الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
سیر کے مسائل
54. باب في قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّا لاَ نَسْتَعِينُ بِالْمُشْرِكِينَ» :
54. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ ”ہم مشرکین سے مدد نہیں لیتے“ کا بیان
حدیث نمبر: 2532
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا وكيع، عن مالك بن انس، عن عبد الله بن نيار، عن عروة، عن عائشة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "إنا لا نستعين بمشرك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَار، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّا لَا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم مشرک سے مدد نہیں لیتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2538]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1817]، [أبوداؤد 2732]، [ترمذي 1558]، [ابن ماجه 2832]، [ابن حبان 4726]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2533
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق، عن روح، عن مالك، عن فضيل هو: ابن ابي عبد الله، هو: الخطمي، عن عبد الله بن نيار، عن عروة، عن عائشة: اطول منه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، عَنْ رَوْحٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ فُضَيْلٍ هُوَ: ابْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، هُوَ: الْخَطْمِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَطْوَلُ مِنْهُ.
اس سند سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسے ہی اس سیاق میں مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2539]»
اس روایت کی تخریج پہلے گزر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2531 سے 2533)
اس حدیث کے مطابق مشرک سے جہاد میں مدد لینا درست نہیں۔
مسلم شریف میں ہے کہ ایک مشرک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوٹ جاؤ، میں مشرک سے مد نہیں چاہتا۔
جب وہ اسلام لایا تو اس سے مدد لی، لیکن بعض علماء کے نزدیک مشرکین سے مدد لینا بوقتِ ضرورت جائز ہے۔
سیر کی کتابوں میں ہے کہ جنگِ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان نامی مشرک سے مدد لی، اور اس نے جھنڈا اٹھانے والے تین مشرکوں کو تہہ تیغ کیا، اور خیبر و حنین میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلمین و منافقین سے مدد لی، اس لئے وقتِ ضرورت ان سے مدد لینا جائز ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
55. باب إِخْرَاجِ الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ:
55. جزیرۃ العرب سے مشرکین کے اخراج کا بیان
حدیث نمبر: 2534
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا إبراهيم بن ميمون: رجل من اهل الكوفة، حدثني سعد بن سمرة بن جندب، عن ابيه سمرة، عن ابي عبيدة بن الجراح , قال: كان في آخر ما تكلم به رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "اخرجوا يهود من الحجاز، واهل نجران من جزيرة العرب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنْ أَبِيهِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ , قَالَ: كَانَ فِي آخِرِ مَا تَكَلَّمَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَخْرِجُوا يَهُودَ مِنَ الْحِجَازِ، وَأَهْلَ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ".
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری بات کہی وہ یہ تھی کہ: یہود کو حجاز سے اور اہلِ نجران کو جزیرۂ عرب سے نکال دو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2540]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 872]، [الحميدي 85]، [مشكل الآثار للطحاوي 2760]، [مجمع الزوائد 2091، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2533)
یہود ایسی قوم ہے جس نے اپنی کتابوں میں تحریف کی، انبیاء کو قتل کیا، شریعتوں کا مذاق اڑایا، خیانت و بدعہدی کے مرتکب ہوئے۔
اس لئے اس قوم سے بچنے، دور رہنے، اور جزیرۃ العرب سے نکال دینے کا حکم دیا گیا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ان کے کرتوت کی نشاندہی کی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ مبارکہ میں انہیں جزیرۂ عرب سے نہ نکال سکے تھے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں نکال دیا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
56. باب في الشُّرْبِ في آنِيَةِ الْمُشْرِكِينَ:
56. مشرکین کے برتنوں میں کھانے پینے کا بیان
حدیث نمبر: 2535
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن حيوة بن شريح، حدثني ربيعة بن يزيد، حدثني ابو إدريس، حدثني ابو ثعلبة، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إنا بارض اهل الكتاب، فناكل في آنيتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن كنت بارض كما ذكرت، فلا تاكلوا في آنيتهم إلا ان لا تجدوا منها بدا، فإن لم تجدوا منها بدا، فاغسلوها، ثم كلوا فيها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ، حَدَّثَنِي أَبُو ثَعْلَبَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَنَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ كُنْتَ بِأَرْضٍ كَمَا ذَكَرْتَ، فَلَا تَأْكُلُوا فِي آنِيَتِهِمْ إِلا أَنْ لَا تَجِدُوا مِنْهَا بُدًّا، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مِنْهَا بُدًّا، فَاغْسِلُوهَا، ثُمَّ كُلُوا فِيهَا".
سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اہلِ کتاب کی سرزمین پر رہتے ہیں تو کیا ہم ان کے برتن میں کھا سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ایسی سرزمین پر رہتے ہو جیسا کہ تم نے بیان کیا تو بھی ان کے برتن میں کھانا نہ کھاو، سوائے اس کے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو (یعنی مجبوری ہو اور کوئی برتن نہ ملے) اگر اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو اس برتن کو دھو لو پھر اس میں کھانا کھا لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2541]»
یہ روایت صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5478]، [مسلم 1930]، [أبوداؤد 2855]، [ترمذي 1560]، [نسائي 4277]، [ابن ماجه 3207]، [ابن حبان 5879، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2534)
غیر مسلم کے برتنوں میں کھانا درست نہیں، اگر مجبوری آ پڑے اور دوسرے برتن نہ ملیں تو خوب اچھی طرح دھو کر پاک صاف کر لینا ضروری ہے، تب ہی وہ برتن مسلمانوں کے استعال کے لئے جائز ہو سکتا ہے، ورنہ ان کے برتنوں کو کام میں لانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ پاکی و صفائی میں عدم احتیاط، اور غیر حلال چیزوں کا ان کے یہاں استعمال ہوتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
57. باب في أَكْلِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ الْغَنِيمَةُ:
57. مال غنیمت تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2536
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا سليمان هو: ابن المغيرة، عن حميد، عن عبد الله بن مغفل، قال:"دلي جراب من شحم يوم خيبر. قال: فاتيته فالتزمته. قال: ثم قلت: لا اعطي من هذا احدا اليوم شيئا، فالتفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يبتسم إلي". قال عبد الله: ارجو ان يكون حميد سمع من عبد الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ: ابْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ:"دُلِّيَ جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ. قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَالْتَزَمْتُهُ. قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ: لا أُعْطِي مِنْ هَذَا أَحَدًا الْيَوْمَ شَيْئًا، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَسِمُ إِلَيَّ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: أَرْجُو أَنْ يَكُونَ حُمَيْدٌ سَمِعَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ.
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا: خیبر کے دن چربی کی ایک کپی پھینکی گئی، میں آیا اور اسے جھپٹ لیا اور میں نے کہا: آج اس میں سے کسی کو کچھ نہ دوں گا، پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: امید ہے کہ حمید (بن ہلال) نے سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہوگا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2542]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3153، 4214]، [مسلم 1772]، [أبوداؤد 2702]، [أحمد 56/5، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2535)
جمہور علماء کا یہی فتویٰ ہے کہ صرف کھانے پینے کی معمولی چیزوں کو غنیمت پانے والے قبل از تقسیم لے اور کھا سکتے ہیں، اسی طرح چارا ہے، اسے بھی اپنے جانوروں کو کھلا سکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا، اور ان کو اس کپی پر قبضہ کر لینے سے نہ روکنا اس کی دلیل ہے کہ کھانے پینے کی چیز تقسیم سے قبل لی جا سکتی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
58. باب في أَخْذِ الْجِزْيَةِ مِنَ الْمَجُوسِ:
58. مجوس سے جزیہ لینے کا بیان
حدیث نمبر: 2537
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن عمرو، عن بجالة، قال: سمعته يقول:"لم يكن عمر اخذ الجزية من المجوس حتى شهد عبد الرحمن بن عوف ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذها من مجوس هجر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ بَجَالَةَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ:"لَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ".
بجالہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجوس سے جزیہ نہیں لیا تھا یہاں تک کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مجوس سے جزیہ لیا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2543]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3156]، [أبوداؤد 3043]، [ترمذي 1586]، [أبويعلی 860]، [الحميدي 64]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2536)
مجوس وہ لوگ ہیں جو آگ کی عبادت و پوجا کرتے ہیں، اور ہجر بحرین کا بہت بڑا شہر تھا جو احساء کے قریب تھا، اور جزیہ وہ معاوضہ ہے جو اہلِ ذمہ سے ان کے دار السلام میں رہنے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کے بدلے میں لیا جاتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجوسی مشرکین سے جزیہ وصول کیا جائے گا، اور یہ صرف اہلِ کتاب پر نہیں، جیسا کہ بعض علماء کا خیال ہے، بلکہ دیگر مشرکین سے بھی جزیہ وصول کیا جائے گا۔
(عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
59. باب يُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَدْنَاهُمْ:
59. مسلمانوں کا ادنیٰ فرد بھی پناہ (امان) دے سکتا ہے
حدیث نمبر: 2538
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابي النضر: ان ابا مرة مولى عقيل بن ابي طالب اخبره انه سمع ام هانئ بنت ابي طالب تحدث انها ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح، فقالت: يا رسول الله، زعم ابن امي انه قاتل رجلا اجرته فلان بن هبيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قد اجرنا من اجرت يا ام هانئ".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ: أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ تُحَدِّثُ أَنَّهَا ذَهَبَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا أَجَرْتُهُ فَلانَ بْنُ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ".
عقیل بن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ابومرہ نے کہا: انہوں نے سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے سنا: وہ بیان کرتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں جائے بھائی (سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کا خیال ہے کہ وہ اس شخص ہبیرہ کے فلاں بیٹے کو قتل کر ڈالیں گے جس کو میں نے پناہ دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی ہے اس کو ہم نے بھی پناہ دی۔ (یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اسے قتل کرنے کے مجاز نہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2544]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 357]، [مسلم 336]، [أبوداؤد 2762]، [ترمذي 1579]، [نسائي 225]، [ابن حبان 1188]، [الموارد 631]، [الحميدي 333]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2537)
اجارہ: امان دینے کو کہتے ہیں۔
سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔
انہوں نے اپنے شوہر ہبیرہ ابن ابی وہب جو حالتِ کفر میں انتقال کر گئے تھے، ان کے کسی عزیز کو شوہر سے وفاداری کے تحت پناه دی تھی، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کو قتل کر دینا چاہتے تھے کیونکہ وہ مشرک تھا، لیکن سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا نے اسے فتح مکہ کے بعد پناہ دیدی تھی، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پناہ کا حکم دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا ادنیٰ فرد، مرد ہو یا عورت، غیر مسلم کو پناہ دے سکتا ہے، اور سب کو یہ حکم ماننا ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
60. باب في النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ الرُّسُلِ:
60. قاصدین کو قتل کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2539
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم، عن ابي وائل، عن ابن معيز السعدي، قال: خرجت اسفر فرسا لي من السحر فمررت على مسجد من مساجد بني حنيفة، فسمعتهم يشهدون ان مسيلمة رسول الله، فرجعت إلى عبد الله بن مسعود فاخبرته، فبعث إليهم الشرط، فاخذوهم، فجيء بهم، إليه فتاب القوم ورجعوا عن قولهم، فخلى سبيلهم، وقدم رجلا منهم يقال له: عبد الله بن النواحة، فضرب عنقه، فقالوا له: تركت القوم وقتلت هذا؟، فقال: إني كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا إذ دخل هذا ورجل وافدين من عند مسيلمة، فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اتشهدان اني رسول الله؟"، فقالا له: تشهد انت ان مسيلمة رسول الله، فقال: "آمنت بالله ورسله، لو كنت قاتلا وفدا، لقتلتكما". فلذلك قتلته. وامر بمسجدهم فهدم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مُعَيْزٍ السَّعْدِيِّ، قَالَ: خَرَجْتُ أُسْفِرُ فَرَسًا لِي مِنَ السَّحَرِ فَمَرَرْتُ عَلَى مَسْجِدٍ مِنْ مَسَاجِدِ بَنِي حَنِيفَةَ، فَسَمِعْتُهُمْ يَشْهَدُونَ أَنَّ مُسَيْلَمَةَ رَسُولُ اللَّهِ، فَرَجَعْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَأَخْبَرْتُهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ الشُّرَطَ، فَأَخَذُوهُمْ، فَجِيءَ بِهِمْ، إِلَيْهِ فَتَابَ الْقَوْمُ وَرَجَعُوا عَنْ قَوْلِهِمْ، فَخَلَّى سَبِيلَهُمْ، وَقَدَّمَ رَجُلًا مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ النَّوَاحَةِ، فَضَرَبَ عُنُقَهُ، فَقَالُوا لَهُ: تَرَكْتَ الْقَوْمَ وَقَتَلْتَ هَذَا؟، فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا إِذْ دَخَلَ هَذَا وَرَجُلٌ وَافِدَيْنِ مِنْ عِنْدِ مُسَيْلَمَةَ، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"، فَقَالَا لَهُ: تَشْهَدُ أَنْتَ أَنَّ مُسَيْلَمَةَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ: "آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ، لَوْ كُنْتُ قَاتِلًا وَفْدًا، لَقَتَلْتُكُمَا". فَلِذَلِكَ قَتَلْتُهُ. وَأَمَرَ بِمَسْجِدِهِمْ فَهُدِمَ.
ابن معیز سعدی نے کہا: میں اپنے گھوڑے کو چارہ لینے کے لئے نکلا تو بنوحنیفہ کی مساجد میں سے ایک مسجد کے پاس سے گزر ہوا، میں نے وہاں لوگوں سے سنا کہ وہ شہادت دے رہے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر آیا اور ان کو اس کی اطلاع دی، چنانچہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پولیس کو ان لوگوں کے پاس بھیجا، ان لوگوں نے اس کو پکڑا، ان کو وہ لے آئے۔ لوگوں نے توبہ کی اور اپنے قول سے رجوع کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا راستہ خالی کر دیا (یعنی انہیں چھوڑ دیا)۔ ان میں سے ایک آدمی آیا جس کو عبداللہ بن نواحہ کہا جاتا تھا، اس کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مار ڈالا، لوگوں نے ان سے کہا: آپ نے سب لوگوں کو چھوڑ دیا اور اس کو قتل کر دیا؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ یہ اور ایک اور شخص مسیلمہ کی طرف سے وفد کی صورت میں آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دونوں اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ان دونوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں الله اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں، اگر میں وفد (قاصد ین)کو قتل کرنے والا ہوتا تو تمہیں ضرور قتل کر دیتا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس لئے میں نے اس شخص کو قتل کیا اور ان کی مسجد کو مسمار کرنے کا حکم دیا جو مسمار کر دی گئی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2545]»
اس روایت کی سند حسن اور دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2761]، [أبويعلی 5097]، [ابن حبان 4878]، [الموارد 1629]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2538)
سعودی عرب میں ریاض کے پاس ایک جگہ ہے جس کا نام یمامہ ہے، یہاں بنوحنیفہ کے لوگ آباد تھے، انہیں میں سے ایک جھوٹا شخص مسیلمہ تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور یمامہ کے لوگوں کو گمراہ کیا، لوگ اس کے پھندے میں پھنس گئے، اس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کا اشارہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس شخص سے سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بنوحنیفہ پر لشکرکشی کی گئی اور وحشی بن حرب (قاتل سیدنا حمزه رضی اللہ عنہ) نے بمشکل تمام اس کذاب و دجال کو قتل کر دیا، اس طرح یہ فتنہ ختم ہوا۔
مذکورہ بالا حدیث میں وضاحت ہے کہ پیغام رسانی کرنے والے قاصدین کو قتل کرنا درست نہیں، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن نواحہ اور اس کے ساتھی کی بدتمیزی اور بے ہودگی کے باوجود انہیں قتل نہیں کیا، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس لئے قتل کر دیا کہ اس وقت وہ قاصد نہیں بلکہ قیدی تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے منکر تھا، اور مسیلمہ کذاب کا پیروکار تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث صحيح
61. باب في النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ الْمُعَاهَدِ:
61. ذمی کو قتل کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2540
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا عيينة بن عبد الرحمن بن جوشن الغطفاني، عن ابيه، عن ابي بكرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من قتل معاهدا في غير كنهه، حرم الله عليه الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَوْشَنٍ الْغَطَفَانِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ".
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے بلاوجہ کی عہد والے (ذمی) کو مار ڈالا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کو حرام کر دے گا۔ (یعنی وہ قاتل جنت میں نہ جائے گا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2546]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2760]، [نسائي 4761]، [ابن حبان 4881]، [موارد الظمآن 1530]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2539)
معاہد اس عہد والے کو کہتے ہیں جو جزیہ دے کر دار الاسلام میں رہتا ہے، اس کو ذمی بھی کہا جاتا ہے، ایسے غیر مسلم کے جان و مال کی حفاظت مسلم حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے، اگر جان بوجھ کر کوئی مسلمان اس کو قتل کر دے تو اس کی اتنی بڑی سزا ہے کہ اس پر جنّت حرام ہوگی، اور وہ جہنم میں جائے گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
62. باب إِذَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِينَ:
62. دشمن مسلمانوں کے مال پر قبضہ کر لیں اس کا بیان
حدیث نمبر: 2541
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين، قال: كانت العضباء لرجل من بني عقيل فاسر، واخذت العضباء، فمر عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في وثاقه، فقال: يا محمد، على ما تاخذوني وتاخذون سابقة الحاج، وقد اسلمت؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لو قلتها وانت تملك امرك، افلحت كل الفلاح"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"ناخذك بجريرة حلفائك". وكانت ثقيف قد اسروا رجلين من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم. وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم على حمار عليه قطيفة، فقال: يا محمد إني جائع فاطعمني، وإني وظمآن فاسقني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"هذه حاجتك". ثم إن الرجل فدي برجلين، فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم العضباء لرحله وكانت من سوابق الحاج. ثم إن المشركين اغاروا على سرح المدينة فذهبوا به فيها العضباء واسروا امراة من المسلمين، وكانوا إذا نزلوا قال ابو محمد: ثم ذكر كلمة إبلهم في افنيتهم. فلما كان ذات ليلة قامت المراة وقد نوموا، فجعلت لا تضع يديها على بعير إلا رغا، حتى اتت العضباء، فاتت على ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلول مجرسة، فركبتها ثم توجهت قبل المدينة، ونذرت لئن الله نجاها، لتنحرنها. قال: فلما قدمت عرفت الناقة، فقيل: ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتوا بها النبي صلى الله عليه وسلم، واخبرت المراة بنذرها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "بئسما جزيتها او بئسما جزتها إن الله نجاها لتنحرنها؟ الا لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتِ الْعَضْبَاءُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عَقَيْلٍ فَأُسِرَ، وَأُخِذَتِ الْعَضْبَاءُ، فَمَرَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي وَثَاقِهِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، عَلَى مَا تَأْخُذُونِي وَتَأْخُذُونَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ، وَقَدْ أَسْلَمْتُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ، أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ". وَكَانَتْ ثَقِيفٌ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَإِنِّي وَظَمْآنُ فَاسْقِنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"هَذِهِ حَاجَتُكَ". ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ فُدِيَ بِرَجُلَيْنِ، فَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ. ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ فَذَهَبُوا بِهِ فِيهَا الْعَضْبَاءُ وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَكَانُوا إِذَا نَزَلُوا قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً إِبِلُهُمْ فِي أَفْنِيَتِهِمْ. فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَامَتْ الْمَرْأَةُ وَقَدْ نُوِّمُوا، فَجَعَلَتْ لَا تَضَعُ يَدَيْهَا عَلَى بَعِيرٍ إِلا رَغَا، حَتَّى أَتَتْ الْعَضْبَاءَ، فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ، فَرَكِبَتْهَا ثُمَّ تَوَجَّهَتْ قِبَلَ الْمَدِينَةِ، وَنَذَرَتْ لَئِنِ اللَّهُ نَجَّاهَا، لَتَنْحَرَنَّهَا. قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَتِ عُرِفَتِ النَّاقَةُ، فَقِيلَ: نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَوْا بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَخْبَرَتِ الْمَرْأَةُ بِنَذْرِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بِئْسَمَا جَزَيْتِهَا أَوْ بِئْسَمَا جَزَتْهَا إِنَّ اللَّهُ نَجَّاهَا لَتَنْحَرَنَّهَا؟ أَلا لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: عضباء اونٹنی بنوعقیل کے ایک شخص کی تھی جس کو قید کر لیا گیا اور اونٹنی کو پکڑ لیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے جبکہ وہ بند تھا، اس شخص نے کہا: اے محمد! آپ لوگوں نے مجھے اور حاجیوں کے آگے چلنے والی اونٹنی کو کس جرم میں پکڑ لیا ہے حالانکہ میں مسلمان ہو گیا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مسلمان ہونے کا اقرار اس وقت کیا ہوتا جب تم آزاد تھے تو تم بالکل کامیاب رہتے (یعنی تمہیں گرفتار نہ کیا جاتا) اور ہم نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کی پاداش میں پکڑا ہے، کیونکہ ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اصحاب کو پکڑ لیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر بیٹھ کر ایک چادر اوڑھے ہوئے آئے تھے۔ بنوعقیل کے اس شخص نے کہا: اے محمد! میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلایئے۔ پیاسا ہوں پانی پلایئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ تمہاری ضرورت ہے (جو پوری کی جائے گی) پھر اس آدمی کو (ان) دو صحابی کے بدلے چھوڑ دیا گیا اور عضبا ء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کے لئے روک لیا (یعنی اسے نہیں چھوڑا)، بعض رواة نے «بِرِجْلِهٖ» کہا (یعنی اپنے قدم کے لئے) اور یہ عضباء حجاج کے قافلے میں (طاقت ور و تیز رو ہونے کے سبب) آگے آگے چلتی تھی، اس کے کچھ دن بعد مشرکین نے مدینہ کے مویشی (جانوروں) پر ڈاکہ ڈالا اور جانوروں کو جن میں عضباء بھی تھی ہنکا لے گئے، ان میں ایک مسلمان عورت کو بھی (جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں) پکڑ کر لے گئے۔
وہ لوگ جب رات ہوتی۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے ایک لفظ کہا: تو وہ لوگ اپنے جانوروں کو گھروں کے سامنے آزاد چھوڑ دیتے، ایک رات وہ مسلمان قیدی عورت (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی) جب وہ سو گئے تو اٹھی اور (اونٹوں کے پاس آئی) جس اونٹ پر ہاتھ رکھتی وہ آواز نکالنے لگتا یہاں تک کہ عضباء کے پاس آئی، جو اونٹنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو چکی تھی اور وہ مطیع چلنے میں مشاق تھی (اس نے آواز نہ کی)، وہ عورت اس پر سوار ہوگئی اور مدینہ منورہ کا رخ کیا اور نذر مانی کہ اگر الله تعالیٰ نے (اس کے ساتھ) اس اونٹنی کو نجات دیدی (اور وہ اسے بچا لے گئی) تو وہ اسے قربان کر دے گی، جب وہ مدینہ پہنچی تو اونٹنی کو پہچان لیا گیا اور کہا گیا کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس عورت نے بتایا کہ میں نے اس کو ذبح کر دینے کی منت مانی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بڑا برا اس کو بدلہ دیا، الله تعالیٰ نے اس لئے اس کو نجات دی کہ تم اسے ذبح کر ڈالو؟ سنو! ایسی منت (نذر) پوری کرنا ضروری نہیں، جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو، نہ ایسی نذر پوری کی جائے جس پر ابنِ آدم کا اختیار نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2547]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور امام مسلم [مسلم 1641] و [أبوداؤد 3316] نے اسی سیاق سے اور امام نسائی [نسائي 3821] و [ابن ماجه 2124] نے آخری جملہ روایت کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 4391]، [الحميدي 851]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2540)
یعنی تم نے بری نذر مانی، اس اونٹنی کو جس کی پشت پر الله تعالیٰ نے تجھے نجات دی اسی کو ذبح کرنے کی نذر و منت مان لی، کیا اس کا یہی بدلہ ہے؟ جو نذر گناہ کے لئے ہو یا جس کا آدمی مالک نہ ہو وہ نذر پوری نہ کی جائے گی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی کافر قید ہو اور پھر مسلمان ہو جائے تو اس کو قتل نہ کریں گے، لیکن اس کو غلام بنانا، اس کے بدلے روپیہ لینا، یا کسی مسلمان کو رہا کرانا، یا مفت چھوڑ دینا درست ہے، اور جو قید ہونے سے پہلے مسلمان ہو جائے وہ مسلمانوں کی طرح آزاد ہوگا، قید نہ کیا جائے گا۔
نیز یہ کہ جانور کا نحر (ذبح) کرنا گناہ نہیں، پر یہ اخلاق سے بعید ہے کہ وہ جانور سواری کا ہو، اور عمدہ سواری دیتا ہو، اور وقت پر کام آیا ہو، اسی کی قربانی کی جائے۔
اس کے علاوہ عضباء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی تھی، وہ اس عورت کی ملکیت نہ تھی، پھر پرائے جانور کو قربان کرنا گناہ میں داخل ہے۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ جو شخص گناہ کرنے کی نذر مانے، جیسے شراب پئے گا، تو ایسی نذر باطل ہے اور اس میں کفارہ نہیں ہے۔
امام مالک، شافعی، ابوحنیفہ اور داؤد ظاہری رحمہم اللہ اور جمہور علماء کا یہی قول ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس میں قسم کا کفارہ ہے۔
واضح رہے کہ ثقیف ایک قبیلہ تھا جو طائف کے قرب و جوار میں رہائش پذیر تھا، اور بنوعقیل بھی وہیں رہتے تھے، اور دونوں قبیلے ایک دوسرے کے حلیف تھے، ثقیف کے لوگوں نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کو پکڑ لیا اور ادھر مسلمانوں نے بنوعقیل کے ایک آدمی کو پکڑ لیا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعقیل کے اس شخص کے بدلے میں ثقیف سے اپنے دونوں صحابی کو رہا کرایا اور عضباء اونٹنی کو ضبط کر کے اپنے لئے خاص کر لیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.