الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 81
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا شيبان ، عن ليث ، عن مجاهد ، قال: قال ابو بكر الصديق : امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقول إذا اصبحت، وإذا امسيت، وإذا اخذت مضجعي من الليل:" اللهم فاطر السموات والارض، عالم الغيب والشهادة، انت رب كل شيء ومليكه، اشهد ان لا إله إلا انت وحدك لا شريك لك، وان محمدا عبدك ورسولك، اعوذ بك من شر نفسي، وشر الشيطان وشركه، وان اقترف على نفسي سوءا، او اجره إلى مسلم".
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ : أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُولَ إِذَا أَصْبَحْتُ، وَإِذَا أَمْسَيْتُ، وَإِذَا أَخَذْتُ مَضْجَعِي مِنَ اللَّيْلِ:" اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا، أَوْ أَجُرَّهُ إِلَى مُسْلِمٍ".
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے: «اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا» اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہو سکتا، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے، خود اپنی جان پر کسی گناہ کا بوجھ لادنے سے یا کسی مسلمان کو اس میں کھینچ کر مبتلا کرنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ليث ضعيف، ومجاهد لم يدرك أبا بكر
حدیث نمبر: 81M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
آخر مسند ابي بكر الصديقآخِرُ مُسْنَدِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ
حدیث نمبر: 82
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة ، قال: جاء ناس من اهل الشام إلى عمر، فقالوا: إنا قد اصبنا اموالا وخيلا ورقيقا، نحب ان يكون لنا فيها زكاة وطهور، قال: ما فعله صاحباي قبلي فافعله، واستشار اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، وفيهم علي، فقال علي :" هو حسن، إن لم يكن جزية راتبة يؤخذون بها من بعدك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: إِنَّا قَدْ أَصَبْنَا أَمْوَالًا وَخَيْلًا وَرَقِيقًا، نُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَنَا فِيهَا زَكَاةٌ وَطَهُورٌ، قَالَ: مَا فَعَلَهُ صَاحِبَايَ قَبْلِي فَأَفْعَلَهُ، وَاسْتَشَارَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِمْ عَلِيٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ :" هُوَ حَسَنٌ، إِنْ لَمْ يَكُنْ جِزْيَةً رَاتِبَةً يُؤْخَذُونَ بِهَا مِنْ بَعْدِكَ".
حارثہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام کے کچھ لوگ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کچھ مال و دولت، گھوڑے اور غلام ملے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ ہمارے لئے اس میں پاکیزگی اور تزکیہ نفس کا سامان پیدا ہو جائے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو جس طرح کرتے تھے میں بھی اسی طرح کروں گا، پھر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، ان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، وہ فرمانے لگے کہ یہ مال حلال ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے ٹیکس نہ بنا لیں کہ بعد میں بھی لوگوں سے وصول کرتے رہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 83
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ابي وائل : ان الصبي بن معبد كان نصرانيا تغلبيا اعرابيا فاسلم، فسال: اي العمل افضل؟ فقيل له: الجهاد في سبيل الله عز وجل، فاراد ان يجاهد، فقيل له: حججت؟ فقال: لا، فقيل: حج واعتمر، ثم جاهد، فانطلق، حتى إذا كان بالحوائط اهل بهما جميعا، فرآه زيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة، فقالا: لهو اضل من جمله، او: ما هو باهدى من ناقته، فانطلق إلى عمر ، فاخبره بقولهما، فقال:" هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم"، قال الحكم: فقلت لابي وائل: حدثك الصبي؟ فقال: نعم.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ : أَنَّ الصُّبَيَّ بْنَ مَعْبَدٍ كَانَ نَصْرَانِيًّا تَغْلِبِيًّا أَعْرَابِيًّا فَأَسْلَمَ، فَسَأَلَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقِيلَ لَهُ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَرَادَ أَنْ يُجَاهِدَ، فَقِيلَ لَهُ: حَجَجْتَ؟ فَقَالَ: لَا، فَقِيلَ: حُجَّ وَاعْتَمِرْ، ثُمَّ جَاهِدْ، فَانْطَلَقَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْحَوَائطِ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا، فَرَآهُ زَيْدُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، فَقَالَا: لَهُوَ أَضَلُّ مِنْ جَمَلِهِ، أَوْ: مَا هُوَ بِأَهْدَى مِنْ نَاقَتِهِ، فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ ، فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ:" هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ الْحَكَمُ: فَقُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ: حَدَّثَكَ الصُّبَيُّ؟ فَقَالَ: نَعَمْ.
سیدنا ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے بتایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چنانچہ انہوں نے جہاد کا ارادہ کر لیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حج کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں! اس نے کہا: آپ پہلے حج اور عمرہ کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چنانچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہو گئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا کہ یہ روایت آپ کو خود صبی نے سنائی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 84
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، قال: سمعت عمرو بن ميمون ، قال: صلى بنا عمر بجمع الصبح، ثم وقف، وقال:" إن المشركين كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم خالفهم، ثم افاض قبل ان تطلع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا عُمَرُ بِجَمْعٍ الصُّبْحَ، ثُمَّ وَقَفَ، وَقَالَ:" إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہمیں مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھائی، پھر وقوف کیا اور فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اس کے بعد سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1684
حدیث نمبر: 85
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، قال: حدثنا عاصم بن كليب ، قال: قال ابي : فحدثت به ابن عباس رضي الله عنه، قال: وما اعجبك من ذلك؟ كان عمر إذا دعا الاشياخ من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم دعاني معهم، فقال: لا تتكلم حتى يتكلموا، قال: فدعانا ذات يوم، او ذات ليلة، فقال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في ليلة القدر ما قد علمتم، فالتمسوها في العشر الاواخر وترا، ففي اي الوتر ترونها؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ أَبِي : فَحَدَّثَتُ بِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ، قَالَ: وَمَا أَعْجَبَكَ مِنْ ذَلِكَ؟ كَانَ عُمَرُ إِذَا دَعَا الْأَشْيَاخَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي مَعَهُمْ، فَقَالَ: لَا تَتَكَلَّمْ حَتَّى يَتَكَلَّمُوا، قَالَ: فَدَعَانَا ذَاتَ يَوْمٍ، أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وِتْرًا، فَفِي أَيِّ الْوِتْرِ تَرَوْنَهَا؟".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلاتے تو مجھے بھی ان کے ساتھ بلا لیتے اور مجھ سے فرماتے کہ جب تک یہ حضرات بات نہ کر لیں، تم کوئی بات نہ کرنا۔ اسی طرح ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں بلایا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ آپ کے علم میں بھی ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو، یہ بتائیے کہ آپ کو آخری عشرے کی کس طاق رات میں شب قدر معلوم ہوتی ہے؟ (ظاہر ہے کہ ہر صحابی کا جواب مختلف تھا، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو میری رائے اچھی معلوم ہوئی)۔

حكم دارالسلام: إسناده قوي
حدیث نمبر: 86
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عاصم بن عمرو البجلي يحدث، عن رجل من القوم الذين سالوا عمر بن الخطاب ، فقالوا له: إنما اتيناك نسالك عن ثلاث: عن صلاة الرجل في بيته تطوعا، وعن الغسل من الجنابة، وعن الرجل ما يصلح له من امراته إذا كانت حائضا، فقال: اسحار انتم؟! لقد سالتموني عن شيء ما سالني عنه احد منذ سالت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" صلاة الرجل في بيته تطوعا نور، فمن شاء نور بيته"، وقال في الغسل من الجنابة:" يغسل فرجه، ثم يتوضا، ثم يفيض على راسه ثلاثا"، وقال في الحائض:" له ما فوق الإزار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عَمْرٍو الْبَجَلِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ سَأَلُوا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، فَقَالُوا لَهُ: إِنَّمَا أَتَيْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ: عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ تَطَوُّعًا، وَعَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وَعَنِ الرَّجُلِ مَا يَصْلُحُ لَهُ مِنَ امْرَأَتِهِ إِذَا كَانَتْ حَائِضًا، فَقَالَ: أَسُحَّارٌ أَنْتُمْ؟! لَقَدْ سَأَلْتُمُونِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ تَطَوُّعًا نُورٌ، فَمَنْ شَاءَ نَوَّرَ بَيْتَهُ"، وَقَالَ فِي الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ:" يَغْسِلُ فَرْجَهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًا"، وَقَالَ فِي الْحَائِضِ:" لَهُ مَا فَوْقَ الْإِزَارِ".
ایک مرتبہ کچھ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہم آپ سے تین سوال پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ گھر میں نفلی نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ غسل جنابت کا کیا طریقہ ہے؟ اگر عورت ایام میں ہو تو مرد کے لئے کہاں تک اجازت ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ بڑے عقلمند محسوس ہوتے ہیں، میں نے ان چیزوں سے متعلق جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا جو آپ لوگوں نے پوچھا ہے اور فرمایا کہ انسان گھر میں جو نفلی نماز پڑھتا ہے تو وہ نور ہے اس لئے جو چاہے اپنے گھر کو منور کر لے، غسل جنابت کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا پہلے اپنی شرمگاہ کو دھوئے، پھر وضو کرے اور پھر اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈال کر حسب عادت غسل کرے اور ایام والی عورت کے متعلق فرمایا کہ ازار سے اوپر کا جتنا حصہ ہے، مرد اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل الذى روى عنه عاصم. وقوله : يغسل فرجه ثم يتوضأ .... له ما فوق الازار صحيح بالشواهد
حدیث نمبر: 87
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ابن لهيعة ، عن ابي النضر ، عن ابي سلمة ، عن ابن عمر ، انه قال: رايت سعد بن ابي وقاص يمسح على خفيه بالعراق حين يتوضا، فانكرت ذلك عليه، قال: فلما اجتمعنا عند عمر بن الخطاب ، قال لي: سل اباك عما انكرت علي من مسح الخفين، قال: فذكرت ذلك له، فقال: إذا حدثك سعد بشيء، فلا ترد عليه، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمسح على الخفين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ بِالْعِرَاقِ حِينَ يَتَوَضَّأُ، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعْنَا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ لِي: سَلْ أَبَاكَ عَمَّا أَنْكَرْتَ عَلَيَّ مِنْ مَسْحِ الْخُفَّيْنِ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِذَا حَدَّثَكَ سَعْدٌ بِشَيْءٍ، فَلَا تَرُدَّ عَلَيْهِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے عراق میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے تو مجھے اس پر بڑا تعجب اور اچنبھا ہوا، بعد میں جب ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے تو سعد رضی اللہ عنہ نے مجھے سے فرمایا کہ آپ کو «مسح على الخفين» کے بارے مجھ پر جو تعجب ہو رہا تھا، اس کے متعلق اپنے والد صاحب سے پوچھ لیجئے، میں نے ان کے سامنے سارا واقعہ ذکر کر دیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کی تردید مت کیا کریں، کیونکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مورزوں پر مسح فرماتے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 88
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، قال: حدثنا ابن وهب ، عن عمرو بن الحارث ، عن ابي النضر ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عبد الله بن عمر ، عن سعد بن ابي وقاص ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انه مسح على الخفين"، وان عبد الله بن عمر سال عمر عن ذلك، فقال: نعم، إذا حدثك سعد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، فلا تسال عنه غيره.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ"، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ سَأَلَ عُمَرَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: نَعَمْ، إِذَا حَدَّثَكَ سَعْدٌ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح فرمایا ہے، بعد میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: یہ بات صحیح ہے، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھا کریں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 202
حدیث نمبر: 89
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام بن يحيى ، قال: حدثنا قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد الغطفاني ، عن معدان بن ابي طلحة اليعمري : ان عمر بن الخطاب قام على المنبر يوم الجمعة، فحمد الله واثنى عليه، ثم ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذكر ابا بكر، ثم قال: رايت رؤيا لا اراها إلا لحضور اجلي، رايت كان ديكا نقرني نقرتين، قال: وذكر لي انه ديك احمر، فقصصتها على اسماء بنت عميس امراة ابي بكر رضي الله عنهما، فقالت: يقتلك رجل من العجم، قال: وإن الناس يامرونني ان استخلف، وإن الله لم يكن ليضيع دينه، وخلافته التي بعث بها نبيه صلى الله عليه وسلم، وإن يعجل بي امر فإن الشورى في هؤلاء الستة الذين مات نبي الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فمن بايعتم منهم، فاسمعوا له واطيعوا، وإني اعلم ان اناسا سيطعنون في هذا الامر، انا قاتلتهم بيدي هذه على الإسلام، اولئك اعداء الله الكفار الضلال، وايم الله، ما اترك فيما عهد إلي ربي فاستخلفني شيئا اهم إلي من الكلالة، وايم الله، ما اغلظ لي نبي الله صلى الله عليه وسلم في شيء منذ صحبته اشد ما اغلظ لي في شان الكلالة، حتى طعن بإصبعه في صدري، وقال:" تكفيك آية الصيف، التي نزلت في آخر سورة النساء، وإني إن اعش فساقضي فيها بقضاء يعلمه من يقرا ومن لا يقرا" وإني اشهد الله على امراء الامصار، إني إنما بعثتهم ليعلموا الناس دينهم، ويبينوا لهم سنة نبيهم صلى الله عليه وسلم، ويرفعوا إلي ما عمي عليهم، ثم إنكم ايها الناس تاكلون من شجرتين لا اراهما إلا خبيثتين: هذا الثوم والبصل، وايم الله،" لقد كنت ارى نبي الله صلى الله عليه وسلم يجد ريحهما من الرجل، فيامر به فيؤخذ بيده، فيخرج به من المسجد حتى يؤتى به البقيع"، فمن اكلهما لا بد، فليمتهما طبخا. قال: فخطب الناس يوم الجمعة، واصيب يوم الاربعاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رُؤْيَا لَا أُرَاهَا إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، قَالَ: وَذُكَرَ لِي أَنَّهُ دِيكٌ أَحْمَرُ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ امْرَأَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَتْ: يَقْتُلُكَ رَجُلٌ مِنَ الْعَجَمِ، قَالَ: وَإِنَّ النَّاسَ يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضَيِّعَ دِينَهُ، وَخِلَافَتَهُ الَّتِي بَعَثَ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ يَعْجَلْ بِي أَمْرٌ فَإِنَّ الشُّورَى فِي هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَمَنْ بَايَعْتُمْ مِنْهُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّ أُنَاسًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ، أَنَا قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، أُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكُفَّارُ الضُّلَّالُ، وَايْمُ اللَّهِ، مَا أَتْرُكُ فِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي فَاسْتَخْلَفَنِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنَ الْكَلَالَةِ، وَايْمُ اللَّهِ، مَا أَغْلَظَ لِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَحِبْتُهُ أَشَدَّ مَا أَغْلَظَ لِي فِي شَأْنِ الْكَلَالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ:" تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ، الَّتِي نَزَلَتْ فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ، وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ فَسَأَقْضِي فِيهَا بِقَضَاءٍ يَعْلَمُهُ مَنْ يَقْرَأُ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ" وَإِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، إِنِّي إِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ، وَيُبَيِّنُوا لَهُمْ سُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا عُمِّيَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ: هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ، وَايْمُ اللَّهِ،" لَقَدْ كُنْتُ أَرَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِدُ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ، فَيَأْمُرُ بِهِ فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ، فَيُخْرَجُ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يُؤْتَى بِهِ الْبَقِيعَ"، فَمَنْ أَكَلَهُمَا لَا بُدَّ، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا. قَالَ: فَخَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ کی حمد و ثناء بیان کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ مرغ سرخ رنگ کا تھا، میں نے یہ خواب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ آپ کو ایک عجمی شخص شہید کر دے گا۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کر دوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ نہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہو گیا تو میں مجلس شوریٰ ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کر چکا ہوں، یہ لوگ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہو اور اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلہ کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آ جائے، اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو! تم دو ایسے درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتاہوں ایک لہسن اور دوسرا پیاز (کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے) بخدا! میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 567

Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.