الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حج اور عمرہ کے بیان میں
حدیث نمبر: 1872
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوا من حديث الاوزاعي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوًا مِنْ حَدِيثِ الْأَوْزَاعِيِّ.
اس طریق سے بھی مذکورہ بالا اوزاعی کی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1876]»
ترجمہ اور تخریج ذکر کی جا چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1873
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، اخبرنا حماد بن زيد، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، حدثني الفضل بن عباس او عبيد الله بن العباس، ان رجلا قال: يا رسول الله، إن ابي او امي عجوز كبير، إن انا حملتها لم تستمسك، وإن ربطتها، خشيت ان اقتلها. قال:"ارايت إن كان على ابيك او امك دين، اكنت تقضيه؟". قال: نعم، قال: "فحج عن ابيك، او امك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ أَوْ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي أَوْ أُمِّي عَجُوزٌ كَبِيرٌ، إِنْ أَنَا حَمَلْتُهَا لَمْ تَسْتَمْسِكْ، وَإِنْ رَبَطْتُهَا، خَشِيتُ أَنْ أَقْتُلَهَا. قَالَ:"أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى أَبِيكَ أَوْ أُمِّكَ دَيْنٌ، أَكُنْتَ تَقْضِيهِ؟". قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "فَحُجَّ عَنْ أَبِيكَ، أَوْ أُمِّكَ".
سیدنا فضل بن عباس یا سیدنا عبید الله بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میری ماں یا باپ بوڑھے ہیں، اگر انہیں سوار کروں تو ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکیں گے اور سواری پر باندھ دوں تو ڈر ہے کہ مر نہ جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری کیا رائے ہے، اگر تمہارے والد یا والدہ پر قرض ہو تو کیا تم ان کا قرض ادا کرو گے؟ عرض کیا: بالکل ادا کروں گا، فرمایا: تب پھر اپنے والد یا والدہ کی طرف سے حج بھی کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناد عبيد الله بن عباس صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1877]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 212/1، 359]، [مشكل الآثار للطحاوي 220/3]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1868 سے 1873)
ان احادیث سے ماں باپ کی طرف سے فریضۂ حج ادا کرنے کا ثبوت ملا خواہ وہ زندہ ہوں یا نہیں، وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، ان کے لڑکے یا لڑکی کو چاہیے کہ وہ اگر حج نہیں کر سکتے تو اپنا حج ادا کرنے کے بعد ان کی طرف سے حج کر سکتا ہے۔
بعض علماء نے کہا: اگر وصیت کی ہو تب ہی ان کی طرف سے حج کرے، اور بعض علماء نے کہا کہ بلا وصیت بھی ان کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔
امام دارمی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے، اور راقم نے سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ سے بھی یہی سنا کہ ماں باپ کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔
حج کی ایک قسم حجِ بدل ہے جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتاً کیا جاتا ہے، اس کی نیّت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے اس کا نام لیا جائے، مثلاً: «لبيك عن زيد نيابتةً» مگر حجِ بدل کے لئے ضروری ہے کہ حج کرنے والا پہلے خود اپنا حج ادا کر چکا ہو، جیسا کہ حدیث شبرمہ میں وضاحت ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناد عبيد الله بن عباس صحيح
24. باب في الْحَجِّ عَنِ الْمَيِّتِ:
24. متوفی کی طرف سے حج کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1874
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن يوسف بن الزبير مولى لآل الزبير، عن عبد الله بن الزبير، قال: جاء رجل من خثعم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابي ادركه الإسلام وهو شيخ كبير لا يستطيع ركوب الرحل، والحج مكتوب عليه، افاحج عنه؟ قال:"انت اكبر ولده؟". قال: نعم. قال:"ارايت لو كان على ابيك دين فقضيته عنه، اكان ذلك يجزئ عنه؟". قال: نعم. قال:"فاحجج عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ الزُّبَيْرِ مَوْلًى لِآلِ الْزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ خَثْعَمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي أَدْرَكَهُ الْإِسْلَامُ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ رُكُوبَ الرَّحْلِ، وَالْحَجُّ مَكْتُوبٌ عَلَيْهِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:"أَنْتَ أَكْبَرُ وَلَدِهِ؟". قَالَ: نَعَمْ. قَالَ:"أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أَبِيكَ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ عَنْهُ، أَكَانَ ذَلِكَ يُجْزِئُ عَنْهُ؟". قَالَ: نَعَمْ. قَالَ:"فَاحْجُجْ عَنْهُ".
سیدنا عبدالله بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: خثعم کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے والد اسلام لائے، وہ بہت بوڑھے ہیں، سواری کرنے کے قابل نہیں، اور ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ فرمایا: کیا تم ان کے سب سے بڑے صاحبزادے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: بتاؤ اگر تمہارے والد پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کر دیتے تو کیا تمہارے باپ کا قرض ادا ہو جاتا؟ عرض کیا: ہاں، فرمایا: تو ان کی طرف سے حج بھی کر لو۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1878]»
حديث الباب کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہیں، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [نسائي 2637، 2643]، [أبويعلی 6813]، [مشكل الآثار 221/3]، [البيهقي 329/4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1873)
یعنی فریضۂ حج بھی قرض کی طرح ہے جسے ادا کرنا چاہیے۔
اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ باپ موجود ہیں لیکن بہت بوڑھے ہیں، لیکن نسائی کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے والد فوت ہو چکے ہیں اور انہوں نے حج نہیں کیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے باپ پر قرض ہوتا تو اس کو ادا کرتا یا نہیں؟ وہ بولا: ہاں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو الله کا قرض ادا کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
[نسائي 2640] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 1875
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا صالح بن عبد الله، حدثنا عبد العزيز هو ابن عبد الصمد، عن منصور، عن مجاهد، عن مولى ابن الزبير، يقال له: يوسف بن الزبير او الزبير بن يوسف، عن سودة بنت زمعة، قالت: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابي شيخ كبير لا يستطيع ان يحج. قال:"ارايت لو كان على ابيك دين فقضيته عنه، قبل منه؟". قال: نعم. قال:"الله ارحم، حج عن ابيك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ مَوْلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ، يُقَالُ لَهُ: يُوسُفُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَوْ الزُّبَيْرُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ، قَالَتْ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَحُجَّ. قَالَ:"أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أَبِيكَ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ عَنْهُ، قُبِلَ مِنْهُ؟". قَالَ: نَعَمْ. قَالَ:"اللَّهُ أَرْحَمُ، حُجَّ عَنْ أَبِيكَ".
سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ: میرے والد بہت بوڑھے ہیں، حج نہیں کر سکتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ اگر تمہارے والد پر قرض ہوتا اور تم وہ قرض ادا کرتے تو ان کی طرف سے وہ قرض قبول کر لیا جاتا؟ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: پس الله تعالیٰ بہت رحیم ہے، اور باپ کی طرف سے حج کرو۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تمہارے والد کی طرف سے کیا گیا یہ حج قبول کر لے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1879]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 6818]، [مشكل الآثار 221/3]، [مجمع الزوائد 5756]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1874)
امام دارمی رحمہ اللہ نے باب باندھا کہ میّت کی طرف سے حج کرنے کا بیان، لیکن دونوں حدیث میں باپ کے زندہ و موجود ہونے کا ذکر ہے، اس سے شاید امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ ماں باپ حج نہ کر سکے یا معذور و زنده ہوں ہر صورت میں ان کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے، دوسری روایات میں فوت ہو جانے کا بھی ذکر ہے۔
اور ایک روایت میں ہے: «حُجَّ عَنْ أَبِيْكَ وَاعْتَمِرْ» اپنے باپ کی طرف سے حج بھی کرو اور عمرہ بھی۔
نسائی (2638)۔
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کے قائل تھے کہ ماں باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرنا درست ہے لیکن صرف طواف کرنا صحیح نہیں کیوں کہ احادیث میں کسی اور کی طرف سے طواف کرنے کا حکم نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
25. باب في اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ:
25. حجر اسود کے چھونے یا بوسہ دینے کا بیان
حدیث نمبر: 1876
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: "ما تركت استلام هذين الركنين في شدة ولا رخاء منذ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يستلمهما". قلت لنافع: اكان ابن عمر يمشي بين الركنين؟ قال: إنما كان يمشي ليكون ايسر لاستلامه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "مَا تَرَكْتُ اسْتِلَامَ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ فِي شِدَّةٍ وَلَا رَخَاءٍ مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُمَا". قُلْتُ لِنَافِعٍ: أَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَمْشِي بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ؟ قَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَمْشِي لِيَكُونَ أَيْسَرَ لِاسْتِلَامِهِ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں رکن (حجر اسود اور رکن یمانی) کو بوسہ دیتے اور چھوتے دیکھا ہے، شدت و نرمی کے حالات میں کبھی نہیں چھوڑا، عبید اللہ نے کہا: میں نے نافع سے پوچھا: کیا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان دونوں رکنوں کے درمیان چلتے تھے؟ نافع نے کہا: وہ چلتے تھے تاکہ اس کے استلام میں سہولت ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1880]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1606]، [مسلم 1268]، [نسائي 2952]، [أبويعلی 5473]، [ابن حبان 3827]، [الحميدي 666]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1875)
طواف میں حجرِ اسود کا بوسہ لینا یا چھونا سنّت ہے اور رکنِ یمانی کا صرف چھونا سنّت ہے بوسہ دینا نہیں، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے شیدائی تھے کہ سنّت سے سرمو انحراف نہ کرتے تھے، جیسا کہ حدیث میں مذکورہ ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
26. باب الْفَضْلِ في اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ:
26. حجر اسود کو بوسہ دینے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1877
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، وسليمان بن حرب، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "ليبعثن الله الحجر يوم القيامة له عينان يبصر بهما، ولسان ينطق به، يشهد على من استلمه بحق". قال سليمان: لمن استلمه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ الْحَجَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ، يَشْهَدُ عَلَى مَنْ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ". قَالَ سُلَيْمَانُ: لِمَنْ اسْتَلَمَهُ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حجر اسود کو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھتا ہو گا اور ایک زبان ہو گی جس سے وہ بولے گا، گواہی دے گا اس شخص کی جس نے اس کو حق کے ساتھ چوما۔ سلیمان بن حرب نے کہا: یعنی حجر اسود ان کے لئے گواہی دے گا جس نے اسے بوسہ دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1881]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 961]، [ابن ماجه 2944]، [أبويعلی 2719]، [ابن حبان 3711]، [الموارد 1005، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1876)
حق کے ساتھ چومنے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ، اس سے وہ مشرک نکل گئے جنہوں نے حجرِ اسود کو شرک کی حالت میں چوما۔
حجرِ اسود کو چومنا یا استلام کرنا عبادت اور سنّت ہے، کسی اور پتھر کو چومنا، ہاتھ لگانا درست نہیں اور نہ یہ عقیدہ رکھنا جائز ہے کہ حجرِ اسود بنفسہ نفع و نقصان کی قدرت رکھتا ہے، اسی شرکیہ عقیدے کو ختم کرنے کے لئے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا۔
[ابن ماجه 2943] ۔
یہ حدیث آگے (1903) پر آرہی ہے۔
اس لئے حجرِ اسود کا چومنا یا بیت اللہ الحرام کا طواف کرنا کسی پتھر یا عمارت کی عظمت کے لئے نہیں بلکہ اتباعِ سنّت کے لئے ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
27. باب مَنْ رَمَلَ ثَلاَثاً وَمَشَى أَرْبَعاً:
27. طوافِ قدوم کے تین پھیروں میں تیزی سے چلنا اور باقی چار اشواط میں معمولی رفتار سے چلنے کا بیان
حدیث نمبر: 1878
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا مالك بن انس، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر، قال: "رمل رسول الله صلى الله عليه وسلم من الحجر إلى الحجر ثلاثة اشواط".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "رَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ثَلَاثَةَ أَشْوَاطٍ".
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تین پھیروں میں حجر اسود سے لیکر حجر اسود تک رمل کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1882]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الموطأ: كتاب الحج 108]، [مسلم 1263]، [ترمذي 856]، [نسائي 2939]، [أبويعلی 1810]، [ابن حبان 3813]، [مجمع الزوائد 5534-5553]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1877)
رمل قریب قریب قدم رکھتے ہوئے تیزی سے دلکی چال سے چلنے کو کہتے ہیں، جو صرف طوافِ قدوم میں مشروع ہے، اور اس کا سبب یہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مکہ تشریف لائے تو مشرکین یہ گمان رکھتے تھے کہ مدینہ طیبہ کی آب و ہوا یا وبا نے مہاجرین کو کمزور کر دیا ہوگا، اور وہ مسلمانوں کو دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ طوافِ قدوم میں رمل اور اضطباع کریں اور اکڑ کر دلکی چال سے طواف کریں تاکہ مشرکینِ مکہ کو ان کی قوت کا اندازہ ہو جائے۔
مشرکین تو اب مکہ مکرمہ میں نہیں ہیں لیکن طوافِ قدوم کی یہ سنّت بن گئی، جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیونکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا اس لئے میں بھی رمل کروں گا، بعض روایات میں شروع کے تین پھیروں میں بھی بین الرکنین چلنے کا ذکر آیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1879
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا عقبة بن خالد، حدثنا عبيد الله، حدثني نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "إذا طاف بالبيت الطواف الاول، خب ثلاثة، ومشى اربعة، وكان يسعى ببطن المسيل إذا سعى بين الصفا والمروة". فقلت لنافع: اكان عبد الله يمشي إذا بلغ الركن اليماني؟ قال: لا، إلا ان يزاحم على الركن، فإنه كان لا يدعه حتى يستلمه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ الطَّوَافَ الْأَوَّلَ، خَبَّ ثَلَاثَةً، وَمَشَى أَرْبَعَةً، وَكَانَ يَسْعَى بِبَطْنِ الْمَسِيلِ إِذَا سَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ". فَقُلْتُ لِنَافِعٍ: أَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَمْشِي إِذَا بَلَغَ الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ يُزَاحَمَ عَلَى الرُّكْنِ، فَإِنَّهُ كَانَ لَا يَدَعُهُ حَتَّى يَسْتَلِمَهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ الحرام کا پہلا طواف کرتے تو تین پھیروں میں دوڑ کر چلتے تھے اور چار پھیروں میں اپنی معمول کی چال سے چلتے تھے، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے بیچ میں دوڑتے تھے، عبداللہ نے کہا: میں نے نافع سے پوچھا: کیا سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما رکن یمانی (اور حجر اسود کے) بیچ چلتے تھے، کہا: نہیں، الا یہ کہ رکن یمانی کے پاس بھیڑ ہوتی کیونکہ وہ اس کا استلام ہرگز نہ چھوڑتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1883]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1617، 1644]، [مسلم 1261]، [نسائي 2940]، [ابن ماجه 2950، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1880
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن عمر بن ابان، حدثنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: "رمل رسول الله صلى الله عليه وسلم من الحجر إلى الحجر ثلاثا، ومشى اربعا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "رَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ثَلَاثًا، وَمَشَى أَرْبَعًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل کیا اور چار پھیرے چلتے ہوئے پورے کئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1884]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1262]، [أحمد 57/2]، [أبوداؤد 1891]، [البيهقي 79/5، 83]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1878 سے 1880)
ان احادیث سے طوافِ قدوم میں تین پھیروں میں رمل کرنا ثابت ہوا، نیز یہ کہ اگر بھیڑ کی وجہ سے رمل نہ کر سکے اور چل کر طواف کرے تو بھی کوئی حرج نہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ طواف حجرِ اسود سے شروع کرنا ہوگا اور حجرِ اسود پر ہی ختم ہوگا کیونکہ حجرِ اسود سے حجرِ اسود تک ایک پھیرا مکمل ہوگا، اور رکنِ یمانی اور حجرِ اسود کے مابین بھی طوافِ قدوم کے پہلے تین پھیروں میں رمل کرنا ہوگا الا یہ کہ وہاں بھیڑ بھاڑ ہو اور دوڑا نہ جا سکے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
28. باب الاِضْطِبَاعِ في الرَّمَلِ:
28. طواف قدوم میں رمل کے ساتھ اضطباع کا بیان
حدیث نمبر: 1881
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن ابن جريج، عن عبد الحميد هو ابن جبير، عن ابن يعلى، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم،"انه طاف مضطبعا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،"أَنَّهُ طَافَ مُضْطَبِعًا".
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اضطباع کرتے ہوئے طواف کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج، [مكتبه الشامله نمبر: 1885]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے، لیکن متعدد طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1883]، [ترمذي 859]، [ابن ماجه 2954]، [أحمد 222/4]، [البيهقي 79/5]۔ نیز دیکھئے: [تلخيص الحبير 248/2]، [نيل الأوطار 110/5]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1880)
اضطباع یہ ہے کہ احرام کی چادر کو دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لیں اور دایاں کندھا کھلا چھوڑ دیں تاکہ بازو نظر آئے، اور یہ بہادری اور شجاعت دکھانے کے لئے تھا لیکن سنّت بن گئی۔
واضح رہے کہ اضطباع بھی صرف طوافِ قدوم میں ہے اور شروع کے تین پیروں میں۔
امام دارمی رحمہ اللہ بھی شاید اسی کے قائل ہیں اس لئے باب باندھا: «الاضطباع فى الرمل» یعنی رمل کے ساتھ اضطباع کا باب، بہت سے لوگ احرام باندھنے کے وقت سے عمرہ پورا کرنے تک دایاں کندھا کھولے رکھتے ہیں حتی کہ نماز کے وقت بھی کندھے کو نہیں ڈھانکتے، تو ان کا یہ فعل خلافِ شرع ہے اور خلافِ سنّت بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «خُذُوْا عَنِّيْ مَنَاسِكَكُمْ» مجھ سے آدابِ حج سیکھ لو۔
اسی طرح فرمایا: «صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ» جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ویسے ہی نماز پڑھو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.