الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
وراثت کے مسائل کا بیان
حدیث نمبر: 2914
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود بن يزيد: ان ابن الزبير كان لا يورث الاخت من الاب، والام مع البنت حتى حدثه الاسود ان معاذ بن جبل جعل للبنت النصف، وللاخت النصف"، فقال: انت رسولي إلى عبد الله بن عتبة، فاخبره بذاك، وكان قاضيه بالكوفة.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ: أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ كَانَ لَا يُوَرِّثُ الْأُخْتَ مِنْ الْأَبِ، وَالْأُمِّ مَعَ الْبِنْتِ حَتَّى حَدَّثَهُ الْأَسْوَدُ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ جَعَلَ لِلْبِنْتِ النِّصْفَ، وَلِلْأُخْتِ النِّصْفَ"، فَقَالَ: أَنْتَ رَسُولِي إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَة، فَأَخْبِرْهُ بِذَاكَ، وَكَانَ قَاضِيَهُ بِالْكُوفَةِ.
اسود بن یزید سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ ابن الزبیر رضی اللہ عنہ حقیقی بہن کو بیٹی کے ساتھ وراثت میں حصہ نہ دیتے تھے یہاں تک کہ اسود نے انہیں بتایا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیٹی کو نصف حصہ اور باقی حقیقی بہن کو دیا، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم عبداللہ بن عقبہ کے پاس میرے قاصد کی حیثیت سے جاؤ، اس وقت عبداللہ بن عقبہ کوفہ میں ان کے قاضی تھے، چنانچہ اسود ان کے پاس گئے اور ان کو اس مسئلہ کا حل بتایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2922]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11118]، [ابن منصور 32]، [الحاكم 337/4، صححه و وافقه الذهبي]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2912 سے 2914)
یعنی سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی بات مان لی اور کہا کہ ہمارے قاضی کو بھی کوفہ میں جا کر یہ بات بتا دو۔
سبحان اللہ! کیسا ایک دوسرے کا احترام تھا، اور اپنی بات منوانے کا انہیں خبط نہ تھا۔
رضی اللہ عنہم و ارضاہم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2915
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا بشر بن عمر، قال: سالت ابن ابي الزناد، عن رجل ترك بنتا واختا؟ فقال:"لابنته النصف، ولاخته ما بقي"قال: وقال: اخبرني ابي، عن خارجة بن زيد: ان زيد بن ثابت كان "يجعل الاخوات مع البنات عصبة، لا يجعل لهن إلا ما بقي".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ رَجُلٍ تَرَكَ بِنْتًا وَأُخْتًا؟ فَقَالَ:"لِابْنَتِهِ النِّصْف، وَلأُخْتِهِ مَا بَقِيَ"قَالَ: وَقَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ كَانَ "يَجْعَلُ الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةً، لَا يَجْعَلُ لَهُنَّ إِلَّا مَا بَقِيَ".
بشر بن عمر نے کہا: میں نے ابن ابی الزناد سے پوچھا: ایک آدمی نے ایک لڑکی اور ایک بہن چھوڑی، تقسیم کیسے ہوگی؟ انہوں نے کہا: اس کی بیٹی کو نصف اور جو بچے گا وہ بہن کو ملے گا، اور کہا کہ میرے والد خارجہ بن زید نے خبر دی کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ قرار دیتے تھے، اور ان کو وراثت میں سے وہی دیتے جو وارثین سے باقی بچتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وقد علقه البخاري في الفرائض، [مكتبه الشامله نمبر: 2923]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ امام بخاری نے تعلیقاً اس کو روایت کیا ہے۔ [كتاب الفرائض، باب ميراث الولد من ابيه وامه...... الخ وقال: قال زيد بن ثابت]، حافظ ابن حجر نے [فتح الباري 11/12] میں کہا: سعید بن منصور نے اسے موصولاً روایت کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وقد علقه البخاري في الفرائض
5. باب في الْمُشَرَّكَةِ:
5. مشرکہ یعنی بھائیوں کی شرکت کا بیان
حدیث نمبر: 2916
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، والاعمش، عن إبراهيم: في زوج، وام، وإخوة لاب وام، وإخوة لام، قال: كان عمر، وعبد الله، وزيد يشركون، وقال عمر:"لم يزدهم الاب إلا قربا".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ: فِي زَوْجٍ، وَأُمٍّ، وَإِخْوَةٍ لِأَبٍ وَأُم، وَإِخْوَةٍ لِأُمٍّ، قَالَ: كَانَ عُمَر، وَعَبْدُ اللَّه، ِوَزَيْدٌ يُشَرِّكُونَ، وَقَالَ عُمَرُ:"لَمْ يَزِدْهُمْ الْأَبُ إِلَّا قُرْبًا".
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے شوہر، ماں اور حقیقی و مادری بھائیوں کے بارے میں مروی ہے، انہوں نے کہا: سیدنا عمر، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا زید رضی اللہ عنہم سب بھائیوں کو وراثت کے حصہ میں شریک کرتے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: باپ حقیقی بھائیوں کو مادری بھائیوں سے قریب کر دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2924]»
اس روایت کی سند صحیح علی شرط البخاری ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11145]، [عبدالرزاق 19009]، [ابن منصور 20، 21]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2914 سے 2916)
بہن بھائی تین قسم کے ہوتے ہیں: (1) حقیقی: جن کے ماں باپ ایک ہوں، (2) پدری: جن کے والد ایک اور مائیں مختلف ہوں، (3) مادری: جن کی ماں ایک اور باپ مختلف ہوں۔
اور عصبہ سے مراد وہ رشتے دار ہیں جن کے حصے کتاب و سنّت میں مقرر نہیں، مختلف حالتوں میں ورثاء سے جو بچے وہ ان کے حصے میں آتا ہے، ان ہی عصبہ میں سے بھائی ہیں جو دیگر وارثین کی موجودگی میں جو بچ جائے اس کے وارث ہوتے ہیں، بعض علماء کے نزدیک صرف حقیقی بھائی عصبہ ہو کر حصہ لیں گے، اور بعض صحابہ و تابعین کے نزدیک حقیقی، مادری اور پدری سب بھائی اس مسئلہ میں شریک ہو کر اپنا حصہ لیں گے، اسی لئے اس مسئلہ کا نام مشرکہ رکھا گیا۔
صورتِ مذکور بالا جو اثر میں بیان ہوئی ہے اس میں ایک عورت نے اپنے پیچھے شوہر اور ماں اور حقیقی بھائی اور مادری بھائی چھوڑے تو تقسیم اس طرح ہوگی:
شوہر . . . . 3 . . . . نصف
ماں . . . . 1 . . . . سدس
حقیقی بھائی . . . . 2 . . . . ثلث
مادری بھائی . . . . باقی جو بچاسب بھائیوں کے درمیان مساوی تقسیم ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
حدیث نمبر: 2917
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي: انه كان "لا يشرك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ: أَنَّهُ كَانَ "لَا يُشَرِّكُ".
حارث نے کہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب بھائیوں کو شریک نہ کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن الحارث بن عبد الله فصلنا القول فيه عند الحديث (1154) في " موارد الظمآن "، [مكتبه الشامله نمبر: 2925]»
اس اثر کی سند حسن ہے۔ اور حارث: ابن عبداللہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11154]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن الحارث بن عبد الله فصلنا القول فيه عند الحديث (1154) في " موارد الظمآن "
حدیث نمبر: 2918
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد، حدثنا سفيان، عن سليمان التيمي، عن ابي مجلز: ان عثمان كان يشرك، وعلي كان لا يشرك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ: أَنَّ عُثْمَانَ كَانَ يُشَرِّك، وَعَلِيٌّ كَانَ لا يُشَرِّكُ".
ابومجلز نے کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شریک کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ شریک نہیں کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو مجلز هو: لاحق بن حميد. ومحمد هو: ابن يوسف، [مكتبه الشامله نمبر: 2926]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابومجلز کا نام لاحق بن حمید ہے اور محمد: ابن یوسف ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11147]، [عبدالرزاق 19011]، [ابن منصور 22]، [البيهقي 255/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو مجلز هو: لاحق بن حميد. ومحمد هو: ابن يوسف
حدیث نمبر: 2919
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد، حدثنا سفيان، عن ابن ذكوان:"ان زيدا كان يشرك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ ذَكْوَانَ:"أَنَّ زَيْدًا كَانَ يُشَرِّكُ".
ابن ذکوان نے کہا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (سب بھائیوں کو) شریک کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري وابن ذكوان هو: عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 2927]»
اس روایت کی سند علی شرط البخاری صحیح ہے۔ ابن ذکوان کا نام عبداللہ ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 27]، [ابن أبى شيبه 254/11]، [عبدالرزاق 19063]، [البيهقي 256/6]، [المحلی 286/9]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري وابن ذكوان هو: عبد الله
حدیث نمبر: 2920
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا محمد، حدثنا سفيان، عن عبد الملك بن عمير، عن شريح:"انه كان يشرك.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ شُرَيْح:"أَنَّهُ كَانَ يُشَرِّكُ.
عبدالملک بن عمیر نے کہا: (قاضی) شریح شریک کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد عبد الملك بن عمير بسطنا القول فيه عند الحديث (1998) في " موارد الظمآن "، [مكتبه الشامله نمبر: 2928]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11148] و [ابن منصور 25]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد عبد الملك بن عمير بسطنا القول فيه عند الحديث (1998) في " موارد الظمآن "
حدیث نمبر: 2921
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن الصلت، حدثنا ابو شهاب، عن الحجاج، عن عبد الملك بن المغيرة، عن سعيد بن فيروز، عن ابيه: ان عمر قال في المشركة: "لم يزدهم الاب إلا قربا.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ أَبِيه: أَنَّ عُمَرَ قَالَ فِي الْمُشَرَّكَة: "لَمْ يَزِدْهُمْ الْأَبُ إِلَّا قُرْبًا.
سعید بن فیروز نے اپنے والد سے روایت کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشرکہ کے مسئلہ میں کہا: تینوں قسم کے بھائیوں میں باپ اور قربت پیدا کر دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل حجاج وهو: ابن أرطاة، [مكتبه الشامله نمبر: 2929]»
حجاج بن ارطاة کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن اوپر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول صحیح سند سے گذر چکا ہے۔ دیکھئے: رقم (2916) و [ابن أبى شيبه 255/11]، [عبدالرزاق 19009]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2916 سے 2921)
ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا زید رضی اللہ عنہم اور قاضی شریح رحمہ اللہ وغیرہ حقیقی، علاتی اخیافی یعنی مادری و پدری سب بھائیوں کو شریک کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ شریک نہ کرتے تھے۔
اور صورت مسئلہ اس طرح بنے گی کہ ایک عورت خاوند، ماں (یا دادی)، مادری بھائیوں، اور ایک یا ایک سے زیادہ حقیقی بھائیوں کو چھوڑ کر فوت ہو جائے تو اس صورت میں مسئلہ 6 سے ہوگا، جن میں سے نصف یعنی 3 حصے خاوند کے، چھٹا یعنی ایک حصہ ماں کا، اور ایک تہائی یعنی دو حصے مادری بھائیوں کو، اور حقیقی بھائیوں کو کیونکہ وہ عصبہ ہیں کچھ نہ ملے گا، اور ترکہ کے اصحاب الفروض میں مکمل ہونے کی صورت میں عصبہ محروم ہوتے ہیں۔
خاوند . . . . نصف . . . . 3
ماں . . . . سدس . . . . 1
مادری بھائی . . . . ثلث . . . . 2
حقیقی بھائی . . . . کچھ نہیں
لیکن امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کر کے حقیقی بھائی یا بھائیوں کو مادری بھائیوں کے حصہ تہائی میں شریک قرار دیا، لہٰذا سب یہی برابر تقسیم کریں گے، اور یہ ایک مخصوص صورت ہے جس میں حقیقی بھائی مادری بھائی کے مانند ہے، اور وراثت کے ایک تنہائی میں سب شریک ہوں گے، اس مسئلہ کو مشترکہ، مشترکہ حجریہ (اور عمریہ و حماریہ) بھی کہتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل حجاج وهو: ابن أرطاة
6. باب في ابْنَيْ عَمٍّ أَحَدُهُمَا زَوْجٌ وَالآخَرُ أَخٌ لأُمٍّ:
6. دو چچا زاد جن میں سے ایک شوہر یا ایک اخیافی بھائی ہو اس کا حصہ
حدیث نمبر: 2922
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي إسحاق، عن الحارث الاعور، قال: اتي عبد الله في فريضة بني عم، احدهم اخ لام، فقال: المال اجمع لاخيه لامه، فانزله بحساب، او بمنزلة الاخ من الاب والام، فلما قدم علي، سالته عنها، واخبرته بقول عبد الله، فقال:"يرحمه الله، إن كان لفقيها، اما انا فلم اكن لازيده على ما فرض الله له: سهم السدس، ثم يقاسمهم كرجل منهم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، قَالَ: أُتِيَ عَبْدُ اللَّهِ فِي فَرِيضَةِ بَنِي عَمٍّ، أَحَدُهُمْ أَخٌ لِأُمٍّ، فَقَالَ: الْمَالُ أَجْمَعُ لِأَخِيهِ لِأُمِّه، فَأَنْزَلَهُ بِحِسَابِ، أَوْ بِمَنْزِلَةِ الْأَخِ مِنْ الْأَبِ وَالْأُمِّ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ، سَأَلْتُهُ عَنْهَا، وَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ:"يَرْحَمُهُ اللَّهُ، إِنْ كَانَ لَفَقِيهًا، أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَكُنْ لِأَزِيدَهُ عَلَى مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ: سَهْمٌ السُّدُسُ، ثُمَّ يُقَاسِمُهُمْ كَرَجُلٍ مِنْهُمْ".
حارث الاعور نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بنو عم (چچا زادوں کا) مسئلہ آیا جن میں سے ایک مادری بھائی تھا، انہوں نے کہا: سارا مال اخیافی (مادری) بھائی کا ہوگا، گویا انہوں نے مادری بھائی حساب کے یا حقیقی بھائی کے درجے میں رکھا، پھر جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فیصلہ انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: اللہ ان پر رحم کرے وہ تو سمجھدار (فقیہ) تھے، لیکن میں جتنا اس صورت میں الله تعالیٰ نے فرض کیا ہے اس پر زیادہ نہ دوں گا، اس کے لئے سدس (چھاحصہ)، پھر ان میں سے ہی ایک آدمی کی طرح تقسیم ہوگی (تفصیل نیچے تشریح میں دیکھئے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن الحارث بن عبد الله الأعور فصلنا القول فيه عند الحديث (1154) في " موارد الظمآن "، [مكتبه الشامله نمبر: 2930]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حارث بن عبداللہ الاعور میں کلام ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11134]، [عبدالرزاق 19133]، [ابن منصور 128]، [دارقطني 87/4]، [البيهقي 240/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن الحارث بن عبد الله الأعور فصلنا القول فيه عند الحديث (1154) في " موارد الظمآن "
حدیث نمبر: 2923
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي: انه اتي في ابني عم احدهما اخ لام، فقيل لعلي: إن ابن مسعود كان يعطيه المال كله، فقال علي رضي الله عنه: إن كان لفقيها، ولو كنت انا "اعطيته السدس، وما بقي كان بينهم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِي: أَنَّهُ أُتِيَ فِي ابْنَيْ عَمٍّ أَحَدُهُمَا أَخٌ لِأُمٍّ، فَقِيلَ لِعَلِيٍّ: إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يُعْطِيهِ الْمَالَ كُلَّهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنْ كَانَ لَفَقِيهًا، وَلَوْ كُنْتُ أَنَا "أَعْطَيْتُهُ السُّدُسَ، وَمَا بَقِيَ كَانَ بَيْنَهُمْ".
حارث الاعور نے روایت کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بنو عم کا مسئلہ لایا گیا جن میں سے ایک اس کا مادری بھائی تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کل مال کا وارث اسی کو بنادیا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تو فقیہ ہیں لیکن میں ان کی جگہ ہوتا تو اس کو سدس دیتا اور جو بچے گا پھر ان سب بنی عم کے درمیان تقسیم کرتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2931]»
اس روایت کی سند بھی حسن ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2921 سے 2923)
اس مسئلہ کی صورت اس طرح بنے گی کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، پھر اس نے دوسری عورت سے شادی کی اس سے بھی ایک لڑکا ہوا، پھر اس دوسری کو اس نے طلاق دیدی اور اس نے پہلے شوہر کے بھائی سے شادی کر لی اور اس سے بھی ایک لڑکا پیدا ہوا جو اس کا مادری بھائی بھی ہوا اور چچا کا بیٹا بھی ہوا، پھر وہ بنو عم کو چھوڑ کر وفات پا گیا جن میں سے ایک مادری بھائی تھا، اس صورت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس اخیافی بھائی کو صرف ایک سدس کا وارث قرار دیا، کیوں کہ فرمانِ الٰہی ہے: « ﴿وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ .....﴾ [النساء: 12] » بخاری شریف میں تعلیقاً یہ مسئلہ اس طرح ہے کہ شوہر کا حصہ نصف اور مادری بھائی کا سدس اور جو بچے گا وہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر دیا جائے گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہی فیصلہ تھا جو اقرب الی الصواب اور یہی جمہور کا مسلک ہے، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کہا، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو کہا کہ سارا مال مادری بھائی کا ہے اس کا مطلب یہ کہ شوہر کو آدھا حصہ دینے کے بعد باقی جو بچا سب مادری (ماں جائے) بھائی کا ہے، یہ قول مرجوح ہے۔
اور حساب کا مطلب یہ ہے کہ جو حصہ اس کے لئے اللہ نے فرض کیا ہے۔
قاضی شریح رحمہ اللہ سے بھی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق مروی ہے جن سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مناظرہ کیا اور ان کو قائل کر لیا، اس لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہی راجح اور قابلِ قبول ہے، واللہ اعلم۔
تفصیل کے لئے [التعليق المغني على سنن الدار قطني 87/4، 240/6] ملاحظہ کیجئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن وهو مكرر سابقه

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.