الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الشهاب کل احادیث 1499 :حدیث نمبر
مسند الشهاب
احادیث 1 سے 200
حدیث نمبر: 11
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
11 - وانا ابو محمد، ثنا ابن الاعرابي، ثنا احمد، هو ابن سعيد، ثنا إسماعيل، حدثني إبراهيم، عن ابيه، عن وهب، قال: سالت جابرا اقال النبي صلى الله عليه وسلم «الحرب خدعة» ؟ قال: نعم11 - وأنا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا أَحْمَدُ، هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، ثنا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبٍ، قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا أَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْحَرْبُ خُدْعَةٌ» ؟ قَالَ: نَعَمْ
11-وہب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنگ چال بازی (کا نام) ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «صحيح، تهذيب الاثار للطبري: 4/ 122: 198»
حدیث نمبر: 12
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
12 - وانا ابو محمد، ثنا ابن الاعرابي، ثنا الحسن بن مكرم، ثنا ابو عاصم، انا. نا ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الحرب خدعة» 12 - وأنا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ، ثنا أَبُو عَاصِمٍ، أنا. نا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَرْبُ خُدْعَةٌ»
12- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگ چال بازی (کا نام) ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أحمد 297/3» ابوزبیر مدلس کا عنعنہ ہے۔

وضاحت:
تشریح - جنگ چال بازی کا نام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنگ میں افرادی قوت، اسلحہ کی بہتات یا بہادری اتنی کارآمد و مفید نہیں جتنی چال بازی مفید ہے۔ آج کے مہذب الفاظ میں اسے حکمت عملی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ چال بازی یا حکمت عملی ہی کا کرشمہ ہوتا ہے کہ دشمن کی بڑی سے بڑی فوج بھی میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ گویا چال بازی ایک اہم جنگی ہتھیار یا جنگ کا اہم رکن ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے: «الحج عرفة» حج عرفہ کا ہے۔ [نسائي: 3047]
یعنی جس طرح وقوف عرفہ حج کا انتہائی اہم رکن ہے کہ اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہو سکتا، اسی طرح چال بازی بھی جنگ کا اہم ہتھیار اور حصہ ہے اس کے بغیر جنگ کبھی بھی نہیں جیتی جا سکتی۔
7. النَّدَمُ تَوْبَةٌ
7. ندامت توبہ ہے
حدیث نمبر: 13
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
13 - اخبرنا ابو محمد عبد الرحمن بن عمر التجيبي، ابنا ابو طاهر احمد بن محمد المدني، ثنا يونس بن عبد الاعلى، ثنا سفيان هو ابن عيينة، عن عبد الكريم الجزري، قال: اخبرني زياد بن ابي مريم، عن عبد الله بن معقل، قال: دخلت مع ابي على عبد الله بن مسعود فقال له: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الندم توبة» 13 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، أبنا أَبُو طَاهِرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، ثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ثنا سُفْيَانُ هُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ لَهُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «النَّدَمُ تَوْبَةٌ»
13-عبد الله بن معقل کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ان کو کہا: بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ندامت توبہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح، أخرجه ابن ماجه: 4252، أحمد: 1/376، الحميدي: 105»
حدیث نمبر: 14
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
14 - انا عبد الرحمن بن عمر البزار، انا احمد بن إبراهيم بن جامع، ثنا علي بن عبد العزيز، ثنا ابو نعيم الفضل بن دكين، ثنا سفيان يعني الثوري، عن عبد الكريم، عن زياد بن ابي مريم، عن عبد الله بن معقل، قال: سال ابي عبد الله بن مسعود سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الندم توبة» ؟ قال: نعم14 - أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الْبَزَّارُ، أنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَامِعٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، ثنا سُفْيَانُ يَعْنِي الثَّوْرِيَّ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: سَأَلَ أَبِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «النَّدَمُ تَوْبَةٌ» ؟ قَالَ: نَعَمْ
14-عبدالله بن معقل کہتے ہیں کہ میرے والد نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ندامت توبہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح، أخرجه ابن ماجه: 4252، أحمد: 1/376، الحميدي: 105»

وضاحت:
تشریح - انسان سے گناہ اور غلطی کا صدور کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ تاہم اس پر ڈٹ جانا اور توبہ و استغفار نہ کرنا یقیناً خطرناک عمل ہے۔ خوش قسمت وہی ہے جو گناہ کے بعد توبہ کر لے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ توبہ ہر گناہ سے واجب ہے اگر اس گناہ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے، کسی آدمی کا حق اس سے متعلق نہیں تو ایسے گناہ سے توبہ کی قبولیت کے لیے تین شرطیں ہیں:
➊ اس گناہ کو چھوڑ دے جس سے وہ توبہ کر رہا ہے۔
➋ اس پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرے۔
➌ پختہ ارادہ کرے کہ آئندہ کبھی یہ گناہ نہیں کروں گا۔
اگر ان تین شرطوں میں سے کوئی بھی شرط مفقود ہوگی تو توبہ صحیح نہیں ہوگی اور اگر گناہ کا تعلق کسی انسان سے ہے تو اس کے لیے چار شرطیں ہیں، تین وہی جو ابھی مذکور ہوئی اور چوتھی یہ ہے کہ:
➍ وہ صاحب حق کا حق ادا کرے یا صاحب حق اسے معاف کر دے۔
مذکورہ حدیث میں توبہ کی دوسری شرط ندامت و شرمندگی کی اہمیت بیان ہوئی ہے کہ گناہ پر ندامت کا اظہار بھی ایک قسم کی توبہ ہی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ صرف ندامت ہی کو کافی سمجھے اور باقی باتوں سے غفلت برتے، ایسا نہیں۔ بلکہ خالص توبہ کے لیے اوپر بیان کر دو شرطوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم
8. الْجَمَاعَةُ رَحْمَةٌ، وَالْفُرْقَةُ عَذَابٌ
8. جماعت رحمت اور افتراق عذاب ہے
حدیث نمبر: 15
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
15 - اخبرنا ابو سعد احمد بن محمد الماليني، ابنا عبد الله بن عدي الحافظ، ثنا الحسن بن حباب، هو ابن مخلد، ثنا منصور بن ابي مزاحم، ثنا ابو وكيع، عن ابي عبد الرحمن، عن الشعبي، عن النعمان بن بشير، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال على المنبر: «الجماعة رحمة، والفرقة عذاب» 15 - أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الْمَالِينِيُّ، أبنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ حُبَابٍ، هُوَ ابْنُ مَخْلَدٍ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ، ثنا أَبُو وَكِيعٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «الْجَمَاعَةُ رَحْمَةٌ، وَالْفُرْقَةُ عَذَابٌ»
15-سيدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا: جماعت رحمت اور افتراق عذاب ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أحمد 4/ 375- السنة لابن ابي عاصم: 93»

وضاحت:
تشریح - اس حدیث میں اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت کی فضیلت جبکہ افتراق اور گروہ بندی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی اجتماعیت کو رحمت اور گروہ بندی کو عذاب قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے [آل عمران: 103]
اور سب مل کر اللہ کی رسی کو تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو۔
مگر افسوس کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بھول گئے ہیں۔ ہماری صفوں سے اتفاق و اتحاد ختم ہو چکا ہے۔ ہم مذہبی اور سیاسی ہر دو لحاظ سے فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، جس کا فائدہ اغیار اٹھا رہے ہیں۔ اسے عذاب الہی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ آج دنیا میں سب سے سستا خون مسلمان کا ہے، مسلمان غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں، ہر جگہ محکوم ومظلوم، بے کس اور بے بس ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، اگر ہم متفق و متحد ہو کر اللہ کی رسی یعنی کتاب وسنت کو تھامے رکھتے تو اللہ کی رحمت ہوتی اور دشمن کبھی بھی ہماری طرف میلی نظر سے دیکھ پاتا۔
نوٹ: ایک روایت میں ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ مگر یہ روایت موضوع ہے۔ [ديكهئے: السلسلة الضعيفة: 11]
9. الْأَمَانَةُ غِنًى
9. امانت مالداری ہے
حدیث نمبر: 16
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
16 - اخبرنا حمزة بن علي بن محمد الاسدي، ابنا احمد بن عمر بن محمد الاصبهاني، ابنا عبد الله بن محمد بن زياد، ثنا احمد بن يوسف السلمي، ثنا عمر بن حفص بن غياث، ثنا ابي، ثنا الاعمش، عن يزيد الرقاشي، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الامانة غنى» 16 - أَخْبَرَنَا حَمْزَةُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَسَدِيُّ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، أبنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، ثنا أَبِي، ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْأَمَانَةُ غِنًى»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: امانت مالداری ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، یزید الرقاشی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے»
10. الدِّينُ النَّصِيحَةُ
10. دین خیر خواہی (کا نام) ہے
حدیث نمبر: 17
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
17 - اخبرنا ابو محمد عبد الرحمن بن عمر التجيبي، ثنا ابو سعيد بن الاعرابي، ثنا عبد الله هو ابن ايوب، ثنا سفيان بن عيينة، عن سهيل بن ابي صالح، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن تميم الداري، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الدين النصيحة، الدين النصيحة» ، قالوا: لمن يا رسول الله؟، قال: «لله ولكتابه ولنبيه ولائمة المسلمين وعامتهم» 17 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، ثنا أَبُو سَعِيدِ بْنُ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ أَيُّوبَ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ، الدِّينُ النَّصِيحَةُ» ، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: «لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِنَبِيِّهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی (کا نام) ہے، دین خیر خواہی (کا نام)ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے نبی کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ و حکام اور عام مسلمانوں کے لیے۔

تخریج الحدیث: «صحيح، أخرجه مسلم 55، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4574، 4575، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4202، 4203، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4944، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16754، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17214، والحميدي فى «مسنده» برقم: 859، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7164»
حدیث نمبر: 18
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
18 - انا عبد الرحمن بن عمر التجيبي، انا احمد بن إبراهيم بن جامع، ثنا علي بن عبد العزيز، ثنا إسحاق بن إسماعيل الطالقاني، ثنا سفيان بن عيينة، قال: كان عمرو بن دينار حدثناه، عن القعقاع بن حكيم، عن ابي صالح، عن عطاء بن يزيد، قال سفيان: فلقيت ابنه سهيلا فقلت: سمعت من ابيك حديثا حدثناه عمرو بن دينار، عن القعقاع، عن ابي صالح، قال: سمعت من الذي حدث ابي عنه، سمعت عطاء بن يزيد الليثي، يحدث عن تميم الداري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الدين النصيحة» ثلاثا، قالوا: لمن يا رسول الله؟، قال: «لله ولكتابه ولنبيه ولائمة المسلمين وعامتهم» ورواه مسلم، عن محمد بن عباد المكي، ثنا سفيان قال: قلت لسهيل إن عمرا حدثنا عن القعقاع، عن ابيك قال: ورجوت ان يسقط عني رجلا، فقال: سمعته من الذي سمعه عنه ابي كان صديقا له بالشام، ثم حدثنا سفيان، عن سهيل، عن عطاء بن يزيد، عن تميم الداري ان النبي صلى الله عليه وسلم قاله18 - أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَامِعٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ حَدَّثَنَاهُ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ سُفْيَانُ: فَلَقِيتُ ابْنَهُ سُهَيْلًا فَقُلْتُ: سَمِعْتُ مِنْ أَبِيكَ حَدِيثًا حَدَّثَنَاهُ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مِنَ الَّذِي حَدَّثَ أَبِي عَنْهُ، سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَزِيدَ اللَّيْثِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ» ثَلَاثًا، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: «لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِنَبِيِّهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ» وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ الْمَكِّيِّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: قُلْتُ لِسُهَيْلٍ إِنَّ عَمْرًا حَدَّثَنَا عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِيكَ قَالَ: وَرَجَوْتُ أَنْ يُسْقِطَ عَنِّي رَجُلًا، فَقَالَ: سَمِعْتُهُ مِنَ الَّذِي سَمِعَهُ عَنْهُ أَبِي كَانَ صَدِيقًا لَهُ بِالشَّامِ، ثُمَّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَهُ
امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے قعقاع بن حكيم عن ابی صالح عن عطاء بن یزید کی سند سے انہیں حدیث بیان کی۔ امام سفیان کہتے ہیں: پھر میں ان (ابوصالح) کے بیٹے سہیل سے ملا۔ میں نے کہا: کیا آپ نے اپنے والد سے وہ حدیث سنی ہے جو عمرو بن دینار نے قعقاع بن حکیم ابی صالح کی سند سے ہمیں بیان کی ہے ؟ انہوں نے کہا: میں نے وہ حدیث اس سے سنی ہے جس نے میرے والد کو بیان کی تھی، میں نے عطاء بن یز ید لیشی کو تمیم داری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے سنا تھا انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ اسلام نے تین بار فرمایا: دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے نبی کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ و حکام اور عام مسلمانوں کے لیے ۔
اس حدیث کو امام مسلم نے بھی محمد بن عباد مکی سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: ہمیں سفیان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سہیل سے کہا: بے شک عمرو نے قعقاع سے اس نے آپ کے والد کے حوالے سے ہمیں یہ حدیث بیان کی ہے تو انہوں نے کہا: مجھے امید ہے کہ (میری سند میں) مجھ سے ایک آدمی (کا واسطہ) کم ہو جائے گا پھر انہوں نے کہا: میں نے یہ حدیث اس شخص سے سنی جس سے میرے والد نے سنی تھی، شام میں ان کا ایک دوست تھا (سارا واقعہ بیان کیا) پھر امام سفیان نے یہ حدیث سہیل عن عطاء بن يزيد عن تمیم الداری کی سند سے ہمیں بیان کی کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ۔

تخریج الحدیث: «صحيح، أخرجه مسلم 55، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4574، 4575، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4202، 4203، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4944، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16754، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17214، والحميدي فى «مسنده» برقم: 859، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7164»

وضاحت:
وضاحت۔۔۔۔۔ عطاء بن یزید لیثی ابوصالح کے دوست تھے، وہ ملک شام سے ان کے پاس آتے جاتے رہتے تھے ایک مرتبہ وہ آئے اور انہوں نے سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث دین خیر خواہی کا نام ہے ۔ انہیں سنائی۔ ابوصالح کے بیٹے سہیل بن ابی صالح نے بھی ان سے یہ حدیث سن لی، بعد ازاں ابوصالح نے اپنے شاگر د قعقاع بن حکیم کو، انہوں نے عمرو بن دینار اور انہوں نے امام سفیان عیینہ کو یہ حدیث سنا دی۔ امام سفیان بن عیینہ نے سہیل سے اس کا ذکر کیا کہ شاید انہوں نے بھی اپنے والد سے یہ حدیث سنی ہوتا کہ میری سند عالی ہو جائے تب سہیل نے انہیں کہا: کہ میں آپ کو اس کی عالی سند بتا تا ہوں وہ یہ کہ جس شخص سے میرے والد نے یہ حدیث سنی ہے میں نے بھی اس سے سنی ہے پھر انہوں نے اپنی سند سے یہ حدیث بیان کی۔ گویا امام سفیان بن عیینہ تک یہ حدیث دو سندوں سے پہنچی ہے:
➊ - عمرو بن دينار عن القعقاع بن حكيم عن ابي صالح عن عطاء بن یزید۔۔۔
➋ سہیل عن عطاء بن یزید
پہلی سند نازل ہے ۔ اصطلاح میں نازل سند ا سے کہتے ہیں جس میں راویوں کی تعداد دوسری سند کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ دوسری سند عالی ہے ۔ عالی سند وہ ہوتی ہے جس میں راویوں کی تعداد دوسری سند کے مقابلے میں کم ہو۔ حضرات محدثین اس کوشش میں رہتے تھے کہ سند میں کم سے کم راوی ہوں تا کہ سند عالی ہو جیسا کہ مذکورہ روایت میں امام سفیان بن عیینہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے سند عالی کرنے کی غرض سے ابوصالح سے ذکر کیا تھا۔
حدیث نمبر: 19
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
19 - واناه ابو محمد بن النحاس، ثنا ابن الاعرابي، ثنا إبراهيم، هو ابن فهد، ثنا ابو همام الدلال، ثنا هشام بن سعد، عن سعد، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الدين النصيحة» . قيل: لمن يا رسول الله؟، قال: «لله ولرسوله ولكتابه ولائمة المسلمين وعامتهم» 19 - وَأَنَاهُ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ النَّحَّاسِ، ثنا ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا إِبْرَاهِيمُ، هُوَ ابْنُ فَهْدٍ، ثنا أَبُو هَمَّامٍ الدَّلَّالُ، ثنا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ» . قِيلَ: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: «لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی (کا نام) ہے ۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ و حکام اور عام مسلمانوں کے لیے ۔

تخریج الحدیث: «صحيح، سنن دارمي: 2754، مكارم الاخلاق للطبراني: 66، وانظر الحديث السابق»

وضاحت:
تشریح -اس حدیث میں دین اسلام کو خیر خواہی کہا: گیا ہے یعنی ہر کسی کی خیر خواہی کرنا، ہر حق دار کے حق کی حفاظت کرنا۔ چنانچہ اللہ تعالی سے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا، اس کی تو حید کو ماننا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ کتاب اللہ کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا۔ نبی اور رسولوں سے خیر خواہی کا مطلب ہے کہ ان پر ایمان لانا، ان کی عزت و تعظیم کرنا اور ان کی پیروی کرنا۔ آئمہ مسلمین کی خیر خواہی یہ ہے کہ ہمیشہ ان کی راہنمائی کرتے رہنا، انہیں اچھے مشورے دینا اور جائز امور میں ان کی اطاعت کرنا۔ جبکہ عام مسلمانوں کی خیر خواہی اس طرح ہے کہ ان کے دینی اور دنیادی نفع و نقصان کا خیال رکھنا اور جو حقوق ان کے بتائے گئے ہیں وہ ادا کرتے رہنا۔
11. الْحَسَبُ الْمَالُ، وَالْكَرَمُ التَّقْوَى
11. حسب مال اور بزرگی تقویٰ ہے
حدیث نمبر: 20
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
20 - اخبرنا عبد الرحمن بن عمر الكندي، ثنا يعقوب بن مبارك، ثنا إسماعيل بن محمود بن نعيم، ثنا الحسين بن عيسى البسطامي، ثنا علي بن الحسن بن شقيق، ثنا الحسين بن واقد، عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الحسب المال والكرم التقوى» 20 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الْكِنْدِيُّ، ثنا يَعْقُوبُ بْنُ مُبَارَكٍ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَحْمُودِ بْنِ نُعَيْمٍ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْبِسْطَامِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَبُ الْمَالُ وَالْكَرَمُ التَّقْوَى»
سیدنا برید ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسب مال ہے اور بزرگی تقویٰ ہے ۔

تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، عبدالرحمن بن عمر کندی، یعقوب بن مبارک اور اسماعیل بن محمود بن نعیم کے حالات نہیں ملے۔

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.