Narrated Anas Bin Malik: When it was the day (of the battle) of Hunain, the tributes of Hawazin and Ghatafan and others, along with their animals and offspring (and wives) came to fight against the Prophet The Prophet had with him, ten thousand men and some of the Tulaqa. The companions fled, leaving the Prophet alone. The Prophet then made two calls which were clearly distinguished from each other. He turned right and said, "O the group of Ansar!" They said, "Labbaik, O Allah's Apostle! Rejoice, for we are with you!" Then he turned left and said, "O the group of Ansar!" They said, "Labbaik! O Allah's Apostle! Rejoice, for we are with you!" The Prophet at that time, was riding on a white mule; then he dismounted and said, "I am Allah's Slave and His Apostle." The infidels then were defeated, and on that day the Prophet gained a large amount of booty which he distributed amongst the Muhajirin and the Tulaqa and did not give anything to the Ansar. The Ansar said, "When there is a difficulty, we are called, but the booty is given to other than us." The news reached the Prophet and he gathered them in a leather tent and said, "What is this news reaching me from you, O the group of Ansar?" They kept silent, He added," O the group of Ansar! Won't you be happy that the people take the worldly things and you take Allah's Apostle to your homes reserving him for yourself?" They said, "Yes." Then the Prophet said, "If the people took their way through a valley, and the Ansar took their way through a mountain pass, surely, I would take the Ansar's mountain pass." Hisham said, "O Abu Hamza (i.e. Anas)! Did you witness that? " He replied, "And how could I be absent from him?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 626
● صحيح البخاري | 4333 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يذهب الناس بالشاة والبعير وتذهبون برسول الله لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لاخترت شعب الأنصار |
● صحيح البخاري | 2376 | أنس بن مالك | أراد النبي أن يقطع من البحرين فقالت الأنصار حتى تقطع لإخواننا من المهاجرين مثل الذي تقطع لنا سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني |
● صحيح البخاري | 3146 | أنس بن مالك | أعطي قريشا أتألفهم لأنهم حديث عهد بجاهلية |
● صحيح البخاري | 3778 | أنس بن مالك | أولا ترضون أن يرجع الناس بالغنائم إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
● صحيح البخاري | 4334 | أنس بن مالك | قريشا حديث عهد بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار |
● صحيح البخاري | 4337 | أنس بن مالك | ألا ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار |
● صحيح البخاري | 3147 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعوا إلى رحالكم برسول الله فوالله ما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا بلى يا رسول الله قد رضينا سترون بعدي أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله على الحوض |
● صحيح البخاري | 4332 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
● صحيح البخاري | 4331 | أنس بن مالك | أعطي رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وتذهبون بالنبي إلى رحالكم فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا |
● صحيح مسلم | 2440 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار |
● صحيح مسلم | 2436 | أنس بن مالك | أفلا ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به فقالوا بلى يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله إني على الحوض |
● صحيح مسلم | 2441 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون بمحمد تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى يا رسول الله رضينا لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار |
● جامع الترمذي | 3901 | أنس بن مالك | قريشا حديث عهدهم بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
● مسندالحميدي | 1229 | أنس بن مالك | إنكم سترون بعدي أثرة، فاصبروا حتى تلقوني |
● مسندالحميدي | 1235 | أنس بن مالك | لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت شعب الأنصار، ولولا الهجرة لكنت امرأ من الأنصار، الأنصار كرشي، وعيبتي، فأحسنوا إلى محسنهم، وتجاوزوا عن مسيئهم |
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: ”کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: ”قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے“، پھر آپ نے فرمایا: ”قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3901
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4337
4337. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4337]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو۔
ان کی آ واز بلند تھی۔
انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4337
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4337
4337. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4337]
حدیث حاشیہ:
1۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اے عباس ؓ!اصحاب شجرہ کو آواز دو۔
" آپ بہت بلند آواز تھے۔
انھوں نے اونچی آواز سے کہا:
اصحاب ِشجرہ کہاں ہیں؟ ان کی آواز سنتے ہی بیعت کرنے والے ایسے لپکے جیسے گائیں اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے:
ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
پھر گھمسان کا رن پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کے منہ پر دے ماریں اور فرمایا:
”مجھے محمدﷺ کے رب کی قسم! کافرشکست کھا گئے ہیں۔
“ اس کے بعد کفار کو شکست سے دوچارہونا پڑا۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4612(1775)
2۔
اس غزوے میں رسول اللہ ﷺ اکیلے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آدمی تھے۔
آپ کا ارادہ ہوا کہ دشمن پرٹوٹ پڑیں، اس لیے آپ اکیلے بڑھے مگر ابوسفیان بن حارث آپ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔
انھوں نے آپ کو آگے نہ جانے دیا، حضرت عباس ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4337