English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
ترقیم فواد عبدالباقی سے تلاش کل احادیث (3033)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:

21. باب اسْتِخْلاَفِ الإِمَامِ إِذَا عَرَضَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ وَسَفَرٍ وَغَيْرِهِمَا مَنْ يُصَلِّي بِالنَّاسِ وَأَنَّ مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ جَالِسٍ لِعَجْزِهِ عَنِ الْقِيَامِ لَزِمَهُ الْقِيَامُ إِذَا قَدَرَ عَلَيْهِ وَنَسْخِ الْقُعُودِ خَلْفَ الْقَاعِدِ فِي حَقِّ مَنْ قَدَرَ عَلَى الْقِيَامِ:
باب: مرض، سفر یا اور کسی عذر کی وجہ سے امام کا نماز میں کسی کو خلیفہ بنانا، اور اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھے اگر کھڑے ہونے کی طاقت رکھتا ہو، کیونکہ قیام کی طاقت رکھنے والے مقتدی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم منسوخ ہو چکا ہے۔
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 418 ترقیم شاملہ: -- 936
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ لَهَا: أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بَلَى، ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ "، قُلْنَا: لَا، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ " قُلْنَا: لَا، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ "، قُلْنَا: لَا، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ "، فَقُلْنَا: لَا، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ، يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ، قَالَتْ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ رَجُلًا رَقِيقًا: يَا عُمَرُ، صَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ، قَالَتْ: فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ، ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ، وَقَالَ لَهُمَا: أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ، فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ قَائِمٌ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ، عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هَاتِ، فَعَرَضْتُ حَدِيثَهَا عَلَيْهِ، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ.
موسیٰ بن ابی عائشہ نے عبید اللہ بن عبداللہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! جب (بیماری کے سبب) نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کے حرکات و سکنات) بوجھل ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! نہیں، وہ سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر آپ نے اٹھنے کی کوشش کی تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر آپ کو افاقہ ہوا تو فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔ ہم نے رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر آپ اٹھنے لگے تو آپ پر غشی طاری ہو گئی، پھر ہوش میں آئے تو فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔ ہم نے رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنے لگے تو بے ہوش ہو گئے، پھر ہوش میں آئے تو فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لوگ مسجد میں اکٹھے بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پیغام لانے والا ان کے پاس آیا اور بولا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا، اور وہ بہت نرم دل انسان تھے: عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان دنوں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تخفیف محسوس فرمائی تو دو مردوں کا سہارا لے کر، جن میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے، نماز ظہر کے لیے نکلے، (اس وقت) ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹیں اور آپ نے ان دونوں سے فرمایا: مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو۔ ان دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے راوی) عبید اللہ نے کہا: پھر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کی: کیا میں آپ کے سامنے وہ حدیث پیش نہ کروں، جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا: لاؤ۔ تو میں نے ان کے سامنے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی، انہوں نے اس میں سے کسی بات کا انکار نہ کیا، ہاں! اتنا کہا: کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمہیں اس آدمی کا نام بتایا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 936]
عبیداللہ بن عبداللہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے جواب دیا، کیوں نہیں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے لگن (ٹب) میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرما لیا، پھر اٹھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوش میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کے منتظر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے لگن (ٹب) میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، پھر اٹھنے لگے تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر ہوش میں آئے تو پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا نہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے پانی کا ٹب رکھو۔ ہم نے ایسا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، پھر اٹھنے لگے تو بے ہوش ہو گئے، پھر ہوش میں آئے تو پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ تو ہم نے کہا نہیں، وہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا انتظار کر رہے ہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا، لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، پیغامبر ان کے پاس آ کر کہنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں، آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو ابو بکر نے کہا، کیونکہ وہ بہت نرم دل تھے، اے عمر! لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو عمر نے جواب دیا، آپ ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا، اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان دنوں جماعت کرائی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ افاقہ محسوس کیا (مزاج میں آسانی پائی) تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے، نماز ظہر کے لیے نکلے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پیچھے ہٹنے لگے تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو۔ تو ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو بکر کے پہلو میں بٹھا دیا، راوی نے کہا، ابو بکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے اور لوگ ابو بکر کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، عبیداللہ رحمہ اللہ نے بتایا پھر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ان سے عرض کیا، کیا میں آپ کو وہ حدیث نہ سناؤں، جو مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں سنائی ہے؟ انہوں نے کہا: سناؤ تو میں نے ان پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی، انہوں نے اس میں کسی چیز پر اعتراض نہیں کیا، یا کسی بات کا انکار نہیں کیا، ہاں اتنا کہا کیا عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمہیں اس آدمی کا نام بتایا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا، نہیں تو انہوں نے کہا، وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 936]
ترقیم فوادعبدالباقی: 418
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 418 ترقیم شاملہ: -- 937
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد واللفظ لابن رافع، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: " أَوَّلُ مَا اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ، فَاسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِهَا، وَأَذِنَّ لَهُ، قَالَتْ: فَخَرَجَ، وَيَدٌ لَهُ عَلَى الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَيَدٌ لَهُ عَلَى رَجُلٍ آخَرَ، وَهُوَ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ فِي الأَرْضِ، فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَنَ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ هُوَ عَلِيٌّ.
معمر نے بیان کیا کہ زہری نے کہا: مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے ہوا، آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت مانگی کہ آپ کی تیمار داری میرے گھر میں کی جائے، انہوں نے اجازت دے دی۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) فرمایا: آپ اس طرح نکلے کہ آپ کا ایک ہاتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہ (کے کندھے) پر اور دوسرا ہاتھ ایک دوسرے آدمی پر تھا اور (نقاہت کی وجہ سے) آپ اپنے پاؤں سے زمین پر لکیر بناتے جا رہے تھے۔ عبید اللہ نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سنائی تو انہوں نے کہا: کیا تم جانتے ہو وہ آدمی، جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں لیا، کون تھے؟ وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 937]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے میرے گھر میں تیمار داری کروانے کی اجازت طلب کی (میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کی اجازت چاہی) اور ازواج نے اجازت دے دی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں، آپ اس حال میں گھر سے نکلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہاتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہ پر اور دوسرا ایک دوسرے آدمی پر تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر خط (لکیر) کھینچ رہے تھے (پیر زمین پر گھسیٹ رہے تھے) عبیداللہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سنائی تو انہوں نے پوچھا، کیا تم جانتے ہو وہ آدمی جس کا عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں لیا، کون تھا؟ وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 937]
ترقیم فوادعبدالباقی: 418
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 418 ترقیم شاملہ: -- 938
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ، اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، تَخُطُّ رِجْلَاهُ فِي الأَرْضِ، بَيْنَ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَبَيْنَ رَجُلٍ آخَرَ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَأَخْبَرْتُ عَبْدَ اللَّهِ بِالَّذِي قَالَتْ عَائِشَةُ، فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الآخَرُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ عَلِيٌّ.
عقیل بن خالد نے کہا: ابن شہاب (زہری) نے کہا: مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آپ کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب کی کہ ان کی تیمار داری میرے گھر میں ہو، انہوں نے اجازت دے دی، پھر آپ دو آدمیوں کے درمیان (ان کا سہارا لے کر) نکلے، آپ کے دونوں پاؤں زمین پر لکیر بناتے جا رہے تھے (اور آپ) عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ (حدیث کے راوی) عبید اللہ نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ کہا تھا، میں نے اس کا تذکرہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تم جانتے ہو وہ آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں لیا؟ انہوں نے کہا: میں نے کہا: نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 938]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کی اجازت طلب کی انہوں نے اجازت دے دی تو آپ دو آدمیوں کے سہارے اس حال میں نکلے آپ کے دونوں پیر زمین سے رگڑ کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے، حدیث کے راوی عبیداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ بتایا تھا، میں نے اس کا تذکرہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے پوچھا کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو، جس کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہیں لیا؟ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے بتایا، وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 938]
ترقیم فوادعبدالباقی: 418
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 418 ترقیم شاملہ: -- 939
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " لَقَدْ رَاجَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، وَمَا حَمَلَنِي عَلَى كَثْرَةِ مُرَاجَعَتِهِ، إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَقَعْ فِي قَلْبِي، أَنْ يُحِبَّ النَّاسُ بَعْدَهُ، رَجُلًا قَامَ مَقَامَهُ أَبَدًا، وَإِلَّا أَنِّي كُنْتُ أَرَى، أَنَّهُ لَنْ يَقُومَ مَقَامَهُ أَحَدٌ، إِلَّا تَشَاءَمَ النَّاسُ بِهِ، فَأَرَدْتُ أَنْ يَعْدِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ ".
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام بنانے کے) اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار بات کی۔ میں نے اتنی بار آپ سے صرف اس لیے رجوع کیا کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھتی نہ تھی کہ لوگ آپ کے بعد کبھی اس شخص سے محبت کریں گے جو آپ کا قائم مقام ہو گا اور اس کے برعکس میرا خیال یہ تھا کہ آپ کی جگہ پر جو شخص بھی کھڑا ہو گا لوگ اسے برا (برے شگون کا حامل) سمجھیں گے، اس لیے میں چاہتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت (کی ذمہ داری) ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہٹا دیں۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 939]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اس معاملہ (ایام مرض میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امام بنانے کے معاملہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بار بار پوچھا) اور میں بار بار صرف اس بنا پر پوچھ رہی تھی کیونکہ میرا دل یہ نہیں مانتا تھا کہ لوگ کبھی اس شخص سے محبت کریں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑا ہو گا، کیونکہ میرا خیال یہ تھا کہ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑا ہوگا لوگ اس سے بدشگونی لیں گے، اس لیے میں چاہتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کو ابو بکر سے پھیر دیں (کسی اور کو امام مقرر کریں)۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 939]
ترقیم فوادعبدالباقی: 418
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 418 ترقیم شاملہ: -- 940
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد واللفظ لابن رافع، قَالَ عَبد: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، قَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ، رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ، لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا بِي إِلَّا كَرَاهِيَةُ، أَنْ يَتَشَاءَمَ النَّاسُ بِأَوَّلِ مَنْ يَقُومُ فِي مَقَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَرَاجَعْتُهُ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ: لِيُصَلِّ بِالنَّاسِ أَبُو بَكْرٍ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ".
(عبید اللہ بن عبداللہ کے بجائے) حمزہ بن عبداللہ بن عمر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کے دوران) میرے گھر تشریف لے آئے تو آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم پہنچاؤ کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ وہ کہتی ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل انسان ہیں، جب وہ قرآن پڑھیں گے تو اپنے آنسوؤں پر قابونہیں رکھ سکیں گے، لہذا اگر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بجائے کسی اور کو حکم دیں (تو بہتر ہو گا)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم! میرے دل میں اس چیز کو ناپسند کرنے کی اس کے علاوہ اور کوئی بات نہ تھی کہ جو شخص سب سے پہلے آپ کی جگہ کھڑا ہو گا لوگ اسے برا سمجھیں گے، اس لیے میں نے دو یا تین دفعہ اپنی بات دہرائی تو آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کو نماز پڑھائیں، بلاشبہ تم یوسف علیہ السلام کے ساتھ (معاملہ کرنے) والی عورتوں جیسی ہو۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 940]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو بکر رضی اللہ عنہ نرم دل ہیں، جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پا سکتے، اے کاش! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر کے سوا کسی اور کو حکم فرمائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم میرا اس سے صرف یہ مقصد تھا کہ لوگ جو شخص سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑا ہوگا اس سے بدفالی پکڑتے ہوئے اس کو ناپسند کریں گے۔ (اس لیے ابو بکر رضی اللہ عنہ اس سے بچ جائیں) اس لیے میں نے دو یا تین دفعہ اپنی بات پیش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر ہی لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف علیہ السلام کے ساتھ معاملہ کرنے والی عورتیں ہو۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 940]
ترقیم فوادعبدالباقی: 418
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 418 ترقیم شاملہ: -- 941
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، إِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ، لَا يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ، رَجُلٌ أَسِيفٌ، إِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ، لَا يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَتْ لَهُ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ، يُصَلِّي بِالنَّاسِ، قَالَتْ: لَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِد، سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُمْ مَكَانَكَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا، وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقْتَدِي النَّاسُ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ ".
ابومعاویہ اور وکیع نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ابوبکر جلد غم زدہ ہو جانے والے انسان ہیں اور وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قراءت بھی) نہیں سنا سکیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دے دیں (تو بہتر ہو گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے حفصہ سے کہا: تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ ابوبکر جلد غم زدہ ہونے والے انسان ہیں، جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قراءت) نہ سنا سکیں، چنانچہ اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں (تو بہتر ہو گا)۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہہ دیا تو آپ نے فرمایا: تم یوسف علیہ السلام کے ساتھ (معاملہ کرنے) والی عورتوں کی طرح ہو، ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم پہنچا دیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، آپ اٹھے، دو آدمی آپ کو سہارا دیے ہوئے تھے اور آپ کے پاؤں زمین پر لکیر کھینچتے جا رہے تھے۔ وہ فرماتی ہیں: جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آہٹ سن لی، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 941]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہو گئی، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے) تو بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر کو کہو وہ نماز پڑھائیں۔ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو بکر نرم دل انسان ہیں اور وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے، لوگوں کو قراءت نہیں سنا سکیں گے، اے کاش! آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہو، لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا، تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو، ابو بکر نرم دل انسان ہے جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں، لوگوں کو قراءت نہیں سنا سکیں گے تو اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں تو بہتر ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یوسف علیہ السلام سے معاملہ کرنے والی عورتوں کی طرح ہو، ابو بکر کو کہو لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض میں کچھ تخفیف محسوس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، دو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دے رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر نشان بنا رہے تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہو گئے، جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہٹ محسوس کی، ابو بکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے روکا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھاتے رہے، ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مقتدی تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 941]
ترقیم فوادعبدالباقی: 418
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 418 ترقیم شاملہ: -- 942
حَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كِلَاهُمَا، عَنِ الأَعْمَشِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَفِي حَدِيثِهِمَا: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، وَفِي حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِر، فَأُتِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أُجْلِسَ إِلَى جَنْبِهِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي بِالنَّاسِ وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُهُمُ التَّكْبِيرَ، وَفِي حَدِيثِ عِيسَى، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَأَبُو بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ ".
علی بن مسہر اور عیسیٰ بن یونس نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ بالا روایت بیان کی۔ ان دونوں کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ نے وفات پائی۔ ابن مسہر کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لایا گیا یہاں تک کہ انہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو تکبیر سنا رہے تھے۔ عیسیٰ کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور لوگوں کو نماز پڑھانے لگے، ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے اور لوگوں کو (آپ کی تکبیر) سنا رہے تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 942]
امام صاحب رحمہ اللہ ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت کی بیماری میں مبتلا ہوئے، ابن مسہر رحمہ اللہ کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لایا گیا حتیٰ کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو جماعت کرانے لگے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کو تکبیر سنانے لگے اور عیسیٰ رحمہ اللہ کی روایت میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھانے لگے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے اور لوگوں کو تکبیر سنا رہے تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 942]
ترقیم فوادعبدالباقی: 418
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 418 ترقیم شاملہ: -- 943
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي مَرَضِهِ، فَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، قَالَ عُرْوَةُ: فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ، وَإِذَا أَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّ النَّاسَ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ اسْتَأْخَرَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْ كَمَا أَنْتَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ، إِلَى جَنْبِهِ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ ".
ایک اور سند کے ساتھ ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے روایت کی اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو وہ ان کو نماز پڑھاتے رہے۔ عروہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ باہر تشریف لائے، اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کی امامت کر رہے تھے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ جیسے ہو ویسے ہی رہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 943]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو وہ ان کو جماعت کرانے لگے، عروہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام میں محسوس کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، ابو بکر اس وقت جماعت کروا رہے تھے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ فرمایا، اپنی حالت پر رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے تو ابو بکر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرنے لگے، اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 943]
ترقیم فوادعبدالباقی: 418
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 419 ترقیم شاملہ: -- 944
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، قَالَ عَبد: أَخْبَرَنِي، وَقَالَ الآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، وحَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : " أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ، وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ، كَشَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتْرَ الْحُجْرَةِ، فَنَظَرَ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ، كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ، ثُمَّ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا، قَالَ: فَبُهِتْنَا وَنَحْنُ فِي الصَّلَاةِ مِنْ فَرَحٍ بِخُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجٌ لِلصَّلَاةِ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، أَنْ أَتِمُّوا صَلَاتَكُمْ، قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْخَى السِّتْرَ، قَالَ: فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَوْمِهِ ذَلِكَ "،
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران، جس میں آپ نے وفات پائی، ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے حتیٰ کہ جب سوموار کا دن آیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں صف بستہ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا اور ہماری طرف دیکھا، اس وقت آپ کھڑے ہوئے تھے، ایسا لگتا تھا کہ آپ کا رخ انور مصحف کا ایک ورق ہے، پھر آپ نے ہنستے ہوئے تبسم فرمایا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نماز ہی میں اس خوشی کے سبب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر آنے سے ہوئی تھی مبہوت ہو کر رہ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں لوٹے تاکہ صف میں مل جائیں، انہوں نے سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز مکمل کرو، پھر آپ واپس حجرے میں داخل ہو گئے اور پردہ لٹکا دیا۔ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 944]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، ابو بکر رضی اللہ عنہ جماعت کراتے تھے، حتیٰ کہ جب سوموار کا دن آ پہنچا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں نماز پڑھ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا، پھر کھڑے ہو کر ہماری طرف دیکھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور (حسن و جمال اور صفائی میں) مصحف کا ورق تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے کی خوشی میں مبہوت ہو گئے حالانکہ ہم نماز میں تھے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں لوٹ کر صف میں شریک ہونا چاہتے تھے، انہوں نے خیال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے، صحابہ کرام کو اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے کہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس حجرہ میں داخل ہو گئے اور پردہ لٹکا دیا، اور اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 944]
ترقیم فوادعبدالباقی: 419
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 419 ترقیم شاملہ: -- 945
وحَدَّثَنِيهِ عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: آخِرُ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَشَفَ السِّتَارَةَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، وَحَدِيثُ صَالِحٍ، أَتَمُّ، وَأَشْبَعُ،
سفیان بن عیینہ نے (ابن شہاب) زہری سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف میں نے جو آخری نظر ڈالی (وہ اس طرح تھی کہ) سوموار کے دن آپ نے (حجرے کا) پردہ اٹھایا ... جس طرح اوپر واقعہ (بیان ہوا) ہے۔ (امام مسلم فرماتے ہیں:) صالح کی حدیث کامل اور سیر حاصل ہے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 945]
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آخری بار جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا، سوموار کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا، اور اوپر والا واقعہ بیان کیا۔ صالح رحمہ اللہ کی حدیث کامل اور سیر حاصل ہے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 945]
ترقیم فوادعبدالباقی: 419
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں