحمہ اللہ خلافت فاروقی کے زمانے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا: میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہو جائے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا: میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کر دو اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7163، م: 1045
حدیث نمبر: 101
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سكن بن نافع الباهلي ، قال: حدثنا صالح ، عن الزهري ، قال: حدثني ربيعة بن دراج : ان علي بن ابي طالب سبح بعد العصر ركعتين في طريق مكة، فرآه عمر ، فتغيظ عليه، ثم قال: اما والله لقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَكَنُ بْنُ نَافِعٍ الْبَاهِلِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ دَرَّاجٍ : أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ سَبَّحَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، فَرَآهُ عُمَرُ ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا".
ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعلل
حدیث نمبر: 102
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يزيد ، حدثنا محمد بن إسحاق ، قال: حدثنا العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب ، عن رجل من قريش من بني سهم، عن رجل منهم يقال له: ماجدة ، قال: عارمت غلاما بمكة، فعض اذني، فقطع منها، او: عضضت اذنه، فقطعت منها، فلما قدم علينا ابو بكر حاجا، رفعنا إليه، فقال: انطلقوا بهما إلى عمر بن الخطاب، فإن كان الجارح بلغ ان يقتص منه فليقتص، قال: فلما انتهي بنا إلى عمر ، نظر إلينا، فقال: نعم، قد بلغ هذا ان يقتص منه، ادعوا لي حجاما، فلما ذكر الحجام، قال: اما إني قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" قد اعطيت خالتي غلاما، وانا ارجو ان يبارك الله لها فيه، وقد نهيتها ان تجعله حجاما او قصابا او صائغا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي سَهْمٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: مَاجِدَةُ ، قَالَ: عَارَمْتُ غُلَامًا بِمَكَّةَ، فَعَضَّ أُذُنِي، فَقَطَعَ مِنْهَا، أَوْ: عَضِضْتُ أُذُنَهُ، فَقَطَعْتُ مِنْهَا، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ حَاجًّا، رُفِعْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: انْطَلِقُوا بِهِمَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَإِنْ كَانَ الْجَارِحُ بَلَغَ أَنْ يُقْتَصَّ مِنْهُ فَلْيَقْتَصَّ، قَالَ: فَلَمَّا انْتُهِيَ بِنَا إِلَى عُمَرَ ، نَظَرَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ بَلَغَ هَذَا أَنْ يُقْتَصَّ مِنْهُ، ادْعُوا لِي حَجَّامًا، فَلَمَّا ذَكَرَ الْحَجَّامَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" قَدْ أَعْطَيْتُ خَالَتِي غُلَامًا، وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَارِكَ اللَّهُ لَهَا فِيهِ، وَقَدْ نَهَيْتُهَا أَنْ تَجْعَلَهُ حَجَّامًا أَوْ قَصَّابًا أَوْ صَائِغًا".
ماجدہ نامی ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں ایک لڑکے کی ہڈی سے گوشت چھیل ڈالا، اس نے میرا کان اپنے دانتوں میں چبا کر کاٹ ڈالا، جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے ہمارے یہاں تشریف لائے تو یہ معاملہ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ ان دونوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ، اگر زخم لگانے والا قصاص کے درجے تک پہنچتا ہو تو اس سے قصاص لینا چاہیے۔ جب ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے جایا گیا اور انہوں نے ہمارے احوال سنے تو فرمایا: ہاں! یہ قصاص کے درجے تک پہنچتا ہے اور فرمایا کہ میرے پاس حجام کو بلا کر لاؤ، جب حجام کا ذکر آیا تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی خالہ کو ایک غلام دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ان کے لئے باعث برکت بنائے گا اور میں نے انہیں اس بات سے منع کیا ہے کہ اسے حجام یا قصائی یا رنگ ریز بنائیں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل من بني سهم، وجهالة ماجدة
حدیث نمبر: 103
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وحدثني العلاء بن عبد الرحمن ، عن رجل من بني سهم، عن ابن ماجدة السهمي ، انه قال: حج علينا ابو بكر في خلافته... فذكر الحديث.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سَهْمٍ، عَنِ ابْنِ مَاجِدَةَ السَّهْمِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: حَجَّ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ فِي خِلَافَتِهِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
گزشتہ روایت اس دوسری سند سے بھی منقول ہے جو عبارت میں ذکر ہوئی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه
حدیث نمبر: 104
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا عبيدة بن حميد ، عن داود بن ابي هند ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: خطب عمر الناس، فقال:" إن الله عز وجل رخص لنبيه صلى الله عليه وسلم ما شاء، وإن نبي الله صلى الله عليه وسلم قد مضى لسبيله، فاتموا الحج والعمرة كما امركم الله عز وجل، وحصنوا فروج هذه النساء".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ رَخَّصَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَحَصِّنُوا فُرُوجَ هَذِهِ النِّسَاءِ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جو رخصت دینی تھی سو دے دی اور وہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے، اس لئے آپ لوگ حج اور عمرہ مکمل کیا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم بھی دیا ہے اور ان عورتوں کی شرمگاہوں کی حفاطت کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1217
حدیث نمبر: 105
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة بن حميد ، حدثني عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر بن الخطاب ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: ايرقد الرجل إذا اجنب؟ قال:" نعم، إذا توضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَرْقُدُ الرَّجُلُ إِذَا أَجْنَبَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، إِذَا تَوَضَّأَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہو جائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! وضو کر لے اور سو جائے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 106
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا الحسن بن يحيى ، قال: اخبرنا ابن المبارك ، قال: حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن ربيعة بن دراج :" ان عليا صلى بعد العصر ركعتين، فتغيظ عليه عمر ، وقال: اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهانا عنها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ دَرَّاجٍ :" أَنَّ عَلِيًّا صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ عُمَرُ ، وَقَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَانَا عَنْهَا".
ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه
حدیث نمبر: 107
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثنا شريح بن عبيد ، قال: قال عمر بن الخطاب :" خرجت اتعرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان اسلم، فوجدته قد سبقني إلى المسجد، فقمت خلفه، فاستفتح سورة الحاقة، فجعلت اعجب من تاليف القرآن، قال: فقلت: هذا والله شاعر كما قالت قريش، قال: فقرا: إنه لقول رسول كريم وما هو بقول شاعر قليلا ما تؤمنون سورة الحاقة آية 40 - 41، قال: قلت: كاهن، قال: ولا بقول كاهن قليلا ما تذكرون تنزيل من رب العالمين ولو تقول علينا بعض الاقاويل لاخذنا منه باليمين ثم لقطعنا منه الوتين فما منكم من احد عنه حاجزين سورة الحاقة آية 42 - 47 إلى آخر السورة، قال: فوقع الإسلام في قلبي كل موقع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ :" خَرَجْتُ أَتَعَرَّضُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ أُسْلِمَ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَاسْتَفْتَحَ سُورَةَ الْحَاقَّةِ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ تَأْلِيفِ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا وَاللَّهِ شَاعِرٌ كَمَا قَالَتْ قُرَيْشٌ، قَالَ: فَقَرَأَ: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلا مَا تُؤْمِنُونَ سورة الحاقة آية 40 - 41، قَالَ: قُلْتُ: كَاهِنٌ، قَالَ: وَلا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلا مَا تَذَكَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَاوِيلِ لأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ سورة الحاقة آية 42 - 47 إِلَى آخِرِ السُّورَةِ، قَالَ: فَوَقَعَ الْإِسْلَامُ فِي قَلْبِي كُلَّ مَوْقِعٍ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں قبول اسلام سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے ارادے سے نکلا لیکن پتہ چلا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی مسجد میں جا چکے ہیں، میں جا کر ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ حاقہ کی تلاوت شروع کر دی، مجھے نظم قرآن اور اس کے اسلوب سے تعجب ہونے لگا، میں نے اپنے دل میں سوچا واللہ! یہ شخص شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں، اتنی دیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچ گئے کہ وہ تو ایک معزز قاصد کا قول ہے کسی شاعر کی بات تھوڑی ہے لیکن تم ایمان بہت کم لاتے ہو۔ یہ سن کر میں نے اپنے دل میں سوچا یہ تو کاہن ہے، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو، یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اگر یہ پیغمبر ہماری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے تو ہم اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیں اور اس کی گردن توڑ ڈالیں اور تم میں سے کوئی ان کی طرف سے رکا وٹ نہ بن سکے۔ یہ آیات سن کر اسلام نے میرے دل میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنا شروع کردئیے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، شريح بن عبيد لم يدرك عمر
حدیث نمبر: 108
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، وعصام بن خالد ، قالا: حدثنا صفوان ، عن شريح بن عبيد ، وراشد بن سعد ، وغيرهما، قالوا: لما بلغ عمر بن الخطاب سرغ حدث ان بالشام وباء شديدا، قال: بلغني ان شدة الوباء في الشام، فقلت: إن ادركني اجلي، وابو عبيدة بن الجراح حي، استخلفته، فإن سالني الله لم استخلفته على امة محمد صلى الله عليه وسلم؟ قلت: إني سمعت رسولك صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن لكل نبي امينا، واميني ابو عبيدة بن الجراح"، فانكر القوم ذلك، وقالوا: ما بال عليا قريش؟! يعنون بني فهر، ثم قال: فإن ادركني اجلي، وقد توفي ابو عبيدة، استخلفت معاذ بن جبل، فإن سالني ربي عز وجل لم استخلفته؟ قلت: سمعت رسولك صلى الله عليه وسلم يقول:" إنه يحشر يوم القيامة بين يدي العلماء نبذة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، وَعِصَامُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ ، وَرَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، وَغَيْرِهِمَا، قَالُوا: لَمَّا بَلَغَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سَرَغَ حُدِّثَ أَنَّ بِالشَّامِ وَبَاءً شَدِيدًا، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ شِدَّةَ الْوَبَاءِ فِي الشَّامِ، فَقُلْتُ: إِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ حَيٌّ، اسْتَخْلَفْتُهُ، فَإِنْ سَأَلَنِي اللَّهُ لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَمِينًا، وَأَمِينِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ"، فَأَنْكَرَ الْقَوْمُ ذَلِكَ، وَقَالُوا: مَا بَالُ عُلْيَا قُرَيْشٍ؟! يَعْنُونَ بَنِي فِهْرٍ، ثُمَّ قَالَ: فَإِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي، وَقَدْ تُوُفِّيَ أَبُو عُبَيْدَةَ، اسْتَخْلَفْتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَإِنْ سَأَلَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ؟ قُلْتُ: سَمِعْتُ رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّهُ يُحْشَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْنَ يَدَيْ الْعُلَمَاءِ نَبْذَةً".
شریح بن عبید اور راشد بن سعید وغیرہ کہتے ہیں کہ سفر شام میں جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سرغ نامی مقام پر پہنچے تو آپ کو خبر ملی کہ شام میں طاعون کی بڑی سخت وباء پھیلی ہوئی ہے، یہ خبر سن کر انہوں نے فرمایا کہ مجھے شام میں طاعون کی وباء پھیلنے کی خبر ملی ہے، میری رائے یہ ہے کہ اگر میرا آخری وقت آ پہنچا اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ زندہ ہوئے تو میں انہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے اس کے متعلق باز پرس کی کہ تو نے امت مسلمہ پر انہیں اپنا خلیفہ کیوں مقرر کیا؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ ہی کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ہر نبی کا ایک امین ہوتا ہے اور میرا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی اور وہ کہنے لگے کہ اس صورت میں قریش کے بڑے لوگوں یعنی بنی فہر کا کیا بنے گا؟ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اگر میری موت سے پہلے ابوعبیدہ فوت ہو گئے تو میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ مقرر کردوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ تو نے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیا؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے درمیان ایک جماعت کی صورت میں اٹھائے جائیں گے۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد رجاله ثقات إلا أن شريح بن عبيد وراشد بن سعد لم يدركا عمر
حدیث نمبر: 109
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا ابن عياش ، قال: حدثني الاوزاعي ، وغيره، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن عمر بن الخطاب ، قال: ولد لاخي ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم غلام، فسموه: الوليد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" سميتموه باسماء فراعنتكم، ليكونن في هذه الامة رجل يقال له: الوليد، لهو شر على هذه الامة من فرعون لقومه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، وَغَيْرُهُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: وُلِدَ لِأَخِي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامٌ، فَسَمَّوْهُ: الْوَلِيدَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَمَّيْتُمُوهُ بِأَسْمَاءِ فَرَاعِنَتِكُمْ، لَيَكُونَنَّ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: الْوَلِيدُ، لَهُوَ شَرٌّ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ مِنْ فِرْعَوْنَ لِقَوْمِهِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، انہوں نے بچے کا نام ولید رکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس بچے کا نام اپنے فرعونوں کے نام پر رکھا ہے (کیونکہ ولید بن مغیرہ مشرکین مکہ کا سردار اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں بہت سرگرم تھا) میری امت میں ایک آدمی ہو گا جس کا نام ولید ہو گا جو اس امت کے حق میں فرعون سے بھی زیادہ بدتر ہو گا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سعيد بن المسيب لم يسمعه من عمر

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.