
صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
23. باب ما كان النبى صلى الله عليه وسلم وأصحابه يأكلون:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خوارک کا بیان۔
حدیث نمبر: 5412
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن إسماعيل، عن قيس، عن سعد، قال:" رايتني سابع سبعة مع النبي صلى الله عليه وسلم ما لنا طعام إلا ورق الحبلة او الحبلة حتى يضع احدنا ما تضع الشاة، ثم اصبحت بنو اسد تعزرني على الإسلام خسرت إذا وضل سعيي".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سات آدمیوں میں سے ساتواں پایا (جنہوں نے اسلام سب سے پہلے قبول کیا تھا) اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لیے یہی کیکر کے پھل یا پتے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کھاتے کھاتے ہم لوگوں کا پاخانہ بھی بکری کی مینگنیوں کی طرح ہو گیا تھا یا اب یہ زمانہ ہے کہ بنی اسد قبیلے کے لوگ مجھ کو شریعت کے احکام سکھلاتے ہیں۔ اگر میں ابھی تک اس حال میں ہوں کہ بنی اسد کے لوگ مجھ کو شریعت کے احکام سکھلائیں تب تو میں تباہ ہی ہو گیا میری محنت برباد ہو گئی۔ [صحيح البخاري/كتاب الأطعمة/حدیث: 5412]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | احادیث |
---|---|---|
سعد بن أبي وقاص الزهري، أبو إسحاق | صحابي | ![]() |
قيس بن أبي حازم البجلي، أبو عبد الله | ثقة | ![]() |
إسماعيل بن أبي خالد البجلي، أبو عبد الله | ثقة ثبت | ![]() |
شعبة بن الحجاج العتكي، أبو بسطام | ثقة حافظ متقن عابد | ![]() |
وهب بن جرير الأزدي، أبو العباس، أبو الحسن | ثقة | ![]() |
عبد الله بن محمد الجعفي، أبو جعفر | ثقة حافظ | ![]() |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
---|---|---|
صحيح البخاري |
5412
| سابع سبعة مع النبي ما لنا طعام إلا ورق الحبلة أو الحبلة حتى يضع أحدنا ما تضع الشاة ثم أصبحت بنو أسد تعزرني على الإسلام خسرت إذا وضل سعيي |
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5412 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5412
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔
وہاں نبو اسد کے لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی یہ شکایت کی کہ ان کو نماز اچھی طرح پڑھنی نہیں آتی۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کا رد کیا کہ اگر مجھ کو اب تک نماز پڑھنی نہیں آئی حالانکہ میں قدیم الایام کا مسلمان ہوں کہ جب میں مسلمان ہوا تھا تو کل چھ آدمی مسلمان تھے تو تم لوگوں کونماز پڑھنا کیسے آ گیا تم تو کل مسلمان ہوئے ہو۔
بنو اسد کی سب شکایتیں غلط تھیں اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر ان کا اعتراض کرنا ایسا تھا کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات، خطائے بزرگاں گرفتن خطا است (وحیدی)
ہوا یہ تھا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔
وہاں نبو اسد کے لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی یہ شکایت کی کہ ان کو نماز اچھی طرح پڑھنی نہیں آتی۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کا رد کیا کہ اگر مجھ کو اب تک نماز پڑھنی نہیں آئی حالانکہ میں قدیم الایام کا مسلمان ہوں کہ جب میں مسلمان ہوا تھا تو کل چھ آدمی مسلمان تھے تو تم لوگوں کونماز پڑھنا کیسے آ گیا تم تو کل مسلمان ہوئے ہو۔
بنو اسد کی سب شکایتیں غلط تھیں اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر ان کا اعتراض کرنا ایسا تھا کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات، خطائے بزرگاں گرفتن خطا است (وحیدی)
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5412]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5412
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفے کا گورنر بنایا تو وہاں کے لوگوں نے آپ کی شکایت کی کہ آپ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے اور نہ فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف ہی سے کام لیتے ہیں۔
اس پر انہیں غصہ آیا کہ ایک قدیم الاسلام انسان احکام شرعیہ سے کیسے غافل رہ سکتا ہے؟ اگر آج میں بنو سعد کی تعلیم و تادیب کا محتاج ہوں تو میرے سابقہ عمل ضائع ہو گئے کیونکہ ہم نے بڑے کٹھن حالات میں اسلام قبول کیا تھا جبکہ ہم درختوں کے پتوں پر گزارہ کرتے تھے۔
بہرحال بنو سعد کی کوئی بھی شکایت مبنی بر حقیقت نہ تھی۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قدیم الاسلام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کو بیان کیا ہے کہ ان دنوں کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی نہ تھی بلکہ یہ حضرات درختوں کے پتوں سے اپنا پیٹ بھرتے تھے جس سے انہیں سخت قبض ہو جاتی اور قضائے حاجت کے وقت مینگنیاں برآمد ہوتیں۔
(1)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفے کا گورنر بنایا تو وہاں کے لوگوں نے آپ کی شکایت کی کہ آپ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے اور نہ فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف ہی سے کام لیتے ہیں۔
اس پر انہیں غصہ آیا کہ ایک قدیم الاسلام انسان احکام شرعیہ سے کیسے غافل رہ سکتا ہے؟ اگر آج میں بنو سعد کی تعلیم و تادیب کا محتاج ہوں تو میرے سابقہ عمل ضائع ہو گئے کیونکہ ہم نے بڑے کٹھن حالات میں اسلام قبول کیا تھا جبکہ ہم درختوں کے پتوں پر گزارہ کرتے تھے۔
بہرحال بنو سعد کی کوئی بھی شکایت مبنی بر حقیقت نہ تھی۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قدیم الاسلام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کو بیان کیا ہے کہ ان دنوں کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی نہ تھی بلکہ یہ حضرات درختوں کے پتوں سے اپنا پیٹ بھرتے تھے جس سے انہیں سخت قبض ہو جاتی اور قضائے حاجت کے وقت مینگنیاں برآمد ہوتیں۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5412]