الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
حدیث نمبر: 712
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا بشر بن المفضل، عن سعيد بن يزيد ابي مسلمة، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: " كنا نسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان، فما يعيب على الصائم صومه ولا على المفطر إفطاره ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَمَا يَعِيبُ عَلَى الصَّائِمِ صَوْمَهُ وَلَا عَلَى الْمُفْطِرِ إِفْطَارَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں سفر کرتے تو نہ آپ روزہ رکھنے والے کے روزہ رکھنے پر نکیر کرتے اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والے کے روزہ نہ رکھنے پر۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 15 (1116)، سنن النسائی/الصیام 59 (2312)، (تحفة الأشراف: 4344) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 713
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا الجريري ح. قال: وحدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبد الاعلى، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: " كنا نسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمنا الصائم ومنا المفطر فلا يجد المفطر على الصائم، ولا الصائم على المفطر، فكانوا يرون انه من وجد قوة فصام فحسن، ومن وجد ضعفا فافطر فحسن ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ح. قَالَ: وحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: " كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ فَلَا يَجِدُ الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ، وَلَا الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، فَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ مَنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَحَسَنٌ، وَمَنْ وَجَدَ ضَعْفًا فَأَفْطَرَ فَحَسَنٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے تھے تو ہم میں سے بعض روزے سے ہوتے اور بعض روزے سے نہ ہوتے۔ تو نہ تو روزہ نہ رکھنے والا رکھنے والے پر غصہ کرتا اور نہ ہی روزہ رکھنے والے نہ رکھنے والے پر، ان کا خیال تھا کہ جسے قوت ہو وہ روزہ رکھے تو بہتر ہے، اور جس نے کمزوری محسوس کی اور روزہ نہ رکھا تو بھی بہتر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 15 (1116)، سنن النسائی/الصیام 59 (2311)، (تحفة الأشراف: 4325) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (3/45، 74، 87) من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح
20. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ لِلْمُحَارِبِ فِي الإِفْطَارِ
20. باب: مجاہد اور غازی کے لیے روزہ توڑ دینے کی رخصت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Permission For The One At War To Break The Fast
حدیث نمبر: 714
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن يزيد بن ابي حبيب، عن معمر بن ابي حيية، عن ابن المسيب، انه ساله عن الصوم في السفر، فحدث ان عمر بن الخطاب، قال: " غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان غزوتين يوم بدر، والفتح، فافطرنا فيهما ". قال: وفي الباب عن ابي سعيد. قال ابو عيسى: حديث عمر لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم " انه امر بالفطر في غزوة غزاها ". وقد روي عن عمر بن الخطاب نحو هذا، إلا انه رخص في الإفطار عند لقاء العدو، وبه يقول بعض اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِي حُيَيَّةَ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَحَدَّثَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ غَزْوَتَيْنِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَالْفَتْحِ، فَأَفْطَرْنَا فِيهِمَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ أَمَرَ بِالْفِطْرِ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نَحْوُ هَذَا، إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْإِفْطَارِ عِنْدَ لِقَاءِ الْعَدُوِّ، وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
معمر بن ابی حیّیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسیب سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو ابن مسیب نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو غزوے کئے۔ غزوہ بدر اور فتح مکہ، ہم نے ان دونوں میں روزے نہیں رکھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری سے بھی روایت ہے،
۳- ابو سعید خدری سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے (لوگوں کو) ایک غزوے میں افطار کا حکم دیا۔ عمر بن خطاب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ البتہ انہوں نے روزہ رکھنے کی رخصت دشمن سے مڈبھیڑ کی صورت میں دی ہے۔ اور بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10450) (ضعیف الإسناد) (سعیدبن المسیب نے عمر فاروق رضی الله عنہ کو نہیں پایا ہے، لیکن دوسرے دلائل سے مسئلہ ثابت ہے)»

وضاحت:
۱؎: یا تو سفر کی وجہ سے یا طاقت کے لیے تاکہ دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت کمزوری لاحق نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
21. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الإِفْطَارِ لِلْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ
21. باب: حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت۔
Chapter: What Has Been Related About The Permission For The Pregnant And Breast-Feeding Women To Break The Fast
حدیث نمبر: 715
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، ويوسف بن عيسى، قالا: حدثنا وكيع، حدثنا ابو هلال، عن عبد الله بن سوادة، عن انس بن مالك رجل من بني عبد الله بن كعب، قال: اغارت علينا خيل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجدته يتغدى، فقال: " ادن فكل " فقلت: إني صائم، فقال: " ادن احدثك عن الصوم او الصيام، إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة، وعن الحامل او المرضع الصوم او الصيام ". والله لقد قالهما النبي صلى الله عليه وسلم كلتيهما او إحداهما، فيا لهف نفسي ان لا اكون طعمت من طعام النبي صلى الله عليه وسلم. قال: وفي الباب عن ابي امية. قال ابو عيسى: حديث انس بن مالك الكعبي حديث حسن، ولا نعرف لانس بن مالك هذا، عن النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا الحديث الواحد، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقال بعض اهل العلم: الحامل والمرضع تفطران وتقضيان وتطعمان. وبه يقول سفيان، ومالك، والشافعي، واحمد، وقال بعضهم: تفطران وتطعمان ولا قضاء عليهما وإن شاءتا قضتا ولا إطعام عليهما، وبه يقول إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُهُ يَتَغَدَّى، فَقَالَ: " ادْنُ فَكُلْ " فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ: " ادْنُ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّوْمِ أَوِ الصِّيَامِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْحَامِلِ أَوِ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوِ الصِّيَامَ ". وَاللَّهِ لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلْتَيْهِمَا أَوْ إِحْدَاهُمَا، فَيَا لَهْفَ نَفْسِي أَنْ لَا أَكُونَ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْكَعْبِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ هَذَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ الْوَاحِدِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ تُفْطِرَانِ وَتَقْضِيَانِ وَتُطْعِمَانِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ، وَمَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: تُفْطِرَانِ وَتُطْعِمَانِ وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ شَاءَتَا قَضَتَا وَلَا إِطْعَامَ عَلَيْهِمَا، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق.
انس بن مالک کعبی رضی الله عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں نے ہم پر رات میں حملہ کیا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے آپ کو پایا کہ آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، آپ نے فرمایا: آؤ کھا لو، میں نے عرض کیا: میں روزے سے ہوں۔ آپ نے فرمایا: قریب آؤ، میں تمہیں روزے کے بارے میں بتاؤں، اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز ۲؎ معاف کر دی ہے، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی روزہ کو معاف کر دیا ہے۔ اللہ کی قسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت دونوں لفظ کہے یا ان میں سے کوئی ایک لفظ کہا، تو ہائے افسوس اپنے آپ پر کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیوں نہیں کھایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس بن مالک کعبی کی حدیث حسن ہے، انس بن مالک کی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث ہم نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو،
۲- اس باب میں ابوامیہ سے بھی روایت ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزہ نہیں رکھیں گی، بعد میں قضاء کریں گی، اور فقراء و مساکین کو کھانا کھلائیں گی۔ سفیان، مالک، شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں،
۵- بعض کہتے ہیں: وہ روزہ نہیں رکھیں گی بلکہ فقراء و مساکین کو کھانا کھلائیں گی۔ اور ان پر کوئی قضاء نہیں اور اگر وہ قضاء کرنا چاہیں تو ان پر کھانا کھلانا واجب نہیں۔ اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ۳؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 43 (2408)، سنن النسائی/الصیام 51 (2276)، و62 (2317)، سنن ابن ماجہ/الصیام 12 (1667)، (تحفة الأشراف: 1732)، مسند احمد (4/347)، و (5/29) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ وہ انس بن مالک نہیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں، بلکہ یہ کعبی ہیں۔
۲؎: مراد چار رکعت والی نماز میں سے ہے۔
۳؎: اور اسی کو صاحب تحفہ الأحوذی نے راجح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ یہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں لہٰذا ان پر صرف قضاء لازم ہو گی۔ واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1667)
22. باب مَا جَاءَ فِي الصَّوْمِ عَنِ الْمَيِّتِ
22. باب: میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Fasting On Behalf Of The Dead
حدیث نمبر: 716
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا ابو خالد الاحمر، عن الاعمش، عن سلمة بن كهيل، ومسلم البطين، عن سعيد بن جبير، وعطاء، ومجاهد، عن ابن عباس، قال: جاءت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن اختي ماتت وعليها صوم شهرين متتابعين، قال: " ارايت لو كان على اختك دين اكنت تقضينه؟ " قالت: نعم، قال: " فحق الله احق ". قال: وفي الباب عن بريدة، وابن عمر، وعائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَطَاءٍ، وَمُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، قَالَ: " أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُخْتِكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟ " قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: " فَحَقُّ اللَّهِ أَحَقُّ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میری بہن مر گئی ہے۔ اس پر مسلسل دو ماہ کے روزے تھے۔ بتائیے میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ذرا بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اس نے کہا: ہاں (ادا کرتی)، آپ نے فرمایا: تو اللہ کا حق اس سے بھی بڑا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں بریدہ، ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 42 (1953)، صحیح مسلم/الصیام 27 (1148)، (وعندہما ”أمي“ بدل ”أختي“ وقد أشار البخاري إلی اختلاف الروایات)، سنن ابی داود/ الأیمان 26 (3310)، (وعندہ إیضا ”أمي“)، (تحفة الأشراف: 5612 و5961 و6422) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے، محدثین کا یہی قول ہے اور یہی راجح ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1758)
حدیث نمبر: 717
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو خالد الاحمر، عن الاعمش بهذا الإسناد نحوه. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، قال: وسمعت محمدا، يقول: جود ابو خالد الاحمر هذا الحديث، عن الاعمش. قال محمد: وقد روى غير ابي خالد، عن الاعمش مثل رواية ابي خالد. قال ابو عيسى: وروى ابو معاوية وغير واحد هذا الحديث، عن الاعمش، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكروا فيه سلمة بن كهيل، ولا عن عطاء، ولا عن مجاهد، واسم ابي خالد سليمان بن حبان.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: جَوَّدَ أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْأَعْمَشِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رَوَى غَيْرُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي خَالِدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى أَبُو مُعَاوِيَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ سَلَمَةَ بْنَ كُهَيْلٍ، وَلَا عَنْ عَطَاءٍ، وَلَا عَنْ مُجَاهِدٍ، وَاسْمُ أَبِي خَالِدٍ سُلَيْمَانُ بْنُ حَبَّانَ.
اس سند سے بھی اعمش سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوخالد احمر نے اعمش سے یہ حدیث بہت عمدہ طریقے سے روایت کی ہے،
۳- ابوخالد الاحمر کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی اسے اعمش سے ابوخالد کی روایت کے مثل روایت کیا ہے، ابومعاویہ نے اور دوسرے کئی اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «الأعمش عن مسلم البطين عن سعيد بن جبير عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے سلمہ بن کہیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور نہ ہی عطاء اور مجاہد کے واسطے کا، ابوخالد کا نام سلیمان بن حیان ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: *
23. باب مَا جَاءَ فِي الْكَفَّارَةِ فِي الصَّوْمِ
23. باب: میت کے چھوڑے ہوئے روزے کے کفارہ کا بیان۔
Chapter: (What Has Been Related About The Atonement)
حدیث نمبر: 718
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبثر بن القاسم، عن اشعث، عن محمد، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من مات وعليه صيام شهر فليطعم عنه مكان كل يوم مسكينا ". قال ابو عيسى: حديث ابن عمر لا نعرفه مرفوعا إلا من هذا الوجه، والصحيح عن ابن عمر موقوف قوله، واختلف اهل العلم في هذا الباب، فقال بعضهم، يصام عن الميت، وبه يقول احمد، وإسحاق، قالا: إذا كان على الميت نذر صيام يصوم عنه، وإذا كان عليه قضاء رمضان اطعم عنه، وقال مالك، وسفيان، والشافعي: لا يصوم احد عن احد، قال: واشعث هو ابن سوار، ومحمد هو عندي ابن عبد الرحمن بن ابي ليلى.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفٌ قَوْلُهُ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَاب، فَقَالَ بَعْضُهُمْ، يُصَامُ عَنِ الْمَيِّتِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالَا: إِذَا كَانَ عَلَى الْمَيِّتِ نَذْرُ صِيَامٍ يَصُومُ عَنْهُ، وَإِذَا كَانَ عَلَيْهِ قَضَاءُ رَمَضَانَ أَطْعَمَ عَنْهُ، وقَالَ مَالِكٌ، وَسُفْيَانُ، وَالشَّافِعِيُّ: لَا يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، قَالَ: وَأَشْعَثُ هُوَ ابْنُ سَوَّارٍ، وَمُحَمَّدٌ هُوَ عِنْدِي ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس حالت میں مرے کہ اس پر ایک ماہ کا روزہ باقی ہو تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،
۲- صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما سے موقوف ہے یعنی انہیں کا قول ہے،
۳- اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزے رکھے جائیں گے۔ یہ قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں: جب میت پر نذر والے روزے ہوں تو اس کی طرف سے روزہ رکھا جائے گا، اور جب اس پر رمضان کی قضاء واجب ہو تو اس کی طرف سے مسکینوں اور فقیروں کو کھانا کھلایا جائے گا، مالک، سفیان اور شافعی کہتے ہیں کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام 50 (1757) (تحفة الأشراف: 8423) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار کندی ضعیف ہیں، نیز اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1757) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (389)، المشكاة (2034 / التحقيق الثاني)، ضعيف الجامع الصغير (5853) //
24. باب مَا جَاءَ فِي الصَّائِمِ يَذْرَعُهُ الْقَىْءُ
24. باب: روزہ دار کو (خودبخود) قے آ جائے اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Fasting Person Who Is Overcome By Vomiting
حدیث نمبر: 719
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد المحاربي، حدثنا عبد الرحمن بن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاث لا يفطرن: الصائم، الحجامة، والقيء، والاحتلام ". قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد الخدري حديث غير محفوظ، وقد روى عبد الله بن زيد بن اسلم، وعبد العزيز بن محمد، وغير واحد هذا الحديث، عن زيد بن اسلم مرسلا، ولم يذكروا فيه عن ابي سعيد، وعبد الرحمن بن زيد بن اسلم يضعف في الحديث، قال: سمعت ابا داود السجزي، يقول: سالت احمد بن حنبل، عن عبد الرحمن بن زيد بن اسلم، فقال: اخوه عبد الله بن زيد لا باس به، قال: وسمعت محمدا يذكر، عن علي بن عبد الله المديني، قال: عبد الله بن زيد بن اسلم ثقة، وعبد الرحمن بن زيد بن اسلم ضعيف، قال محمد: ولا اروي عنه شيئا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ لَا يُفْطِرْنَ: الصَّائِمَ، الْحِجَامَةُ، وَالْقَيْءُ، وَالِاحْتِلَامُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ: سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، فَقَالَ: أَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ لَا بَأْسَ بِهِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزوں سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا: پچھنا لگوانے سے ۱؎، قے آ جانے سے اور احتلام ہو جانے سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث محفوظ نہیں ہے،
۲- عبداللہ بن زید بن اسلم اور عبدالعزیز بن محمد اور دیگر کئی رواۃ نے یہ حدیث زید بن اسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔ اور اس میں ان لوگوں نے ابو سعید خدری کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے،
۳- عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف مانے جاتے ہیں،
۴- میں نے ابوداؤد سجزی کو کہتے سنا کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ بن زید بن اسلم میں کوئی حرج نہیں،
۴- اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا کہ علی بن عبداللہ المدینی نے عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں ۲؎ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں ان سے کچھ روایت نہیں کرتا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4182) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہے)»

وضاحت:
۱؎: بظاہر یہ روایت «أفطر الحاجم والمحجوم» کی مخالف ہے، تاویل یہ کی جاتی ہے کہ «أفطر الحاجم والمحجوم» کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نے اپنے آپ افطار کے لیے خود کو پیش کر دیا ہے بلکہ قریب پہنچ گئے ہیں، جسے سینگی لگائی گئی وہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے اور سینگی لگانے والا اس لیے کہ اس سے بچنا مشکل ہے کہ جب وہ خون کھینچ رہا ہو تو خون کا کوئی قطرہ حلق میں چلا جائے اور روزہ ٹوٹ جائے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور ناسخ انس رضی الله عنہ کی روایت ہے جسے دارقطنی نے روایت کیا ہے، اس میں ہے «رخص النبي صلى الله عليه وسلم بعد في الحجامة الصائم وكان أنس يحتجم وهو صائم» ۔
۲؎: زید بن اسلم کے تین بیٹے ہیں: عبداللہ، عبدالرحمٰن اور اسامہ۔ امام احمد کے نزدیک عبداللہ ثقہ ہیں اور عبدالرحمٰن اور اسامہ دونوں ضعیف اور یحییٰ بن معین کے نزدیک زیدبن اسلم کے سبھی بیٹے ضعیف ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف تخريج حقيقة الصيام (21 - 22)، ضعيف أبي داود (409)، // عندنا برقم (513 / 2376)، ضعيف الجامع الصغير (2567)، المشكاة (2015) //
25. باب مَا جَاءَ فِيمَنِ اسْتَقَاءَ عَمْدًا
25. باب: جان بوجھ کر قے کر دینے والے کے حکم کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About One Who Vomits Purposely
حدیث نمبر: 720
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا عيسى بن يونس، عن هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من ذرعه القيء فليس عليه قضاء، ومن استقاء عمدا فليقض ". قال: وفي الباب عن ابي الدرداء، وثوبان، وفضالة بن عبيد. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن غريب، لا نعرفه من حديث هشام، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، إلا من حديث عيسى بن يونس، وقال محمد: لا اراه محفوظا. قال ابو عيسى: وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يصح إسناده، وقد روي عن ابي الدرداء، وثوبان، وفضالة بن عبيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قاء فافطر " وإنما معنى هذا ان النبي صلى الله عليه وسلم كان صائما متطوعا، فقاء فضعف فافطر، لذلك هكذا روي في بعض الحديث مفسرا، والعمل عند اهل العلم على حديث ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " ان الصائم إذا ذرعه القيء فلا قضاء عليه، وإذا استقاء عمدا فليقض " وبه يقول سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، وَمَنِ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَثَوْبَانَ، وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، وقَالَ مُحَمَّدٌ: لَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُهُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَثَوْبَانَ، وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَاءَ فَأَفْطَرَ " وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ صَائِمًا مُتَطَوِّعًا، فَقَاءَ فَضَعُفَ فَأَفْطَرَ، لِذَلِكَ هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ مُفَسَّرًا، وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ الصَّائِمَ إِذَا ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ، وَإِذَا اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ " وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء لازم نہیں ۱؎ اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے روزے کی قضاء کرنی چاہیئے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے بسند «هشام عن ابن سيرين عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» عیسیٰ بن یونس ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا،
۲- یہ حدیث دوسری اور سندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے،
۳- اس باب میں ابو الدرداء، ثوبان اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- ابو الدرداء، ثوبان اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہم سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی تو آپ نے روزہ توڑ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے سے تھے۔ قے ہوئی تو آپ نے کچھ کمزوری محسوس کی اس لیے روزہ توڑ دیا، بعض روایات میں اس کی تفسیر اسی طرح مروی ہے،
۵- اور اہل علم کا عمل ابوہریرہ کی حدیث پر ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ روزہ دار کو جب قے آ جائے تو اس پر قضاء لازم نہیں ہے۔ اور جب قے جان بوجھ کر کرے تو اسے چاہیئے کہ قضاء کرے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 32 (2380)، سنن ابن ماجہ/الصیام 16 (1676)، (تحفة الأشراف: 14542)، مسند احمد (2/498)، سنن الدارمی/الصوم 25 (1770) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ اس میں روزہ دارکی کوئی غلطی نہیں۔
۲؎: اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ اس میں کفارہ نہیں صرف قضاء ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1676)
26. باب مَا جَاءَ فِي الصَّائِمِ يَأْكُلُ أَوْ يَشْرَبُ نَاسِيًا
26. باب: روزہ دار بھول کر کچھ کھا پی لے تو کیسا ہے؟
Chapter: What Has Been Related About The Fasting Person Eating Or Drinking Forgetfully
حدیث نمبر: 721
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا ابو خالد الاحمر، عن حجاج بن ارطاة، عن قتادة، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اكل او شرب ناسيا فلا يفطر، فإنما هو رزق رزقه الله ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَكَلَ أَوْ شَرِبَ نَاسِيًا فَلَا يُفْطِرْ، فَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھول کر کچھ کھا پی لیا، وہ روزہ نہ توڑے، یہ روزی ہے جو اللہ نے اسے دی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14497) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بخاری کی روایت ہے «فإنما أطعمه الله وسقاه» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1673)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.