الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
Chapters on Seeking Permission
31. باب مَا جَاءَ فِي الْمُصَافَحَةِ
باب: مصافحہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2727
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، وإسحاق بن منصور , قالا: حدثنا عبد الله بن نمير، عن الاجلح، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل ان يفترقا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث ابي إسحاق، عن البراء، وقد روي هذا الحديث عن البراء من غير وجه، والاجلح هو ابن عبد الله بن حجية بن عدي الكندي.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَجْلَحِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْبَرَاءِ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْأَجْلَحُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيُّ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور (سلام) و مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث براء سے متعدد سندوں سے بھی مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 153 (5213)، سنن ابن ماجہ/الأدب 16 (3703) (تحفة الأشراف: 1799)، و مسند احمد (4/289، 303) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنا اور مصافحہ کرنا اگر ایک طرف دونوں میں محبت کا باعث ہے تو دوسری جانب گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہے، اس مغفرت کا تعلق صرف صغیرہ گناہوں سے ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں سے، کبیرہ گناہ تو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3703)
حدیث نمبر: 2728
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا حنظلة بن عبيد الله، عن انس بن مالك، قال: قال رجل: " يا رسول الله الرجل منا يلقى اخاه او صديقه اينحني له؟ قال: لا، قال: افيلتزمه ويقبله؟ قال: لا، قال: افياخذ بيده ويصافحه؟ قال: نعم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اس نے پوچھا: کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اس نے کہا: پھر تو وہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے، آپ نے فرمایا: ہاں (بس اتنا ہی کافی ہے) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 15 (3702) (تحفة الأشراف: 822) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں (۱) ملاقات کے وقت کسی کے سامنے جھکنا منع ہے، اس لیے جھک کر کسی کا پاؤں چھونا ناجائز ہے، (۲) اس حدیث میں معانقہ اور بوسے سے جو منع کیا گیا ہے، یہ ہر مرتبہ ملاقات کے وقت کرنے سے ہے، البتہ نئی سفر سے آ کر ملے تو معانقہ و بوسہ درست ہے، (۳) «أفيأخذ بيده ويصافحه» سے یہ واضح ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے ہو گا، کیونکہ حدیث میں دونوں ہاتھ کے پکڑنے کے متعلق نہیں پوچھا گیا، بلکہ یہ پوچھا گیا ہے کہ اس کے ہاتھ کو پکڑے اور مصافحہ کرے معلوم ہوا کہ مصافحہ کا مسنون طریقہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا ہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3702)
حدیث نمبر: 2729
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا همام، عن قتادة، قال: قلت لانس بن مالك: هل كانت المصافحة في اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: هَلْ كَانَتِ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستئذان 27 (6263) (تحفة الأشراف: 1405) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2730
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا يحيى بن سليم الطائفي، عن سفيان، عن منصور، عن خيثمة، عن رجل، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من تمام التحية الاخذ باليد " , وفي الباب عن البراء، وابن عمر , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب ولا نعرفه إلا من حديث يحيى بن سليم، عن سفيان، قال: سالت محمد بن إسماعيل، عن هذا الحديث فلم يعده محفوظا، وقال: إنما اراد عندي حديث سفيان، عن منصور، عن خيثمة، عمن , سمع ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا سمر إلا لمصل او مسافر " , قال محمد: وإنما يروى عن منصور، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن يزيد , او غيره , قال: " من تمام التحية الاخذ باليد ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الْأَخْذُ بِالْيَدِ " , وفي الباب عن الْبَرَاءِ، وَابْنِ عُمَرَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعُدَّهُ مَحْفُوظًا، وَقَالَ: إِنَّمَا أَرَادَ عِنْدِي حَدِيثَ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَمَّنْ , سَمِعَ ابْنَ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا سَمَرَ إِلَّا لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ " , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَإِنَّمَا يُرْوَى عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ , أَوْ غَيْرِهِ , قَالَ: " مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الْأَخْذُ بِالْيَدِ ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل سلام ( «السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ» کہنے کے ساتھ ساتھ) ہاتھ کو ہاتھ میں لینا یعنی (مصافحہ کرنا) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن سلیم کی روایت سے جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا کہ میرے نزدیک یحییٰ بن سلیم نے سفیان کی وہ روایت مراد لی ہے جسے انہوں نے منصور سے روایت کی ہے، اور منصور نے خیثمہ سے اور خیثمہ نے اس سے جس نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے سنا ہے اور ابن مسعود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: (بعد نماز عشاء) بات چیت اور قصہ گوئی نہیں کرنی چاہیئے، سوائے اس شخص کے جس کو (ابھی کچھ دیر بعد اٹھ کر تہجد کی) نماز پڑھنی ہے یا سفر کرنا ہے، محمد کہتے ہیں: اور منصور سے مروی ہے انہوں نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے عبدالرحمٰن بن یزید سے یا ان کے سوا کسی اور سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: سلام کی تکمیل سے مراد ہاتھ پکڑنا (مصافحہ کرنا) ہے،
۳- اس باب میں براء اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9641) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (2691) // و (1288)، ضعيف الجامع الصغير (5294) //
حدیث نمبر: 2731
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يحيى بن ايوب، عن عبيد الله بن زحر، عن علي بن يزيد، عن القاسم ابي عبد الرحمن، عن ابي امامة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" تمام عيادة المريض ان يضع احدكم يده على جبهته او قال: على يده , فيساله كيف هو، وتمام تحياتكم بينكم المصافحة" , قال ابو عيسى: هذا إسناد ليس بالقوي، قال محمد: عبيد الله بن زحر ثقة، وعلي بن يزيد ضعيف، والقاسم بن عبد الرحمن يكنى: ابا عبد الرحمن وهو مولى عبد الرحمن بن خالد بن يزيد بن معاوية وهو ثقة، والقاسم شامي.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" تَمَامُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ أَنْ يَضَعَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ أَوْ قَالَ: عَلَى يَدِهِ , فَيَسْأَلُهُ كَيْفَ هُوَ، وَتَمَامُ تَحِيَّاتِكُمْ بَيْنَكُمُ الْمُصَافَحَةُ" , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا إِسْنَادٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زَحْرٍ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ ضَعِيفٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُكْنَى: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَالْقَاسِمُ شَامِيٌّ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ تم میں سے عیادت کرنے والا اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے، یا آپ نے یہ فرمایا: (راوی کو شبہ ہو گیا ہے) اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے، پھر اس سے پوچھے کہ وہ کیسا ہے؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرو۔‏‏‏‏
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: عبیداللہ بن زحر ثقہ ہیں اور علی بن یزید ضعیف ہیں، ۳ - قاسم بن عبدالرحمٰن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے اور یہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ثقہ ہیں اور قاسم شامی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4910) (ضعیف) وانظر مسند احمد (5/260) (یہ سند مشہور ضعیف سندوں میں سے ہے، عبید اللہ بن زحر“ اور ”علی بن یزید‘‘ دونوں سخت ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1288) // ضعيف الجامع الصغير (5297) //

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.