الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 46. باب التَّلْبِيَةِ وَالتَّكْبِيرِ فِي الذِّهَابِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ: باب: عرفہ کے دن منی سے عرفات کی طرف جاتے ہوئے تکبیر اور تلبیہ پڑھنے کا بیان۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ہم صبح کو چلے منیٰ سے عرفات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو کوئی ہم میں سے لبیک پکارتا تھا اور کوئی تکبیر کہتا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے عرفہ کی صبح کو سو کوئی ہم میں سے «الله اكبر» کہتا تھا کوئی «لَا إِلَـٰہَ إِلَّا اللَّـہُ» اور ہم ان میں تھے جو «الله اكبر» کہتے تھے میں نے ان سے کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے تم نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کرتے دیکھا۔ (سبحان اللہ! سنت سے محبت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل دریافت کیوں نہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے تھے)۔
محمد بن ابوبکر ثقفی نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور دونوں منیٰ سے عرفات کو جاتے تھے کہ تم لوگ کیا کرتے تھے آج کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ؟ سو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی ہم میں سے «لَا إِلَـٰہَ إِلَّا اللَّـہُ» اللہ کہتا تھا سو اس کو کوئی منع نہ کرتا تھا اور کوئی ہم میں سے «الله اكبر» کہتا تھا تب بھی کوئی اس کو منع نہ کرتا تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے عرفہ کی صبح تلبیہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو پھر آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اس سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو کوئی ہم میں سے تکبیر کہتا اور کوئی تہلیل اور کوئی بھی اپنے ساتھی پر عیب نہ لگاتا تھا۔
|