الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حج اور عمرہ کے بیان میں
حدیث نمبر: 1832
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا عبد الله بن يعقوب المدني، عن ابن ابي الزناد، عن ابيه، عن خارجة بن زيد بن ثابت، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم "تجرد للإهلال واغتسل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَعْقُوبَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "تَجَرَّدَ لِلْإِهْلَالِ وَاغْتَسَلَ".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھنے کے لئے کپڑے اتارے اور غسل فرمایا، سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اہلال کے لئے (یعنی احرام باندھنے یا تلبیہ کہنے کے وقت) ایسا کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الله بن يعقوب المدني مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 1835]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن متعدد طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 830]، [الطبراني 4862]، [دارقطني 220/2]، [الحاكم 447/1]، [بيهقي 32/5]، [مجمع الزوائد 5391]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1831)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس حدیث کے پیشِ نظر کچھ اہلِ علم نے احرام باندھنے کے وقت غسل کرنا مستحب کہا ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے۔
احرام کے وقت غسل کرنا مستحب ہے ضروری نہیں، صحیح یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے غسل کر کے نکلے تھے لیکن احرام و تلبیہ میقات پر آ کر شروع کیا۔
(والله اعلم)

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الله بن يعقوب المدني مجهول
7. باب في فَضْلِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ:
7. حج مبرور کا ثواب
حدیث نمبر: 1833
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن سفيان، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "حجة مبرورة ليس لها ثواب إلا الجنة، وعمرتان تكفران ما بينهما من الذنوب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "حَجَّةٌ مَبْرُورَةٌ لَيْسَ لَهَا ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ، وَعُمْرَتَانِ تُكَفِّرَانِ مَا بَيْنَهُمَا مِنْ الذُّنُوبِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں، اور ایک عمرہ دوسرے عمرے کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1836]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1773]، [مسلم 1349]، [نسائي 2621]، [ابن ماجه 2888]، [أبويعلی 6657]، [ابن حبان 3695]، [الحميدي 1032]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1832)
بخاری شریف میں ہے: «اَلْعُمْرَهُ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةَ.» حج مبرور سے مراد ایسا حج ہے جس میں از ابتداء تا انتہاء نیکیاں ہی نیکیاں ہوں، اور آدابِ حج کو پورے طور پر نبھایا جائے، اس میں فسق و فجور، لڑائی جھگڑا اور ادائے واجبات میں اہمال و اخلال نہ ہو، ایسا حج يقيناً دخولِ جنّت کا موجب ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1834
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، حدثني منصور، قال: سمعت ابا حازم يحدث، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: "من حج البيت فلم يرفث ولم يفسق، رجع كما ولدته امه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ".
سیدنا ابوہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا اور نہ شہوت کی با تیں کیں، نہ کوئی گناہ کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جس طرح اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1837]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1521، 1819]، [مسلم 1350]، [ترمذي 811]، [نسائي 2626]، [ابن ماجه 2889]، [أبويعلی 6198]، [ابن حبان 3694]، [الحميدي 1034]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1833)
یعنی وہ حج کے بعد تمام گناہوں سے پاک و صاف ہو کر لوٹے گا، قرآن پاک میں حکم ہے: « ﴿فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ﴾ [البقرة: 197] » یعنی جو شخص حج کرے وہ دورانِ حج لوازماتِ جماع، گناه اور لڑائی سے پرہیز کرے، «رفث» جماع یا جماع سے متعلق شہوت انگیز باتیں کرنے (فحش کلامی) کو کہتے ہیں اور «فسق» گالی گلوج، سخت کلامی وغیرہ کو کہتے ہیں، اس حدیث سے حج کی فضیلت ثابت و معلوم ہوئی، اگر مذکورہ بالا امور کی رعایت کرتے ہوئے حج کیا جائے تو حاجی گناہوں سے بالکل پاک و صاف ہو جاتا ہے، مثال دے کر فرمایا کہ وہ بالکل ایسا ہو جاتا ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک و صاف پیدا ہوتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
8. باب أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ:
8. حج میں کون سا عمل افضل ہے؟
حدیث نمبر: 1835
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا محمد بن إسماعيل بن ابي فديك، عن الضحاك بن عثمان، عن محمد بن المنكدر، عن عبد الرحمن بن يربوع، عن ابي بكر، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الحج افضل؟ قال: "العج والثج". العج يعني: التلبية، والثج يعني: إهراق الدم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "الْعَجُّ وَالثَّجُّ". الْعَجُّ يَعْنِي: التَّلْبِيَةَ، وَالثَّجُّ يَعْنِي: إِهْرَاقَ الدَّمِ.
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: حج کون سا افضل ہے؟ (یعنی حج میں کون سا عمل سب سے اچھا ہے)، فرمایا: «عج» اور «ثج» «عج» سے مراد تلبیہ اور «ثج» سے مراد قربانی ہے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن الترمذي قال: ((لم يسمع محمد بن المنكدر من عبد الرحمن بن يربوع))، [مكتبه الشامله نمبر: 1838]»
اس روایت کی یہ سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 827]، [ابن ماجه 2924]، [ابن خزيمه 2631]، [أبويعلی 117]، [الحاكم 450/1]، [بيهقي 42/5]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1834)
یعنی حج کے اعمال میں بآوازِ بلند کثرت سے تلبیہ پکارنا اور قربانی کرنا افضل ہے، اس لئے ان دونوں کاموں کو پوری رغبت، خلوص اور انتہائی توجہ سے کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن الترمذي قال: ((لم يسمع محمد بن المنكدر من عبد الرحمن بن يربوع))
9. باب مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ:
9. محرم کون سے کپڑے پہنے؟
حدیث نمبر: 1836
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى هو ابن سعيد، عن عمر بن نافع، عن ابيه، عن ابن عمر، ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم: ما نلبس من الثياب إذا احرمنا؟ قال: "لا تلبسوا القمص، ولا السراويلات، ولا العمائم، ولا البرانس، ولا الخفاف، إلا ان يكون احد ليست له نعلان، فليلبس الخفين وليجعلهما اسفل من الكعبين، ولا تلبسوا من الثياب شيئا مسه ورس ولا زعفران".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا نَلْبَسُ مِنْ الثِّيَابِ إِذَا أَحْرَمْنَا؟ قَالَ: "لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ، وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ، فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَجْعَلْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا مِنْ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ وَرْسٌ وَلَا زَعْفَرَانٌ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جب ہم احرام باندھیں تو کون سے کپڑے پہنیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: قمیص، پائجامہ، پگڑی (عمامہ) ٹوپی اور موزے نہ پہنو، ہاں اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لے، لیکن (انہیں) ٹخنے سے نیچے سے کاٹ لے، نا ایسا کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہوا ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1839]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھے: [بخاري 1542]، [مسلم 1177]، [أبوداؤد 1824]، [ترمذي 833]، [نسائي 2673]، [ابن ماجه 2929، 2932]، [أبويعلی 5425]، [ابن حبان 3955]، [الحميدي 639]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1837
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن عمرو بن دينار، عن ابي الشعثاء، اخبرني ابن عباس، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من لم يجد إزارا، فليلبس سراويل، ومن لم يجد نعلين، فليلبس خفين". قال: قلت او قيل: ايقطعهما؟ قال:"لا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ لَمْ يَجِدْ إِزَارًا، فَلْيَلْبَسْ سَرَاوِيلَ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ، فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ". قَالَ: قُلْتُ أَوْ قِيلَ: أَيَقْطَعُهُمَا؟ قَالَ:"لَا".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: جس کے پاس (احرام کے لئے) باندھنے کی چادر نہ ہو تو وہ پائجامہ پہن سکتا ہے، اور جو شخص جوتے نہ پائے تو موزے پہن سکتا ہے، راوی نے کہا: میں نے عرض کیا، یا کہا کہ عرض کیا گیا: کیا ان موزوں کو (اوپر سے) کاٹ دے؟ فرمایا: نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1840]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1841]، [مسلم 1178]، [أبوداؤد 1829]، [ترمذي 834]، [نسائي 2670]، [ابن ماجه 2931]، [أبويعلی 2395]، [ابن حبان 3781]، [الحميدي 474]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1838
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عما يلبس المحرم، قال: "لا يلبس القمص، ولا العمائم، ولا السراويلات، ولا البرانس، ولا الخفاف، إلا ان لا يجد نعلين، فليلبس خفين ويقطعهما اسفل من الكعبين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ، قَالَ: "لَا يَلْبَسُ الْقُمُصَ، وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَنْ لَا يَجِدَ نَعْلَيْنِ، فَلْيَلْبَسَ خُفَّيْنِ وَيَقْطَعَهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محرم کے لباس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قمیص، عمامہ، پائجامے، ٹوپی اور موزے نہ پہنے، ہاں اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لے اور انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1841]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1835 سے 1838)
اس باب کی پہلی اور تیسری حدیث میں مذکورہ کپڑے حالتِ احرام میں نہ پہننے کا حکم ہے، اور احرام کی دوسری چادر نہ ہونے کی صورت میں پائجامہ پہننے کی اجازت ہے، اور جوتے نہ ہونے کی صورت میں موزے پہننے کی اجازت ہے لیکن ان کو ٹخنے سے اوپر کا حصہ کاٹ دینے کے بعد، جمہور علماء کا یہی مسلک ہے کہ موزے کاٹ دینے اور (سروال) پائجامے کو پھاڑ دینے کے بعد احرام کے طور پر پہن سکتے ہیں اور اگر موزے یا پائجامے کو ان کی اصلی حالت میں پہنا تو دم لازم آئے گا کیونکہ مذکورہ بالا دونوں حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دوسری حدیث میں جوتے نہ ہونے پر موزے پہن لینے کی اجازت ہے لیکن اوپر سے کاٹ دینے کی ممانعت ہے۔
یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ جوتے نہ ہوں تو احرام کی حالت میں موزے پہنے جا سکتے ہیں، کاٹنے کی بھی ضرورت نہیں۔
یہ دو مختلف حکم ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں، جمع اور تطبیق کی صورت اس طرح ہو سکتی ہے کہ اولی و افضل موزے کاٹ دینا ہے، نہ کاٹے تو کوئی جرح نہیں، واللہ علم۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: [فتح الباري 75/4]، [نيل الأوطار 70/5]، [المحلى 80/7-81] و [المعرفة للبيهقي 48/7]، ایک روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے کہ موز سے کاٹ دے، [نسائي 2671]، [ترمذي 834]، [طبراني 12811] ۔
اس حدیث کے ذیل میں مولانا راز صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ورس ایک زرد گھاس ہوتی ہے خوشبو دار، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محرم کو (مذکورہ بالا) یہ کپڑے پہننا ناجائز ہیں، اور ہر سلا ہوا کپڑا پہننا مرد کو احرام میں ناجائز ہے لیکن عورتوں کو درست ہے، خلاصہ یہ کہ ایک لنگی ایک چادر مرد کا یہی احرام ہے، یہ ایک فقیری لباس ہے، اب یہ حاجی الله کا فقیر بن گیا، اس کو اس لباسِ فقر کا تازندگی لحاظ رکھنا ضروری ہے، اس موقع پر کوئی کتنا ہی بڑا بادشاه، مال دار کیوں نہ ہو سب کو یہی لباس زیب تن کر کے مساواتِ انسانی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرنا ہے، اور ہر امیر و غریب کو ایک ہی سطح پر آ جانا ہے تاکہ وحدتِ انسانی کا ظاہراً و باطناً بہتر مظاہرہ ہو سکے اور امراء کے دماغوں سے نخوتِ امیر ی نکل سکے اور غرباء کو تسلی و اطمینان ہو سکے۔
الغرض لباسِ احرام کے اندر بہت سے روحانی و مادی و سماجی فوائد مضمر ہیں، مگر ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دیدۂ بصیرت کی ضرورت ہے، اور یہ چیز ہر کسی کو نہیں ملتی۔
«إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوْا الْأَلْبَابِ.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد والحديث متفق عليه
10. باب الطِّيبِ عِنْدَ الإِحْرَامِ:
10. احرام باندھتے وقت خوشبو لگانے کا بیان
حدیث نمبر: 1839
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، انها قالت:"كنت اطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان يحرم باطيب الطيب"، قال: وكان عروة يقول لنا:"تطيبوا قبل ان تحرموا وقبل ان تفيضوا يوم النحر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:"كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ بِأَطْيَبِ الطِّيبِ"، قَالَ: وَكَانَ عُرْوَةُ يَقُولُ لَنَا:"تَطَيَّبُوا قَبْلَ أَنْ تُحْرِمُوا وَقَبْلَ أَنْ تُفِيضُوا يَوْمَ النَّحْرِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے سے پہلے ان کے بہترین قسم کی خوشبو لگاتی تھی، راوی نے کہا: اور سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ ہم سے کہتے تھے کہ تم احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگا لیا کرو اور اسی طرح قربانی کے دن طواف افاضہ کرنے سے پہلے خوشبو لگا لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1842]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1539، 1839]، [مسلم 1189]، [نسائي 2688]، [أبويعلی 4391]، [ابن حبان 3766، 3768]، [الحميدي 212]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1840
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، عن هشام، عن عثمان بن عروة، عن عروة، عن عائشة، قالت:"لقد كنت اطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم عند إحرامه باطيب ما اجد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"لَقَدْ كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْرَامِهِ بِأَطْيَبِ مَا أَجِدُ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں احرام باندھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے پاس موجود بہترین قسم کی خوشبو لگاتی تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1843]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5928]، [مسلم 1189/37]، [أبوداؤد 1745]، [ترمذي 917]، [نسائي 2689]، [ابن ماجه 2926]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 1841
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، وجعفر بن عون، قالا: حدثنا يحيى بن سعيد، ان عبد الرحمن بن القاسم اخبره، عن ابيه، قال: سمعت عائشة رضي الله عنها، تقول: "طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم لحرمه، وطيبته بمنى قبل ان يفيض".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: "طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُرْمِهِ، وَطَيَّبْتُهُ بِمِنًى قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے سے پہلے اور منیٰ میں (جس وقت احرام کھولا) طواف افاضہ سے پہلے خوشبو لگائی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1844]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5922]، [مسلم 1189/33]، [أبوداؤد 1745]، [نسائي 5684]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1838 سے 1841)
ان تینوں احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ احرام باندھنے سے پہلے بدن پر خوشبو لگانا سنّت ہے لیکن یہ خوشبو احرام کی چادر پر نہیں لگنی چاہیے۔
اسی طرح طوافِ افاضہ سے پہلے خوشبو لگانا سنّت ہے۔
جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ رمی اور حلق کے بعد خوشبو لگانا اور سلے ہوئے کپڑے پہننا درست ہے، صرف عورتوں سے صحبت کرنا درست نہیں ہوتا، طوافِ افاضہ کے بعد وہ بھی درست ہو جاتا ہے اور یہی مسلک امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.