الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
The Book of Wasaya (Wills and Testaments)
28. بَابُ الْوَقْفِ كَيْفَ يُكْتَبُ:
28. باب: وقف کی سند کیوں کر لکھی جائے۔
(28) Chapter. How to write the endowment?
حدیث نمبر: 2772
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا ابن عون، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: اصاب عمر بخيبر ارضا، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اصبت ارضا لم اصب مالا قط انفس منه، فكيف تامرني به، قال: إن شئت حبست اصلها، وتصدقت بها، فتصدق عمر انه لا يباع اصلها، ولا يوهب، ولا يورث في الفقراء، والقربى، والرقاب، وفي سبيل الله، والضيف، وابن السبيل، لا جناح على من وليها ان ياكل منها بالمعروف، او يطعم صديقا غير متمول فيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ بِخَيْبَرَ أَرْضًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ مِنْهُ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ، قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا، وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا، وَلَا يُوهَبُ، وَلَا يُورَثُ فِي الْفُقَرَاءِ، وَالْقُرْبَى، وَالرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالضَّيْفِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن عون رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی (جس کا نام ثمغ تھا) تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایک زمین ملی ہے اور اس سے عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہے تو اصل جائیداد اپنے قبضے میں روک رکھ اور اس کے منافع کو خیرات کر دے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ وراثت میں کسی کو ملے اور فقراء، رشتہ دار، غلام آزاد کرانے ‘ اللہ کے راستے (کے مجاہدوں) مہمانوں اور مسافروں کے لیے (وقف ہے) جو شخص بھی اس کا متولی ہو اگر دستور کے مطابق اس میں سے کھائے یا اپنے کسی دوست کو کھلائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ مال جمع کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

Narrated Ibn `Umar: When `Umar got a piece of land in Khaibar, he came to the Prophet saying, "I have got a piece of land, better than which I have never got. So what do you advise me regarding it?" The Prophet said, "If you wish you can keep it as an endowment to be used for charitable purposes." So, `Umar gave the land in charity (i.e. as an endowments on the condition that the land would neither be sold nor given as a present, nor bequeathed, (and its yield) would be used for the poor, the kinsmen, the emancipation of slaves, Jihad, and for guests and travelers; and its administrator could eat in a reasonable just manner, and he also could feed his friends without intending to be wealthy by its means."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 33


   صحيح البخاري2772عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   صحيح البخاري2737عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   صحيح البخاري2773عبد الله بن عمرإن شئت تصدقت بها فتصدق بها
   صحيح مسلم4224عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   جامع الترمذي1375عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن أبي داود2878عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
   سنن ابن ماجه2396عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن ابن ماجه2397عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرها
   سنن النسائى الصغرى3627عبد الله بن عمرإن شئت تصدقت بها فتصدق بها لا تباع لا توهب
   سنن النسائى الصغرى3629عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن النسائى الصغرى3630عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها وتصدقت بها فتصدق بها
   سنن النسائى الصغرى3631عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن النسائى الصغرى3633عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرتها
   سنن النسائى الصغرى3634عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل الثمرة
   سنن النسائى الصغرى3635عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرتها
   بلوغ المرام786عبد الله بن عمر إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
   مسندالحميدي667عبد الله بن عمريا عمر، احبس الأصل، وسبل الثمرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2397  
´جس نے وقف کیا اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کر دوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصل زمین کو رہنے دو، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2397]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وقف شرعاً درست ہے۔

(2)
وقف کسی کی ملکیت نہیں ہوتا البتہ وقف کرنے والا اس کا انتظام خود کرنے کا حق رکھتا ہے۔

(3)
وقف سےحاصل ہونے والی آمدنی میں سے وقف قائم رکھنے کےضروری اخراجات نکال کرباقی مال نیکی کےان کاموں میں خرچ ہوگا جن کےلیے وقف کیاگیا ہے۔

(4)
وقف کا منتظم اپنی خدمات کےعوض مناسب تنخواہ لے سکتا ہے لیکن یہ تنخواہ بہت زیادہ نہ ہو۔

(5)
مال نہ کمانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنے لیے ذریعہ آمدنی نہ بنا لے اورجائز حد سے زیادہ مالی فوائد حاصل نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2397   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 786  
´وقف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر کے علاقہ میں زمین ملی تھی۔ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ طلب کرنے کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں کچھ زمین حاصل ہوئی ہے ایسی نفیس و قیمتی کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایسی زمین مجھے نہیں ملی۔ میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو اصل کو اپنے پاس روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو فقیروں، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے میں اور راہ خدا میں، راہ چلتے مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کیلئے وقف کر دیا اور وصیت بھی کر دی کہ اس کا منتظم و نگہبان معروف طریقہ کے مطابق خود بھی کھا سکتا ہے اور احباب و رفقاء کو بھی کھلا سکتا ہے۔ مگر مال کو ذخیرہ بنا کر نہ رکھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور بخاری کی روایت میں ہے کہ اس کے اصل کو صدقہ کر دیا (یعنی وقف کر دیا) جو نہ فروخت کیا جائے گا اور نہ ھبہ کیا جائے گا لیکن اس کی پیداوار، راہ خدا میں خرچ کی جائے گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 786»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشروط، باب الشروط في الوقف، حديث:2737، ومسلم، الوصية، باب الوقف، حديث:1632.»
تشریح:
اس حدیث میں وقف شدہ چیز کو فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے‘ یعنی جو چیز وقف کر دی جائے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے۔
حدیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف شدہ چیز کے فروخت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ان کے شاگرد رشید امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچ جاتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 786   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1375  
´وقف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1375]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیا جا سکتا ہے،
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں،
ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے۔
(دیکھیے:
فتح الباری کتاب الوصایا،
باب 29 (2773)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1375   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2772  
2772. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عمر ؓ کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے، میں نے قبل ازیں اس سے عمدہ مال کبھی نہیں پایا۔ اس کے متعلق آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو اصل زمین روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کرتے رہو۔ تو حضرت عمر ؓ نے اس طرح صدقہ کیا کہ اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے نہ کسی کو ہبہ کی جائے اور نہ اس کو ورثہ ہی بنایا جائے۔ یہ فقراء قرابت داروں، غلام آزاد کرنے، جہاد فی سبیل اللہ، مہمانوں اور مسافروں کے لیے وقف ہے۔ جو شخص اس وقف کا متولی ہو وہ دستور کے مطابق اس سے خود کھا سکتا ہے اور اپنے دوستوں کو بھی کھلا سکتا ہے لیکن اس کے ذریعے سے دولت جمع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2772]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے وقف کی یہ شرطیں لکھوادیں مگر امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا جس کو ابو داؤد نے نکالا۔
اس میں یوں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ شرطیں معیقیب کی قلم سے لکھوادیں جس میں یہ تھا کہ اصل جائداد کو کوئی بیع یا ہبہ نہ کرسکے‘ اسی کو وقف کہتے ہیں۔
ناطے والوں میں مالدار اور نادار سب آگئے توباب کا مقصد نکل آیا (وحیدی)
حضرت عمر ؓ کا یہ واقعہ 7 ھ سے تعلق رکھتا ہے۔
آپ نے شروع میں اس کا متولی حضرت حفصہ ؓ ام المو منین کو بنایا تھااور یہ لکھا تھا کہ ھذا ما کتب عبداللّٰہ عمر أمیر المؤمنین في ثمغ أنه إلی حفصة ما عاشت تنفق ثمرہ حیث أراھا اللّٰہ فإن توفیت فإلی ذوي الرأي من أھلھا وقف نامہ کا متن لکھنے والے معیقیب تھے اور گواہ عبداللہ بن ارقم۔
آنحضرت ﷺ کے مبارک عہد میں یہ زبانی وقف تھا‘ بعد میں حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد حکومت میں اسے باضابطہ تحریر کرادیا (فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2772   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2772  
2772. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عمر ؓ کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے، میں نے قبل ازیں اس سے عمدہ مال کبھی نہیں پایا۔ اس کے متعلق آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو اصل زمین روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کرتے رہو۔ تو حضرت عمر ؓ نے اس طرح صدقہ کیا کہ اصل زمین کو نہ فروخت کیا جائے نہ کسی کو ہبہ کی جائے اور نہ اس کو ورثہ ہی بنایا جائے۔ یہ فقراء قرابت داروں، غلام آزاد کرنے، جہاد فی سبیل اللہ، مہمانوں اور مسافروں کے لیے وقف ہے۔ جو شخص اس وقف کا متولی ہو وہ دستور کے مطابق اس سے خود کھا سکتا ہے اور اپنے دوستوں کو بھی کھلا سکتا ہے لیکن اس کے ذریعے سے دولت جمع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2772]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس روایت میں وقف نامہ تحریر کرنے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ نے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام ابو داود ؒ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت معیقیب ؓ کے ذریعے سے ان الفاظ میں دستاویز تیار کرائی اصل جائیداد کو کوئی فروخت یا ہبہ نہیں کر سکے گا۔
(سنن أبي داود، الوصایا، حدیث: 2879)
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ وقف زبانی تھا، پھر آپ نے اپنے دور حکومت میں اسے باضابطہ تحریر کرا دیا۔
(فتح الباري: 491/5) (2)
بہتر ہے کہ وقف نامہ تحریر کر کے حکومت سے سرکاری طور پر اس کی رجسٹری کرا لی جائے تاکہ آئندہ کسی قسم کے اختلافات کا باعث نہ ہو۔
زبانی اقرار سے ورثاء میں جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے دستاویز تیار کر کے اس پر گواہی تحریر کرا لی جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2772   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.