الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کھانا کھانے کے آداب
حدیث نمبر: 2068
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا يزيد بن زريع، عن يونس، عن الحسن، قال: كان معقل بن يسار يتغدى، فسقطت لقمته، فاخذها فاماط ما بها من اذى، ثم اكلها، قال: فجعل اولئك الدهاقين يتغامزون به، فقالوا له: ما ترى ما يقول هؤلاء الاعاجم، يقولون: انظروا إلى ما بين يديه من الطعام، وإلى ما يصنع بهذه اللقمة؟ فقال: إني لم اكن ادع ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم بقول هؤلاء الاعاجم،"إنا كنا نؤمر إذا سقطت لقمة احدنا ان يميط ما بها من الاذى، وان ياكلها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: كَانَ مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ يَتَغَدَّى، فَسَقَطَتْ لُقْمَتُهُ، فَأَخَذَهَا فَأَمَاطَ مَا بِهَا مِنْ أَذًى، ثُمَّ أَكَلَهَا، قَالَ: فَجَعَلَ أُولَئِكَ الدَّهَاقِينُ يَتَغَامَزُونَ بِهِ، فَقَالُوا لَهُ: مَا تَرَى مَا يَقُولُ هَؤُلَاءِ الْأَعَاجِمُ، يَقُولُونَ: انْظُرُوا إِلَى مَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ الطَّعَامِ، وَإِلَى مَا يَصْنَعُ بِهَذِهِ اللُّقْمَةِ؟ فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَكُنْ أَدَعُ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِ هَؤُلَاءِ الْأَعَاجِمِ،"إِنَّا كُنَّا نُؤْمَرُ إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَةُ أَحَدِنَا أَنْ يُمِيطَ مَا بِهَا مِنْ الْأَذَى، وَأَنْ يَأْكُلَهَا".
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ دوپہر کو کھانا کھا رہے تھے کہ ان کا لقمہ نیچے گر گیا جس کا انہوں نے کچرا صاف کیا، پھر اسے کھا لیا تو کسان لوگ آنکھوں میں اشارے کرنے لگے، لوگوں نے ان سے عرض کیا: آپ دیکھ رہے ہیں یہ عجمی لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ دیکھو ان کے سامنے کتنا کھانا موجود ہے پھر بھی اس لقمے کو اٹھا کر کیا کر رہے ہیں۔ سیدنا معقل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں ان عجمیوں کے کہنے کی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتا جو میں نے سنا ہے، ہم کو حکم دیا جاتا تھا کہ جب تم میں سے کسی کا لقمہ نیچے گر جائے تو اس میں جو کوڑا (وغیرہ) لگ جائے اس کو صاف کر کے کھا لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه: الحسن لم يسمع معقل بن يسار ولكن المرفوع منه صحيح يشهد له سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2072]»
اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے، کیونکہ حسن رحمہ اللہ نے سیدنا معقل رضی اللہ عنہ سے سنا ہی نہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک صحیح سند سے موجود ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔ اس کا حوالہ دیکھئے: [ابن ماجه 3278]، [طبراني 200/20، 450، 451]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2066 سے 2068)
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ میں حدیث شریف (پر عمل) کو نہ چھوڑوں گا گو یہ عجمی آفاقی مجھ پر ہنسیں، یا طعنہ زنی کریں، یا برا کہیں۔
سبحان اللہ! ہر مومن کو حدیث شریف اور سنّت کی پیروی اسی طرح سے لازم ہے، اگرچہ دنیا دار اس پر عمل کرنے کو برا جانیں، یا طعن و تشنیع کریں، یا ایذا دینے پر مستعد ہوں، یا حقیر سمجھیں۔
(وحیدی)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اس سے گرد و غبار کو صاف کر کے کھا لے الا یہ کہ صفائی ممکن نہ ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه: الحسن لم يسمع معقل بن يسار ولكن المرفوع منه صحيح يشهد له سابقه
9. باب الأَكْلِ بِالْيَمِينِ:
9. سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2069
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو علي الحنفي، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن ابي بكر بن عبيد الله بن عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا اكل احدكم، فلياكل بيمينه، وليشرب بيمينه، فإن الشيطان ياكل بشماله ويشرب بشماله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلَّي الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَأْكُلْ بِيَمِينِهِ، وَلْيَشْرَبْ بِيَمِينِهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ وَيَشْرَبُ بِشِمَالِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھائے اور پئے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اور پئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2073]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2020/106]، [أبوداؤد 3776]، [ترمذي 1799]، [ابن ماجه 3266]، [أبويعلی 5568]، [ابن حبان 5226]، [الحميدي 648]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2068)
اس حدیث میں بائیں ہاتھ سے کھانا شیطان کی صفت بتایا گیا ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے، شیطان کے نقشِ قدم پر چلنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
جو لوگ میزوں پر بیٹھ کر غیروں کی تقلید میں بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں اور اسی کو تہذیب سمجھتے ہیں، وہ بھی شیطان ہی کے مقلد ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2070
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، عن ابن عيينة، عن الزهري , عن ابي بكر , عن ابن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ أَبِي بَكْرٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس سند سے بھی مذکور بالا مفہوم کی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2074]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2071
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا عكرمة بن عمار، قال: حدثني إياس بن سلمة، قال: حدثني ابي، قال: ابصر رسول الله صلى الله عليه وسلم بسر بن راعي العير ياكل بشماله، فقال: "كل بيمينك". قال: لا استطيع، قال:"لا استطعت". قال: فما وصلت يمينه إلى فيه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: أَبْصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُسْرَ بْنَ رَاعِي الْعِيرِ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ، فَقَالَ: "كُلْ بِيَمِينِكَ". قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ، قَالَ:"لَا اسْتَطَعْتَ". قَالَ: فَمَا وَصَلَتْ يَمِينُهُ إِلَى فِيهِ.
ایاس بن ابی سلمہ نے کہا: میرے والد نے مجھ سے حدیث بیان کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسر بن راعی العیر کو دیکھا کہ وہ بایاں ہاتھ سے کھا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دایاں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے کہا: مجھ سے نہیں ہو سکتا، فرمایا: اللہ کرے تجھ سے نہ ہو سکے (یعنی داہنے ہاتھ سے اگر جھوٹے ہو تو کبھی نہ کھا سکو)، راوی نے کہا: پھر کبھی اس کا داہنا ہاتھ اس کے منہ تک نہ پہنچ سکا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2075]»
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2021]، [ابن حبان 6512، 6513]، [ابن ابي شيبه 4497]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2069 سے 2071)
یہ الله تعالیٰ کی طرف سے فرمانِ رسالت کو نہ ماننے کی فوری اور بھیانک سزا تھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ سنّت کی مخالفت کی بڑی سزا ہے جو الله تعالیٰ دنیا میں بھی نشانِ عبرت کے طور پر دے سکتا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [النور: 63] » ترجمہ: یعنی جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیئے کہ فتنے میں نہ پڑ جائیں یا (آخرت میں) دردناک عذاب میں مبتلا ہو جائیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانا دایاں ہاتھ سے کھانا چاہیے۔
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام دایاں ہاتھ سے کرتے تھے، کھانا، پینا، پہننا حتیٰ کہ بال سنوارنے اور جوتا پہننے میں بھی سیدھی جانب سے شروع کرتے تھے۔
سعودی عرب میں اسی لئے گاڑیاں اور ٹریفک سیدھی جانب ہوتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو شخص سنّت کی مخالفت کرے اس کے لئے بد دعا کی جا سکتی ہے۔
مذکورہ بالا شخص بسر کہا جاتا ہے کہ منافق تھا اور غرور و گھمنڈ میں اس نے کہا کہ میں سیدھے ہاتھ سے نہیں کھا سکتا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تم سیدھے ہاتھ سے کھا بھی نہ سکو گے۔
یہ دعا بارگاہِ الٰہی میں فوراً شرفِ قبولیت حاصل کر گئی اور بسر کا داہنا ہاتھ ہمیشہ کے لئے شل ہو کر نشانِ عبرت بن گیا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو متبع سنّت بنائے اور سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت و عدم پیروی سے محفوظ رکھے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
10. باب الأَكْلِ بِثَلاَثِ أَصَابِعَ:
10. تین انگلیوں سے کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2072
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا ابو معاوية، عن هشام بن عروة، عن عبد الرحمن بن سعد المدني، عن ابن كعب بن مالك، عن ابيه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم "ياكل بثلاث اصابع، ولا يمسح يده حتى يلعقها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ الْمَدَنِيِّ، عَنْ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَأْكُلُ بِثَلَاثِ أَصَابِعَ، وَلَا يَمْسَحُ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں سے کھاتے اور اپنے ہاتھ چاٹنے سے پہلے صاف نہیں کرتے تھے۔ (یعنی صاف کرنے سے پہلے انہیں چاٹ لیتے تھے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2076]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2032]، [أبوداؤد 3848]، [ابن حبان 5251]۔ اس سند میں ابومعاویہ کا نام محمد بن حازم ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2073
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن خالد، حدثنا عيسى بن يونس، عن هشام بن عروة، عن عبد الرحمن بن سعد المدني، ان عبد الله بن كعب او عبد الرحمن بن كعب شك هشام اخبره، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "ياكل باصابعه الثلاث، فإذا فرغ، لعقها"، واشار هشام باصابعه الثلاث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ الْمَدَنِيِّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ أَوْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ كَعْبٍ شَكَّ هِشَامٌ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يَأْكُلُ بِأَصَابِعِهِ الثَّلَاثِ، فَإِذَا فَرَغَ، لَعِقَهَا"، وَأَشَارَ هِشَامٌ بِأَصَابِعِهِ الثَّلَاثِ.
عبداللہ بن کعب یا عبدالرحمٰن بن کعب (شک ہشام بن عروہ کو ہوا) نے خبر دی، ان کے والد سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تین انگلیوں سے کھاتے تھے، جب کھانے سے فارغ ہوتے تو انہیں چاٹ لیتے۔ ہشام بن عروہ نے تین انگلیوں کی طرف اشارہ کر کے سمجھایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2077]»
اس روایت کی سند جید ہے اور عبدالله و عبدالرحمٰن دونوں سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں جو ثقات التابعين میں سے ہیں، اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2071 سے 2073)
ان احادیث سے تین انگلیوں سے کھانا، انہیں چاٹنا، اور پھر صاف کرنا، دھونا ثابت ہوا۔
جو لوگ انگلیاں چاٹنے کو خلافِ تہذیب کہیں وہ اتباعِ سنّت کی برکت، رزق کی قدر و قیمت اور شکرِ الٰہی سے محروم ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں بصیرت عطا کرے اور اتباعِ سنّت کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
11. باب في الضِّيَافَةِ:
11. مہمان نوازی کا بیان
حدیث نمبر: 2074
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا محمد بن إسحاق، عن سعيد بن ابي سعيد، عن ابي شريح الخزاعي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليقل خيرا، او ليصمت، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم ضيفه، جائزته يوما وليلة، والضيافة ثلاثة ايام وما بعد ذلك صدقة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا، أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، جَائِزَتَهُ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَمَا بَعْدَ ذَلِكَ صَدَقَةٌ".
سیدنا ابوشریح الخزاعی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت (خاطر مدارات) کرے۔ مہمان داری ایک دن ایک رات (کی فرض) ہے اور مہمانی تین دن تک سنت ہے، اس کے بعد (مہمان اگر رکا رہے اور میزبان اس پر کچھ خرچ کرے تو یہ) صدقہ ہے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2078]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6019، 6135]، [مسلم 48 فى كتاب الايمان]، [ترمذي 1967]، [ابن ماجه 3675]، [ابن حبان 5287]، [الحميدي 585]، [أبويعلی الموصلي 6218]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 2075
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، قال: سمعت نافع بن جبير، عن ابي شريح الخزاعي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم ضيفه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليحسن إلى جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليقل خيرا او ليسكت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ".
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے، اور جو شخص الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس پر لازم ہے کہ بھلی بات کہے ورنہ چپ رہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2079]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6136]، [مسلم 48، وغيرهما كما مر آنفا]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2073 سے 2075)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایمان کی نشانی اور مومن کی صفات یہ ہیں کہ وہ پڑوسی کی عزت کرے خواہ وہ کسی بھی قبیلے اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اور فضول باتوں اور بکواس سے پرہیز کرے، مہمان نوازی کرے، جو حسنِ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہے، نیز یہ کہ مہمان نوازی تین دن تک کی ہے، اس سے زیادہ میزبان پر کوئی مہمان بوجھ نہ بنے بلکہ اپنا انتظام خود کر لے جیسا کہ بخاری و ابن ماجہ کی روایت میں تصریح موجود ہے۔
اسی لئے مذکورہ بالا روایت میں بھی فرمایا کہ تین دن سے زیادہ خاطر مدارات اگر میزبان کرتا ہے تو صدقہ ہے اور مہمان کو اس سے بچنا چاہیے۔
سبحان اللہ! اسلام کا کتنا پیارا نظامِ عدل ہے کہ پہلے مہمان نوازی کی تعلیم دی پھر مہمان کو بتا دیا کہ میزبان پر بوجھ بھی نہ بنے۔
«(الحمدللّٰه الذى هدانا لهٰذا)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2076
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا شعبة، عن ابي الجودي، عن سعيد بن المهاجر، عن المقدام بن معدي كرب: ابي كريمة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ايما مسلم ضاف قوما، فاصبح الضيف محروما، فإن على كل مسلم نصره حتى ياخذ له بقرى ليلته من زرعه وماله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْجُودِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ: أَبِي كَرِيمَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا مُسْلِمٍ ضَافَ قَوْمًا، فَأَصْبَحَ الضَّيْفُ مَحْرُومًا، فَإِنَّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ نَصْرَهُ حَتَّى يَأْخُذَ لَهُ بِقِرَى لَيْلَتِهِ مِنْ زَرْعِهِ وَمَالِهِ".
سیدنا ابوکریمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی کسی قوم کا مہمان بنا (یعنی ان کے پاس مہمان بن کر آیا) اور صبح تک ویسے ہی بے نصیب رہا (یعنی کسی نے اس کی مہمان داری نہ کی) تو اس کی مدد کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے یہاں تک کہ وہ مہمان اپنی مہمانی اس قوم کی زراعت اور مال میں سے لے سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2080]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3751]، [ابن ماجه 3677]، [أحمد 131/4، 133]، [مشكل الآثار للطحاوي 40/4]، [دارقطني 287/4]، [ابن حبان 5288]، اور [بخاري 3461] و [مسلم 1727] میں بھی اس کا شاہد موجود ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2075)
یعنی جن کا مہمان ہو ان کے مال و زر میں سے اس قدر بلا اجازت لے سکتا ہے جس میں اس کی آسودگی ہو، یہ حدیث ابتدائے اسلام کی ہے جب مہمانی واجب تھی، لیکن اب سنّتِ مؤکدہ اور اخلاقِ حسنہ کی نشانی ہے۔
اور مہمانی نہ کرنا بدخلقی، بے مروّتی اور باعثِ شقاوت ہے۔
نیز وجوب صرف پہلی رات کے لئے ہے کیونکہ رات کو مسافر کو نہ کھانا مل سکتا ہے نہ بازار معلوم ہوتا ہے تو صاحبِ خانہ پر اس کے کھانے پینے کا سامان کر دینا واجب ہے، البتہ دوسرے دن صبح کو اس پر مہمانی کرنا واجب نہیں کیونکہ مہمان دن کو سب سامان کر سکتا ہے، یہ وجوب علماء کے ایک گروہ کے نزدیک اب بھی باقی ہے اور جمہور کہتے ہیں کہ وجوب منسوخ ہو گیا لیکن سنّت ہونا اب بھی باقی ہے، تو ایک دن رات مہمانی کرنا سنّتِ مؤکدہ یعنی ضروری ہے اور تین دن مستحب ہے، اور تین دن بعد پھر مہمانی نہیں، اب مہمان کو لازم ہے کہ چل دیوے یا اپنے کھانے پینے کا اہتمام الگ کر لیوے، میزبان پر بوجھ نہ ڈالے (وحیدی بتصرف)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
12. باب الذُّبَابِ يَقَعُ في الطَّعَامِ:
12. کھانے میں مکھی گر جانے کا بیان
حدیث نمبر: 2077
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا سليمان بن بلال، عن عتبة بن مسلم، ان عبيد بن حنين اخبره، انه سمع ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا سقط الذباب في شراب احدكم، فليغمسه كله ثم لينزعه، فإن في احد جناحيه داء، وفي الآخر شفاء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، أَنَّ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا سَقَطَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ أَحَدِكُمْ، فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ ثُمَّ لِيَنْزِعْهُ، فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ دَاءً، وَفِي الْآخَرِ شِفَاءً".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مکھی تم میں سے کسی کے (کھانے) پانی میں گر جائے تو وہ پوری مکھی کو برتن میں ڈبو دے اور پھر اسے نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے پر میں شفا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2081]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3320]، [أبوداؤد 3844]، [ابن ماجه 3505]، [أبويعلی 986]، [ابن حبان 1246، 1247]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.