الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
Model Behavior of the Prophet (Kitab Al-Sunnah)
17. باب فِي الْقَدَرِ
باب: تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔
Chapter: Belief In Divine Decree.
حدیث نمبر: 4691
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، قال: حدثني بمنى، عن ابيه، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" القدرية مجوس هذه الامة إن مرضوا فلا تعودوهم وإن ماتوا فلا تشهدوهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بِمِنًى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت (محمدیہ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 7088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/86) (حسن)» ‏‏‏‏ (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ ابو حازم کا سماع ابن عمر سے نہیں ہے)

وضاحت:
۱؎: قدریہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو تقدیر کا منکر ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، اس فرقہ کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ مجوس دو خالق کے قائل ہیں، یعنی خالق شر و خالق خیر: خالق شر کو اہرمن اور خالق خیر کو یزداں کہتے ہیں، جبکہ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ خالق صرف ایک ہے چنانچہ  «هل من خالق غير الله» فرما کر قرآن نے دوسرے کسی خالق کی تردید فرما دی، انسان جو کچھ کرتا ہے اس کو اس کا اختیار اللہ ہی نے دیا ہے، اگر نیک عمل کرے گا تو ثواب پائے گا، بد کرے گا تو عذاب پائے گا، ہر فعل کا خالق اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں، یہ مسئلہ نہایت معرکۃ الآراء ہے، عام آدمی کو اس کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہئے، سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ مسلمان تقدیر پر ایمان رکھے اور شیطان کے وسوسہ سے بچے، تقدیر کے منکروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان سے میل جول بھی درست نہیں۔

Narrated Abdullah ibn Umar: The Prophet ﷺ said: The Qadariyyah are the Magians of this community. If they are ill, do not pay a sick visit to them, and if they die, do not attend their funerals.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4674


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 4692
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن عمر بن محمد، عن عمر مولى غفرة، عن رجل من الانصار، عن حذيفة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لكل امة مجوس، ومجوس هذه الامة الذين يقولون لا قدر، من مات منهم فلا تشهدوا جنازته، ومن مرض منهم فلا تعودوهم وهم شيعة الدجال وحق على الله ان يلحقهم بالدجال".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِكُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسٌ، وَمَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا قَدَرَ، مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ فَلَا تَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وَمَنْ مَرِضَ مِنْهُمْ فَلَا تَعُودُوهُمْ وَهُمْ شِيعَةُ الدَّجَّالِ وَحَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُلْحِقَهُمْ بِالدَّجَّالِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3397)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/406) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی عمر مولی غفرہ ضعیف ہیں، نیز اس کی سند میں ایک راوی انصاری مبہم ہے)

Hudhaifah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Every people have Magians, and the Magians of this community are those who declare that there is no destination by Allah. If any one of them dies, do not attend his funeral, and if any one of them is ill, do not pay a sick visit to him. They are the partisans of the Antichrist (Dajjal), and Allah will surely join with the Antichrist.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4675


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 4693
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، ان يزيد بن زريع، ويحيى بن سعيد حدثاهم، قالا: حدثنا عوف، قال: حدثنا قسامة بن زهير، قال: حدثنا ابو موسى الاشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الارض، فجاء بنو آدم على قدر الارض جاء منهم الاحمر، والابيض، والاسود وبين ذلك والسهل، والحزن، والخبيث، والطيب"، زاد في حديث يحيى وبين ذلك والإخبار في حديث يزيد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ، وَيَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَاهُمْ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ، وَالْأَبْيَضُ، وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالسَّهْلُ، وَالْحَزْنُ، وَالْخَبِيثُ، وَالطَّيِّبُ"، زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ.
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو اس نے ساری زمین سے لیا تھا، چنانچہ آدم کی اولاد اپنی مٹی کی مناسبت سے مختلف رنگ کی ہے، کوئی سفید، کوئی سرخ، کوئی کالا اور کوئی ان کے درمیان، کوئی نرم خو، تو کوئی درشت خو، سخت گیر، کوئی خبیث تو کوئی پاک باز۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/تفسیرالقرآن 3 (2955)، (تحفة الأشراف: 9025)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/400، 406) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abu Musa al-Ash’ari reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Allah created Adam from a handful which he took from the whole of the earth ; so the children of Adam are in accordance with the earth: some red, some white, some black, some a mixture, also smooth and rough, bad and good.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4676


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4694
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد بن مسرهد، حدثنا المعتمر، قال: سمعت منصور بن المعتمر يحدث، عن سعد بن عبيدة، عن عبد الله بن حبيب ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي رضي الله عنه، قال:" كنا في جنازة فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ببقيع الغرقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجلس ومعه مخصرة فجعل ينكت بالمخصرة في الارض، ثم رفع راسه، فقال: ما منكم من احد ما من نفس منفوسة إلا كتب الله مكانها من النار او من الجنة، إلا قد كتبت شقية او سعيدة، قال: فقال رجل من القوم: يا نبي الله افلا نمكث على كتابنا وندع العمل فمن كان من اهل السعادة ليكونن إلى السعادة، ومن كان من اهل الشقوة ليكونن إلى الشقوة، قال: اعملوا فكل ميسر اما اهل السعادة فييسرون للسعادة، واما اهل الشقوة فييسرون للشقوة، ثم قال نبي الله: فاما من اعطى واتقى {5} وصدق بالحسنى {6} فسنيسره لليسرى {7} واما من بخل واستغنى {8} وكذب بالحسنى {9} فسنيسره للعسرى {10} سورة الليل آية 5-10".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه، قَالَ:" كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ مَكَانَهَا مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ، إِلَّا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَفَلَا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى الشِّقْوَةِ، قَالَ: اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ، ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى {7} وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى {8} وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى {9} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى {10} سورة الليل آية 5-10".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، آپ آئے اور بیٹھ گئے، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کے لیے اس کا عمل آسان ہے، اہل سعادت کے لیے سعادت کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا: جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اللہ سے ڈرے، اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لیے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کر دیں گے، اور جو شخص بخل کرے، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بے پروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لیے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کر دیں گے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 82 (1362)، تفسیر سورہ اللیل 3 (4945)، الأدب 120 (6217)، القدر 4 (6605)، التوحید 54 (7552)، صحیح مسلم/القدر 1 (2647)، سنن الترمذی/القدر 3 (2136)، والتفسیر 80 (3344)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (78)، (تحفة الأشراف: 10167)، وقد أخرجہ: مسند احمد 1/82، 129، 132، 140) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں اس شیطانی وسوسہ کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے، اور ان کو بدعملی پر ابھارتا ہے، جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو عمل کیوں کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے، لہٰذا ہر شخص کو نیک عمل کرنا چاہئے کہ یہی نیکی کی راہ، اور یہی جنت میں جانے کا سبب ہے، بندے کو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کہاں جائے گا نیک عمل کرتے رہنا چاہئے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور نتیجے میں جنت نصیب ہو، آمین۔

Ali said: We attended a funeral at Baql’ al-Gharqad which was also attended by the Messenger of Allah ﷺ. The Messenger of Allah ﷺ came and sat down. He had a stick (in his hand) by which he began to scratch up the ground. He then raised his head and said: The place which every one of you and every soul of you will occupy in Hell or in Paradise has been recorded, and destined wicked or blesses. A man from among the people asked: Prophet of Allah! Should we not then trust simply in what has been recorded for us and abandon (doing good) deeds? Those who are among the number of the blessed will be inclined to blessing, and those of us who are among the number of the wicked will be inclined to wickedness. He replied: Go on doing good actions, for everyone is helped to do that for which he was created. Those who are among the number of wicked will be helped to do wicked deeds. The Prophet of Allah ﷺ then recited: “So he who gives (in charity) and fears (Allah), and in all sincerity testifies to the best, we will indeed make smooth for him the path to bliss. But he who is a greedy miser and thinks himself self-sufficient, and gives the lie to the best, We will indeed make smooth for him the path of misery. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4677


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4695
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا كهمس، عن ابن بريدة، عن يحيى بن يعمر، قال: كان اول من تكلم في القدر بالبصرة معبد الجهني، فانطلقت انا، وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين او معتمرين، فقلنا: لو لقينا احدا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالناه عما يقول هؤلاء في القدر فوفق الله لنا عبد الله بن عمر داخلا في المسجد فاكتنفته انا وصاحبي، فظننت ان صاحبي سيكل الكلام إلي فقلت: ابا عبد الرحمن إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرءون القرآن ويتفقرون العلم يزعمون ان لا قدر والامر انف، فقال: إذا لقيت اولئك فاخبرهم اني بريء منهم وهم برآء مني والذي يحلف به عبد الله بن عمر لو ان لاحدهم مثل احد ذهبا، فانفقه ما قبله الله منه حتى يؤمن بالقدر، ثم قال: حدثني عمر بن الخطاب، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب، شديد سواد الشعر لا يرى عليه اثر السفر، ولا نعرفه حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاسند ركبتيه إلى ركبتيه ووضع كفيه على فخذيه وقال: يا محمد اخبرني عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الإسلام ان تشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا، قال: صدقت، قال: فعجبنا له يساله ويصدقه، قال: فاخبرني عن الإيمان، قال: ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره، قال: صدقت، قال: فاخبرني عن الإحسان، قال: ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه، فإنه يراك، قال: فاخبرني عن الساعة، قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، قال: فاخبرني عن اماراتها، قال: ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان، قال: ثم انطلق فلبثت ثلاثا ثم قال: يا عمر هل تدري من السائل؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنه جبريل اتاكم يعلمكم دينكم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلًا فِي الْمَسْجِدِ فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَالْأَمْرَ أُنُفٌ، فَقَالَ: إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ وَهُمْ بُرَآءُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا نَعْرِفُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن پڑھتے اور اس میں علمی باریکیاں نکالتے ہیں، کہتے ہیں: تقدیر کوئی چیز نہیں ۱؎، سارے کام یوں ہی ہوتے ہیں، تو آپ نے عرض کیا: جب تم ان سے ملنا تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں، اور وہ مجھ سے بری ہیں (میرا ان سے کوئی تعلق نہیں)، اس ہستی کی قسم، جس کی قسم عبداللہ بن عمر کھایا کرتا ہے، اگر ان میں ایک شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو بھی اللہ اس کے کسی عمل کو قبول نہ فرمائے گا، جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے، پھر آپ نے کہا: مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے، اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے تھے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گیا، اس نے اپنے گھٹنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور عرض کیا: محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روز ے رکھو، اور اگر پہنچنے کی قدرت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو وہ بولا: آپ نے سچ کہا، عمر بن خطاب کہتے ہیں: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر ۲؎ کے بھلے یا برے ہونے پر ایمان لاؤ اس نے کہا: آپ نے سچ کہا۔ پھر پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو (یہ تصور رکھو کہ) وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ اس بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۳؎۔ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامتیں ہی بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۴؎، اور یہ کہ تم ننگے پیر اور ننگے بدن، محتاج، بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخر و مباہات کریں گے پھر وہ چلا گیا، پھر میں تین ۵؎ (ساعت) تک ٹھہرا رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرائیل تھے، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 1 (8)، سنن الترمذی/الإیمان 4 (2610)، سنن النسائی/الإیمان 5 (4993)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (63)، (تحفة الأشراف: 10572)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 37 (50)، تفسیر سورة لقمان 2 (7774)، مسند احمد (1/27، 28، 51، 52) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: بندہ اپنے افعال میں خود مختار ہے اور وہی ان کا خالق ہے۔
۲؎: یعنی اللہ تعالی نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر شیٔ اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہو رہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔
۳؎: مطلب یہاں یہ ہے کہ قیامت کے وقوع کا علم چونکہ اللہ نے کسی کو نہیں دیا اس لئے نہ تم جانتے ہو اور نہ میں، بلکہ ہر سائل اور مسئول قیامت کے بارے میں ایسا ہی ہے یعنی نہیں جانتا، ہاں قیامت علامات بتلائی گئی ہیں جس سے عبرت حاصل کر کے نیک عمل کرنا چاہئے۔
۴؎: اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے والدین کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔
۵؎: تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔

Yahya bin Yamur said: The first to speak on Divine decree in al-Basrah was MAbad al Juhani. I and Humaid bin Abdur-Rahman al-Himyari proceeded to perform HAJJ or UmrAH. We said: would that we meet any of the Companions of the Messenger of Allah ﷺ so that we could ask him about what they say with regard to divine decree. So Allah helped us to meet Abdullah bin Umar who was entering the mosque. So I and my companion surrounded him, and I thought that my companion would entrust me the task of speaking to him. Then I said: Abu Abdur-Rahman, there appeared on our side some people who recite the Quran and are engaged in the hair-splitting of knowledge. They conceive that there is no Divine decree and everything happens freely without predestination. He said: When you meet those people, tell them that I am free from them, and they are free from me. By Him by Whom swears Abdullah bin Umar, if one of them has gold equivalent to Uhud and he spends it, Allah will not accept it from him until he believes in Divine decree. He then said: Umar bin Khattab transmitted to me a tradition, saying: One day when we were with the Messenger of Allah ﷺ a man with very white clothing and very black hair came up to us. No mark of travel was visible on him, and we did not recognize him. Sitting down beside the Messenger of Allah ﷺ, leaning his knees against his and placing his hands on his thighs, he said: tell me, Muhammad, about Islam. The Messenger of Allah ﷺ said: Islam means that you should testify that there is no god but Allah, and Muhammad is Allah’s Messenger, that you should observe prayer, pay ZAKAT, fast during RAMADAN, and perform Hajj to the house (i. e., KABAH), If you have the meant to go. He said: You have spoken the truth. We were surprised at his questioning him and then declaring that he spoke the truth. He said: now tell me about faith. He replied: It means that you should believe in Allah, his angels, his Books, his Messengers and the last day, and that you should believe in the decreeing both of good and evil. He said: you have spoken the truth. He said: now tell me about doing good (ihsan). He replied: it means that you should worship Allah as though you are seeing him; if you are not seeing him, he is seeing you. He said: Now tell me about the hour. He replied: The one who is asked about it is no better informed than the one who is asking. He said: Then tell me about its signs. He replied: That a maidservant should beget her mistress, and that you should see barefooted, naked, poor men and shepherds exalting themselves in buildings. Umar said: He then went away, and I waited for three days, then he said: Do you know who the questioner was, Umar? I replied: Allah and his Messenger know best. He said: He was Gabriel who came to you to teach you your religion.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4678


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4696
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عثمان بن غياث، قال: حدثني عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، وحميد بن عبد الرحمن، قالا: لقينا عبد الله بن عمر فذكرنا له القدر وما يقولون فيه فذكر نحوه زاد، قال: وساله رجل من مزينة او جهينة، فقال: يا رسول الله فيما نعمل افي شيء قد خلا او مضى او في شيء يستانف الآن؟ قال: في شيء قد خلا، ومضى، فقال الرجل او بعض القوم: ففيم العمل؟ قال: إن اهل الجنة ييسرون لعمل اهل الجنة، وإن اهل النار ييسرون لعمل اهل النار.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: لَقِيَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَذَكَرْنَا لَهُ الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ زَادَ، قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ: فِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا، وَمَضَى، فَقَالَ الرَّجُلُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ.
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملے تو ہم نے آپ سے تقدیر کے بارے میں جو کچھ لوگ کہتے ہیں اس کا ذکر کیا۔ پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ سے مزینہ یا جہینہ ۱؎ کے ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! پھر ہم کیا جان کر عمل کریں؟ کیا یہ جان کر کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ سب پہلے ہی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے، یا یہ جان کر کہ (پہلے سے نہیں لکھا گیا ہے) نئے سرے سے ہونا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جان کر کہ جو کچھ ہونا ہے سب تقدیر میں لکھا جا چکا ہے پھر اس شخص نے یا کسی دوسرے نے کہا: تو آخر یہ عمل کس لیے ہے؟ ۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل جنت کے لیے اہل جنت والے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال آسان کر دیئے جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10572) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: دو قبیلوں کے نام ہیں۔
۲؎: یعنی جب جنت و جہنم کا فیصلہ ہو چکا ہے تو عمل کیوں کریں، یہی سوچ گمراہی کی ابتداء تھی۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by Yahya bin Yamur and Humaid bin Abdur-Rahman through a different chain of narrators. This version has: we met Abdullah bin Umar. We told him about divine decree and what they said about it. He then mentioned something similar to it. He added: A man of Muzainah or juhainah asked: What is the good in doing anything, Messenger of Allah ? should we think that a thing has passed and gone or a thing that has happened now (without predestination)? He replied: About a thing that has passed and gone (i. e. predestined). A man or some people asked: Then, why action? He replied: Those who are among the number of those who go to Paradise will be helped to do the deeds of the people who will go to Paradise, and those who are among the number of those who go to Hell will be helped to do the deeds of those who will go to Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4679


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4697
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمود بن خالد، حدثنا الفريابي، عن سفيان، قال: حدثنا علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابن يعمر بهذا الحديث يزيد وينقص، قال: فما الإسلام؟ قال: إقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم شهر رمضان والاغتسال من الجنابة، قال ابو داود: علقمة مرجئ.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ ابْنِ يَعْمَرَ بِهَذَا الْحَدِيثِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، قَالَ: فَمَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: إِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ وَالِاغْتِسَالُ مِنَ الْجَنَابَةِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: عَلْقَمَةُ مُرْجِئٌ.
یحییٰ بن یعمر سے یہی حدیث کچھ الفاظ کی کمی اور بیشی کے ساتھ مروی ہے اس نے پوچھا: اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کا حج، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کرنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: علقمہ مرجئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10572) (صحیح)» ‏‏‏‏

The tradition mentioned above has also been transmitted by Ibn Yamur, with additions and omissions, through a different chain of narrators. This version adds; He asked: What is Islam? He replied: It means saying prayer, payment of zakat, performing HAJJ, fasting during RAMADAN, and taking a bath on account of sexual defilement. Abu Dawud said: Alqamah was a Murji'i.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4680


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4698
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن ابي فروة الهمداني، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي ذر، قالا:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلس بين ظهري اصحابه، فيجيء الغريب، فلا يدري ايهم هو حتى يسال، فطلبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نجعل له مجلسا يعرفه الغريب إذا اتاه، قال: فبنينا له دكانا من طين، فجلس عليه وكنا نجلس بجنبتيه، وذكر نحو هذا الخبر فاقبل رجل فذكر هيئته حتى سلم من طرف السماط، فقال: السلام عليك يا محمد، قال: فرد عليه النبي صلى الله عليه وسلم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَا:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَيْ أَصْحَابِهِ، فَيَجِيءُ الْغَرِيبُ، فَلَا يَدْرِي أَيُّهُمْ هُوَ حَتَّى يَسْأَلَ، فَطَلَبْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَ لَهُ مَجْلِسًا يَعْرِفُهُ الْغَرِيبُ إِذَا أَتَاهُ، قَالَ: فَبَنَيْنَا لَهُ دُكَّانًا مِنْ طِينٍ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ وَكُنَّا نَجْلِسُ بِجَنْبَتَيْهِ، وَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ فَذَكَرَ هَيْئَتَهُ حَتَّى سَلَّمَ مِنْ طَرَفِ السِّمَاطِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوذر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے بیچ میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ جب کوئی اجنبی شخص آتا تو وہ بغیر پوچھے آپ کو پہچان نہیں پاتا تھا، تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم آپ کے لیے ایک ایسی جائے نشست بنا دیں کہ جب بھی کوئی اجنبی آئے تو وہ آپ کو پہچان لے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنانچہ ہم نے آپ کے لیے ایک مٹی کا چبوترا بنا دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے، آگے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی جیسی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ ایک شخص آیا، پھر انہوں نے اس کی ہیئت ذکر کی، یہاں تک کہ اس نے بیٹھے ہوئے لوگوں کے کنارے سے ہی آپ کو یوں سلام کیا: السلام علیک یا محمد! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏وحدیث أبی ذر قد أخرجہ: سنن النسائی/ الإیمان 6 (4994)، مختصراً، وحدیث أبی ہریرة قد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 38 (50)، تفسیر سورة لقمان 2 (4777)، صحیح مسلم/ الأیمان 1 (9)، سنن ابن ماجہ/ المقدمة 9 (64)، (تحفة الأشراف: 19294)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/426) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Dharr and Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ used to sit among his Companions. A stranger would come and not recognize him (the Prophet) until he asked (about him). So we asked the Messenger of Allah ﷺ to make a place where he might take his seat so that when a stranger came, he might recognise him. So we built a terrace of soil on which he would take his seat, and we would sit beside him. He then mentioned something similar to this Hadith saying: A man came, and he described his appearance. He saluted from the side of the assembly, saying: Peace be upon you, Muhammad. The Prophet ﷺ then responded to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4681


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4699
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن ابي سنان، عن وهب بن خالد الحمصي، عن ابن الديلمي، قال:" اتيت ابي بن كعب، فقلت له: وقع في نفسي شيء من القدر فحدثني بشيء لعل الله ان يذهبه من قلبي، قال: لو ان الله عذب اهل سماواته واهل ارضه عذبهم وهو غير ظالم لهم، ولو رحمهم كانت رحمته خيرا لهم من اعمالهم ولو انفقت مثل احد ذهبا في سبيل الله ما قبله الله منك حتى تؤمن بالقدر، وتعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك، وان ما اخطاك لم يكن ليصيبك، ولو مت على غير هذا لدخلت النار، قال: ثم اتيت عبد الله بن مسعود، فقال مثل ذلك، قال: ثم اتيت حذيفة بن اليمان، فقال مثل ذلك، قال: ثم اتيت زيد بن ثابت فحدثني عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ، عَنْ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ:" أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ لَهُ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدَرِ فَحَدِّثْنِي بِشَيْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَال: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ".
ابن دیلمی ۱؎ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہو گا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گئے تو ضرور جہنم میں داخل ہو گے۔ ابن دیلمی کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مرفوع روایت بیان کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (77)، (تحفة الأشراف: 3726)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/182، 185، 189) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی ابوالبسر عبداللہ بن فیروز الدیلمی۔

Ibn al-Dailami said: I went to Ubayy bin Kaab and said him: I am confused about Divine decree, so tell me something by means of which Allah may remove the confusion from my mind. He replied: were Allah to punish everyone in the heavens and in the earth. He would do so without being unjust to them, and were he to show mercy to them his mercy would be much better than their actions merited. Were you to spend in support of Allah’s cause an amount of gold equivalent to Uhud, Allah would not accept it from you till you believed in divine decree and knew that what has come to you could not miss you and that what has missed you could not come to you. Were you to die believing anything else you would enter Hell. He said: I then went to Abdullah bin Masud and he said something to the same effect. I next went to Hudhaifah bin al-Yaman and he said something to the same effect. I next went to Zaid bin Thabit who told me something from the Prophet ﷺ to the same effect.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4682


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4700
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا جعفر بن مسافر الهذلي، حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا الوليد بن رباح، عن إبراهيم بن ابي عبلة، عن ابي حفصة، قال: قال عبادة بن الصامت لابنه: يا بني إنك لن تجد طعم حقيقة الإيمان حتى تعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك، وما اخطاك لم يكن ليصيبك، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن اول ما خلق الله القلم فقال له: اكتب قال: رب وماذا اكتب؟ قال: اكتب مقادير كل شيء حتى تقوم الساعة، يا بني إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من مات على غير هذا فليس مني".
(مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الْإِيمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي".
ابوحفصہ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے بیٹے! تم ایمان کی حقیقت کا مزہ ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ تم یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ ایسا نہیں کہ نہ ملتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے ایسا نہیں کہ وہ تمہیں مل جاتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: سب سے پہلی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، قلم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا: لکھ، قلم نے کہا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ اے میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جو اس کے علاوہ (کسی اور عقیدے) پر مرا تو وہ مجھ سے نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5082)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القدر 17 (2155)، تفسیر سورة النون 66 (3319) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ubadah bin al Samit said to his son: Sonny! You will not get the taste of the reality of faith until you know that what has come to you could not miss you, and that what has missed you could not come to you. I heard the Messenger of Allah ﷺ say: The first thing Allah created was pen. He said to it: Write. It asked: What should I write, my lord? He said: Write what was decreed about everything till the Last hour comes. Sonny! I heard the Messenger of Allah ﷺ say: He who dies on something other than this does not does not belong to me.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4683


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4701
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا سفيان. ح وحدثنا احمد بن صالح المعنى، قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، سمع طاوسا، يقول: سمعت ابا هريرة، يخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" احتج آدم، وموسى، فقال موسى: يا آدم انت ابونا خيبتنا واخرجتنا من الجنة، فقال آدم: انت موسى اصطفاك الله بكلامه، وخط لك التوراة بيده تلومني على امر قدره علي قبل ان يخلقني باربعين سنة، فحج آدم، موسى"، قال احمد بن صالح: عن عمرو، عن طاوس، سمع ابا هريرة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ طَاوُسًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُخْبِرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" احْتَجَّ آدَمُ، وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ، وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً، فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى"، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ: عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم اور موسیٰ نے بحث کی تو موسیٰ نے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ ہی نے ہمیں محرومی سے دو چار کیا، اور ہمیں جنت سے نکلوایا، آدم نے کہا: تم موسیٰ ہو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی گفتگو کے لیے چن لیا، اور تمہارے لیے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا، تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جسے اس نے میرے لیے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی لکھ دیا تھا، پس آدم موسیٰ پر غالب آ گئے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 31 (3409)، القدر 11 (6614)، صحیح مسلم/القدر 2 (2652)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10(80)، (تحفة الأشراف: 13529)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القدر 2 (2134)، موطا امام مالک/القدر 1 (1)، مسند احمد (2/248، 268) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ بحث و تکرار اللہ کے سامنے ہوئی جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔

Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Adam and Moses held a disputation. Moses said: Adam you are our father. You deprived us and caused us to come out from Paradise. Adam said: You are Moses Allah chose you for his speech and wrote the Torah for you with his hand. Do you blame me for doing a deed which Allah had decreed that I should do forty year before he created me? So Adam got the better of Moses in argument. Ahmad bin Salih said from Amr from Tawus who heard Abu Hurairah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4684


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4702
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، ان عمر بن الخطاب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن موسى قال: يا رب ارنا آدم الذي اخرجنا ونفسه من الجنة، فاراه الله آدم، فقال: انت ابونا آدم، فقال له آدم: نعم، قال: انت الذي نفخ الله فيك من روحه وعلمك الاسماء كلها، وامر الملائكة فسجدوا لك، قال: نعم، قال: فما حملك على ان اخرجتنا ونفسك من الجنة؟ فقال له آدم: ومن انت؟ قال: انا موسى، قال: انت نبي بني إسرائيل الذي كلمك الله من وراء الحجاب، لم يجعل بينك وبينه رسولا من خلقه، قال: نعم، قال: افما وجدت ان ذلك كان في كتاب الله قبل ان اخلق؟ قال: نعم، قال: فيم تلومني في شيء سبق من الله تعالى فيه القضاء قبلي؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عند ذلك فحج آدم، موسى، فحج آدم، موسى".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مُوسَى قَالَ: يَا رَبِّ أَرِنَا آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَرَاهُ اللَّهُ آدَمَ، فَقَالَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللَّهُ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَعَلَّمَكَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَكَ مِنَ الْجَنَّةِ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي كَلَّمَكَ اللَّهُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ، لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ رَسُولًا مِنْ خَلْقِهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَمَا وَجَدْتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فِيمَ تَلُومُنِي فِي شَيْءٍ سَبَقَ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى فِيهِ الْقَضَاءُ قَبْلِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ ذَلِكَ فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! ہمیں آدم علیہ السلام کو دکھا جنہوں نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوایا، تو اللہ نے انہیں آدم علیہ السلام کو دکھایا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ ہمارے باپ آدم ہیں؟ تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: آپ ہی ہیں جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی، جسے تمام نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا؟ انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تو پھر کس چیز نے آپ کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا؟ تو آدم نے ان سے کہا: اور تم کون ہو؟ وہ بولے: میں موسیٰ ہوں، انہوں نے کہا: تم بنی اسرائیل کے وہی نبی ہو جس سے اللہ نے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی اور تمہارے اور اپنے درمیان اپنی مخلوق میں سے کوئی قاصد مقرر نہیں کیا؟ کہا: ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: تو کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ وہ (جنت سے نکالا جانا) میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا؟ کہا: ہاں معلوم ہے، انہوں نے کہا: پھر ایک چیز کے بارے میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کیوں مجھے ملامت کرتے ہو؟ یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو آدم، موسیٰ پر غالب آ گئے، تو آدم موسیٰ پر غالب آ گئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10397) (حسن)» ‏‏‏‏

Umar bin al-Khattab reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Moses said: My lord, show us Adam who caused us and himself to come out from Paradise. So Allah showed him Adam. He asked: Are you our father, Adam? Adam said to him: Yes. He said: Are you the one into whom Allah breathed of his spirit, taught you all the names, and commanded angels (to prostrate) and they prostrated to you? He replied: Yes. He asked: Then what moved you to cause us and yourself to come out from paradise? Adam asked him: And who are you? He said: Yes. He asked: Did you not find that was decreed in the book (records) of Allah before I was created? He replied: Yes. He asked: Then why do you blame me about a thing for which Divine decree had already passed before me ? The Messenger of Allah ﷺ said: So Adam got the better of Moses in argument ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4685


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 4703
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله القعنبي، عن مالك، عن زيد بن انيسة، ان عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب اخبره، عن مسلم بن يسار الجهني، ان عمر بن الخطاب سئل عن هذه الآية وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم سورة الاعراف آية 172 قال: قرا القعنبي الآية فقال عمر سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عنها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل خلق آدم، ثم مسح ظهره بيمينه، فاستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للجنة وبعمل اهل الجنة يعملون، ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية، فقال خلقت هؤلاء للنار، وبعمل اهل النار يعملون، فقال رجل: يا رسول الله ففيم العمل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل اهل الجنة حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة، فيدخله به الجنة، وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار، فيدخله به النار".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُنَيْسَةَ، أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ سورة الأعراف آية 172 قَالَ: قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ الْآيَةَ فَقَالَ عُمَرُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ، فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّارَ".
مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت «وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم» کے متعلق پوچھا گیا ۱؎۔ (حدیث بیان کرتے وقت) قعنبی نے آیت پڑھی تو آپ نے کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، اس سے اولاد نکالی اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے، اور یہ جنتیوں کے کام کریں گے، پھر ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے بھی اولاد نکالی اور کہا: میں نے انہیں جہنمیوں کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل جہنم کے کام کریں گے تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! پھر عمل سے کیا فائدہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے، تو اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے، اور جب کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/تفسیر سورة الأعراف (3077)، (تحفة الأشراف: 10654)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القدر 1 (2)، مسند احمد (1/45) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اور یاد کرو اس وقت کو جب تمہارے رب نے آدم کی اولاد کو اُن کی پشتوں سے نکالا۔

Narrated Umar ibn al-Khattab: Muslim ibn Yasar al-Juhani said: When Umar ibn al-Khattab was asked about the verse "When your Lord took their offspring from the backs of the children of Adam" - al-Qa'nabi recited the verse--he said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say when he was questioned about it: Allah created Adam, then passed His right hand over his back, and brought forth from it his offspring, saying: I have these for Paradise and these will do the deeds of those who go to Paradise. He then passed His hand over his back and brought forth from it his offspring, saying: I have created these for Hell, and they will do the deeds of those who go to Hell. A man asked: What is the good of doing anything, Messenger of Allah? The Messenger of Allah ﷺ said: When Allah creates a servant for Paradise, He employs him in doing the deeds of those who will go to Paradise, so that his final action before death is one of the deeds of those who go to Paradise, for which He will bring him into Paradise. But when He creates a servant for Hell, He employs him in doing the deeds of those who will go to Hell, so that his final action before death is one of the deeds of those who go to Hell, for which He will bring him into Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4686


قال الشيخ الألباني: صحيح إلا مسح الظهر
حدیث نمبر: 4704
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المصفى، حدثنا بقية، قال: حدثني عمر بن جعثم القرشي، قال: حدثني زيد بن ابي انيسة، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن، عن مسلم بن يسار، عن نعيم بن ربيعة، قال: كنت عند عمر بن الخطاب بهذا الحديث وحديث مالك اتم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ جُعْثُمٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ مَالِكٍ أَتَمُّ.
نعیم بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، پھر انہوں نے یہی حدیث روایت کی، مالک کی روایت زیادہ کامل ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10654) (صحیح)» ‏‏‏‏

Nuaim bin Rablah said: I was with Umar bin al-Khattab when he transmitted this tradition. The tradition of Malik is more perfect.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4687

حدیث نمبر: 4705
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا القعنبي، حدثنا المعتمر، عن ابيه، عن رقبة بن مصقلة، عن ابي إسحاق، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن ابي بن كعب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الغلام الذي قتله الخضر طبع كافرا، ولو عاش لارهق ابويه طغيانا وكفرا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَقَبَةَ بْنِ مَصْقَلَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْغُلَامُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ كَافِرًا، وَلَوْ عَاشَ لَأَرْهَقَ أَبَوَيْهِ طُغْيَانًا وَكُفْرًا".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لڑکا جسے خضر (علیہ السلام) نے قتل کر دیا تھا طبعی طور پر کافر تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دیتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/القدر 6 (2661)، سنن الترمذی/التفسیر 19 (3149)، (تحفة الأشراف: 40)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العلم 44 (122)، مسند احمد (5/121) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ubayy bin Kaab said: The boy whom al-Khidr had killed was created an infidel. Had he lived, he would have moved his parents to rebellion and unbelief.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4688


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4706
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمود بن خالد، حدثنا الفريابي، عن إسرائيل، حدثنا ابو إسحاق، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: حدثنا ابي بن كعب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" في قوله واما الغلام فكان ابواه مؤمنين سورة الكهف آية 80 وكان طبع يوم طبع كافرا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" فِي قَوْلِهِ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ سورة الكهف آية 80 وَكَانَ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے فرمان  «وأما الغلام فكان أبواه مؤمنين» اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ مومن تھے (سورۃ الکہف: ۸۰) کے بارے میں فرماتے سنا کہ وہ پیدائش کے دن ہی کافر پیدا ہوا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 40) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ubayy bin Kaab said: I heard the Messenger of Allah ﷺ explaining the verse “As for the youth his parents were people of Faith, ” he was created infidel the day when he was created.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4689


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4707
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن مهران الرازي، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو، عن سعيد بن جبير، قال: قال ابن عباس، حدثني ابي بن كعب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ابصر الخضر غلاما يلعب مع الصبيان فتناول راسه فقلعه، فقال موسى: اقتلت نفسا زكية سورة الكهف آية 74".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلَامًا يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَتَنَاوَلَ رَأْسَهُ فَقَلَعَهُ، فَقَالَ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً سورة الكهف آية 74".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خضر (علیہ السلام) نے ایک لڑکے کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو اس کا سر پکڑا، اور اسے اکھاڑ لیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: کیا تم نے بےگناہ نفس کو مار ڈالا؟۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (4705)، (تحفة الأشراف: 45) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ibn Abbas said: Ubayy bin Kaab told me that the Messenger of Allah ﷺ said: Al-khidr saw a youth playing with boys. He took him by his head and uprooted it. Moses then said: Hast thou slain an innocent person who had slain none.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4690


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4708
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر النمري، حدثنا شعبة. ح وحدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان المعنى واحد والإخبار في حديث سفيان، عن الاعمش، قال: حدثنا زيد بن وهب، حدثنا عبد الله بن مسعود، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق" إن خلق احدكم يجمع في بطن امه اربعين يوما، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث إليه ملك فيؤمر باربع كلمات فيكتب رزقه، واجله، وعمله، ثم يكتب شقي او سعيد، ثم ينفخ فيه الروح، فإن احدكم ليعمل بعمل اهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع او قيد ذراع فيسبق عليه الكتاب، فيعمل بعمل اهل النار فيدخلها وإن احدكم ليعمل بعمل اهل النار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع او قيد ذراع فيسبق عليه الكتاب، فيعمل بعمل اهل الجنة فيدخلها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الْمَعْنَى وَاحِدٌ وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ" إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ رِزْقُهُ، وَأَجَلُهُ، وَعَمَلُهُ، ثُمَّ يُكْتَبُ شَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ أَوْ قِيدُ ذِرَاعٍ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آپ صادق اور آپ کی صداقت مسلم ہے) بیان فرمایا: تم میں سے ہر شخص کا تخلیقی نطفہ چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ خون کا جما ہوا ٹکڑا رہتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دن گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے: تو وہ اس کا رزق، اس کی عمر، اس کا عمل لکھتا ہے، پھر لکھتا ہے: آیا وہ بدبخت ہے یا نیک بخت، پھر وہ اس میں روح پھونکتا ہے، اب اگر تم میں سے کوئی جنتیوں کے عمل کرتا ہے، یہاں تک کہ اس (شخص) کے اور اس (جنت) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب (تقدیر) اس پر سبقت کر جاتی ہے اور وہ جہنمیوں کے کام کر بیٹھتا ہے تو وہ داخل جہنم ہو جاتا ہے، اور تم میں سے کوئی شخص جہنمیوں کے کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس (شخص) کے اور اس (جہنم) کے درمیان صرف ایک ہاتھ یا ایک ہاتھ کے برابر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ کتاب (تقدیر) اس پر سبقت کر جاتی ہے، اب وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے تو داخل جنت ہو جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3208)، الأنبیاء 1 (3393)، القدر 1 (6594)، صحیح مسلم/القدر 1(2643)، سنن الترمذی/القدر 4 (2137)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (76)، (تحفة الأشراف: 9228)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/382، 414، 430) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abdullah bin Masud said: The Messenger of Allah ﷺ who spoke the truth and whose word was belief told us the following: The constituents of one of you are collected for forty days in his mother’s womb, then they become a piece of congealed blood for a similar period, then they become a lump of flesh for a similar period. Then Allah sends to him an angel with four words who records his provision the period of his life, his deeds, and whether he will be miserable or blessed ; thereafter he breathes the spirit into him. One of you will do the deeds of those who go to Paradise so that there will be only a cubit between him and it or will be within a cubit, then what is decreed will overcome him so that he will do the deeds of those who go to Hell and will enter it; and one of you will do the deeds of those who go to hell, so that there will be only a cubit between him and it or will be within a cubit, then what is decreed will overcome him, so that he will do the deeds of those who go to Paradise and will enter it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4691


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4709
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن يزيد الرشك، قال: حدثنا مطرف، عن عمران بن حصين، قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا رسول الله اعلم اهل الجنة من اهل النار؟ قال: نعم، قال: ففيم يعمل العاملون؟ قال: كل ميسر لما خلق له".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا جنتی اور جہنمی پہلے ہی معلوم ہو چکے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس نے کہا: پھر عمل کرنے والے کس بنا پر عمل کریں؟ آپ نے فرمایا: ہر ایک کو توفیق اسی بات کی دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/القدر 2 (6596)، والتوحید 53 (7551)، صحیح مسلم/القدر 1 (2649)، (تحفة الأشراف: 10859)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/427، 431) (صحیح)» ‏‏‏‏

Imran bin Husain said: The Messenger of Allah ﷺ was asked: Is it known who are those who will go to paradise and those who will go to hell? He said: Yes. He asked: Then what is the good of doing anything by those who act? He replied: Everyone is helped to do for which he has been created.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4692


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4710
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا عبد الله بن يزيد المقري ابو عبد الرحمن، قال: حدثني سعيد بن ابي ايوب، حدثني عطاء بن دينار، عن حكيم بن شريك الهذلي، عن يحيى بن ميمون الحضرمي، عن ربيعة الجرشي، عن ابي هريرة، عن عمر بن الخطاب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تجالسوا اهل القدر ولا تفاتحوهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلَا تُفَاتِحُوهُمْ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے سلام و کلام کی ابتداء کرو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (1/30)، (تحفة الأشراف: 10669) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی حکیم بن شریک ھذلی مجہول ہیں)

Umar reported the Prophet ﷺ was asked: Do not sit which those who believe in free will and do not address them before they address you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4693


قال الشيخ الألباني: ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.