عامر الشعبی سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیوی اور ماں باپ کے حق وراثت کے بارے میں کہا: بیوی کے لئے کل مال کے چار میں سے چوتھا حصہ اور جو بچے اس کا ایک تہائی ماں کے لئے، اس سے جو بچا وہ باپ کا حصہ ہے۔ (یعنی: بیوی کا 1۔ ماں کا 1۔ اور باپ کو دو ملیں گے «كما مر آنفا»)
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى، [مكتبه الشامله نمبر: 2913]» اس روایت کی سند میں محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلی ضعیف ہیں، اور شعبی نے بھی امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سنا نہیں، لیکن مذکورہ بالا طرق وآ ثار کی اس سے تائید ہوتی ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 15]، [ابن أبى شيبه 11099]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن الاعمش، ومنصور، عن إبراهيم، عن عبد الله، قال: كان عمر إذا سلك بنا طريقا اتبعناه فيه، وجدناه سهلا، وإنه "قضى في امراة وابوين من اربعة: فاعطى المراة الربع، والام ثلث ما بقي، والاب سهمين.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَمَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ إِذَا سَلَكَ بِنَا طَرِيقًا اتَّبَعْنَاهُ فِيهِ، وَجَدْنَاهُ سَهْلًا، وَإِنَّهُ "قَضَى فِي امْرَأَةٍ وَأَبَوَيْنِ مِنْ أَرْبَعَةٍ: فَأَعْطَى الْمَرْأَةَ الرُّبُع، وَالأُمَّ ثُلُثَ مَا بَقِيَ، وَالْأَبَ سَهْمَيْنِ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جس طرف بھی جاتے اور ہم ان کی اتباع کرتے تو اس مسئلہ کو آسان پاتے تھے، انہوں نے بیوی اور ماں باپ کے ترکے میں فیصلہ کیا کہ چار سے مسئلہ ہوگا، چوتھائی بیوی کو، ماں کو ثلث (تہائی) جو بچا اس سے، اور باقی جو بچا دو حصے یہ باپ کے ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه غير أن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2914]» اس روایت کی سند میں بھی انقطاع ہے، لیکن یہ اثر صحیح ہے، تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 6] و [عبدالرزاق 19015]۔ نیز دیکھئے: رقم (2905) جو ابھی گذرا ہے
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه غير أن الحديث صحيح
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے اس سند سے بھی مثلِ سابق مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وعيسى هو: ابن أبي عزة، [مكتبه الشامله نمبر: 2915]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ عیسیٰ کا نام ابن ابی عزہ ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 19017]۔ نیز رقم (2906)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وعيسى هو: ابن أبي عزة
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے: الله تعالیٰ مجھے نہ دکھائے کہ میں ماں کو باپ پر فوقیت دوں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات إلا أنه منقطع المسيب بن رافع لم يسمع عبد الله بن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 2916]» اس سند کے رجال ثقات ہیں، لیکن سند میں انقطاع ہے۔ مسیّب بن رافع نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا لیکن یہ اثر صحیح ہے جیسا کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11107]، [عبدالرزاق 19019] ، [الحاكم 336/4، ووافقه الذهبي على تصحيحه]
وضاحت: (تشریح احادیث 2902 سے 2908) مطلب اس اثر کا یہ ہے کہ مذکورہ بالا مسئلہ میں باپ کو عصبہ ہونے کی وجہ سے دو حصے ملیں گے، اور ماں کو الله تعالیٰ کے مقرر کردہ حصے میں ایک حصہ یعنی ثلث ہی ملے گا، الله تعالیٰ نہ کرے کہ میں ماں کو باپ پر فضیلت دے کر ماں کو زیادہ حصہ دلاؤں، یعنی ماں کو کل مال کا ایک تہائی دینے سے ماں کو دو ملیں گے اور باپ کو ایک حصہ ملے گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہی کہتے تھے، اس لیے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا ردّ کیا۔ والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات إلا أنه منقطع المسيب بن رافع لم يسمع عبد الله بن مسعود
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سعيد بن عامر، انبانا شعبة، عن الحكم، عن عكرمة، قال: "ارسل ابن عباس إلى زيد بن ثابت: اتجد في كتاب الله للام ثلث ما بقي؟ فقال زيد: إنما انت رجل تقول برايك، وانا رجل اقول برايي".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: "أَرْسَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَتَجِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ لِلْأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِي؟ فَقَالَ زَيْدٌ: إِنَّمَا أَنْتَ رَجُلٌ تَقُولُ بِرَأْيِكَ، وَأَنَا رَجُلٌ أَقُولُ بِرَأْيِي".
عکرمہ نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اللہ کی کتاب (قرآن پاک) میں ماں کے لئے جو بچ جائے اس کا ثلث پاتے ہو؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آپ بھی آدمی ہیں، اپنی رائے سے اس بارے میں فتویٰ دیتے ہیں اور میں بھی آدمی ہوں اپنی رائے سے کہتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحكم هو: ابن عتيبة، [مكتبه الشامله نمبر: 2917]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11110]، [عبدالرزاق 19020]، [البيهقي 228/6] و [المحلی 260/9]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحكم هو: ابن عتيبة
عطاء رحمہ اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں نے خاوند کے ساتھ ماں باپ کے مسئلہ میں کہا: خاوند کو نصف اور ماں کے لئے کل مال کا ثلث اور جو بچے وہ باپ کا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2918]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ابن حزم نے [المحلی 260/9] میں عبدالرزاق سے صحیح سند سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2908 سے 2910) یعنی کل مال کے چھ حصے، تین حصے شوہر کے، دو ماں کے ایک تہائی کل مال کا، اور ایک حصہ باپ کا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے (اس مسئلہ میں) کہا: ماں کے لئے کل مال کا ایک تہائی ہے چاہے بیوی کے ساتھ ماں باپ ہوں یا شوہر کے ساتھ ماں باپ ہوں۔ یعنی: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی انہوں نے اس مسئلہ میں تائید کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع إبراهيم بن يزيد النخعي لم يدرك عليا، [مكتبه الشامله نمبر: 2919]» اس روایت کی سند منقطع ہے کیوں کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں۔ دیکھئے: [المحلى 260/9]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع إبراهيم بن يزيد النخعي لم يدرك عليا
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا: بیوی اور ماں باپ کے مسئلہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اہلِ قبلہ کی مخالفت کی ہے کیوں کہ انہوں نے ماں کے لئے کل مال کا ایک تہائی حصہ قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 2920]» اس روایت کے رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11105]، [عبدالرزاق 19018]، [الفسوى فى المعرفة 109/3]، [البيهقي فى الفرائض 228/6] و [ابن حزم فى المحلی 260/9]۔ اور اس پر انہوں نے شدید انکار کیا جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مخالف ذکر کیا، انہوں نے ثوری عن رجل عن فضیل سے اس کو روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2910 سے 2912) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ماں کے لئے کل مال کا ایک تہائی حصہ خاص کیا۔ دیگر تمام صحابہ و تابعین اس مسئلہ میں بیوی یا شوہر کے بعد جو بچے اس میں سے ایک تہائی ماں کے لئے قرار دیتے ہیں، اور جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اثر گذرا ہے یہ مسألہ اجتہادی تھا، اس لئے کسی نے کل مال کا ایک تہائی ماں کے لئے خاص کیا اور کسی نے دونوں کے حصے کے بعد جو بچے اس میں سے ایک تہائی خاص کیا، اس مسئلہ کو مسئلۂ عمریہ کہتے ہیں اور راجح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ہی مسلک ہے۔
اسود بن یزید نے کہا: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یمن میں لڑکی اور بہن کے بارے میں فیصلہ دیا اور بنت کو نصف اور باقی مال (عصبہ کے طور پر) بہن کو دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري إلى الأسود، [مكتبه الشامله نمبر: 2921]» اس روایت کی سند اسود تک امام بخاری کی شرط پر ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6734، 6741]، [أبوداؤد 2893]، [ابن أبى شيبه 11115]، [عبدالرزاق 19040]، [ابن منصور 30]، [البيهقي 233/6]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري إلى الأسود