-" كان ينهانا عن الإرفاه، قلنا: وما الإرفاه؟ قال: الترجل كل يوم".-" كان ينهانا عن الإرفاه، قلنا: وما الإرفاه؟ قال: الترجل كل يوم".
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک صحابی مصر میں عامل تھا، اس کے بال بکھرے ہوئے، بلکہ بہت بکھرے ہوئے تھے، اس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوسرا صحابی آیا اور اسے کہا: کیا وجہ ہے کہ تیرے بال بہت زیادہ بکھرے ہوئے ہیں، حالانکہ تو امیر بھی ہے؟ انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں «اِرْفَاه» سے منع فرمایا۔ ہم نے پوچھا: «اِرْفَاه» سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: روزانہ کنگھی کرنا۔
-" البذاذة من الإيمان. يعني التقشف".-" البذاذة من الإيمان. يعني التقشف".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شکستہ حالی بھی ایمان میں سے ہے۔“ یعنی قصداً راحت و لذت اور خوشحالی کو ترک کرنا۔
-" كان يمنع اهله الحلية والحرير ويقول: إن كنتم تحبون حلية الجنة وحريرها فلا تلبسوها في الدنيا".-" كان يمنع أهله الحلية والحرير ويقول: إن كنتم تحبون حلية الجنة وحريرها فلا تلبسوها في الدنيا".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کنبے کو زیور اور ریشم سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے: ”اگر تم جنت کا زیور اور ریشم پہننا پسند کرتے ہو، تو پھر دنیا میں نہ پہنا کرو۔“
-" من ترك اللباس تواضعا لله، وهو يقدر عليه، دعاه الله يوم القيامة على رءوس الخلائق حتى يخير من اي حلل الإيمان شاء يلبسها".-" من ترك اللباس تواضعا لله، وهو يقدر عليه، دعاه الله يوم القيامة على رءوس الخلائق حتى يخير من أي حلل الإيمان شاء يلبسها".
سیدنا معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تواضع کے طور پر عمدہ لباس پہننا چھوڑ دیا، درآن حالیکہ وہ اس کی طاقت رکھتا تھا، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے سامنے اسے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا پسند کرے، پہن لے۔
-" بينما رجل في حلة له وهو ينظر في عطفيه إذ خسف الله به، فهو يتجلجل فيها إلى يوم القيامة".-" بينما رجل في حلة له وهو ينظر في عطفيه إذ خسف الله به، فهو يتجلجل فيها إلى يوم القيامة".
کریب کہتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی بینائی ختم ہو جانے کے بعد ابولہب کی گلیوں میں ان کی راہنمائی کرتا تھا، ایک دن انہوں نے کہا: میں نے اپنے باپ (سیدنا عباس رضی اللہ عنہما) سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ایک آدمی عمدہ پوشاک (زیب تن کرکے) چل رہا تھا اور خود پسندی کا اظہار کر رہا تھا، اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کو دھنسا دیا، اب وہ قیامت تک اس میں دھنستا جائے گا۔“
-" إن الله إذا انعم على عبد نعمة يحب ان يرى اثر نعمته على عبده".-" إن الله إذا أنعم على عبد نعمة يحب أن يرى أثر نعمته على عبده".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جب اللہ تعالیٰ بندے پر کوئی نعمت کرتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھے۔“
-" إن الله عز وجل إذا انعم على عبد نعمة يحب ان يرى اثر النعمة عليه ويكره البؤس والتباؤس ويبغض السائل الملحف ويحب الحيي العفيف المتعفف".-" إن الله عز وجل إذا أنعم على عبد نعمة يحب أن يرى أثر النعمة عليه ويكره البؤس والتباؤس ويبغض السائل الملحف ويحب الحيي العفيف المتعفف".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بے شک اللہ تعالیٰ جب بندے پر نعمت کرتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھے اور وہ غربت و بدحالی اور تنگ دستی ظاہر کرنے کو ناپسند کرتا ہے اور وہ اصرار کے ساتھ سوال کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے اور حیادار، پاکدامن اور پاکباز کو پسند کرتا ہے۔“