الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
سیر کے مسائل
45. باب في كَرَاهِيَةِ الأَنْفَالِ وَقَالَ: «لِيَرُدَّ قَوِيُّ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى ضَعِيفِهِمْ» :
45. اضافی انعام کی کراہت کا بیان
حدیث نمبر: 2522
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عيينة، حدثنا ابو إسحاق الفزاري، عن عبد الرحمن بن عياش، عن سليمان بن موسى، عن ابي سلام، عن ابي امامة الباهلي، عن عبادة بن الصامت: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يكره الانفال ويقول: "ليرد قوي المسلمين على ضعيفهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ الْأَنْفَالَ وَيَقُولُ: "لِيَرُدَّ قَوِيُّ الْمُسْلِمِينَ عَلَى ضَعِيفِهِمْ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انعامات کو ناپسند کرتے تھے اور فرماتے تھے: قوی (طاقتور) مسلمان کو مالِ غنیمت ضعیف مسلمان کے لئے پھیر دینا چاہیے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2529]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2853]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2521)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مالِ غنیمت میں سب مسلمان برابر کے شریک ہوں گے اور برابر حصہ پائیں گے، جو لوگ قوی ہوں اور زیادہ جنگ کریں وہ دوسرے ضعیف لوگوں سے زیادہ کچھ نہ پائیں گے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ناپسند فرماتے تھے، گرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات خاص افراد اور جماعت کو انعامات سے بھی نوازا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
46. باب مَا جَاءَ أَنَّهُ قَالَ: «أَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمَخِيطَ» :
46. سوئی اور دھاگہ تک مال غنیمت کا ادا کر دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2523
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عيينة، حدثنا ابو إسحاق الفزاري، عن عبد الرحمن بن عياش، عن سليمان بن موسى، عن ابي سلام، عن ابي امامة الباهلي، عن عبادة بهذا الإسناد: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول: "ادوا الخياط والمخيط، وإياكم والغلول فإنه عار على اهله يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ أَبِي سَلامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: "أَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمَخِيطَ، وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُولَ فَإِنَّهُ عَارٌ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا عباده رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوئی اور دھاگے کو بھی ادا کر دو اور خیانت سے بچو جو کہ قیامت کے دن خیانت کرنے والوں کے لئے عار ہوگی۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2530]»
اس حدیث کی سند حسن ہے، اور امام بخاری نے [التاريخ الكبير 57/8] میں اس روایت کو تعلیقاً ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2522)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مالِ غنیمت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
مالِ غنیمت پانے والے کو چاہیے کہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز جمع کر دے، چاہے وہ دھاگہ اور سوئی کیوں نہ ہو، اور بالکل خیانت نہ کرے۔
مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
47. باب النَّهْيِ عَنْ رُكُوبِ الدَّابَّةِ مِنَ الْمَغْنَمِ وَلُبْسِ الثَّوْبِ مِنْهُ:
47. غنیمت کے جانور پر سوار ہونے اور غنیمت کے کپڑے پہننے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2524
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد هو: ابن إسحاق، عن يزيد هو: ابن ابي حبيب عن ابي مرزوق مولى لتجيب، قال: حدثني حنش الصنعاني، قال: غزونا المغرب وعلينا رويفع بن ثابت الانصاري، فافتتحنا قرية يقال لها: جربة فقام فينا رويفع بن ثابت الانصاري خطيبا، فقال: إني لا اقوم فيكم إلا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قام فينا يوم خيبر حين افتتحناها: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يركبن دابة من فيء المسلمين، حتى إذا اجحفها او قال: اعجفها، قال ابو محمد: انا اشك فيه ردها". ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فلا يلبس ثوبا من فيء المسلمين حتى إذا اخلقه، رده فيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ: ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ هُوَ: ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ مَوْلًى لِتُجِيبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَنَشٌ الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: غَزَوْنَا الْمَغْرِبَ وَعَلَيْنَا رُوَيْفِعُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَافْتَتَحْنَا قَرْيَةً يُقَالُ لَهَا: جَرْبَةَ فَقَامَ فِينَا رُوَيْفِعُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ خَطِيبًا، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَقُومُ فِيكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا يَوْمَ خَيْبَرَ حِينَ افْتَتَحْنَاهَا: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلا يَرْكَبَنَّ دَابَّةً مِنْ فَيْءِ الْمُسْلِمِينَ، حَتَّى إِذَا أَجْحَفَهَا أَوْ قَالَ: أَعْجَفَهَا، قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: أَنَا أَشُكُّ فِيهِ رَدَّهَا". وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يَلْبَسْ ثَوْبًا مِنْ فَيْءِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى إِذَا أَخْلَقَهُ، رَدَّهُ فِيهِ".
حنش صنعانی نے کہا: ہم نے سیدنا رويفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ مغرب میں جہاد کیا تو ہم نے ایک گاؤں کو فتح کیا جس کو جربہ کہا جاتا تھا، اس وقت سیدنا رويفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو کہا: میں تمہارے درمیان اس لئے اس وقت کھڑا ہوا ہوں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے بعد ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تو فرمایا: جو کوئی الله پر اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے تو وہ مسلمانوں کے مالِ غنیمت کے گھوڑے پر سوار نہ ہو، اور جب وہ کمزور ہو جائے گا تو اسے واپس کر دے۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «ردها» کے بارے میں مجھے شبہ ہے۔
پھر فرمایا: اور جو کوئی الله پر اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ مسلمانوں کے مالِ غنیمت سے کوئی کپڑا نہ پہنے حتی کہ جب وہ بوسیدہ و پرانا ہوجائے تو اسے واپس بیت المال میں جمع کرا دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2531]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1441]، [أبوداؤد 2156]، [ابن حبان 4850]، [الموارد 1675]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2523)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غنیمت میں حاصل شدہ کپڑوں اور گھوڑوں کو میدانِ جنگ میں ضرورت کے وقت استعمال میں لایا جا سکتا ہے، بعد میں ان کو استعمال کرنا ممنوع ہے۔
بعض علماء نے وقتی طور پر استعمال کرنے کے لئے بھی سپہ سالار کی اجازت کو شرط قرار دیا ہے۔
(مبارکپوری رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
48. باب مَا جَاءَ في الْغُلُولِ مِنَ الشِّدَّةِ:
48. غنیمت کے مال میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے
حدیث نمبر: 2525
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثني ابو زميل، حدثني ابن عباس، قال: حدثني عمر بن الخطاب، قال: قتل نفر يوم خيبر، فقالوا: فلان شهيد، فلان....... حتى ذكروا رجلا، فقالوا: فلان شهيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كلا إني رايته في النار في عباءة او في بردة غلها". ثم قال لي:"يا ابن الخطاب قم فناد في الناس انه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون" فقمت فناديت في الناس.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: قُتِلَ نَفَرٌ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فُلانٌ....... حَتَّى ذَكَرُوا رَجُلًا، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَلا إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي عَبَاءَةٍ أَوْ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا". ثُمَّ قَالَ لِي:"يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قُمْ فَنَادِ فِي النَّاسِ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلا الْمُؤْمِنُونَ" فَقُمْتُ فَنَادَيْتُ فِي النَّاسِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھ سے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ خیبر کے دن کتنے ہی صحابی شہید ہوگئے۔ لوگ کہنے لگے: فلاں اور فلاں شہید ہے یہاں تک کہ انہوں نے ایک آدمی کا ذکر کیا کہ وہ شہید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، میں نے اس کو جہنم میں دیکھا ایک عباءۃ یا چادر میں جس کو اس نے مالِ غنیمت سے چرایا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے خطاب کے بیٹے! اٹھو اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں وہی جائیں گے جو ایمان دار ہیں، چنانچہ میں اٹها اور جا کر لوگوں میں اعلان کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2532]»
اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 114]، [ترمذي 1574]، [ابن حبان 4849]، [أبوعوانه 48/1]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2524)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالِ غنیمت سے ادنیٰ سی چیز بھی چرانا بہت بڑا جرم اور گناہ ہے جو حرام ہے، اور اس میں قلیل و کثیر کی کوئی قید نہیں۔
نیز جس نے غلول کیا، خیانت و چوری کی اسے شہید نہ کہیں گے بلکہ یہ غلول کفر کے مرادف ہے، اور جس نے کفر کیا جنّت میں نہ جائے گا، اس پر تمام علماء کا اجماع ہے، اور جنّت میں صرف امانت دار جائیں گے، خیانت کرنے والے نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
49. باب في عُقُوبَةِ الْغَالِّ:
49. مال غنیمت سے چوری کرنے والے کی سزا کا بیان
حدیث نمبر: 2526
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن منصور، عن عبد العزيز بن محمد، عن صالح بن محمد بن زائدة، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من وجدتموه غل، فاضربوه واحرقوا متاعه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ وَجَدْتُمُوهُ غَلَّ، فَاضْرِبُوهُ وَأَحْرِقُوا مَتَاعَهُ".
سالم بن عبداللہ نے اپنے باپ، انہوں نے ان کے دادا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی کو پاؤ کہ اس نے مالِ غنیمت میں سے چوری کی ہے تو اس کی ٹھکائی کرو اور اس کا سامان جلا دو۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر:]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے کیوں کہ اس کے راوی صالح بن محمد بن زائد ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2713]، [ترمذي 1461]، [نسائي 4994]، [أحمد 2/1]، [ابن منصور 2729، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2525)
جو شخص مالِ غنیمت سے کچھ چرائے اسے واپس کرنا ضروری ہے۔
اس حدیث میں مارنے اور جلانے کا ذکر ہے، لیکن ضعیف ہے، اس لئے چوری کا مال جمع کرا دینا واجب ہے، جلانا درست نہیں۔
ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا: اگر یہ حدیث صحیح بھی مان لی جائے تب بھی منسوخ ماننی پڑے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تسمہ بھی واپس لے لیا تھا، جلایا نہیں تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
50. باب في الْغَالِّ إِذَا جَاءَ بِمَا غَلَّ بِهِ:
50. چوری کرنے والا چوری کا مال لے کر آئے گا
حدیث نمبر: 2527
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن حاتم المكتب، حدثنا القاسم بن مالك، حدثني كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا نهب، ولا إغلال، ولا إسلال، ومن يغلل يات بما غل يوم القيامة". قال ابو محمد: الإسلال: السرقة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا نَهْبَ، وَلا إِغْلالَ، وَلا إِسْلَالَ، وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: الْإِسْلالُ: السَّرِقَةُ.
کثیر بن عبداللہ بن عمر بن عوف مزنی نے اپنے والد سے، انہوں نے ان کے دادا سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ لوٹ مار جائز ہے نہ خیانت اور نہ چوری جائز ہے، اور جو چوری کرے گا وہ قیامت کے دن جو چرایا ہے اس کو اپنے ساتھ لے کر آئے گا۔
امام ابومحمد دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اسلال کے معنی چوری کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل كثير، [مكتبه الشامله نمبر: 2533]»
اس روایت کی سند کثیر بن عبداللہ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن حدیث کا معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبراني 17/17-18، 16] و [الكامل لابن عدي 2080/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل كثير
51. باب: «لاَ تُقْطَعُ الأَيْدِي في الْغَزْوِ» :
51. جہاد کے دوران ہاتھ نہ کاٹنے کا بیان
حدیث نمبر: 2528
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بشر بن عمر الزهراني، حدثنا عبد الله هو: ابن لهيعة، حدثنا عياش بن عباس، عن شييم بن بيتان، عن جنادة بن ابي امية، قال: لولا اني سمعت ابن ارطاة، يقول: قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "لا تقطع الايدي في الغزو لقطعتها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ هُوَ: ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ شِيَيْمِ بْنِ بَيْتَانَ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، قَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ ابْنَ أَرْطَاةَ، يَقُولُ: قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لا تُقْطَعُ الْأَيْدِي فِي الْغَزْوِ لَقَطَعْتُهَا".
جنادہ بن ابی امیہ نے کہا کہ اگر میں نے سیدنا بسر بن ارطاة رضی اللہ عنہ کو نہ سنا ہوتا تو میں ہاتھ کاٹ دیتا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، وہ فرماتے تھے: غزوے اور جہاد میں (چور کے) ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2534]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4408]، [ترمذي 1450]، [نسائي 4994]، [أحمد 181/4، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2526 سے 2528)
مذکورہ بالا روایت کی اگر سند صحیح بھی ہو تو اس حدیث کا مطلب جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ کوئی شخص مالِ غنیمت سے چوری کرے تو اس کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے، تاکہ مجاہدین میں بددلی نہ پھیلے، اور مجاہدین کی قلت نہ ہو جائے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
52. باب في الْعَامِلِ إِذَا أَصَابَ في عَمَلِهِ شَيْئاً:
52. کسی عامل کو عمل کے دوران کچھ ہدیہ تحفہ ملے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 2529
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، حدثنا شعيب، عن الزهري اخبرني عروة بن الزبير، عن ابي حميد الساعدي: انه اخبره ان النبي صلى الله عليه وسلم استعمل عاملا على الصدقة فجاءه العامل حين فرغ من عمله، فقال: يا رسول الله، هذا الذي لكم، وهذا اهدي لي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"فهلا قعدت في بيت ابيك وامك، فنظرت ايهدى لك ام لا"، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم عشية بعد الصلاة على المنبر فتشهد فحمد الله واثنى عليه بما هو اهله، ثم قال:"اما بعد، فما بال العامل نستعمله فياتينا، فيقول: هذا من عملكم، وهذا اهدي لي؟ فهلا قعد في بيت ابيه وامه فينظر ايهدى له ام لا؟ والذي نفس محمد بيده، لا يغل احد منكم منها شيئا إلا جاء به يوم القيامة يحمله على عنقه، إن كان بعيرا، جاء به له رغاء، وإن كانت بقرة، جاء بها لها خوار، وإن كانت شاة، جاء بها تيعر، فقد بلغت؟". قال ابو حميد: ثم رفع النبي صلى الله عليه وسلم يديه حتى إنا لننظر إلى عفرة إبطيه. قال ابو حميد: وقد سمع ذلك معي من رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن ثابت، فسلوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ: أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ عَامِلًا عَلَى الصَّدَقَةِ فَجَاءَهُ الْعَامِلُ حِينَ فَرَغَ مِنْ عَمَلِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الَّذِي لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَهَلا قَعَدْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأَمِّكَ، فَنَظَرْتَ أَيُهْدَى لَكَ أَمْ لا"، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً بَعْدَ الصَّلاةِ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ الْعَامِلِ نَسْتَعْمِلُهُ فَيَأْتِينَا، فَيَقُولُ: هَذَا مِنْ عَمَلِكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي؟ فَهَلا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لا؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَغُلُّ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا إِلا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا، جَاءَ بِهِ لَهُ رُغَاءٌ، وَإِنْ كَانَتْ بَقَرَةً، جَاءَ بِهَا لَهَا خُوَارٌ، وَإِنْ كَانَتْ شَاةً، جَاءَ بِهَا تَيْعِرُ، فَقَدْ بَلَّغْتُ؟". قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: ثُمَّ رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ حَتَّى إِنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى عُفْرَةِ إِبِطَيْهِ. قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: وَقَدْ سَمِعَ ذَلِكَ مَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَسَلُوهُ.
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عامل کو صدقہ وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی، وہ اپنے کام سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کے لئے ہے (یعنی بیت المال کی رقم ہے) اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا (مال ہے)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم اپنے باپ اور ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھے رہے، پھر دیکھتے تمہیں وہاں بھی ہدیہ ملتا ہے یا نہیں، پھر شام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد منبر پر کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، جتنا ہو سکا الله تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: اما بعد (یعنی حمد و صلاۃ کے بعد) ایسے عامل کو کیا ہو گیا ہے کہ ہم اسے عامل بناتے ہیں (جزیہ و ٹیکس یا صدقات کی وصولی کے لئے) پھر وہ ہمارے پاس آ کر کہتا ہے یہ تو آپ کا ٹیکس ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، پھر وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی بھی اس مال میں سے کچھ خیانت کرے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا، اگر اونٹ کی اس نے خیانت کی ہوگی تو اس حال میں لے کر آئے گا کہ اس کی آواز نکل رہی ہوگی، اگر گائے کی خیانت کی ہوگی تو اس حال میں اسے لے کر آئے گا کہ گائے کی آواز آرہی ہوگی، اگر بکری کی خیانت کی ہوگی تو اس حال میں آئے گا کہ بکری کی آواز آرہی ہوگی، بس میں نے تم کو پہنچا دیا۔
سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھنے لگے۔ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے (مزید) کہا: میرے ساتھ یہ حدیث سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، ان سے پوچھ لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2535]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6636]، [مسلم 1832]، [أبوداؤد 2946]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2528)
یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر ذکر کی ہے۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی [كتاب الزكاة حديث 1707] میں اسے ذکر کیا ہے۔
ہوا یہ تھا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن لتبیہ رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی کو زکاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ جب زکاۃ کا مال لے کر آئے تو بعض چیزوں کی نسبت کہنے لگے کہ یہ مجھ کو بطورِ تحفہ ملی ہیں۔
اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد نمازِ عشاء یہ خطبہ دیا اور بتایا کہ اس طرح سرکاری سفر و عمل میں تم کو ذاتی تحائف لینے کا حق نہیں ہے، جو بھی ملا ہے سب بیت المال میں داخل کرنا ہوگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے کارندوں اور صدقہ و جزیہ وصول کرنے والوں سے حاکم حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے، کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے۔
اس احتساب اور سب کچھ بیت المال میں جمع کر دینے سے رشوت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
کوئی افسر جب یہ سمجھ لے گا کہ اس کے ہدیہ و تحفہ میں اس کا کچھ حق نہیں تو وہ ایسا ہدیہ و تحفہ قبول ہی نہ کرے گا، یا پھر اپنے آفیسر کے ذریعہ بیت المال میں جمع کرا دے گا۔
اس حدیث سے وقتِ ضرورت خطبہ دینا اور لوگوں کے سامنے احکام و حقیقت بیان کرنا ثابت ہوا، نیز یہ کہ کسی کا نام لے کر اٹیک نہ کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما بال العامل، اور ان کا نام نہیں لیا، اس میں قسم کھانے کا بھی جواز ملتا ہے، نیز یہ کہ جو آدمی بھی خیانت کرے گا اس کو لے کر قیامت کے دن آئے گا، نیز اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اٹھانے کے ذکر میں راوی کا مقصود یہ ہے کہ انہوں نے بذاتِ خود یہ حدیث سنی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے بچشمِ خود دیکھا تھا، مزید تأکید کے لئے سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے ساتھ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی یہ حدیث سنی تھی۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
53. باب في قَبُولِ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ:
53. مشرکین کے تحفے قبول کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2530
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا عمارة بن زاذان، عن ثابت، عن انس بن مالك"ان ملك ذي يزن اهدى إلى النبي صلى الله عليه وسلم حلة اخذها بثلاثة وثلاثين بعيرا، او ثلاث وثلاثين ناقة، فقبلها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ"أَنَّ مَلِكَ ذِي يَزَنٍ أَهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً أَخَذَهَا بِثَلَاثَةٍ وَثَلَاثِينَ بَعِيرًا، أَوْ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ نَاقَةَ، فَقَبِلَهَا".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ذی یزن کے بادشاہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک حلہ 33 اونٹوں کے عوض یا 33 اونٹنیوں کے عوض خرید کر ہدیہ بھیجا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2536]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4034]، [أبويعلی 3418]، [شرح مشكل الآثار للطحاوي 4344]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2531
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا سليمان بن بلال، عن عمرو بن يحيى، عن عباس بن سهل الساعدي، عن ابي حميد الساعدي، قال: "بعث صاحب ايلة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكتاب، واهدى له بغلة بيضاء، فكتب إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم واهدى له بردا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: "بَعَثَ صَاحِبُ أَيْلَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ، وَأَهْدَى لَهُ بَغْلَةً بَيْضَاءَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْدَى لَهُ بُرْدًا".
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا: ایلہ کے حاکم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خط بھیجا اور سفید خچر کا تحفہ بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جواب میں اس کو خط لکھا اور چادر ہدیہ میں بھیجی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2537]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1481]، [مسلم 1392]، [أحمد 424/5]، [أبوداؤد 3079، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2529 سے 2531)
شاہ ذی یزن اور حاکمِ ایلہ یوحنا بن روبہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحفہ بھیجنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تحائف کو قبول کرنا ان احادیث سے ثابت ہوا۔
لہٰذا مشرکین حکام کے تحفے سربراہِ مملکت قبول کر سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.