الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
وراثت کے مسائل کا بیان
2. باب مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ:
2. حقیقی باپ کے بجائے کسی غیر کو باپ بنانا
حدیث نمبر: 2894
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن عاصم، عن ابي عثمان، عن سعد بن ابي وقاص، وعن ابي بكرة قال شعبة: هذا اول من رمى بسهم في سبيل الله، وهذا تدلى من حصن الطائف إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم إنهما حدثا: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "من ادعى إلى غير ابيه وهو يعلم انه غير ابيه، فالجنة عليه حرام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ شُعْبَةُ: هَذَا أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَهَذَا تَدَلَّى مِنْ حِصْنِ الطَّائِفِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم إِنَّهُمَا حَدَّثَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے شعبہ نے کہا اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر چلایا، اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ وہ ہیں جو طائف کے قلعہ پر چڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اترے تھے، ان دونوں صحابیوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعوی کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2902]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4326، 4327]، [مسلم 63]، [أبوداؤد 5113]، [ابن ماجه 2610]، [أبويعلی 700، 706]، [ابن رجب 415، 416]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2893)
فرائض کے ابواب میں یہ حدیث اور بعد والی احادیث ذکر کرنے سے غالباً امام دارمی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ترکہ اور میراث حاصل کرنے کے لئے کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کو اپنا باپ ہونے کا دعویٰ کرے تو یہ بہت بڑا بھیانک گناہ ہے، ایسے شخص پر جنّت حرام ہوگی، کیوں کہ ایک تو اس نے جھوٹ کا ارتکاب کیا، پھر اپنے حقیقی باپ کی باپتا سے انکار کیا اور غیر کا مال غصب کرنا چاہا، اس لئے جنّت اس پر حرام ہے۔
بخاری شریف کی دوسری روایت [بخاري 6768] میں ہے: اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے، جس نے اپنے باپ سے منہ موڑا تو یہ کفر ہے، یعنی اس نے کفر کا ارتکاب کیا اور کافر کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2895
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن ابي معمر، عن ابي بكر الصديق، قال: "كفر بالله ادعاء إلى نسب لا يعرف، وكفر بالله تبرؤ من نسب وإن دق.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: "كُفْرٌ بِاللَّهِ ادِّعَاءٌ إِلَى نَسَبٍ لَا يُعْرَفُ، وَكُفْرٌ بِاللَّهِ تَبَرُّؤٌ مِنْ نَسَبٍ وَإِنْ دَقَّ.
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: غیر معروف نسب کا دعویٰ کرنا اللہ کے ساتھ کفر ہے، اسی طرح کسی نسب سے براءت ظاہر کرنا چاہے وہ ذرا سا ہی ہو اللہ کے ساتھ کفر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2903]»
اس اثر کی سندعلی شرط البخاری ہے، پہلے جملے کا شاہد بخاری میں موجود ہے، دوسرا جملہ بھی معنی کے لحاظ سے صحیح ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [ابن أبى شيبه 6160]، [طبراني فى الأوسط 8570]، [مجمع الزوائد 350، 352] و [الخطيب 144/3] و [ابن عدي فى الكامل 1710/7]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2894)
اپنے آپ کو کسی دوسرے خاندان یا قبیلے کی طرف منسوب کرنا، کسی قبیلے یا خاندان کا فرد ہونے کے باوجود اس سے انکار کرنا، دونوں صورتیں حرام ہیں، مثلاً کوئی بزاز، حجام یا حداد قبیلے کا فرد شرم کے مارے اپنے قبیلے سے انکار کرے یا اپنا نام کسی ایسے قبیلے کی طرف منسوب کرے جو اس کا خاندان و قبیلہ ہے ہی نہیں، جیسے قریشی، ہاشمی یا سید وغیرہ لگا کر لوگ اپنا انتساب ان معزز قبائل کی طرف کرتے ہیں تاکہ عزت و وقار ملے تو ایسا کرنا الله تعالیٰ کے ساتھ کفر ہے، جھوٹ اور افتراء ہے، اس سے بچنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
حدیث نمبر: 2896
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن زكريا ابي يحيى، قال: سمعت ابا وائل يحدث، عن ابن مسعود، نحوا منه.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَكَرِيَّا أَبِي يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، نَحْوًا مِنْهُ.
اس سند سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2904]»
اس روایت کی سند بھی علی شرط البخاری ہے، لیکن طبرانی میں یہ روایت سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ دیکھئے: [طبراني 261/17، 719]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
حدیث نمبر: 2897
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا إسحاق بن منصور السلولي، عن جعفر الاحمر، عن السري بن إسماعيل، عن قيس بن ابي حازم، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم لابايعه، فجئت وقد قبض، وابو بكر قائم في مقامه، فاطال الثناء واكثر البكاء، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "كفر بالله انتفاء من نسب وإن دق، وادعاء نسب لا يعرف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ، عَنْ جَعْفَرٍ الْأَحْمَرِ، عَنْ السَّرِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَايِعَهُ، فَجِئْتُ وَقَدْ قُبِض، وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمٌ فِي مَقَامِهِ، فَأَطَالَ الثَّنَاءَ وَأَكْثَرَ الْبُكَاءَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "كُفْرٌ بِاللَّهِ انْتِفَاءٌ مِنْ نَسَبٍ وَإِنْ دَقَّ، وَادِّعَاءُ نَسَبٍ لَا يُعْرَفُ".
قیس بن ابی حازم نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لوں، لیکن جب (مدینہ) پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام (خلیفہ) تھے، پس انہوں نے بہت مدح سرائی کی اور بہت روئے اور کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: معمولی سے نسب کا بھی انکار کرنا اللہ کے ساتھ کفر ہے، اور غیر معروف (نا معلوم) نسب کا دعویٰ کرنا بھی اللہ کے ساتھ کفر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده تالف، [مكتبه الشامله نمبر: 2905]»
اس روایت کی سند بہت ضعیف ہے، گرچہ طبرانی نے [الأوسط 2839] میں اور ہیثمی نے [مجمع الزوائد 352] میں اسے ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده تالف
حدیث نمبر: 2898
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا عبد الحميد بن بهرام، عن شهر بن حوشب، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ايما رجل ادعى إلى غير والده، او تولى غير مواليه الذين اعتقوه، فإن عليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين إلى يوم القيامة، لا يقبل منه صرف ولا عدل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا رَجُلٍ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ وَالِدِه، أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ الَّذِينَ أَعْتَقُوهُ، فَإِنَّ عَلَيْهِ لَعْنَةَ اللَّه، وَالْمَلائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة، لا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے باپ کے بجائے کسی اور (شخص) کے باپ ہونے کا دعویٰ کرے، یا اپنا مولی (آزاد کرنے والا) بنائے کسی اور کو ایسے لوگوں کے سوا جنہوں نے اسے آزاد کیا تو اس پر قیامت تک اللہ کی، اللہ کے فرشتوں کی، اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا کوئی عمل یا مال قابلِ قبول نہیں ہوگا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2906]»
اس حدیث کی سند حسن ہے، اور متن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2609، وليس فيه الجملة الاخيرة]، [أبويعلی 2540]، [ابن حبان 417]، [موارد الظمآن 1217]، [ابن أبى شيبه 727/8، 6162]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2895 سے 2898)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے اس پر لعنت ہے، اسی طرح جو شخص اپنے آپ کو ایسے آقا و سید کی طرف منسوب کرے جس نے اس کو آزاد نہیں کیا اس پر بھی اللہ تعالیٰ اور فرشتے و تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے، اور ایسے شخص کا کوئی بھی عمل، نہ عبادت، نہ صدقات و خیرات کچھ بھی قبول نہ ہو نگے۔
یہ تمام احادیث و آثار اس لئے ذکر کئے گئے کہ کوئی شخص ترکہ اور میراث حاصل کرنے کے لئے کسی غیر کو اپنا باپ نہ بنائے ورنہ اس پر لعنت ہی لعنت ہے اور وہ جہنم کا ایندھن ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل شهر بن حوشب ولكن الحديث صحيح
3. باب في زَوْجٍ وَأَبَوَيْنِ وَامْرَأَةٍ وَأَبَوَيْنِ:
3. شوہر کے ساتھ ماں باپ، اور بیوی کے ساتھ ماں باپ کے حصے کا بیان
حدیث نمبر: 2899
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا شريك، عن الاعمش، عن إبراهيم، قال: قال عبد الله: كان عمر إذا سلك بنا طريقا وجدناه سهلا، وإنه قال في زوج وابوين: "للزوج النصف، وللام ثلث ما بقي.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كَانَ عُمَرُ إِذَا سَلَكَ بِنَا طَرِيقًا وَجَدْنَاهُ سَهْلًا، وَإِنَّهُ قَالَ فِي زَوْجٍ وَأَبَوَيْنِ: "لِلزَّوْجِ النِّصْفُ، وَلِلْأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِيَ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب کسی راستے میں ہمارے ساتھ ہوتے تو ہم اس کو آسان پاتے تھے، انہوں نے شوہر اور والدین کے حصہ کے بارے میں کہا کہ شوہر کو نصف اور ماں کو باقی مال کا ثلث ملے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه إبراهيم لم يسمع عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 2907]»
اس روایت کی سند میں ابراہیم کا لقا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اس لئے منقطع ہے، لیکن دیگر طرق سے مروی ہونے کے باعث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 239/11، 11100، 11104، 11108]، [سعيد بن منصور 807]، [عبدالرزاق 19015]، [البيهقي 228/6]۔ ابن ابی شیبہ و سنن ابن منصور میں ہے «وأعطى الأب سائر ذلك وللأب الفضل» ۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2898)
صورتِ مسألہ یوں بنی کہ ایک عورت کا انتقال ہوا، اس نے اپنا شوہر اور ماں باپ چھوڑے، تو کل مال کا نصف شوہر کو، اور باقی میں سے ثلث ماں کو، اور جو باقی بچے عصبہ کے طور پر باپ کو ملے گا، اور مسألہ 6 سے ہوگا۔
شوہر . . . . . 3
ماں . . . . . 1
باپ . . . . . 2
مزید تفصیل اور وراثت کے دیگر مسائل آگے آ رہے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه إبراهيم لم يسمع عبد الله
حدیث نمبر: 2900
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا همام، حدثنا يزيد الرشك، قال: سالت سعيد بن المسيب عن رجل ترك امراته، وابويه، فقال: "قسمها زيد بن ثابت من اربعة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الرِّشْكُ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنْ رَجُلٍ تَرَكَ امْرَأَتَهُ، وَأَبَوَيْهِ، فَقَالَ: "قَسَّمَهَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ أَرْبَعَةٍ".
یزید الرشک نے کہا: میں نے سعید بن المسيب رحمہ اللہ سے پوچھا: آدمی اپنے پیچھے اپنی بیوی اور ماں باپ کو چھوڑے (تو میراث کیسے تقسیم ہوگی؟) انہوں نے کہا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس کی تقسیم چار سے کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2908]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: ا [لبيهقي 228/6]، [ابن أبى شيبه 11098]، [عبدالرزاق 19021]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2899)
یعنی یہاں مسلہ چار سے ہوگا، جس میں سے (1/4) ایک چوتھائی بیوی کا، اور باقی تین حصوں میں سے ایک تہائی (1/3) یعنی ایک حصہ ماں کا، باقی دو حصے عصبہ ہونے کی بنا پر باپ کے ہوں گے۔
بیوی . . . . . 1
ماں . . . . . 1
باپ . . . . . 2۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2901
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب: ان عثمان بن عفان قال في امراة وابوين: "للمراة الربع، وللام ثلث ما بقي".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ: أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ فِي امْرَأَةٍ وَأَبَوَيْنِ: "لِلْمَرْأَةِ الرُّبُعُ، وَلِلْأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِيَ".
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بیوی اور ماں باپ کے مسئلے میں کہا: بیوی کو ربع (چوتھائی) اور ماں کو جو بچا اس کا تہائی ملے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو المهلب هو: عمرو بن معاوية. وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2909]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالمہلب کا نام عمرو بن معاویہ ہے اور ابوقلابہ: عبداللہ بن زید ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11097]، [عبدالرزاق 19014]، [البيهقي 228/6]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2900)
اس اثر سے مذکورہ بالا مسئلہ جو سعيد بن المسیب رحمہ اللہ نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا اس کی تائید ہوتی ہے، واضح رہے کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دونوں صحابی علم الفرائض کے امام تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو المهلب هو: عمرو بن معاوية. وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد
حدیث نمبر: 2902
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عثمان بن عفان انه قال: "للمراة الربع سهم من اربعة، وللام ثلث ما بقي سهم، وللاب سهمان".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّهُ قَالَ: "لِلْمَرْأَةِ الرُّبُعُ سَهْمٌ مِنْ أَرْبَعَةٍ، وَلِلْأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِيَ سَهْم، وَلِلأَبِّ سَهْمَانِ".
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: بیوی کا حصہ چار میں سے چوتھائی ہوگا، اور ماں کے لئے چار میں سے جو بچا اس کا ثلث ایک تہائی، اور باپ کے دو حصے (یعنی دو تہائی) ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2910]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن سعيد بن منصور 10]، لیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2901)
اس سند سے مذکور بالا ایوب سختیانی رحمہ اللہ کی روایت کی تائید اور مزید توضیح ہوتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
حدیث نمبر: 2903
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا حجاج، حدثنا حماد، عن حجاج، عن عمير بن سعيد: انه سال الحارث الاعور عن امراة، وابوين، فقال مثل قول عثمان.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ: أَنَّهُ سَأَلَ الْحَارِثَ الْأَعْوَرَ عَنْ امْرَأَةٍ، وَأَبَوَيْنِ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُثْمَانَ.
عمر بن سعید نے حارث الاعور سے پوچھا بیوی اور ماں باپ کے ورثے کے بارے میں تو انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا (مذکورہ بالا) مسئلہ بیان کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة، [مكتبه الشامله نمبر: 2911]»
اس روایت کی سند حجاج بن ارطاۃ اور حارث الاعور کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن مذکورہ بالا اسانید سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ دیکھئے: [سعيد بن منصور 17]، [البيهقي فى الفرائض 288/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.